ضمیر طالب(ناروے)
وہ ایک سوچ سے آیا تھا، میں نہیں سمجھا
وہ دھوپ جیسا ہی سایا تھا، میں نہیں سمجھا
مری تلاش میں موت وحیات دونوں تھیں
میں کس کے ہاتھ میں آیا تھا، میں نہیں سمجھا
نہ ہی اُجالاتھا کوئی نہ ہی حرارت تھی
یہ کیا کسی نے جلایاتھا، میں نہیں سمجھا
کواڑ بند تھے اور بند تھے دریچے بھی
وہ کس مقام سے آیا تھا، میں نہیں سمجھا
ادھر جو آئے،تو واپس نہ لوٹ پاؤ گے
یہ اس نے صاف بتایا تھا، میں نہیں سمجھا
نہ اس کا لمس تھا کوئی، نہ تھی صدا کوئی
تو مجھ کو کیسے جگایا تھا، میں نہیں سمجھا
وہ میرا دوست تھا کوئی نہ کوئی دشمن تھا
جو اس نے مجھ کو بچایاتھا، میں نہیں سمجھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجانے وقت کی یہ کیسی حد میں آ گیا ہوں
میں ایک پل کے تسلسل کی زد میں آ گیا ہوں
کسی بھی آئینے کو میرا عکس یاد نہیں
تو کیا میں دوسروں کے خال و خد میں آ گیا ہوں
یہ کوئی خوابِ پیمبر سمایا ہے مجھ میں
کوئی وجہ تو ہے جو پورے قد میں آ گیا ہوں
تیرے عروج کا عرصہ طویل تو نہیں ہے
ذرا سی دیر کو میں اپنے رد میں آ گیا ہوں
مجھے مٹانا تیرے بس کی بات ہی نہیں ہے
میں وہ نشان ہوں جو حرفِ شد میں آ گیا ہوں
میرے ظہور کا لمحہ ہی نا مناسب ہے
طلب نہیں ہے،مگر میں رسد میں آ گیا ہوں
ضمیرؔ، بنتی نہیں ہے میری کسی سے بھی
نکل کے دل سے میں جب سے خرد میں آ گیا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لئے مجھے زنجیر کرنا مشکل ہے
کہ مجھ کو خاک پہ تحریر کرنا مشکل ہے
بٹا ہوا ہوں نجانے میں کتنے جسموں میں
تُو مان لے مجھے تسخیر کرنا مشکل ہے
کچھ ایسے رنگ بھی ہیں جو کہیں نہیں ملتے
مری حیات کو تصویر کرنا مشکل ہے
کیا گیا ہے مجھے قید اک ستارے میں
مری رہائی کی تدبیر کرنا مشکل ہے
اس ایک رات کے اندر ہزار راتیں ہیں
اس ایک رات کی تنویر کرنا مشکل ہے
کسی حسینی کو پھر کربلا بلاتا ہے
سو اب مرے لئے تاخیر کرنا کرنا مشکل ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں اپنی خاک کو میں نے یہاں اڑایا ہے
اب آسمان پہ میری زمیں کا سایا ہے
یوں اپنے چہرے سے رغبت نہیں کوئی مجھ کو
تیری تلاش میں یہ آ یئنہ اٹھایا ہے
یہ سرد مہری بتاتی ہے آپ کی صاحب
کہ ہم فقیروں کے جانے کا وقت آیا ہے
وہ جس مکان نے بازو شجر کے توڑے ہیں
اب اس مکان پہ بس دھوپ ہی کا سایا ہے
میں کپڑے پہن کے ننگا دکھائی دوں گا ضمیرؔ
میری غریبی کو درویشی نے چھپایا ہے