شمعون ایک ٹک دور نظر آتی شہلا کو دیکھ رہا تھا ۔۔
اس کی نظریں تیز تھیں ۔۔
سو وہ شہلا کی نسبت فاصلے کے باوجود اسے واضع دیکھ سکتا تھا ۔۔
اس نے بے اختیاری میں حویلی کی حدود میں قدم بڑھائے ۔۔
لیکن اگلے ہی پل اچھل کر پیچھے ہوگیا ۔۔
جان لیوا سا کرنٹ تھا جو سارے جسم میں دوڑ گیا تھا ۔۔
شمعون کا دل جیسے دو پل کے لیئے دھڑکنا بھول گیا تھا ۔۔
حصار بہت سخت معلوم ہوتا تھا ۔۔
حویلی کی دہلیز پر ناگوار گھوری ڈال کر شمعون نے پھر گیلری کی طرف دیکھا ۔۔
لیکن اب وہاں شہلا موجود نہیں تھی ۔۔
شمعون کے چہرے پر غیض و غضب کے آثار نظر آنے لگے ۔۔
اسے لگا تھا شہلا اسے ایک موقع دے گی ۔۔
اس کی بات سنے گی ۔۔
اور شائد سمجھے گی بھی ۔۔
لیکن وہ تو ۔۔!
اب اس کی آنکھوں میں غصہ و بے بسی واضع تھے ۔۔
مختلف جذبات میں ایک ساتھ گھرا وہ اچانک حلق کے بل دہاڑ اٹھا ۔۔
“شہلا ۔۔”
اور شہلا جو اپنی آنکھوں سے ایک بلے کو ۔۔
ایک انسان کے روپ میں ڈھلتا دیکھ کر دہشت زدہ ہوتی کمرے میں بھاگ آئی تھی اور گہری گہری سانسیں بھر رہی تھی ۔۔
شمعون کی لرزا دینے والے دہاڑ پر ہوش میں آتی بے اختیار چیخ پڑی تھی ۔۔
تو وقت آ چکا تھا ۔۔
نہ جانے اس کی زندگی کی کتاب کے بند ہونے کا ۔۔
یا کوئی نیا باب شروع ہونے کا ۔۔
یا ہو سکتا ہے یہ شمعون کی زندگی کا ہی آخری وقت ہو ۔۔
آخری خیال کے آتے کے ساتھ ہی شہلا کا دل ایک پل کے لیئے رک گیا ۔۔
کمال تھا ۔۔
جس حیوان نے اس کا سب کچھ چھین لیا تھا ۔۔
اس حیوان کی موت کا خیال اس کا دل بند کر گیا تھا ۔۔
شائد اس لیئے کہ وہ حیوان اپنے انسانی روپ میں اس پر بہت مہربان رہا تھا ۔۔
جانے ان کے نکاح کی کوئی حقیقت تھی یا نہیں ۔۔
لیکن شہلا نے تو مکمل ہوش و حواس میں قبول کیا تھا اسے ۔۔
جو بھی کیا تھا جیسے بھی کیا تھا ۔۔
سو اس کے جذبات بھی وہی تھے جو کسی بھی عام لڑکی کے ایسی سوچ پر ہو سکتے تھے ۔۔
شہلا کا دل ایک پل کے لیئے نرم ہوا تھا ۔۔
لیکن فقط ایک پل کے لیئے ۔۔
پھر نظروں کے سامنے اپنے پیاروں کے چہرے لہرانے لگے ۔۔
جو اس حیوان کی خوفناک بھوک کا نشانہ بن گئے تھے ۔۔
اف ۔۔
اس صبح کا منظر ۔۔
کتنا ہیبت ناک تھا ۔۔
اس کے چھوٹے چھوٹے معصوم کزنز ۔۔
ناصر کو تو گویا پالا ہی اس نے تھا ۔۔
اور معصوم سی چھوٹی سی سب کا خیال رکھنے والی ہانیہ ۔۔
وہ خود سے بھی بیگانہ طوبی ۔۔
سب کا کیا قصور تھا آخر ۔۔
اگلے ہی پل شہلا کا دل ہی نہیں چہرہ بھی سخت ہوگیا تھا ۔۔
ابھی وہ کیا کروں کیا نہ کروں کی سوچ میں تھی جب دروازے پر زوردار سی دستک ہوئی ۔۔
ساتھ ہی تیمور آفندی کی پریشان سی پکاریں بھی جاری تھیں ۔۔
شہلا نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا ۔۔
تیمور آفندی کے پیچھے وجدان امتل نازیہ اور حمزہ بھی موجود تھے ۔۔
“تم ٹھیک تو ہو ۔۔؟
میں نے کھڑکی سے دیکھا تھا ۔۔
شمعون آیا ہے ۔۔
اس کی دہاڑ سن کر میں ڈر گیا تھا ۔۔
سب ٹھیک ہے ناں ۔۔”
پریشانی سے کہتے ہوئے تیمور آفندی گیلری میں چلے گئے ۔۔
لیکن اب گیٹ پر کوئی موجود نہیں تھا ۔۔
تیمور آفندی نے اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کیا ۔۔
خدا جانے اب کہاں چلا گیا تھا وہ ۔۔
اتنی جلدی ہار مان کر تو یقیناً نہیں جا سکتا تھا ۔۔
“آخر کہاں چلا گیا وہ ۔۔؟”
حمزہ نے غصے سے بپھر کر تیمور آفندی سے یوں پوچھا جیسے تیمور آفندی نے شمعون کو چھپایا ہو ۔۔
وجدان نے حمزہ کا بازو پکڑ کر ناگواری سے جھٹکا ۔۔
“آئندہ چاچو سے اس طرح بات مت کرنا حمزہ ۔۔
تم نے ہی نہیں میں نے بھی نقصان اٹھایا ہے ۔۔
اس کا مطلب یہ نہیں تم اتنے اوور ہوجائو ۔۔
ہماری طرح چاچو بھی لاعلم ہی تھے ۔۔”
“لیکن ان کے دل میں پھوٹتے رہتے تھے ناں اس شیطان کی ہمدردی کے سوتے ۔۔
جب کبھی اس نے بچپن میں ہمیں تکلیف پہنچائی یہ اس کی ڈھال بن جاتے تھے ۔۔
ہم نظر ہی نہیں آتے تھے ۔۔
اب بھگتیں ۔۔”
حمزہ پھاڑ کھانے والے انداز میں بولا ۔۔
وجدان کوفت زدہ ہو کر گیلری سے نکل گیا ۔۔
حمزہ کا پارہ ہمیشہ سے ہی ہائی تھا ۔۔
اسے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا ۔۔
تیمور آفندی حمزہ کی مزید جلی کٹی سنتے ۔۔
لب کچلتے ہوئے سنسان اندھیری روڈ پر اپنی نم نظریں دوڑانے لگے ۔۔
امتل اور نازیہ نے پریشانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا جبکہ پیچھے کھڑی شہلا کچھ نہ کر کے بھی چور سی بن گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تکلیف دہ جھٹکے سے شمعون کی سیاہ آنکھیں کھلیں اور پھر کھلتی ہی چلی گئیں ۔۔
حیرت سے شمعون اپنے جسم کے گرد لپٹی اس موٹی سی زنجیر کو دیکھ رہا تھا جس میں سے آگ کی لپیٹیں نکل رہی تھیں ۔۔
آگ کی گرمائش کا اسے احساس تو ہو رہا تھا لیکن یہ آگ اسے فلحال نقصان نہیں پہنچا رہی تھی ۔۔
شمعون نے آس پاس نظریں دوڑائیں ۔۔
آس پاس صرف اندھیرا تھا ۔۔
اسے اپنے وجود کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا ۔۔
شمعون کے چہرے پر الجھن چھا گئی ۔۔
ابھی ۔۔
ابھی ایک لمحہ پہلے ہی تو وہ حویلی کے باہر موجود تھا ۔۔
شہلا کی بے رخی سے دل برداشتہ وہ حویلی میں جانے کی یا شہلا کو حویلی سے بلوانے کی کوئی تدبیر سوچ رہا تھا ۔۔
جب اچانک اسے ایک زوردار جھٹکا لگا ۔۔
اور پھر وہ یہاں موجود تھا ۔۔
“کون ہے ۔۔؟
کس کی مجال ہے یہ ۔۔؟
اگر تو وہی عامل ہے تو سن ۔۔
میں کچھ نہیں چاہتا ۔۔
اپنی بیوی کو اپنی بستی میں لیجانا چاہتا ہوں بس ۔۔
مجھے اور کچھ نہیں چاہیے ۔۔
مجھے جانے دے ۔۔”
شمعون چیخ کر بولا ۔۔
پھر تھوڑی دیر جواب ملنے کا انتظار کیا ۔۔
لیکن جب کوئی جواب نہ ملا ۔۔
تب پھر سے چلایا ۔۔
“اگر تو مجھے مارنا چاہتا ہے ۔۔
تو یاد رکھنا میرے قبیلے کے لوگ پوری حویلی کو ختم کردیں گے ۔۔
تو شائد جانتا نہیں ۔۔
میں قبیلے کا سردار ہوں ۔۔”
شمعون نے اپنی بات مکمل کر کے ایک بار پھر کسی جواب کا انتظار کیا ۔۔
لیکن اب بھی ہر طرف خاموشی ہی رہی ۔۔
شمعون کا غصے سے حال برا تھا ۔۔
نہ جانے یہ کیسی زنجیر تھی ۔۔
اس کی ساری طاقتیں بیکار جا رہی تھیں ۔۔
“کیوں چھپ کر بیٹھا ہے ۔۔
بڑا نیک اور بآثر بنتا ہے ۔۔
اتنی ہمت نہیں کہ میرے سامنے آئے ۔۔
سامنے آ اگر مقابلے کی ہمت ہے تو ۔۔
ہنہہ اگر مقابلے کی ہمت ہوتی تو مجھے یوں بے بس نہ کرتا ۔۔”
خود کو اس زنجیر سے آزاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے شمعون کا غصہ عروج پر تھا ۔۔
انسان واقعی اشرف المخلوقات تھا ۔۔
اس کی جگہ کوئی باشعور انسان ہوتا تو کیا محبت میں اتنا بیوقوفانہ قدم اٹھاتا ۔۔؟
یقیناً نہیں ۔۔
لیکن وہ اٹھا چکا تھا ۔۔
اور اب بھگت رہا تھا ۔۔
زنجیروں سے نکلتی آگ کی تپش زور پکڑتی جا رہی تھی ۔۔
شمعون کو ایسا لگ رہا تھا ۔۔
جیسے زنجیر اس کے گوشت میں دھیرے دھیرے دھنس رہی ہو ۔۔
اس کا گوشت گل رہا ہو ۔۔
اپنی طرز کا سلو پوائزن کہہ سکتے ہیں ہم اسے ۔۔
“بلکل ٹھیک کہا ۔۔”
ایک جانی پہچانی آواز اچانک گونجی ۔۔
ساتھ ہی اندھیرے کمرے میں انسانی وجود سے مشابہ آگ بڑھکنے لگی ۔۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ آگ ایک کریہہ صورت بوڑھے شخص کا روپ دھار گئی ۔۔
اس کے سر پر بال نام کو نہیں تھے ۔۔
لیکن ایک عجیب سا شیطانی شکل کا نشان سر پر بنا تھا ۔۔
اس کریہہ صورت شخص کے دانت انسانی دانتوں کے سائز کے ہی تھے لیکن آخر میں جا کر نوکیلے ہوجاتے تھے ۔۔
کوئلے سی رنگت والے چہرے پر خوب ہی پھٹکار برس رہی تھی ۔۔
سیاہ لباس میں کھڑا وہ دانت نکوستا شخص نہ جانے کون تھا ۔۔
شمعون چونک گیا ۔۔
جو آواز اس نے سنی تھی وہ اس شخص کی نہیں تھی ۔۔
وہ اس آواز کو اچھی طرح پہچانتا تھا ۔۔
“خیمو ۔۔
“کہاں چھپا ہے تو غدار ۔۔
کیوں کر رہا ہے یہ سب ۔۔
کون ہے یہ ۔۔؟”
شمعون کی چیخ اس بار اتنی اونچی نہیں تھی ۔۔
کیونکہ وہ سخت حیرت میں مبتلا تھا ۔۔
خیمو اس کے قبیلے کا ایک عام سا فرد تھا ۔۔
سوائے سرداری پر وقتی رنجش کے ۔۔
ان کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا ۔۔
“بڑی جلدی پہچانا ۔۔”
خیمو اچانک شمعون کے پیچھے سے اس کے کان کے قریب منہ کر کے بولا ۔۔
سامنے کھڑا آگ کی صورت آنے والا شخص قہقے لگانے لگا ۔۔
دماغ کی دنیا ہلا دینے والا قہقہ تھا ۔۔
”
ہاں واقعی تجھ سے لڑنے کی ہمت نہیں ۔۔
میں مان گیا ۔۔
جب ہی اس شیطان کے چیلے کو ساتھ ملایا ہے ۔۔
اور دیکھ اب تو کتنا بے بس ہے ۔۔
کہیں سے لگ رہا ہے سردار ۔۔؟
ہاہاہاہاہاہا ۔۔
اور کیا پوچھ رہا تھا تو ۔۔؟
یہ کون ہے ۔۔
یہ شیطان کا پجاری ہے ۔۔
اور تیرا ہونے والا آقا بھی ۔۔
اور میں ہوں خیمو ۔۔
قبیلے کا ہونے والا سردار ۔۔”
خیمو اپنی بات ختم کر کے اس شیطان صفت شخص کے ساتھ ہنسنے لگا جبکہ شمعون تکلیف سے کراہنے لگا ۔۔
زنجیر کی تکلیف حد سے سوا ہونے لگی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...