“اللّٰہ کے حضور اس کے سوا کسی اور کو مانگے گا تو ضمیر ایسے ہی لعن طعن کرے گا.!” سعادت علی اس کے پاس آئے تھے اور نرم لہجے میں بولے. وہ اسے لیے باہر آئے تھے.
“میں نے خود سے کب چاہا تھا ایسا.. اس نے خود ہی یہ راہ دکھائی اور اب خود ہی..” آنسوؤں نے بات پوری نہ کرنے دی.
“او جھلیا… وجود کا کیا کرے گا تُو؟ خاک کے پتلے کو خاک کے پتلے کا عشق نہیں جچتا.. ہم بھی فانی دوسرا انسان بھی فانی… دونوں فنا کا سفر کرنے والے بھلا لافانیت کے مزے کو کب چکھ سکتے ہیں” اور سردی کی پرواہ کیے بغیر اسے لیے مسجد کے داخلی دروازے کے قریب بنے چبوترے پہ بیٹھے.
“ربّ کا عشق مانگ، اس کی محبت کا جام پی، تو دیکھنا فنا سے بقا تک کا سفر کیسے طے ہوتا ہے.” اس نے عجیب بےیقین سی نظروں سے انہیں دیکھا تھا اور یاسیت سے گویا ہوا:
” مجھ ایسے ناکارہ و بدکار بھلا کب اس جام کو پی سکتے ہیں. پورا جام تو دور ایک گھونٹ تک ملنا محال ہے” وہ مسکرائے اور پوچھا:
“تجھے کیا لگتا ہے کہ یہ بیقراری و بےچینی ایک انسان ہی کے عشق کے سبب ہے” اس نے اثبات میں سر ہلایا.
“نہیں بچے.! ایک انسان کا عشق یوں حال سے دیوانہ اور گردوپیش سے بےپرواہی نہیں سونپتا، یہ اس کا خاص اعجاز ہے جو ہرکس و ناکس پر نہیں ہوتا. بن مانگے سے بھی نہیں دیتا وہ.”
“میں نے تو آپ مانگ کر یہ عشق کا وبال اپنے سر لیا.”
“مانگا تو اور بھی بہت کچھ ہو گا ناں تو صرف یہ عشق ہی کیوں ملا؟”
“عشق ہی مانگا تھا بس.. اور تو کچھ مانگنے کی نہ احتیاج پیش آئی کبھی نہ طلب ہوئی.”
“کیوں مانگا تھا بچے؟ صرف عشق ہی کیوں مانگا تھا؟” سوال جواب جاری تھے مسجد رفتہ رفتہ خالی ہو رہی تھی.
“یہ تو پتا نہیں… بس دل میں خواہش جاگتی تھی اکثر، کہ مجھے بھی عشق ہو جائے. لیکن کبھی یہ دھیان نہیں دیا تھا کہ عشق ہو تو کس سے ہو.. بس ہو جائے. مخلوق سے ہو یا خالق سے ہو بس ہو سہی.” وہ دور خلاؤں میں تکتے بول رہا تھا سعادت علی نے محسوس کیا عجب سی روشنی تھی جو اس کی آنکھوں میں تھی. انہوں نے دل سے اس کی ہدایت کی دعا مانگی اور دھیمے لہجے میں بولے:
“تم نے اللّٰہ سے وہی مانگا جو وہ چاہتا تھا کہ تم مانگو… تمہارے دل میں یہ خیال ڈالا گیا کہ تم عشق مانگو اور تم نے مانگا، اور بیٹا.! اللّٰہ ہمیں وہی دیتا ہے جو ہمارے حق میں بہتر ہے”
“تو جو میں مانگ رہا ہوں اللّٰہ اسی کو میرے حق میں بہتر کرکے کیوں نہیں دیتا؟ ترساتا کیوں ہے؟ ” لگتا تھا وہ ابھی رو دے گا.
“ارے پگلا گیا ہے کیا… ترساتا کب ہے وہ؟ آزماتا ہے. آزمائش کی بھٹی میں پکا کر کندن کرتا ہے اور پھر اپنی معرفت کا جام پلاتا ہے.”
“مجھ ایسے کو معرفت کا جام؟؟؟” اس نے خود کی ہنسی اڑائی اور سر جھٹک کر گویا ہوا:
“ستائیس سال کی زندگی میں کوئی ایک بھی تو دن ایسا نہیں جو میں نے کوئی نیکی کی ہو… سارا دفتر ہی گناہوں سے پُر ہے” انہوں نے تحمّل سے سب سنا اور فقط اتنا کہا:
“یہ گناہ ثواب اور سزا و جزا میرے ربّ اور اس کے بندے کا آپس کا معاملہ ہوتا ہے. میں یا کوئی اور کون ہوتے ہیں اس کے فیصلوں کو رد کرنے یا ان کا انکار کرنے والے.؟” اور اس کے مزید قریب ہوتے ہوئے بولے:
“یہ اُس کی اپنی مرضی بیٹا کہ وہ کسی بھی وقت بڑے سے بڑے فاجر و گنہگار انسان کو وہ رتبہ سونپ دے کہ ملائکہ تک رشک کریں.”
“مجھے ایک انسان نہیں دیتا وہ، بڑے رتبے کا کیا کرنا ہے..” شکوہ پھر زبان پر آ گیا. اب کے انہوں نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی اور کہا:
“او جھلیا.! تُو اب بھی ایک انسان کے لیے رو رہا ہے؟ ارے وہ تجھے اپنا آپ دے رہا اور تو ہے کہ…. گھاٹے کا سودا کیوں کر رہا ہے تو؟ لوگ ترستے ہیں کہ اس عشق کے ذائقے کو چکھیں اور ..” اس نے ان کی بات قطع کی.
“میں جس چیز کو ترس رہا ہوں وہ تو دیتا نہیں.” انہیں اس کی ضد پر اب غصّہ آنے لگا تھا. لیکن ضبط کرکے نرمی سے بولے:
“اڑی نہ کر پتر اڑی نہ کر، گھوڑا چاہے جتنا ہی اڑیل کیوں نہ ہو مالک کے کوڑے کھا کر آخر سدھرنا ہی پڑتا ہے اسے. تو بھی سدھر جائے گا لیکن کیا ضروری ہے پتر کہ کوڑے کھا کر ہی سدھرے؟”
“کوڑے ہی تو کھا رہا ہوں سر.! پچھلے کتنے مہینوں سے.. اس کے ہجر و فراق میں گزرنے والے دن رات کوڑے ہی برس رہے ہیں مجھ پر.” وہ یاسیت سے گویا ہوا.
“خود ہی میرے دل میں عشق کی آگ بھڑکائی، خود ہی اس پر بیقراری اور وحشت کے پانی سے چھینٹے ڈالے اور خود ہی کہتا ہے اس سے دستبردار ہو جاؤ، کیوں.؟ کیا میں نے کہا تھا کہ مجھے انسان کا عشق دے؟ وہ کُن کہہ کر کائنات تخلیق کرنے والا رب کیا مجھے پہلی ہی بار میں اپنا عشق نہیں دے سکتا تھا؟” گو کہ اس کا سوال لاجواب کر دینے والا تھا لیکن ان کے دماغ نے فوراً کام کیا اور کچھ توقف کے بعد بولے:
“اس عشق نے توحضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکوایا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھری تلے لٹوایا. ارے اسی عشق نے محبوبِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو طائف میں لہولہان کروایا اور تو اور .. امام حسین رضی اللّٰہ عنہ نے اسی عشق کے ہاتھوں کربلا میں سر کٹوایا… جب یہ عشق محبوبینِ خدا کو ایسے ایسے آزماتا آیا ہے تو ہم عام سے بندے بھلا کب اس قابل ہیں کہ ایک ہی بار اس عشق کا جام پی لیں.؟” اس نے عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھا دل اب بھی کشمکش میں تھا وہ جیسے اس کی نگاہوں کا مفہوم سمجھ گئے تھے.
“لوہا بھٹّی میں تپ کر ہی کندن ہوتا ہے بیٹا.! اور جب تُو یہ سمجھ لے گا نا کہ تُو خام لوہا تھا اور تجھے کندن بنانے کو ہی اس نے وجودِ خاکی کے عشق کا ذرا سا مزہ چکھایا تھا تو بس… ساری الجھنیں سارے سوال ختم ہو جائیں گے.” اس نے ایک گہری سانس بھری اور آنکھ میں آیا آنسو پونچھا اور بولا:
“مجھ ایسے ناکارہ کو عشقِ لا فنا کا جام..” وہی استہزاء بھری ہنسی اور پھر ان کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں نگاہوں میں تنبیہ چھپی تھی تو تمام شکوے دل میں دبا کر سر گھٹنوں پہ رکھ لیا. مبادا ضبط کا بندھن ٹوٹے اور وہ پھر ملامت کریں اگرچہ دل تو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا.
ؔ؎ منع گریہ نہ کر تُو اے ناصح
اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی
**،،،***،،،***،،،***،،،**
ابّاجی کی باتوں سے ملنے والا سکون اپنی جگہ لیکن اِس دلِ وحشی کی وحشت کا کیا علاج کرتی جو ہر آن بڑھتی جاتی تھی. وہ اندر ہی اندر یوں جھلس رہی تھی جیسے گیلی لکڑی تڑپ تڑپ کر آگ پر سلگتی ہے… آگ کم دھواں زیادہ. ایسے ہی وہ تڑپ رہی تھی.
“مانگے سے سب ملتا ہے اس کی قدرت میں کوئی کمی نہیں.” بچپن سے اب تک پڑھائے سب سبق یاد آ رہے تھے اور سبق بھی وہ جس میں دعا اور قبولیت کا پڑھا تھا باقی نفس و تقدیر سے متعلق پڑھا اور سیکھا گیا ہر سبق اسے بھول گیا. وہ یوسف محمد اور زلیخا بی کی دھی رانی حورعین نہیں رہی تھی، وہ تو وہ حورعین بن گئی تھی جسے زرک جہاں رو رو کر مانگتا تھا. وہ آتشِ عشق اس کے دل میں بھی بھڑک اٹھی تھی. اور اس کے دل نے عجیب خواہش کی تھی کہ ایک پل کو تو وہ جی جان سے لرز ہی گئی تھی.
؎ کیا سہل جی سے ہاتھ اٹھا بیٹھتے ہیں ہائے.
یہ عشقِ پیشگاں ہیں الٰہی کہاں کے لوگ.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
“مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی یوسف محمد کہ اتنی جلدی ہم شادی کی تیاری کیسے کریں گے؟” وہ صبح جاگی تو ابّاجی ابھی کام پر نہیں گئے تھے. انہوں نے چائے کا خالی کپ رکھا اور بولے:
“اللّٰہ بہتر کرے گا. وہ ہمیشہ اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے.” بات کرتے کرتے ان کی نظر حورعین پر پڑی تھی. جو فق چہرہ لیے ان کی باتوں کے مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کر رہی تھی. وہ اس کے قریب آئے اور سر پر ہاتھ رکھ کے بولے:
“اللّٰہ میری دھی رانی کے نصیب اچھے کرے. زمانے کے سرد و گرم سے محفوظ فرمائے. زمانے کی بری نظر اور بری ہوا سے بچائے” آج پہلی بار ایسی دعا دی تھی انہوں نے, اس کا دل بھر آیا.
“بری ہوا تو لگ گئی مجھے ابّاجی. آپ کی دھی رانی کو زمانے کی نظر بھی لگ گئی اور اب آپ کی حورعین وہ حورعین رہی ہی نہیں.” غم کے آنسو پیتی وہ سر جھکائے کھڑی تھی. یوسف محمد جا چکے تھے.
“آ جا منہ ہاتھ دھو کے جلدی سے میں روٹی پکا دیتی ہوں ناشتہ کرکے دوائی لے لینا.” زلیخا بی نے اس سے کہا اور آٹے کا پیڑا بنانے لگیں.
“مجھے بھوک نہیں ہے اماں.!” بیزاری سے کہتی وہ ان کے پاس ہی زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی.
“کیا ہو گیا ہے تجھے حورعین پتر؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟” ہاتھ روک کر فکرمندی سے پوچھا تھا
“جی اماں.. مجھے کیا ہونا ہے؟”
“ہو تو گیا ہی ہے کچھ تجھے پتر.. رنگت دیکھ زردیاں گھل گئی ہیں جیسے. پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی” فکرمندی سے کہتیں دوبارہ سے پیڑا بنانے لگی تھیں. وہ خوامخواہ ہی نظریں چرانے لگی. اب کیا بتاتی کہ جس کی نظر لگی تھی آج اس کا اپنا دل اس کو ایک نظر دیکھنے کو ترس رہا تھا. نظریں بلاوجہ ہی بھٹک کر دید کی آس لے کر دراوزے تک جاتیں اور مایوس و نامراد پلٹ آتیں. وہ دل کی اس بےوفائی اور یوں اچانک رستہ بدل لینے پر حیران تھی. جس پر عجب دھن سوار تھی اس اجنبی کے دیدار کی.
ؔ؎ جی چاہتا ہے تحفے میں بھیجوں میں انھیں آنکھیں.
درشن کا تو درشن ہو، نذرانے کا نذرانہ.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
بیگم اسفند جہاں کو ساری رات پریشانی کے عالم میں نیند نہیں آئی تھی زرک جہاں کی باتیں رہ رہ کر دماغ میں گونجتی تھیں. صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو ایک بار پھر زرک جہاں گھر سے غائب تھا. انہوں نے اسید کا نمبر ملایا اور ہمیشہ کی طرح اس سے مدد طلب کی فون بند کر کے اسفند جہاں کے ساتھ ناشتہ کرنے آ بیٹھیں. وہ ان کی رات بھر کی بےچینی اور پریشانی سے بخوبی واقف تھے. لیکن پوچھنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا. انہیں نظرانداز کیے وہ اطمینان سے کافی پیتے رہے. فی الوقت وہ انہیں خود اپنے مسائل حل کرنے دینا چاہتے تھے.
“اسفند آپ کے دوست گردیزی کی بیٹی.. ماہ نور یا ہاشمی صاحب کی ردابہ دونوں میں سے کون اچھی ہے؟” کافی کا گھونٹ بھرتے انہوں نے پوچھا تھا
“میرا مطلب ہے ہمارے زرک جہاں کے ساتھ کون اچھی لگے گی؟”
“زرک جہاں سے پوچھا ہے تم نے.!؟ ردابہ ہو یا ماہ نور, میرے لیے دونوں بچیاں ایک سی ہیں. اصل پسند ناپسند تو زرک جہاں کی ہے.” انہوں نے کافی کا مگ دوبارہ سے بھرا.
“زرک جہاں کا تو دماغ خراب ہو چکا ہے، اسے نہ اپنے اسٹیٹس کا خیال ہے نہ ہی سوسائٹی میں ہماری ریپوٹیشن کا. عشق کا بھوت سوار ہے.” برہمی سے کہتے انہوں نے کپ میز پر پٹخا تھا. اسفند جہاں نے سوالیہ نگاہوں سے انھیں دیکھا. گویا پوچھ رہے ہوں کہ ماجرا کیا ہے؟ جواباً انہوں نے حورعین کے گھر جانے کی ساری بات بتائی. لیکن اس کے بعد زرک جہاں سے ہونے والی گفتگو حذف کر گئی تھیں.
“ہمارے سرونٹ کوارٹرز تک اس لڑکی کے گھر سے بڑے ہیں اور زرک جہاں چاہتا ہے کہ میں اس لڑکی کو اس گھر کی بہو بنا لوں.” اب وہ غصّے میں خود ہی بڑبڑا رہی تھیں. اسفند جہاں کچھ سوچنے کے بعد بولے:
“پچھلے چند ماہ میں زرک جہاں کی حالت کو لے کر بزنس سرکل اور ساری کمیونٹی میں جس قسم کی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں اس سے تم واقف ہی ہو. ان سب باتوں کے بعد بھی تمہیں لگتا ہے کہ کوئی بھی اپنی بیٹی کا رشتہ آسانی سے دے گا؟”
“کیا مطلب ہے آپ کا اسفند؟” ان کی اس بات نے انہیں گویا آگ لگا دی تھی.
“کچھ نہیں ہوا اسے بس تھوڑا پریشان ہے اور کچھ نہیں. آپ تو یوں کہہ رہے ہیں جیسے میرا بیٹا پاگل.. ” انہوں نے سر جھٹکا.
“جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے شیریں. بہتر یہی ہے کہ کسی اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کرو اور زرک جہاں کو چیک کرواؤ.” انہیں مشورے سے نوازتے وہ آفس جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جاتے جاتے بولے:
“اور جب وہ مہاراج گھر آئیں تو اسے آفس بھیج دینا” اور وہ سنجیدگی سے ان کے مشورے پر عمل کرنے کا سوچنے لگی تھیں.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
اسید فون ہاتھ میں پکڑے سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے؟ وہ گھر سے نکلنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ زرک جہاں نے اپنے مخصوص انداز میں ہارن بجایا تھا. اس نے بےاختیار سکون کی سانس لی تھی. ساری کلفت و پریشانی ایکدم ہوا ہوئی تھی. وہ مرے مرے قدموں سے چلتا اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا. آنکھیں شب بیداری کی گواہ تھیں. اور رنگت زرد.. وہ کیا تھا اور کیا ہو گیا تھا.
“کہاں تھے تم زرک جہاں.؟ کیوں اتنا پریشان کرنے لگے ہو؟ نہ بتا کر جاتے ہو اور اس پر فون بھی بند ملتا ہےتمہارا. آخر کوئی تو پتا و نشان چھوڑ کر جایا کرو.”
“مجھے اب خود اپنا نشان نہیں ملتا اسید تمہیں کیا بتاؤں؟” اسید چپ چاپ اسے دیکھے گیا گویا اس کے مزید بولنے کا منتظر تھا.
“پہلے خود ہی مجھے ایک انسان کے عشق میں مبتلا کیا اور اب کہا جاتا ہے کہ میں خود اسی کا طالب ہو جاؤں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے اسید.؟ بھلا سینے میں بھڑکی آگ کو سرد کرنا میرے بس میں ہے کیا؟ جو نہ لگائی میں نے نہ بڑھائی.”
“عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے ہم دنیا میں درجہ بدرجہ ترقی کی منازل طے کرتے ہیں. ایک قدم تھوڑی محنت اور پھر قدم بقدم…” اسید بہت سوچ سمجھ کر بول رہا تھا وہ جان چکا تھا کہ اب زرک جہاں اس مقام پر تھا کہ جہاں اسے سمجھانا بہت مشکل تھا.
“عشقِ حقیقی کا ” اس نے گویا خود کی ہنسی اڑائی تھی.
“جو بندہ اس کے دربار میں اس کے آگے جھک کر اس کے علاوہ ایک انسان کو سوچے، اس بندے کو عشق حقیقی کا جام ملے گا..” وہ تلخ سی ہنسی ہنس دیا تھا. اور اسید نے فقط اتنا کہا تھا:
” اور اللہ کی قدر نہ جانی جیسی چاہیے تھی.” زرک جہاں رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگا.
“یہ میں نہیں… قرآن مجید میں وہ خود فرماتا ہے.” زرک جہاں کا تنفس بڑھ گیا تھا. اسید نے اس کے سینے پر دل کے مقام پر ہاتھ رکھا اور آہستگی سے گویا ہوا:
“خود کو سنبھالو زرک جہاں.! یوں سرعام اپنا تماشا بنوانے پہ کیوں تلے ہوئے ہو؟”
“تماشا تو اب بن گیا ہوں اسید” اس نے اسید کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا. اس کے ہاتھ کی تپش اسید نے اپنے وجود میں اترتی محسوس کی تھی.
“مجھے کسی پل چین نہیں پڑتا، دل ہر وقت سلگتا ہے، اور لگتا ہے کہ ایک دن یونہی سلگ سلگ کر جل جائے گا.” اس نے ایک طویل گہری سانس خارج کی. اور صوفے کی پشت پر سر گرا کر آنکھیں موند لیں. ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر کنپٹی کے بالوں میں گم گیا تھا. “کوئی تو سبیل بنے، کوئی تو اسے جا کر بتا دے کہ ایک دنیا کو اپنے قدموں تلے روند دینے والا زرک جہاں تمھارے قدموں میں خاک بن کر بچھ جانے کو تیار ہے. کوئی تو ہو جو اس تک میرے دل کا حال پہنچا دے.” بے بسی سی بے بسی تھی. اسید کچھ نہ بول پایا تھا.
؎ جس دل اندر عشق نہ رچیا، کتے اس توں چنگے.
مالک دے در راکھی دیندے، صابر پکھے ننگے.
مالک دا در نئیں او چھڈ دے، پانویں مارو سو سو جتے.
اٹھ بلھیا.! چل یار منا لے، نئیں تے بازی لے گئے کتے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
گھر میں اس کی شادی کی بات چل رہی تھی. سعد عمر نے کسی دوست کی وساطت سے چین کی کسی کمپنی میں اپلائی کیا تھا جہاں اسے بہت اچھی جاب مل گئی تھی اور وہاں وہ اپنی فیملی بھی رکھ سکتا تھا لہٰذا اب اس کا ارادہ تھا کہ شادی کرکے حورعین کو بھی ساتھ لے جائے. اور ابھی ہادیہ اسے یہی بتانے آئی تھی. اور یہ سب سنتے ہی اس کا رنگ فق ہوا تھا. مانو جسم میں ایک قطرہ خون نہ رہا ہو. ہادیہ نے پل پل بدلتے اس کے چہرے کے تمام رنگ ملاحظہ کیے تھے اس سے قبل کہ وہ کچھ پوچھتی حورعین کی کہی گئی بات نے محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً اس کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی تھی.
“یہ کیا کہہ رہی ہو تم حورعین” ہادیہ پریشان سی اس کے پاس بیٹھی تھی.
“میں سچ کہہ رہی ہوں ہادیہ، مم… میں.. میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی.” ایک جملہ بولنے کے لیے بھی اسے صدیوں کا سفر طے کرنا پڑا تھا.
“بلکہ یوں کہو کہ میں یہ شادی نہیں کر سکتی.” بات کہہ کر اس نے دروازے کی جانب دیکھا مبادا چھوٹے سے اس گھر میں ہوا نے مخبری نہ کر دی ہو.
“زلیخا خالہ گھر نہیں ہے حورعین، خدارا تم بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے؟” ہادیہ نے اسے جھنجھوڑا اور اس کی چپ توڑنی چاہی جو فقط دو جملوں میں اس پر بجلی گرا کر اب اس کے جلنے کا تماشا دیکھ رہی تھی.
“حورعین.! خدا کے واسطے کچھ تو کہو, کچھ تو بولو. اگر خالہ اور چچا کو ذرا سی بھی بھنک پڑ گئی تو زندہ درگور ہو جائیں گے وہ دونوں.” وہ خاموش بیٹھی اپنی ہتھیلیوں کو گھورے جا رہی تھی. ہادیہ نے اس کے دونوں ہاتھ تھامے. اور نرمی سے دباتے ہوئے اسے بولنے پر اکسایا تھا.
“تمہیں معلوم ہے نا ہادیہ کہ میں خائن نہیں ہوں.” وہ الفاظ ترتیب دینے لگی.
“مجھے لگتا ہے کہ میری روح، میرا سارا وجود اور میرے دل و دماغ کسی کی امانت ہیں.”
“ہاں تو امانت ہیں نا سعد…”
“نہیں نہیں..” حورعین نے زور زور سے نفی میں سر ہلا کر اس کی بات کاٹی تھی. غزال سی سنہری آنکھیں ضبطِ گریہ کے باعث سرخی مائل ہو رہی تھیں.
“ہادیہ.! ایسا لگتا ہے میرا سب کچھ اس عشق کی امانت ہے جس نے کئی دن سے میری نیند چھین رکھی ہے.”
“عشق… کیسا عشق حورعین.؟” ہادیہ متحیّر تھی. اس کی رنگت زرد ہوئی جاتی تھی.
“ہادیہ مجھے ہر وقت وہ دو سیاہ آنکھیں اپنے وجود کا احاطہ کیے محسوس ہوتی ہیں. ہر لمحہ لگتا ہے جیسے میری روح بھٹک رہی ہے ان دو آنکھوں کی تلاش میں ہر وقت پیاسی اور بےچین.” اس کی ساری باتیں ہادیہ کی سمجھ سے بالاتر تھیں. اسے کیسے یقین آتا کہ وہ کسی کے عشق میں اس حد تک آگے بڑھ سکتی ہے. یقین آتا بھی کیسے کہ وہ سیدھی اور آسان سی کھلی کتاب جیسی تھی اس کتاب کا ایک ایک ورق روزِ روشن کی طرح اس پر عیاں تھا. پھر ایسا کب ہوا تھا کہ وہ اس مرضِ عشق کی اسیر ہوئی تھی، اور کتابِ زیست کا ایک یہی ورق اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا. حورعین نے اس دن کے اتفاقیہ ٹکراؤ سے لے کر بیگم اسفند جہاں کے گھر آنے تک اور پھر یوسف محمد کی زبانی سنی ساری باتیں اس سے کہہ دیں. ہر ہر دن کی بےچینی و اضطراب، سارے رت جگوں کا حال کہہ سنایا تھا. اور ہر لفظ پر اس کے بہتے آنسوؤں نے تصدیقی مہر لگائی تھی.
“میں شادی نہیں کرنا چاہتی ہادیہ.. میں خود کو اس خیانت کے لیے تیار نہیں کر پا رہی. خیال کسی کا اور…” وہ چپ ہوئی. ہادیہ تاسف سے اسے دیکھ رہی تھی.
“پاگل ہو گئی ہے تو حورعین.. یہ بھول جا کہ وہ عشق میں صادق تھا. یہ دیکھ جب سے اس کی ماں ہو کر گئی تب سے نہ وہ خود آیا نا ہی اس کی ماں نے دوبارہ قدم رکھا.” اس نے حورعین کے آنسو پونچھے اور بات جاری رکھی.
“حقیقت پسند بن حورعین.! چچا یوسف ٹھیک کہتا ہے کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نہیں لگتا. اور تُو ہماری شہزادی اس محل میں کھو جائے گی.” ہادیہ نے اس کے ہاتھوں پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی جو یخ ہو رہے تھے.
“درخت وہیں پھلتا پھولتا ہے جہاں اس کی جڑیں ہوں. کہیں اور لگایا جائے تو لاکھ اپنی بقا کی کوشش کرے، نہیں پھلتا. تیری جڑیں یہاں ہیں تو تیری بقا بھی یہیں ہے.” اور وہ ہادیہ کو یہ نہیں کہہ پائی تھی کہ اس کا وجود اب عشق نے اپنے عوض رہن رکھ لیا تھا اور اس رہن زدہ وجود کی بقا نہ یہاں تھی نہ وہاں، بس عشق کے ہاتھ تھی. اور عشق اب اسے کس راہ لے جاتا یہ نہیں جانتی تھی. اور اس سب کے باوجود وہ یہ بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ ایک فرمانبردار بیٹی کی طرح وہ ابّاجی کی خوشی میں راضی ہو کر سر تسلیمِ خم کردے گی.کیونکہ گویا یہ حال تھا کہ..
** ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے.
**،،،***،،،***،،،***،،،**
رات کے کھانے کا وقت تھا اسفند جہاں کھانے کی میز پہ اس کے منتظر ہی رہے کہ وہ آئے گا لیکن اس نے ملازم کے ہاتھ بھوک نہیں کا پیغام بھجوا دیا. شیریں جہاں اپنی کسی میٹنگ کے سلسلے میں شہر سے باہر تھیں. انہوں نے اکیلے ہی چند نوالے زہر مار کیے اور اٹھ کھڑے ہوئے. بلا ارادہ ہی ان کا رُخ زرک جہاں کے کمرے کی طرف ہوگیا. بنا آواز پیدا کیے انہوں نے دروازہ کھولا تھا اور سامنے کا منظر دیکھ کر جہاں تھے وہیں ساکت ہو گئے. اس سے پہلے انہوں نے زرک جہاں کو کبھی اس حال میں نہیں دیکھا تھا. اور ویسے بھی آج کافی دنوں بعد وہ اسے دیکھ رہے تھے. زرد رنگت، ہلکی بڑھی شیو بےترتیب بال اور پُرشکن لباس… چہیتے اور لاڈلے شاہوں سے مزاج والے بیٹے کو اس حلیے میں دیکھ کر ان کا دل بھر آیا تھا. دل بے اختیار شکوہ کناں ہوا.
“یا الٰہی.! کس کی نظرِبد لگ گئی میرے بچے کو.” تقدیر ان کے شکوے اور بےخبری پر ہنس دی تھی کہ جسے وہ نظرِبد کہہ رہے تھے وہ عشق کی وہ نگاہِ مست تھی جو جس پر پڑ جاتی تھی وہ بِن پیے ہی ہوش و خرد سے بیگانہ رہتا ہے. یہ تو وہ نظر تھی، جو قسمت والوں کے مقدّر میں لکھی جاتی ہے اور زرک جہاں کی طرح ہی وہ بھی بےخبر تھے کہ ان کے بیٹے کا نام ایسے ہی چند خوش نصیبوں میں لکھ دیا گیا تھا. انہوں نے زرک جہاں کو گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر رکوع میں دیکھا. جاڑا جا چکا تھا گرمی کی آمد تھی لیکن اب بھی وہ ایسے کانپ رہا تھا گویا اسے سخت سردی میں بنا کسی گرم لباس کے برف میں کھڑا کر دیا ہو. اگلے ہی لمحے انہوں نے آنسوؤں کو اس کے پیروں پر گرتے دیکھا تب انہوں نے محسوس کیا کہ وہ زیادہ دیر تک کھڑا نہیں رہ پائے گا اور ایسا ہی ہوا اگلے ہی لمحے انہوں نے اپنی آنکھوں سے اسے زمین پر گرتے دیکھا تھا. وہ خود پر ضبط نہ کر پائے بھاگ کر اس کے پاس گئے اس کا سر سیدھا کیا اور اپنی گود میں رکھا. اس کی آنکھیں بند لیکن آنسوؤں سے تر تھیں.
“زرک جہاں.. ہوش میں آؤ بیٹا.” انہوں نے بیتابی سے اس کا چہرہ تھپتھپایا. اس نے آنکھیں کھولیں لیکن پہچان کی ہلکی سی رمق بھی انہیں دکھائی نہ دی تھی. تبھی انہوں نے اس کے ہونٹوں کو جنبش کرتے سنا انہیں صرف ایک لفظ سمجھ آیا تھا.
“حورعین..” اور پھر دوبارہ سے وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوا تھا. اور پھر دوبارہ سے وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوا تھا. ان کا دل بیٹے کو اس حال میں دیکھ کر رو دیا تھا. شیریں جہاں کی باتوں سے انھیں یہی لگتا تھا کہ ان کا وہم تھا، وہ وقتی دور تھا اور جلد ہی وہ اس کیفیت سے نکل آئے گا، لیکن آج انھیں اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ کیفیت وقتی نہیں تھی، وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا، انھیں آج بھی یاد تھا کہ جب اس کے پیدا ہونے کی خبر ملی تھی تو وہ کتنے خوش ہوئے تھے اگرچہ شیریں جہاں اس وقت بچے پیدا کرنے کے حق میں نہیں تھیں لیکن ان کی خوشی کے لیے چپ ہو رہی تھیں. بچپن سے لے کر آج تک انھوں نے اس کی ہر خواہش بنا کہے پوری کی تھی. وہ بھی اپنی ہر ضرورت کے لیے ماں کی بجائے انھیں کے پاس آتا تھا، پھر اتنی دوریاں کہاں سے آئی تھی دونوں کے درمیان کہ ان کا چہیتا بیٹا اپنی زندگی کی اہم ترین خواہش کی تکمیل کے لیے ان کے پاس نہیں آیا تھا.
“وہ کیسے آتا تمھارے پاس اسفند جہاں!؟؟ ہمیشہ بنا کہے تم نے اس کی ہر ضرورت، ہر خواہش پوری کی ہے، اب بھی اسے یہی یقین ہو گا کہ تم بنا کہے سمجھ جاؤ گے..” یہ خیال آتے ہی وہ بےچین ہو چلے. “اور میں ایسا بےخبر کہ سمجھ ہی نہیں پایا.”
**…**…**…**…**..**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...