پہلا سوال: کیا ظن شرعاً حجت ہے یا نہیں؟
جواب: ظن شرعاً بھی حجت ہے اور عقلاً بھی حجت ہے۔ ظن کے حجت ہونے کے یہ معنی ہے کہ ظن عمل کو واجب کر دیتا ہے، یعنی ظن موجبِ عمل ہے موجبِ ایمان نہیں ہے۔
ظن کے معنی: ۔ پہلے ظن کے معنی سمجھ لینے چاہییں۔ جب حکایت ذہن میں آتی ہے تو اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں؛ ذہن اس کے صدق و کذب کی طرف ملتفت ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؛ اگر حکایت کے ذہن میں آنے کے بعد ذہن اس کے صدق و کذب کی طرف ملتفت نہیں ہوا، تو اس کو ’تخییل‘ کہتے ہیں۔ اگر ملتفت ہوا، تو کسی ایک طرف یعنی فقط صدق یا فقط کذب کی طرف ملتفت ہوا یا دونوں کی طرف ملتفت ہوا؛ اگر فقط ایک طرف التفات ہوا، تو یک طرفہ التفات ’جزم یا قطع‘ کہلاتا ہے۔
اور اس کی تین صورتیں ہیں؛ اور وہ یہ ہیں کہ یہ یک طرفہ التفات واقع کے مطابق ہے یا واقع کے مطابق نہیں ہے، یعنی واقعی میں یہ حکایت بالکل صادق تھی ذہن نے اس کو بالکل کاذب جانا یا واقعی میں بالکل کاذب تھی ذہن نے بالکل صادق جانا؛ تو اگر یک طرفہ التفات واقع کے خلاف ہے، تو اس کو ’جہلِ مرکب‘ کہتے ہیں۔ اور اگر واقع کے مطابق ہے، تو اس التفات اور اس اعتقاد کا زوال یا تو ممکن ہے یا نا ممکن ہے؛ اگر ممکن الزوال ہے، تو یہ یک طرفہ التفات جو واقع کے بھی مطابق ہے اور ممکن الزوال بھی ہے ’تقلید‘ کہلاتا ہے۔ اور اگر نا ممکن الزوال ہے، تو یہ یک طرفہ التفات جو واقع کے مطابق بھی ہے اور اس کا زوال بھی نا ممکن ہے اس یک طرفہ التفات و اعتقاد کو ’یقین‘ کہتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہوا کہ یک طرفہ التفات کی تین قسمیں ہیں؛ جہل مرکب، تقلید، یقین۔
اسی طرح دو طرفہ التفات کی بھی تین قسمیں ہیں؛ یہ دو طرفہ التفات دونوں طرف اگر برابر برابر ہے، تو اس کو ’شک‘ کہتے ہیں۔ اور اگر کم ہے اور زیادہ ہے، تو جدھر کم ہے اس کو ’وہم‘ کہتے ہیں۔ اور جدھر زیادہ ہے اس کو ’ظن و گمان‘ کہتے ہیں۔ مثلاً فلاں حقایت ظنی الصدیق ہے، اس کے معنی ہیں کہ صدق کی طرف زیادہ التفات ہے اور کذب کی طرف کم التفات ہے۔ یا فلاں حکایت ظنی الکذب ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ کذب کی طرف زیادہ التفات ہے صدق کی طرف کم التفات ہے۔
اب جب کہ ظن کے معنی معلوم ہو گئے تو اب یہ دیکھنا ہے کہ ظن عمل کو واجب کرتا ہے یا نہیں؟ سو معلوم کرنا چاہیئے کہ یقین میں ایسی زیادتی ہے جو بالکل یک طرفہ اور دوسری طرف کمی بالکل نہیں ہے صرف ایک ہی طرف زیادتی ہی زیادتی ہے۔ اور ظن میں ایسی زیادتی ہے کہ دوسری طرف کچھ کمی نہیں ہے۔ بہرحال زیادتی میں اور رجحان میں دونوں برابر ہیں اور عمل کو واجب کرنے والی چیزیں زیادتی ہے نہ کہ کمی۔ تو جس طرح یقین بوجہ زیادتی کے موجبِ عمل ہے، بالکل اسی طرح ظن بوجہ زیادتی کے موجب العمل ہے۔ یعنی یقین موجبِ عمل کیوں ہے؟ صرف اس وجہ سے کہ اس میں زیادتی ہے، ایسی زیادتی کہ جس میں کمی کا احتمال نہیں ہے۔ تو یقین میں موجبِ عمل زیادتی ہے نہ کہ کمی کا احتمال نہ ہونا۔ لہذا حجت صرف زیادتی ٹھہری اور یہ ظن میں موجود ہے، لہذا جس بنا پر یقین حجت ہے وہی بنا ظن کے حجت ہونے کی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ عمل کرنے کے لئے اس عمل کے حُسن کا تصور چاہیئے اور یہ تصور جس طرح یقین میں ہے اسی طرح ظن میں ہے۔ کیونکہ ظن میں رجحان موجود ہے اور یہ رجحان ہی عمل کرانے کے لیے کافی ہے، لہذا ’ظن و یقین‘ ایک بنیاد پر حجت ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ اگر صرف یقین حجت ہو گانہ ظن، تو عالَم میں کہیں بھی ناکامی نہیں ہو گی اور ناکامی مفقود ہو جائے گی۔ کیونکہ جب انسان کو یقین ہو گیا کہ یہ عمل نافع ہے تو نفع اور فائدہ اور کامیابی لازمی طور پر ہو گی اور نقصان اور نامرادی مفقود ہو جائے گی، حالانکہ عالَم میں ناکامی اور کامیابی، نفع و نقصان دونوں متحقق ہیں۔ لہذا معلوم ہو گیا کہ صرف یقین پر مدارِ عمل نہیں ہے بلکہ ظن عمل کے لئے کافی ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض صورتوں میں ناکامی ہوتی ہے۔
ظن کے حجت ہونے کی حِسی مثالیں
دنیا کے تمام قسم کے معاملات اور کاروبار میں مثلاً تجارت کا عمل ظن پر موقوف ہے، ہر تجارت میں نفع نہیں ہوتا اگر یقینی نفع تجارت کرنے کی عِلت ہوتا ہے تو گھاٹا کسی کو نہ ہوتا بلکہ ظنی نفع حجت عمل تجارت ہے۔
پہلی مثال: اسی طرح مزدوری کا معاملہ ہے اگر مزدور کو یقین ہوتا کہ بازار جا کر مزدوری یقیناً مل جائے گی تو کوئی مزدور بیکار نہ ہوتا۔ صرف مزدوری کا ظن اس کو بازار لاتا ہے، اکثر اوقات مزدوری مل جاتی ہے کبھی نہیں بھی ملتی۔
دوسری مثال: اسی طرح نوکری کا حال ہے اور اسی طرح ڈاکٹری کا حال ہے، ڈاکٹر کو قطعاً یہ یقین نہیں ہوتا کہ اس کی دوا سے شفاء ہو گی۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام مریض شفا یاب ہوتے، ڈاکٹر کو صرف ظن ہوتا ہے اور وہ اپنے ظن پر دَوَا دیتا ہے کبھی شفاء ہو جاتی ہے کبھی نہیں، لہذا ڈاکٹر کا عمل اور دَوَا کا عمل دونوں ظنی ہیں۔ اب اگر ظن موجبِ عمل نہ ہو تو معالجہ ہی ختم ہو جائے اور کوئی علاج ہی نہ کرے اور کرائے۔
تیسری مثال: اسی طرح سفر خواہ پیدل کرے یا سواری میں کرے، موٹر، ریل، ہوائی جہاز، گھوڑا گاڑی غرض کسی طرح بھی سفر کرے اس کو یہ یقین نہیں ہوتا ہے کہ وہ بخیر و عافیت منزل پر پہنچ جائے گا صرف ظن ہی ہے۔ اب اگر ظن موجبِ عمل سفر نہ ہو تو سفر ہی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
چوتھی مثال: اسی طرح ہوائی جہاز، ریلیں وغیرہ ہیں کسی کو بھی یقین نہیں ہے کہ ان سے کوئی نقصان نہیں ہو گا اور فائدہ ہی فائدہ ہو گا۔ بلکہ ظن غالب ہے کہ فائدہ ہو گا، کبھی نقصان بھی ہو جائے گا اب اگر ظن مفید عمل نہ ہو تو تمام صنعتیں باطل ہو جائیں گی۔
غرض یہ ہے کہ دنیا میں کوئی عمل ایسا نہیں ہے کہ جس کا دار و مدار ظن پر نہ ہو سب کا ظن ہی پر دارومدار ہے۔ اگر ظن مفید عمل اور موجبِ عمل اور حجتِ عمل نہ ہو گا تو نظام عالَم تباہ ہو جائے گا، کیونکہ کسی کو کسی عمل کے حُسنِ انجام کا یقین نہیں ہے صرف ظن ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَوِ اتَّبَعَ الحَقُّ اَہوَآءَہُم لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالاَرضُ وَمَن فِیہِنَّ
(سورت المؤمنون 23 آیت 71)
یعنی ’اگر ان کی رائے کے حق تابع ہو گیا تو آسمان اور زمین اور جو اس میں ہیں سب تباہ ہو جائیں گے۔ اور حق ان کی رائے کے تابع ہوا تو نظام درہم برہم ہو جائے گا۔‘
آیت سے یہ ثابت ہو گیا کہ عالَم کی بربادی کا سبب حق کا ان کی رائے کا تابع ہونا ہے اور مشاہدہ سے یہ ثابت ہوا کہ عالَم کی بربادی کا سبب ظن کا حجت نہ ہونا ہے۔ تو گویا ظن کا حجت نہ ہونا حق کا ان کی رائے کے تابع ہونا ہے، لہذا اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ “ظن “حق ہے اور موجب بقائے عالَم ہے۔ اور ان کی رائے کے تابع ہو کر یعنی ظن نہ حجت بن کر موجبِ فسادِ عالَم ٹھہرا۔ غور کا مقام ہے۔ تم مجھے بتاؤ تو سہی کے جہاں میں کونسا عمل یقین پر ہو رہا ہے؟ سب کام ظن ہی پر چل رہے ہیں۔
اعمالِ شرعیہ کی مثالیں
اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ اعمالِ شرع صرف ظن ہی پر ہے، ہاں بیشک ایمان یقین پر ہے بلکہ یقین ہی ہے۔ دیکھو ہر شخص جو کہ نیک کام کرتا ہے اس کی غایت یہ ہوتی ہے کہ عذاب سے رہائی ہو، جنت کی راحتیں اور ثواب حاصل ہو۔ تو بتاؤ کہ کسی شخص کو بھی یقین ہے کہ وہ عذابِ جہنم سے بچ جائے گا اور جنت میں داخل ہو جائے گا؟ سب کو ظن ہی ہے، سب اس گمان اور ظن پر عمل کر رہے ہیں کہ شاید عذاب سے رہائی ہو جائے اور ثواب حاصل ہو جائے، سوائے انبیاء کے سب کو ظن ہی ظن ہے۔
اب اعمالِ شرعیہ کی مثالیں لیجئے: ۔
نکاح کا دارومدار دو آدمیوں کی شہادت پر ہے اور دو آدمیوں کی شہادت ظنی ہے، شریعت نے اس ظن کو حجت قرار دیا ہے۔ اسی طرح زنا کی سزا کی شہادت چار آدمیوں کی ہے، چار آدمیوں کی شہادت ظنی ہے، شرع نے اتنی سخت سزائیں ظنی شہادت کو حجت قرار دیا۔ باپ کا باپ ہونا ظنی ہے، شرع نے اس کو حجت قرار دیا یعنی نسب ظنی ہے۔ احکام میراث اسی ظن پر ہیں۔ اسی طرح سجدہ کعبہ کے سامنے ہونا چاہئے اور موضع سجود سے جو خط سیدھا کعبہ کو جائے وہ ظنی ہے یقینی نہیں ہے۔ اسی طرح سحری اور افطاری دونوں ظنی ہیں، یہ نہیں معلوم کہ صحیح وقت پر سحری کھائی گئی اور صحیح وقت پر افطار کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَاستَشہِدُوا شَہِیدَینِ مِن رِّجَالِکُم (سورت البقرۃ 2 آیت 282) یعنی ’دو مردوں کو گواہ بنا لو۔‘ اور دو مردوں کی شہادت ظنی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو حجت قرار دیا ہے۔
وَالَّذِینَ یَرمُونَ المُحصَنٰتِ ثُمَّ لَم یَاتُوا بِاَربَعَۃِ شُہَدَآءَ
(سورت النور 24 آیت 5)
’جو لوگ پارسا عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں پھر چار شاہد نہیں لاتے۔‘
اور فرمایا:
لَولَا جَاؤُا عَلَیہِ بِأَربَعَةِ شُہَدَاءَ
(سورت النور 24 آیت 13)
’کیوں نہیں چار گواہ اس پر لے آتے۔‘
ان آیتوں میں چار گواہوں کی گواہی کو سزا کے لئے حجت قرار دیا، حالانکہ چار گواہوں کی گواہی یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے۔
الغرض جتنے بھی اعمالِ صالحہ ہیں اکثر و بیشتر پر قرآن نے ظن کو حجت رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَ الحِسَاب
(سورت یونس 10 آیت 5)
’تاکہ تم کو سالوں اور برسوں کی گنتی اور حساب معلوم ہو جائے۔‘
مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالحَقّ
(سورت یونس 10 آیت 5)
’اللہ نے اس کو یعنی حساب کو ناحق نہیں بنایا۔‘
اور:
وَاَحصیٰ کُلَّ شَیءٍ عَدَدًا
(سورت الجن 72 آیت 28)
’ہر چیز کو عدد سے گھیر لیا۔‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حساب حق ہے اور جبکہ حساب حق ہے تو وہ شئے کہ جس پر حساب موقوف ہے وہ حق ہے۔ اور وہ علم ہندسہ کی شکل ہے کہ اگر چار مقداریں متناسب ہوں یعنی پہلی مقدار کو دوسری مقدار سے، وہی نسبت ہو جو تیسری کو چوتھی سے ہے، تو پہلی اور چوتھی کا حاصل ضرب دوسری اور تیسری کے حاصل ضرب کے برابر ہو گا۔ تمام قوانین کا حساب سوائے جمع اور تفریق کے کُل کے کُل اسی شکل کی فرع ہیں۔ ہم نے دوسری جگہ اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ علمِ حساب اشکال ہندسیہ کا نتیجہ ہے۔ اور جب کہ حساب اشکالِ ہندسیہ پر موقوف ہے تو لابُد جس طرح حساب حق ہے بالکل ہندسہ جو موقوف علیہ حساب ہے وہ بھی حق ہے۔ اور جب ہندسہ حق ہے تو لابُد جس شئے پر ہندسہ موقوف ہے وہ بھی حق ہے۔ اور وہ شئے اصل موضوع ہے یعنی دونوں نقطوں میں خط ملا سکتے ہیں، خط کو جتنی دور تک چاہیں بڑھا سکتے ہیں، کسی نقطے کو مرکز فرض کر کے جتنی دوری سے چاہیں دائرہ بنا سکتے ہیں۔ یہ تین اصل موضوع ہیں، ان پر تمام مقالات ہندسیہ موقف ہیں اور یہ تینوں یقینی نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر یہ بداہتہً یقینی ہوتے تو علومِ متعارفہ میں داخل ہوتے جو بداہتہً یقینی ہیں۔ اور اگر یہ نظراً یقین ہوتے تو دیگر مسائل نظریہ کی طرح یہ بھی اشکالِ نظریہ میں شامل ہوتے اور اشکالِ نظریہ کی طرح ان کو بھی ثابت کیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ نہ تو بارہ علومِ متعارفہ میں ان کا شمار ہے نہ کسی مقالہ کی کسی شکل میں ان کا بیان ہے۔ صرف معلمِ ہندسہ کے حُسنِ ظن سے ان کو تسلیم کر لیا ہے اور یہ ظنی ہیں۔ لہذا اگر ظن حجت نہ ہوتا تو اس ظن پر جتنی چیزیں موقوف ہیں وہ حجت نہ ہوتیں نہ ہندسہ کی اشکال، نہ حساب۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حساب کو حق کہا ہے تو لابُد ہندسہ بھی حق ہوا۔ اور ہندسہ ان تین اصل موضوع پر موقوف ہے، لہذا یہ تینوں اصولِ موضوعہ بھی حق ہو گئے۔ اور یہ اصولِ موضوعہ ظنی ہیں لہذا ظن قرآن کی روشنی میں حجت ہو گیا۔ پس اگر ظن حجت نہ ہو گا تو نظامِ عالَمِ دنیاوی اور دینی سب درہم برہم ہو جائے گا، لہذا ظن حجتِ عمل ہے۔
پہلا اعتراض: اب اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اجتَنِبُوا کَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعضَ الظَّنِّ اِثمٌ
(سورت الحجرات 49 آیت 12)
’بیشتر ظنوں سے بچو کیونکہ بعض ظن گناہ ہیں۔‘
اور فرمایا:
إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہوَى الأَنفُسُ
(سورت النجم 53 آیت 23)
’وہ صرف ظن اور خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں۔‘
اور فرمایا:
اِن ہُم اِلَّا یَظُنُّونَ
(سورتان الجاثیہ آیت 24، البقرۃ آیت 78)
’وہ صرف اٹکل ہی سے کام لیتے ہیں۔‘
اور فرمایا:
اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغنِی مِنَ الحَقِّ شَیًٔا
(سورتان النجم آیت 28، یونس آیت 36)
یعنی ’ظن حق سے بے نیاز نہیں کرتا اور اٹکل سے صحیح بات کچھ بھی معلوم نہیں ہوتی۔‘
اور اس کے علاوہ ظن کی مذمت میں بے شمار آیات ہیں، اس کا کیا جواب ہے؟
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ ظن کے معنی سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ ایک ظن تو یقینی کا مقابل ہے، جیسے کہتے ہیں یہ ظنی ہے، یہ یقینی علم ہے تو یہ ظن قسم علم ہے۔ اور ایک ظن عمل ہے یعنی عمل کی قسم ہیں اور عمل ظن کی دو قسمیں ہیں؛ ایک سوئے ظن اور ایک حُسنِ ظن۔
حُسنِ ظن و سوئے ظن کی مثالیں
حُسنِ ظن کی مثال:
لَو لَاۤ اِذ سَمِعتُمُوہُ ظَنَّ المُؤمِنُونَ وَ المُؤمِنٰتُ بِاَنفُسِہِم خَیرًا
(سورت النور 24 آیت 12)
’جب تم نے یہ سُنا تھا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے کیوں نہیں حُسنِ ظن کیا؟‘
سوئے ظن کی مثال:
اجتَنِبُوا کَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ
’اکثر ظنوں سے بچو‘ یعنی کہ ظن سے بچو۔ لہذا عملی ظن کی دو قسمیں ہو گئیں۔ ایک ظن بمعنی ظن خبر، جس کا حکم ہے۔ ایک ظن بمعنی سوئے ظن، جس کی نہی ہے۔ ہم جس ظن کو حجت قرار دے رہے ہیں وہ نہ حُسنِ ظن ہے، نہ سوئے ظن بلکہ وہ وہ ظن ہے جو یقین کا مقابل ہے۔ اور قسم علم ہے اور اس کے حجت ہونے کی اس آیت میں بھی دلالت موجود ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اجتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعضَ الظَّنِّ إِثمٌ
(سورت الحجرات 49 آیت 12)
’اے ایمان والو! بہت سے ظنوں سے بچو۔ کیونکہ بعض گناہ ہیں۔‘
اس آیت میں بعض ظن گناہ بتایا اور اکثر سے بچنے کو فرمایا۔ اور ظاہر یہ بات تھی کہ بعض گناہ ہیں بعض سے بچنے کو فرمایا لیکن اکثر سے بچنے کو یوں فرمایا کہ اکثر ظنوں کے جو مراتب ہیں ان میں بعض جو گناہ ہے کونسا ہے؟ لہذا مراتب اکثر یہ سے بچو کیونکہ اصل میں تو بچنا بعض سے ہے جو گناہ ہے۔ اب ہو سکتا ہے کہ وہ بعض یہ ہوں یا وہ یا وہ۔ کیونکہ ظن ہے کہ وہ بعض جو إِثمٌ (گناہ) ہے، یہ ہیں یا وہ ہیں۔ لہذا اکثر ظن حجت نہ ہوتا اور صرف یقین حجت ہوتا تو صرف بعض ظن سے جو إِثمٌ تھا بچنے کو فرماتا اور اس کی وضاحت مثال سے ہو جائے گی۔ مثلاً ظنوں کی تعداد سو 100 ہے اس میں سے بعض گناہ ہے مثلاً دس (10) تو فرمایا کہ ستر (70) سے بچو۔ بچنا تو صرف (10) دس سے تھا۔ ستر (70) سے بچنے کو اس لیے فرمایا کہ یہ (10) دس جو بچنے کے قابل ہے ان ستر (70) یعنی سات دہایوں میں سے کونسا دہایا ہے۔ کیوں کہ یہ دہایا ہر سات (7) دہایوں میں سے کوئی سا ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ پہلا دہایا ہو، ممکن ہے دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا، ساتواں، غرض کہ ہر دہا یا ممکن ہے جب ہر دہایا ممکن ہے تو ہر دہائے میں ظن ہو گیا تو یہ ظن حجت ہو گیا۔ اس بات پر کہ بعض سے بچنے کی بجائے اکثر سے بچا جائے ورنہ تقاضائے یقین تو یہ تھا کہ جو إِثمٌ ہے صرف اسی سے بچا جائے۔ لیکن إِثمٌ ہونے کا یقین تو بعض میں ہی ہے۔ اور ظن اکثر میں یعنی إِثمٌ اور گناہ ہونے کا ظن اکثر میں ہے اور اللہ کے نزدیک چونکہ ظن حجت ہے اس لئے ظن کے حجت ہونے کی بنا پر اس نے جہاں تک ظن کا اثر تھا سب کو یعنی اکثریت کو ممنوع قرار دے دیا۔ گویا آیت کا خلاصہ یہ ہوا بعض ظن تو یقین إِثمٌ اور گناہ ہیں لیکن کثیر ظن إِثمٌ اور گناہ ظناً ہیں۔ اور ظن حجت عمل ہے۔ لہذا تم ظناً جو ظن إِثمٌ ہیں ان سے بچو نہ کہ صرف یقینی ظن سے۔ لہذا ظن حجت ہو گیا اور عقائد میں جو ظن کی مذمت کی ہے وہ صحیح ہے۔ عقیدہ کی بنیاد یقین ہے ظن سے یقین نہیں ہوتا اس لیے ظن کو بُرا کہا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ظن صرف موجبِ عمل ہے موجبِ ایمان نہیں ہے، لہذا مسائل ایمانیہ ظن حجت نہیں ہو گا اور مسائل عملیہ میں ظن حجت ہو گا۔
اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اگر ظن حجت عمل نہ ہو گا تو بیشتر آیات پر عمل ہی نہیں ہو سکے گا۔ مثلاً:
قُل لَّا أَسأَلُکُم عَلَیہِ أَجرًا إِلَّا المَوَدَّةَ فِی القُربَى
(سورت الشوریٰ 42 آیت 23)
’کہہ دے میں اس ہدایت پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا۔ بجز محبت قرابت کے۔‘
اب اس محبت قرابت سے یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ تم آپس میں اپنے اپنے قرابت دار سے محبت کرو، یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ میرے قرابت دار سے محبت کرو، یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مجھ سے بوجہ میری قرابت کے محبت کرو۔ اب اس آیت سے تین مرادیں ہو سکتی ہیں اور اس کا یقین نہیں ہے کہ اللہ کی کونسی مراد ہے یا سب مرادیں ہیں؟
بہرحال ہر معنی ظنی ہیں اگر ظن حجت نہ ہو تو کتاب پر عمل نہ ہو سکے گا:
وَ المُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصنَ بِاَنفُسِہِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوٓءٍ
(سورت البقرۃ 2 آیت 228)
’مطلقہ عورتوں کی عدت تین ’قُرُء‘ ہے اور ’قُرُء‘ حیض کو بھی کہتے ہیں۔ طہر کو بھی کہتے ہیں۔ حیض و طہر ہر ایک پر ’قُرُء‘ کی دلالت ظنی ہے۔ یہ یقین نہیں ہے کہ اللہ کی مراد کیا ہے حیض ہے یا طہر ہے؟
وَیَحمِلُ عَرشَ رَبِّکَ فَوقَہُم یَومَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ
(سورت الحاقۃ آیت 17)
’اس روز تیرے رب کے عرش کو اپنے اوپر آٹھ اُٹھائے ہوں گے۔‘
اب یہاں عدد آٹھ کا ہے اور معدود ظنی ہے پتہ نہیں کون سے آٹھ اٹھائے ہوں گے اللہ کی کیا مراد ہے؟ آٹھ فرشتے مراد ہیں یا کوئی اور آٹھ مراد ہیں یا سات آسمان اور ایک زمین مراد ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اکثر آیات کی دلالت ان آیات کے معنی پر ظنی ہے۔ اگر ظن حجت نہ ہو گا تو بیشتر آیات پر عمل ہی نہیں ہو سکے گا۔
٭٭٭