(Last Updated On: )
گلشنِ حال سلطان ابو المظفر، شاہِ زمن، قُباد شوکت،
وارثِ دودمانِ سعادت میں
پس از حمدِ خدا و نعت سرور انبیا، لازم و ضرور ہے کہ مدحِ والیٔ ملک بیان کرے۔ قَولُهُ تَعالی:أَطِیعُواْ اللهَ وَأَطِیعُواْ الرّسُولَ وَأُوْلِی الأَمْرِ مِنکُمْ اگرچہ صفتِ شاہ گدا کی زبان بہ مَعرِضِ بیاں لائے تو “چھوٹا منہ بڑی بات” تمام کائنات کہنے لگے، مگر نامِ نامی، توصیفِ ذاتِ گرامی اس کی، وسیلہ تَوقیر اس تحریر کا اور مِفتاح باب اس پریشاں تقریر کا جان کر، شِمہ از شمائل و ذرہ از خورشیدِ خَصائل رقم کرتا ہوں۔
شاہِ کَیواں بارگاہ، بلند مرتبہ، عالی جاہ، سرحلقہ شاہانِ والا تَبار، جَم شوکت، فَریدوں فَر، سلیمانِ اقتدار، کشور گیر، مُلک سِتاں، خَدیو گیہاں، ابو المظفر، مُعِز الدین، شاہِ زَمَن غازی الدین حیدر بادشاہ خلد اللہ ملکه و سلطنته وأیدہُ اللہ بالنصر والظفر جلَّ جلالهٗ۔
اگر معرکہ رزم یا صحبتِ بزم اس کی افشا کروں، صفحہ دنیا پر نہ لکھ سکوں۔ دمِ رزم رستم و سام و نریمان مثلِ پیر زال لرزاں اور وقت سخا اور عطائے زر و مال حاتم کے ہاتھ میں کاسہ سوال۔ بزم طرب میں زہرہ اور مشتری سرگرمِ نغمہ پردازی و عَربدہ سازی۔ ہنگامِ عتاب و خشم مریخ مستعد جلادی و بیدادی۔ یہ ادنیٰ عنایت ہے۔ بیت:
چناں بموسم سرما دوشالہ ہا بخشید
کہ گرم شد ہمہ بنگالہ، سرد شد کشمیر
بس کہ سحاب بخشش اس بحر عطا کا روز و شب مزرعۂ کہ و مِہ پر بارش رکھتا ہے، شہر میں سالہا کان مشتاق سائل کی صدا کا اور دیدہ ندیدہ صورتِ گدا کا رہتا ہے۔ بحر موّاجِ فیض دن رات بہتا ہے۔ عدل یہ کہ ہاتھی، چیونٹی سے ڈرتا ہے۔ شیر، بکری کی اطاعت کا دم بھرتا ہے۔ بچشم اس کے عہد دولت میں ہزاروں نے دیکھا ہے: بکری شیر کے بچے کو شِیر پلاتی تھی، کنار میں شفقت سے سلاتی تھی۔ باز تیز پرواز بچۂ کُنجشک کا دَم ساز اور نگہباں۔ بلی کی عادت جبلّی یہ کہ کبوتر سے ہراساں۔ دودِ دلِ اندوہ ناک روزنِ ہر خانہ سے مسدود۔ شحنہ داد رخنہ بندیٔ فساد کو موجود۔ اللہ تعالیٰ اس امیدگاہ عالم اور عالمیاں کو اپنے حفظ و امان میں سلامت رکھے۔ دولت خواہ اس والا جاہ کے بہ عیش و شادی مدام اور دشمنِ رو سیاہ بہ رنج نامرادی گرفتارِ آلام رہیں، بہ حقِ ربِ ذُو المنَن، بہ تصدّق پنجتن۔