“کک۔۔کچھ نہیں امی ، بس کچھ ضروری گفتگو تھی جو اللہ سے کر رہی تھی”
مریم نے گھبرا کر کہا کہ کہیں امی اسکی ڈائری پڑھنے میں دلچسپی ظاہر نہ کر دیں
“گفتگو کر رہی تھی ؟تو پھر ڈائری میں کیوں لکھ رہی ہو؟ اللہ جی کہتے ہیں نا مجھ سے بات کرنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے
پھر وہ راستہ کیوں نہیں چُنا؟”
امی نے مزید کہا
“کتابوں کے ورقوں پر لکھی گئ باتیں مٹائ نہیں جاتی ، اور جو بات مٹائ نہ جا سکے میں اپنے اللہ سے ایسی گفتگو کرنا زیادہ پسند کرتی ہوں ۔۔۔
میری بات چیت کے سارے الفاظ یہاں محفوظ رہیں گے اور جب تک یہ الفاظ زندہ رہینگے میری ہر دعا اور فرمائش اللہ جی کے حضور فرشتے پیش کرتے رہینگے”
مریم نے تفصیلی جواب دیا
اک ایسا جواب جسکی گہرائی کا اندازہ فلحال مریم کو خود بھی نہ تھا مگر اس بات میں کوئ گنجائش باقی نہ تھی کہ اسکا کہا ہوا ہر لفظ حقیقت کا پہلو رکھتا تھا
“گہری باتیں سیکھ لینے سے انکی گہرائ کا اندازہ بھی ہو جائے ایسا ضروری نہیں ہے مریم۔۔۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم انجانے میں اس گہرائ میں گِر کر یہ بھی نہ سمجھ سکو کہ تم واقعی ایک گہری کھائ کا شکار ہو چکی ہو”
“امی یہ کیسی باتیں کر رہہی ہیں؟ میرے ساتھ اللہ ہے ناں ”
مریم نے بات کا مثبت جواب دیتے ہوئے کہا تو امئ نے دوپہر پیش آنے والے انجانے قصے کی بات چھیڑی
“بالکل مگر جو بات دوپہر مینے تمھارا رزلٹ چیک کرتے ہوئے دیکھی اسکا حوالہ تم خود دینا پسند کرو گی یا بھائ سے پوچھوں میں؟”
“امی میں چھوڑ دوں گی facebook استعمال کرنا ، محض ایک خواہش ہی تو تھی کہ دیکھوں وہاں ایسا کیا ھے کہ بھائ نے مجھے وہاں جانے سے روکا ہے”
مریم نے خود بچاتے ہوئے وجہ پیش کی
“دھڑکنوں سے پوچھ کر بتاؤ اپنی ، کیا کبھی دایئں جانب دیکھتے ہمنے یکدم تمہیں بایئں جانب دیکھنے کو کہا؟
امی نے مریم سے شکائت بھرے لہجے میں اپنی دی ہوئ آزادی کے بارے میں سوال کیا
“نہیں امی ہرگز نہیں ، لیکن بس یونہی مینے اس جانب رُخ کیا ۔۔۔ یونھ سمجھ لیں کہ چلتے چلتے منزل سے پہلے ہی میں نے کہیں رک کر پانی پینے کا ارادہ کیا اور رُک گئ
پھر کہیں سے اچانک آپ آگیئں ، مجھے اٹھ کر چلنے کا حکم دیا اور میں قدم بڑھائے آگے چلنے لگی”
امی میں وعدہ کرتی ہوں دوبارہ اس جانب رُخ نہیں کروں گی آپ بس بھائی سے کچھ مت کہئے گا
مریم نے بات ختم کی اور ساتھ میں گزارش بھی کی کہ بھائ تک اس بات کی خبر نہ پہنچے
“جن پیروں کو تھک کر بیٹھنے کی عادت پڑ جائے وہ پیر پھر رفتہ رفتہ چلنا بُھول جاتے ہیں مریم
وہ بھروسہ جو ھم تم پر آنکھ بند کئے کرتے تھے واپس لا سکو گی اب؟
تمھارے بابا جانی نے کتنے مان سے تمھیں تحفہ دیا تھا اس نصیحت کے ساتھ کہ تم اسکا غلط استعمال نہیں کرو گی”
“تمھیں موقع چاہئے مریم ؟، موقع کوئ زمین پر پڑا ہوا کاغظ کا ٹکڑا نہیں ہے۔۔۔ تجوری میں رکھا ہیرا ہے
اور میرے پاس ھیروں کی کان نہں ہے ، فقط ایک ہی سنبھالے رکھا ہے۔۔۔جاؤ تمھیں دے دیا”
امی نے خفا سے لہجے میں اس سے بات کی اور معذرت قبول کرتی ہوئ آگے بڑھ گیئں
اس وقت مریم کو اندازہ ہوا کہ اسنے جو کیا تھا وہ معمولی نہیں تھا
امی کی یہ بات ہزار فی صد صحیح تھی کہ جن پیروں کو راہ کے درمیان ہی تھک کر بیٹھنے کی عادت پڑ جائے وہ پیر پھر چلنے کی مشقت نہیں اُٹھاتے
مریم نے وہ بات اپنی ڈائری میں بڑے حروف میں لکھ دی
آنے والت وقت میں اسے ان لفظوں کی ضرورت پڑنے والی تھی
******* “”””””” ******** “”””” ******
“ہیلو بھائ جان! کیسے ہیں آپ؟ آنے والے اتوار کو ایک تقریب ترتیب دی گئ ہے ، آپ سب گھر والوں کا بُلاوہ ہے
مریم نے ایک بار پھر پیلی پوزیشن لے کر ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے”
بابا جانی اسی نوعیت کے دس بارہ فون اب تک attend کر چکے تھے
اس بیچ امی بھی خفا نظروں سے مریم کو تکتی رہی تھیں
نظروں ہی نظروں میں وہ اسے یہ احساس دلانا چاہتی تیں “کہ دیکھو تمھارے بابا کو تم پر کتنا فخر ہے ”
اور شرمندگی سے مریم کا سر جھکا جاتا تھا کہ کیسی خطا سرزد ہوئ ہے مجھسے
***** “”””””” **** “”””””””” *****””””
تقریب کا دن آیا تو بابا جانی نے مریم کی شان میں قصیدے پڑھ پڑھ کر رشتہ داروں کو سنائے
تقریب جاری ہی تھی کہ ایک فون کال نے ان سب کو متوجہ کیا
امی نے فون اٹھا کر ہیلو کہا تو دوسری جانب مکلمل خاموشی پائ اور رانگ نمبر سمجھ کر فون رکھ دیا
کچھ ہی پل گزرے تھے کہ گھنٹی دوبارہ بجی
امی نے پھر فون اٹھایا اور اس بار دوسری طرف سے صرف دو لفظ سنائی دیئے
“مبارک ہو”
اور لائن منقطہ ہو گئ
یہ وہ لمحہ تھا جب ان کا شک مریم کے سوا کسی پر نہ گیا ، لیکن الزام لگانا بھی مناسب نہ تھا۔۔۔لہذا خاموشی سے تقریب کا گزر جانا ہی بھتر سمجھا
****** “”””””” ****”” “””””” *******”
اس دن کے بعد کئ مرتبہ اس طرح کی فون کالز آتی رہیں
جس میں دوسری جانب خاموشی سے بھری گفتگو ہوتی اور کچھ دیر بعد ادھر سے ہی کال منقطہ ہو جاتی
امی کی چھٹی حِس انھیں مسلسل اب کسی خطرے کا اشارہ دے رہی تھی
مگر انھیں اپنے شک کے یقین میں بدل جانے کا بھی ڈر تھا
ہمت کر کے ایک دن مریم کے کمرے میں گیئں اور بے ساختہ کہنے لگیں
“مریم تمھارے لیئے کال آئی تھی ، لیکن میں سمجھ نہ سکی کس کی تھی ۔۔۔۔کیا تم بتانا چاہو گی ؟کس کی کال ہو سکتی ہے؟”
امی نے ایک تیر سے دو نشان لگانے والی ترکیب آزمائی تھی
“آپ تو ایسے کہ رہی ہیں جیسے میری کسی دوست کو آپ جانتی نہ ہوں
ہوگی کوئی سہیلی جسے میں اچانک یاد آگئ ہوں گی”
مریم نے بات کا رُخ بدلنا چاھا
“اچھا چلو اب فون آیا تو اٹھاتے ہی تمھیں دے دوں گی ، شاید تمہاری دوست کو میری آواز نھیں پسند۔۔۔سلام کا جواب بھی دینا ضروری نہی سمجھتی
بھلا کیسی بد لحاظ سہیلی ہے تمھاری”
امی نے اب کی بار دوہرے تیر پھینکے اور زخم کے ابھرنے کا انتظار کرنے لگیں
“جیسے آپکی مرضی”
اُسکے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا، دو لفظ کہ کر اپنے کاموں میں لگ گئی
****** “””””””””” ****”*** “””””” ****
“بابا جانی مریم نے اب کالج میں داخلہ لینا ہے ، اب تو اسے ایک اچھا سا موبائل دلا دیں”
ناشتے کی میز تو مریم اور بابا جانی کی گفتگو کے نام ہی ہوا کرتی تھی
اور اس بار مریم نے بابا سے ایک نئی فرمائش کر ڈالی تھی
“ابھی تو تقریب کی تیاریوں میں بھت زیادا خرچہ ہوا ہی بیٹا ،اور اب تم ایک نئی فرمائش لے کر بیٹھ گئی ہو”
مریم کے بابا نے اسکو سمجھانا چاھا تھا مگر وہ بھی ضِد کی پکی تھی آخر
“میں کچھ نہیں جانتی بس مجھے ایک اچھا سا موبائل چاہیے
میں کالج جانے تک انتظار کر لوں گی ”
مریم نے ضِد کی
“ٹھیک ہے اللہ نے چاہا تو آپکے کالج جانے سے پہلے موبائل فون کا انتظام بھی ہو جائے گا”
ضِد بحث کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ امی آپہنچیں
” کس بات پر بحث ہو رہی ہے باپ بیٹی کے درمیان؟”
امی نے بات کا سِرہ پکڑنا چاھا
“آپ کی محترمہ اک نئی فرمائش لے کر بیٹھ گئ ہیں
چاہتی ہیں کہ انھہیں موبائل فون دلایا جائے
کہ رہی ہے کہ سوچیں ذرا مستقبل کی ڈاکٹر کے پاس موبائل بھی نہ ہو تو لوگ کیا سوچیں گے”
بابا نے مریم کی ضد کے بارے میں امی کو آگاہ کیا
“فرمائشیں اگر آسمان سے تارے توڑنے کی ہونے لگیں تو لوگ واقعی بھت کچھ سوچنے لگیں گے، مجھے امید ہے ابھی تو وہ کچھ نہیں سوچ رھے ہونگے”
امی کا اشارہ نفی میں تھا۔۔اسکی وجہ شائد وہ چھپی باتیں تھیں جو فقط انھی کے گمان میں رقص کر رہی تھیں، بابا اور بھائی ابھی اُن باتوں سے ناواقف تھے
****** “”””””” ******* “”””” ***””***
شام کے چھ بجے تھے اور مریم کمپیوٹر کے آگے بیٹھی مختلف videos دیکھنے میں مگن تھی ، جب اُکتا گئی تو پھر اسی جانب رُخ کرنے کا خیال آیا
“کیا فرق پڑتا ایک بار دیکھ ہی لیتی ہوں کیا پتا کوئی نئا پیغام آیا ہو”
“نہیں مریم اب اگر امی کو وہم بھی ہوگیا تو وہ تمھیں بھائی کے حوالے کر دیں گی”
“5 منٹ کی تو بات ہے بس ، میں دیکھ لیتی ہوں نہ۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا”
“میں تمھارے ساتھ نہیں ہوں ۔تم چاھے جو مرضی کرو بس بعد میں تمھارے درد سے مجھے درد نہ ہو”
یہ کوئی دو الگ لوگ نہیں بلکہ مریم اور اسکے ضمیر کی آواز تھی جو اسے ایسا کرنے سے روکنا چاھتا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...