ہسپتال کے اس کوریڈور میں لوگوں کا رش سا لگا تھا ۔۔ہسپتال والے اتنے لوگوں کو ساتھ دیکھ جھنجھلا گئے تھے.۔۔۔نرسیں بے چاری بول بول کے تھک گئیں تھیں مگر وہ لوگ کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھے.۔۔۔
“ایک تو ان امیروں کے چونچلے پہلے خود شادیوں میں فائرنگ کرواتے ہیں اور پھر جب کسی کو گولی لگتی ہے تو سب بھول بھال کے ہسپتال ٹوٹ پڑتے ہیں ۔۔۔مینرز تو ہیں ہی ان لوگوں میں “۔۔۔ایک نرس جو کب سے ان سب کو ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی بل آحر اکتا گئی اور بھڑک کر اپنی ساتھی نرس سے چلائی ۔۔۔
“تم ڈاکٹر صاب کو فورا بلاو یہ لوگ ایسے نہیں سنیں گے” ۔۔۔دوسری نرس کے کہتے ہی پہلی نے ڈاکٹر کی طرف دوڑ لگائی. ۔۔اور کچھ دیر میں وہ ایک بڑے ڈاکٹر کے ساتھ نمودار ہوئی ۔۔۔
“دیکھیں آپ لوگ ویٹنگ ایریا میں ویٹ کریں ۔۔۔یہاں رش مت کریں ،دیگر مریص ڈسٹرب ہو نگے “۔۔۔ڈاکٹر نے اونچی آواز میں کہا تو وہ سب رونا بھول کر اسکی طرف لپکے ۔۔۔
“ہم سب چلے جاہیں گے پہلے اتنا بتا دیں وہ ٹھیک ہو جائے گی” ۔۔۔سریا ڈھیروں امیدیں لیے ڈاکٹر کے سامنے کھڑیں تھیں ۔۔۔
“خون تو کافی ضائع ہو گیا ہے ۔۔۔ آپ سب دعا کریں ۔۔اللہ بہتر کرے گا” ۔۔۔ڈاکٹر تیزی سے بولتا اندر چلا گیا تو نرسوں نے اس سب کو بھی ویٹنگ روم کی طرف دھکیلا ۔سب جارہے تھے مگر وہ جو بت بنا بیٹھ تھا ایک انچ بھی نہ ہلا تھا ۔۔۔۔ویسے ہی بیٹھارہا تھا۔۔۔”ارے انہیں بھی لے جاہیں ساتھ” ۔۔۔نرس نے جھنجھلا کر اسکے ساتھ کھڑی لڑکی کو کہا تو اسنے بے دردی سے آنسوں صاف کیے ۔۔۔”پلیز انہیں یہاں رکنے دیں” ۔۔۔ایک منت بھری نظر نرس پر ڈال کے فروا نے باقی سب کو جانے کا اشارہ کیا تو وہ سب باہر آئے ۔۔۔صرف وہی دونوں وہاں تھے ۔۔۔نرس ایک ہونہہ والی نظر ان پر ڈالتی وہاں سے چلی گئی تو فروا اسکے ساتھ ہی بینچ پر بیٹھ گئ ۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں وہاں پولیس اور میڈیا کے نماہندے بھی وہاں پہنچ چکے تھے ۔۔۔جو اب سمار سے صاب سےواقع کی پوچھ گچھ کر رہے تھے ۔۔۔اس ساری سچویشن میں کسی کو اس بات کا ہوش نہیں تھا کے نایاب کو گولی لگی کیسے۔۔۔سب کےلبوں پر ایک ہی التجا تھی کے وہ ٹھیک ہو جائے. ۔۔وہ سب رو رہے تھے اسکے لیے دعاہیں کر رہے تھے ۔۔۔کتنی تڑپ تھی ان سب کی آنکھوں ۔۔۔کتنی محبت تھی اس لڑکی کے لیے ۔۔۔جو سارے خاندان میں سب سے ذیادہ روڈ مشہور تھی ۔۔۔۔
“شہرین” اپنے کام دارلباس میں اپنی تمام طر خوبصورتی کو لیے وہاں موجود تھی مگر کسی نے اسے ایک نظر بھی نہیں دیکھاتھا ۔۔۔سارے میڈیا کے نماہندے چیخ چیخ کے عوام سے دعا کی اپیل کر رہے تھے ۔۔۔سامنے لگی ایل ای ڈی پر بریکنگ نیوز کی پٹی پر مشہور ڈایزاہنر نایاب فاروق کو گولی لگنے کی حبر چل رہی تھی ۔۔۔۔سب اسکے لیے دعا گو تھے ۔۔۔شہرین نڈھال سی ایک بینچ پے گری تھی ۔۔۔
“کون تھی وہ ؟؟” شہرین وہاج ” انتہا کی خوبصورت ،بولڈ ،ماڈرن لڑکی جہاں سے گزرتی تھی مردوں کے ساتھ لڑکیاں بھی ایک بار اسے پلٹ کر لازمی دیکھتی تھیں “۔۔وہ” ملکہ حسن” تھی اسے فرواموش کرنا آسان نہیں تھا ۔۔۔مگر آج کیا ہوہا تھا ؟؟کسی نے ایک نظر تک نہیں ڈالی تھی اس پر ۔۔۔اتنے مرد تھے وہاں اتنے میڈیا کے نماہندے تھے سب اس لڑکی کے لیےپریشان تھے سب اسکی جانب لپک رہے تھے جو وہاں تھی ہی نہیں ،اندر اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی ۔۔”کون تھی وہ لڑکی ؟؟ اولڈ فیشن کپڑے ڈیزاہن کرنے والی ایک ڈایزاہنر ،یا ایک بیکری کی آنر ؟؟ یا پھر انتہائی روڈ، بورنگ اور سڑی ہوئی جو بقول شہرین کے اس قابل ہی نہیں تھی اسےایک بار پلٹ کے دوبارہ دیکھا جائے” ۔۔ تو پھر یہ کون لوگ تھے؟؟ جو اسے ایک بار دیکھنے کے لیے مرے جا رہے تھے ؟۔۔۔۔کیا یہ صرف اسکی شہرت تھی ۔۔۔۔۔”نہیں ” اسنے زور سے نفی میں سر ہلایا یہ صرف شہرت نہیں ہو سکتی آنسوں اسکے چہرے کو بھگو رہے تھے ۔۔۔کاجل کی کالی لیکریں پورےمیک اپ کو خراب کر رہی تھیں ۔۔۔پتہ نہیں اسکی ماں کہاں تھی؟ ۔۔۔۔اسنے ایک نظر سارے مجمعے پر ڈالی ناہید اسے پریشان سی سمینہ کے ساتھ کھڑی نظر آہیں ۔۔۔۔اسے پتہ تھا انکی پریشانی بھی ایک ڈھونگ تھی ۔۔۔”صرف پریشانی”۔۔۔۔نہیں لبوں پے ہاتھ رکھ کے سسکیوں کو روکا تھا ۔۔۔اسکی تو ساری زندگی ہی ڈھونگ تھی ۔۔۔۔بمشکل خود کو گھیسٹتی وہ واش روم آئی تھی ۔۔۔دونوں ہاتھوں سے سینک کے کنارے تھام کر اسنے آہینے میں دیکھا تھا ۔۔۔میک اپ خراب ہو چکا تھا بال بکھرچکے تھے ۔۔ اسکا چہرہ عجیب واہییات سا دکھ رہا تھا. ۔۔اسنے بے احیتار سینک کو چھوڑ کر اپنے چہرے کو چھوا تھا ۔۔۔۔”کیا یہ ہے میرا اصلی چہرہ؟؟ ۔۔۔”اتنا کرحت” ۔۔۔”تم جیسی عورت کو کیاپتہ کے اصل خوبصورتی چہرے کی نہیں کردار کی ہوتی ہے۔۔۔۔اور اگر تم اپنےکردار کا موزانہ کرو گی نا شہرین ۔۔۔تم تہمیں خود سے نفرت ہو جائے گی” ناہل کے کہے وہ نفرت آمیز جملے اسکے کانوں میں گونجے ۔۔۔کتنا ٹھیک کہا تھا اسنے ۔۔۔اسے سچ میں خود سے نفرت ہو رہی تھی ۔۔۔آگاہی کا در آج اس پر واہ ہوہا تھا ۔۔۔اور آگاہی ہمشہ غذاب کی طرح ہوتی ہے ۔۔۔اسے آج یہ آگاہی ملی تھی کے مشہور یا خوبصورت ہونا ضروری نہیں ہوتا غزت کمانا ضروری ہوتا ہے ۔۔۔”جی جی بلکل آپ درست کہہ رہی ہیں اس طرف ترقی بہت ہے مگر مجھے ترقی سے زیادہ عزت چاہیے جو الحمداللہ مجھے اللہ نے بہت عطا کی ہے” نایاب کا سکون بھرا لہجہ اسکے دل کو جھنجھوڑ کر رکھ گیا ۔۔۔۔”کتنا سکون ہوتا ہے اسکی آنکھوں میں. ۔۔کتنا نور ہے ہوتا اسکے چہرے پر ۔۔۔۔کتنی غزت ہے اسکے پاس ۔۔۔۔ اورمیرے پاس کیا ہے ؟؟”۔۔۔بے یقینی سے اپنے عکس کو دیکتھی بڑابڑائی رہی ۔۔۔۔اور اگلے ہی پل وہ گھٹنوں کی بل فرش پر گری تھی ۔۔۔۔”یہ حقیقت ہی جان لیوا تھی کے اسکے پاس کچھ نہیں تھا ۔۔ نہ سکون ،نہ چہرے پر نور نہ غزت ۔۔۔۔وہ آج تہی داماں رہ گئی تھی “۔۔۔”بلکل خالی” ۔۔۔۔
****************************************
“کیا وہ ٹھیک ہو جائے گی ناہل ؟؟”۔۔۔فروا نے اسکے شانے پر ہاتھ رکھ کے پوچھا ۔۔۔اس میں زرا بھی جنبش نہ ہوئی تھی ۔۔۔”ناہل پلیز ہوش کرو” ۔۔۔۔فروا نے اسے زور سے جھنجھوڑا ۔۔۔ناہل نے ویران آنکھیں اٹھا کے اسے دیکھا تھا ۔۔۔ تو وہ ڈر کر فوراً کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔”ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ کتنا حوش تھا ” مگر اب ستاروں کی مانند اسکی چمکتی آنکھوں میں وحشت تھی “عجیب وحشت “۔۔۔۔
“ناہل ہوش کرو دیکھو نایاب کو گولی لگی ہے ۔۔۔اندر اسکا اوپریشن چل رہا ہے کچھ پتہ نہیں کے وہ بچے گی ،اٹھو اسکے لیے دعا کرو ،اگر اسے کچھ بھی ہوہا نا ناہل تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی” ۔۔۔فروا نم آنکھوں اسے دیکھتے دونوں شانو سے پکڑ کر جھنجھوڑا تو وہ ہوش میں آیا تھا ۔۔ “نایاب کو لوگی لگی ہے مجھے اس کے پاس جانا ہے” ۔۔۔ بدحواسی سے کہتاوہ اندر کی جانب لپکا فروا نے بمشکل اسے روکا تھا ۔۔۔
“ناہل اسکا اوپریشن چل رہا ہے تم اندر نہیں جا سکتے” ۔۔۔
“میں جاو گا چھوڑو مجھے!” ۔۔۔اسنے زور سے فروا کو دور جھٹکا ۔۔۔تووہ گرتے گرتے بچی تھی ۔۔۔اس سے پہلے وہ اندر جاتا فروا نے اسے جھٹکے سے کھینچ کر روکا تھا ۔۔”
پاگل ہو گئے ہو؟ ۔۔۔تم اندر نہیں جا سکتے ۔۔۔آرام سے بیٹھو وہاں” ۔۔۔دھکیل کے واپس بینچ پر بیٹھا دیا ۔۔۔شدید بے بسی سے پھڑ پھڑا رہا تھا ۔۔۔
“میں کیا کروں کیسے ٹھیک ہو گی وہ !!”۔۔۔سر ہاتھوں میں گرا کے وہ شدت سے چلایا تھا. ۔۔
“دعا کرو ناہل ۔۔۔اسے ہم سب کی دعاوں کی ضرورت ہے اسکے لیے دعا کرو بس “۔۔۔فروا سر دونوں ہاتھوں پے گرائے اسکے ساتھ بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
“دعا” وہ زیرے لب بولا تھا آواز اتنی ہلکی تھی کے وہ خود بھی بمشکل سن پایا تھا. ۔۔۔”دعا کیسے مانگوں میں؟؟ ۔۔۔کبھی زندگی میں کسی چیز کی کمی ہوئی ہی نہیں کے دعا مانگتا ۔۔۔مجھے تو دعا مانگنی ہی نہیں آتی”! ۔۔۔اسنے حیرت سے پھٹی آنکھوں سمیت اوپر کی جانب دیکھا ۔۔۔ “اللہ” کیسا انسان ہوں میں مجھے دعا مانگنی نہیں آتی؟؟!” ۔۔۔
“افف دیر ہو گئی یار عشاء کی نماز بھی ادا کرنی ہے” ۔۔۔۔پاس سے گزرتی دو نرسوں کی آواز اسے صاف سنائی دی تھی. ۔۔وہ کرنٹ کھا کے انکی جانب مڑا تھا ۔۔۔سفید کپڑوں میں چلتی وہ دو کم عمر لڑکیاں اب کارنر سے اوجھل ہو گئی تھیں ۔۔۔لیکن اسکے دماغ “انکا” میں ایک جملہ اٹک کر رہ گیا تھا ۔۔۔”نماز ادا کرنی ہے “وہ فورا سے اٹھا تھا ۔۔۔اور تیزی سے وہاں سے نکلا تھا. ۔۔فروا نے اسے بس سر اٹھا کے جاتے دیکھا تها روکنے کی ہمت اسمیں نہیں تھی ۔۔۔وہ بمشکل اٹھی اور پریئر روم کی جانب چل دی تھی ۔۔۔اسے اپنی دوست کے لیے دعا مانگنی تھی ۔۔۔
****************************************
سینک کے قریب کھڑا وہ شاندار سا لڑکا بار بار اپنے ہاتھوں کو رگڑ رگڑ کر دھو رہا تھا. ۔۔مگر ان میں سے خون کی سرخی دھلتی ہی نہ تھی ۔۔۔اسے نفرت ہونے لگی تھی اپنے ہاتھوِں سے ۔۔۔
“خون کیوں صاف نہیں ہوتا یہ صابن ہی اچھا نہیں ہے” ۔۔۔اسنسے وحشی پن سے صابن کی ٹکیا دور پھیکنی اور اپنے ہاتھ دوبارہ کھلے پانی کے نیچے چھوڑ دیے ۔۔۔خون پھر بھی صاف نہیں ہوہا تھا ۔۔۔
دونوں ہاتھ اٹھا کے چہرے کے سامنے کیے ۔۔۔اسکے ہاتھ صاف تھے۔۔۔”بلکل صاف” مگر اسے خون آلودھ کیوں دکھ رہے تھے ؟؟۔۔۔وہ پاگل سا ہونے لگا تھا. ۔۔اور پھر یکا یک اسنے اپنے ہاتھ سینک کے اوپر لگے شیشے پر دے مارے تھے ۔۔۔شیشہ ٹوٹ گیا تھا اسکے ہاتھ زحمی ہو گئے تھے ۔۔۔اب ان میں سے لہو ٹپک رہا تھا مگر اسے درد نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔
وہ بے احتیار ہی گھٹنوں کے بل سفید فرش پے گرا تھا ۔۔۔خون کے قطرے اب اس سفید فرش کو بھی سرخ کر رہے تھے ۔۔
“یہ کیا کر دیا میں نے ؟۔۔۔اپنے ہاتھوں سے اس پر گولی چلا دی” ۔۔۔وہ شدت سے تڑپ کر چلایا ۔۔۔شادی حال کے اس ویرانے میں اسکی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔
“یہ کیا کر دیا میں نے ؟؟۔۔۔۔کیوں میں پاگل ہو گیا تھا ۔۔۔”کیوں ؟؟؟ “زور سے چلاتا وہ پاگل معلوم ہوتا تھا ۔۔۔”اگر وہ مر گئی تو میں کیا کروں گا ؟؟” وحشت سے نفی میں سر ہلاتا سینک کا کنارا تھامتے وہ کھڑا ہوہا تھا ۔۔ٹوٹے آہنینے میں اسکا عکس بھی ٹوٹا بکھرا سا تھا ۔۔
“اب کیوں تکلیف ہو رہی ہے تمہیں؟ یہی تو چاہتے تھے تم کے وہ لڑکی تمہارے سامنے ٹوٹے “۔۔۔اسکا عکس اسے نفرت سے دیکھتا بول رہا تھا ۔۔۔وہ ڈر کر ایک قدم پیچھے ہٹا تھا ۔۔
“نہیں میں ایسا کچھ نہیں چاہتا تھا” ۔۔۔اسکی آوز اب لڑ کھڑا رہی تھی ۔۔۔
“تم یہی چاہتے تھے زارون ۔۔۔تم بس اسکی انا توڑنا چاہتے تھے ۔۔۔کیوں وہ لڑکی باقی لڑکیوں کی طرح نہیں تھی ۔۔۔جس طرح ہر لڑکی تمہاری دیوانی ہو جاتی تھی وہ نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔”وہ الگ تھی” ۔۔ اسمیں خودرای تھی ۔۔۔تم بس اسے باقی لڑکیوں کی طرح اپنے لیے تڑپتے دیکھنا چاہتے تھے ۔۔۔اور دیکھو تم نے تو سچ میں اس بے چاری کو تڑپا دیا ۔۔۔اور اتنا تڑپایا کے وہ بستر مرگ تک جا پہنچی “۔۔۔۔۔عکس اس پر چلا رہا تھا ۔۔۔اسکے اپنے عکس کی آنکھوں میں اسکے اپنے لیے نفرت تھی ۔۔۔”بے انتہا نفرت” ۔۔۔(یہ ضمیر کی عدالت تھی اور یہاں سچ کے ایسے ہی کوڑے برسائے جاتے تھے) ۔۔۔
“مگر میں نے ناہل پر گولی چلائی تھی وہ خود بیچ میں آگئی “۔۔۔ایک کمزور سی دلیل اپنے دفاع میں پیش کی گئی تھی ۔۔۔
“یہی تو پاگل پن ہے تمہارا کسی کی جان لیے بنا ختم کیسے ہو سکتا تھا؟ ۔۔۔اور چلو اگر فرص کر لیتے ہیں کے گولی اگر ناہل کو ہی لگتی تب ؟؟ “عکس نے سوالیہ آبرو اٹھائی ۔۔” تب کیا خون نہ بہتا ؟؟ نہیں زارون خون تو تب بھی بہتا “۔۔۔ وہ نفی میں گردن ہلاتا بول رہا تھا ۔۔۔”تمہارے حسد نے’ تمہاری انا نے’ تمہاری خود پرستی نے ایک جان داو پر لگا دی زارون شرم کرو اب بھی تم اپنے دفاع میں بول رہے ہو !۔۔۔عکس نے نفرت سے اسے دیکھتے اسکا آحری جواز بھی رد کر دیا تو وہ بلکل ڈھے سا گیا تھا ۔۔۔
“میں معافی مانگ لوں گا “۔۔۔سرگوشی میں بڑبڑایا ۔۔۔”معافی غلطیوں کی ہوتی ہے گناہوں کی نہیں “۔۔۔ عکس نے ایک ترحم بھری نظر اس پر ڈالی اور غاہب یو گیا ۔۔۔عدالت حتم ہوئی تھی ۔۔۔وہ مجرم قرار پایا تھا ۔۔۔(اور ضمیر کی عدالت کی سزا ساری عمر کہ شرمندگی ہی تو ہوتی ہے ۔۔۔”جو پھانسی سے بھی زیادہ درد ناک ہوتی ہے “!!)
****************************************
مسجد کی ٹوٹی کے نیچے پنجوں کے بل بیٹھا آستین کہنیوں تک موڑے وہ وضو کر رہا تھا. ۔۔شدید بے قراری اسکے چہرے سے عیاں تھی ۔۔۔جانے کتنے عرصے بعد وہ وضو کر رہا تھا بار بار بھول جاتا تھا ۔۔۔کبھی پہلے “کلی” کر دیتا تو کبھی “مسخ” پہلے کر دیتا ۔۔۔
“مجھ سے وضو کیوں نہیں ہو رہا ؟؟”” بے بسی سے اسنے آسمان کی جانب دیکھا ۔۔۔۔ آنسوں اسکے چہرے کو بھگونے لگے تھے ۔۔۔۔”مجھے وضو کرنا بھول گیا ہے میرے اللہ میری مدد کر” ۔۔۔ وہ یہلی بار شدت سے رو رہا تھا ۔۔۔یہ کیسی شرمندگی تھی؟ ایک مسلمان ہوتے ہوئے بھی وہ وضو نہیں کر پا رہا تھا ۔۔۔اس کا دل کیا کے یہ زمیں پھٹے اور وہ اسمیں سما جائے ۔۔۔۔
ایک ہاتھ سینک کی ٹوٹی پے رکھے اسی بازو پر سر جھکائے وہ رو رہا تھا. ۔۔بلکل دیوانوں کی طرح ۔۔۔ یہ تھی اسکی اوقات ۔۔۔وہ “انگلینڈ کی یونیورسٹی کا برائٹ” اسٹوڈینٹ وضو بھی نہیں کر پا رہا تھا. ۔۔۔
“کیا ہوہا بیٹا رو کیوں رہے ہو؟” ۔۔۔نرم شفیق سی آواز پر وہ کرنٹ کھا کر پیچھے مڑا تھا۔۔۔وہ کوئی برزگ تھے ۔۔۔سفید داڈھی ‘سر پر سفید ٹوپی اور سفید ہی لباس پہنے وہ اسے نرم سا مسکرا کر دیکھ رہے تھے وہ بے احتیار کھڑا ہوہا تھا ۔ ۔مجھے وضو کرنا بھول گیا ۔۔۔”” وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولا ۔۔۔
“وضو کرنا کیوں چاہتے ہو ؟؟” بزرگ نے چانچتی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔
“مجھے نماز پڑھنی ہے” ۔۔۔ وہ سخت شرمندہ سا لگتا تھا
“اور نماز کیوں پڑھنی ہے ۔۔۔؟؟” وہ ہنوز اسکی آنکھوں میں دیکھتے سوال کر رہے تھے ۔۔۔
“مجھے اسکے لیے دعا کرنی ہے ۔۔۔وہ مر رہی ہے ۔۔۔میں دعا کرو گا تو وہ ٹھیک ہو جائے گی” ۔۔۔وہ جلدی سے بولا تو ان برزگ کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری ۔۔۔
پچھلی بار نماز کب پڑھی تھی۔۔؟؟
“شاید پچھلی عید پر”۔۔۔مزید شرمندگی سے اسکا سر جھک گیا تھا ۔۔۔انکی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی ۔۔۔
“واہ اتنے عرصے بعد نماز پڑھنے آئے ہو تو بھی “کسی کے لیے “۔۔۔”دعا کرو گے وہ بھی کسی کے لیے.۔۔۔؟؟”
وہ کچھ نہیں بولا بس اثبات میں سر ہلایا” انہوں نے ایک گہری سانس لی ۔۔۔”آو میں طریقہ بتا دیتا ہوں “۔۔۔وہ کہتے ہی اسکے ساتھ دوسری ٹوٹی کھول کے بیٹھ گئے ۔۔۔”بس مجھے دیکھتے رہو”. ۔۔ایک نظر اس پر ڈال کر انہوں نے وضو شروع کیا ۔۔۔تو ناہل نے بھی انہیں دیکھتے وضو مکلمل کیا ۔۔۔وضومکلمل کرتے ہی وہ کھڑے ہوئے اور بنا اس پر نظر ڈالے وہ باہر کی جانب چل دیے ۔۔۔
“آپ نماز نہیں پڑھیں گے ؟”۔۔۔ناہل نے بے احتیار ہی انہیں پکار لیا اور پلٹے اور نم آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔”میں نے نماز پڑھ لی ہے بچے تم پڑھ لو “۔۔۔۔
“تو پھر سے وضو کیوں کیا ؟؟” ناہل حد درجہ حیرت سے بولا تو وہ نم آنکھوں سے مسکراتے اس تک آئے اسکے شانے پر ہاتھ رکھ کے ہلکہ سا دبایا ۔۔۔
“جس سے مدد مانگی تھی اندر جا کے اسی سی پوچھ لو “۔۔۔ہلکہ سا اسکا شانہ تھپتھپاتے وہ کچھ لمحوں میں وہاں سے جا چکے تھے ۔۔۔وہ ششدر سا کھڑا انہیں دیکھتا رہا تھا ۔۔۔”جس سے مدد مانگی تھی ” چاروں سمت یہ جملہ رقص کر رہا تھا ۔۔۔
وہ گھٹنوں کے بل مسجد کے” سنگ مرر” کے فرش پر گرا تھا۔۔۔”اسنے تو اللہ سے مدد مانگی تھی”!! تو کیا اللہ نے اسکی مدد کی تھی ۔؟؟ ۔۔۔آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کر نکلے تھے “وہ سجدے میں گرا تھا” ۔۔۔اسے نہ تو “قبلے” کا ہوش رہا تھا نہ “جگہ” کا ۔۔۔ہوش تھا تو اتنا کے اسکا “اللہ” اسے نہیں بھولا ۔۔۔ ۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں وہ مسجد کے اندر تھا ۔۔۔”روتا ہوہا” ۔۔۔آنسوں صاف کرتا وہ لڑکا جائے نماز پے کھڑا عشاء کے فرائض کی نیت باندھ چکا تھا ۔۔۔وہ پاگل سا ہو رہا تھا ۔۔۔نماز کا سبق بھول رہا تھا ۔۔۔مگر آج اسے نماز پڑھنی تھی ۔۔۔شاید زندگی کی پہلی نماز تھی جسے وہ اس شدت سے ہڑھ رہا تھا ۔۔۔اسے یہ نماز مکمل کرنی تھی ۔۔۔صرف نایاب کے لیے نہیں اپنے لیے بھی ۔۔۔”آج اسے اپنا اللہ واپس ملا تھا “۔۔۔۔اور اسنے یہ راز جان لیا تھا کے جب اللہ مل جائے تب سب مل جاتا ہے ۔۔۔”سب کچھ ”
****************************************
ہسپتال کے ویٹنگ ایریا میں ہجوم اس وقت بلکل تم سا گیا تھا ۔۔۔اوپریشن کو چلتے دو گھنٹے ہونے کو تھے ۔۔وہ سب آنکھوں میں آنسوں لیے نایاب کے لیے دعا گو تھے ۔۔۔۔
فاروق صاب کی حالت ناقابل بیاں تھی ۔۔۔بے بسی سے سر جھکائے وہ اپنی خالی گود کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔”ابھی چند گھنٹے پہلے تو وہ ان کی گود میں سر رکھے بچوں کی طرح رو رہی تھی ،ضد کر رہی تھی ۔۔وہ اسے پچکار رہے تھے”۔۔۔ کاش انہیں پتہ ہوتا کے انکی پھول سی بیٹی کی یہ حالت ہونے والی ہے تو وہ اسے کبھی اپنی گود سے اٹھنے نہیں دیتے۔۔۔۔ٹپ ٹپ آنسوں اسکی گود میں گر رہے تھے
“وہ ٹھیک ہو جائے گی “۔۔۔سریانے انکے شانے پر ہاتھ رکھ کر تسلی آمیز لہجے میں کھا تو انہوں نے اپنی بھیگی آنکھیں اٹھا کے انہیں دیکھا ۔۔۔شدت صبط سے انکی آنکھیں بھی سرح ہو رہیں تھی ۔۔۔
“وہ ایسی ہی تو ہے سریا ۔۔۔جب بھی پریشان ہوتی ہے میری گود میں سر رکھ کے بیٹھ جاتی ہے ۔۔۔مگر آج وہ اپنے بابا سے بھی ناراص ہو گئی ہے ۔۔میری گود میں کیوں نہیں آ رہی؟ ۔۔۔کیوں وہ اندر خاموش لیٹی ہے؟” ۔۔۔وہ مرد تھے مگر رو رہے تھے ۔۔۔”شدت سے ” انکی آواز ٹوٹ رہی تھی ۔۔۔”کتنا درد ہوہا ہوگا اسے سریا جب اسے گولی لگی ہو گی ۔۔۔۔اسنے تو کبھی جھوٹ نہیں بولا کسی کا دل نہیں دکھایا ۔۔ پھر اسے یہ تکلیف کیوں ملی سریا ؟؟” وہ مزید شدت سے رونے لگے تھے ۔۔۔سریا نے بمشکل اپنے آپ کو رونے سے روکا تھا۔۔۔
“آزماہش ہے فاروق! ۔۔۔اور آزمائش تو اللہ اپنے اچھے بندوں سے ہی لیتا ہے “۔۔رکے ہوئے آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کر نکلے تھے وہ انہیں روتا چھوڑ کر ساہیڈ پے رکھے بینچ پر نڈھال سے گریں تھیں ۔۔۔”آج صبح ہی تو انہوں نے اسے ناراص کیا تھا “۔۔۔اسے کتنا کچھ کہا تھا ؟۔۔۔اسنے تو وصاحت دینےکاموقع بھی نہ دیا تھا ۔۔۔اگر وہ ایسے چلی گئی تو ؟”۔۔۔وہ گبھرا کے کھڑیں ہوہیں ۔۔۔”نہیں الله پلیز میری بچی کو کچھ نہ ہو “۔۔۔وہ جلدی سے پریئر روم کی جانب بھاگیں تھیں ۔۔۔ انہیں اپنی بیٹی کے لیے دعا کرنی تھیں ۔۔۔اور وہ ماں تھیں انہیں دعا مانگنی آتی تھی ۔۔۔
“دادو نے نم آنکھوں سے انہیں جاتے دیکھا تھا ۔۔انکا دل درد سے پھٹا جا رہا تھا ۔۔۔بھلے وہ اسے ڈانٹ لیں یا اس سے غصہ ہو لیں محبت وہ اس سے بے انتہا کی کرتیں تھیں ۔۔۔۔۔کتنا حیال رکھتی تھی وہ انکا ۔۔۔”اسکے ہاتھ کا صبح کا ناشتہ” ۔۔۔”اسکی چھوٹی چھوٹی شرارتیں” ۔۔۔اگر انہیں پتہ ہوتا کے اس شادی میں انکی پوتی کا یہ حال ہوگا تو وہ کبھی اسے یہاں نہ لاتیں ۔۔۔”آج وہ کتنی اچھی اور پیاری لگ رہی تھی شاید نظر لگ گئی تھی انکی پوتی کی خوبصورت سبز آنکھوں کو ۔۔۔جو وہ اسطرح سے انہیں بند کیے لیٹی تھی” ۔۔۔دادو نے تھک کر گہری سانس لی اور اپنی تسبی پر اسکے لیے کوئی ورد کرنے لگیں ۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں شہرین واش روم سے باہر آئی تو اسکا چہرہ دھلا تھا ۔۔۔ اسنےساری جیولری اتار کر ہینڈ بیگ میں ڈال دی تھی۔۔۔ڈوپٹہ جو کبھی زندگی میں اسنے نہیں رکھا تھا آج حجاب کی طرح سر کے گرد لپٹا تھا. ۔۔ ناہید اسے دیکھتے ہی بے چینی سے اسکے پاس آہیں ۔۔۔
“کہاں تھی تم ؟؟ کب سے ڈھونڈ رہی ہوں” ۔۔۔وہ حد درجہ فکرمندی اسے بازو سے پکڑ کر پوچھ رہیں تھیں ۔۔۔جواب میں اسنے بس اپنی حالی آنکھوں سے انہیں دیکھا ۔۔۔
ناہید کو کچھ تو عجیب لگا تھا اسکی آنکھوں میں ۔۔۔وہ پریشان ہو چکی تھیں۔۔۔شہرین نے کچھ نہیں کہا اپنا بازو نرمی سے ان کی گرفت سے چھڑوایا ۔۔۔وہ آرام سے چلتی ہوئی دادو کی وہیل چیر کے قریب آ کے گھٹنوں کے بل بیٹھی ۔۔۔سر انکی گود میں رکھا ۔۔۔
“نایاب !!” دادو جو آنکھیں موندیں تسبی پر کچھ پڑھ رہیں تھیں ۔۔۔اچانک خوشی سے چونک کے اٹھیں ۔۔۔۔شہرین نے سر اٹھا کے انہیں دیکھا تو انکی آنکھوں میں حیرت اتر آئی” شہرین تم ؟؟ ” شہرین اداسی سے مسکرائی ۔۔۔
“مجھے نماز پڑھنی ہے دادو ۔۔۔اور مجھے نماز پڑھنی نہیں آتی ۔۔۔کیا آپ مجھے نماز سیکھاہیں گی ؟؟”۔۔۔انکے ہاتھ کو محبت سے تھام کے وہ امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔دادو کچھ دیر اسکی آنکھوں دیکھتی رہی تھیں ۔۔۔پھر نم آنکھوں سے مسکراہیں جھک کے اسکا ماتھا چوما ۔۔۔”مجھے لے چلو نماز والے کمرے کی طرف ،میں نے خود بھی نماز پڑھنی ہے “۔۔دادو کے کہنے پر وہ مطمئن سی مسکرائی جلدی سے اٹھی اور انکی وہیل چیر تھامی اور اسکا رح بھی پریئر روم کی طرف موڑا ۔۔۔۔
“ناہید نے پھٹی آنکھوں سے یہ سارے مناظر دیکھے تھے ۔۔۔اسکے دماغ میں بہت سے سوال مچل رہے تھے ۔۔۔ جنکے جواب وہ واپس گھر جا کر ہی معلوم کر سکتی تھیں” ۔۔۔
مگر دادو کو اس سے کوئی سوال پوچھنے کی ضرورت نہ تھی ۔۔وہ آنکھیں پڑھنے کا ہنر جانتی تھیں ۔۔۔اور اسکی آنکھوں میں صاف لکھا تھا کے وہ سیدھے رستے کی طرف پلٹنا چاہتی ہے ۔۔۔اور دادو یہ بھی جانتی تھیں کے سیدھے رستے پے پہلا قدم رکھنے والوں سے سوال نہیں کیے جاتے بس انکا ہاتھ تھام کر انہیں “آگے” بڑھنے میں مدد دی جاتی ہے ۔۔۔(اور یہی تو خوبصورت بات تھی سیدھے رستے کی ۔۔۔)
**************************************
تین گھنٹے بعد جب ڈاکٹر ویٹنگ ایریا میں آیا تو وہ سب بے تابی سے کھڑے ہوئے تھے.۔۔۔ سب کی آنکھوں میں امیدیں جگمگا رہیں تھیں ۔۔۔بھیڑ اب زیادہ ہو چکی تھی ۔۔۔اسکے سارے سٹاف کے ممبرز بھی اب وہاں موجود تھے ۔۔۔یہ کسی بھی مریض کے لیے پہلی اتنی بھیڑ تھی جو ہسپتال میں اگھٹی ہوئی تھی ۔۔۔اس وقت وہاں اتنا سناٹا چھایا تھا سوئی گرنے کی آواز بھی آسانی سے سنی جا سکتی تھی ۔۔۔ دم سادھے، دھڑکنیں روکے وہ سب ڈاکٹر کو گھور رہے تھے ۔۔۔
ڈاکٹر نے ہلکا کا مسکرا کر سب کو دیکھا ۔۔۔۔”شی از ویری لکی! ۔۔۔گولی ذیادہ اندر تک نہیں گئی ۔۔خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئیں تھیں ۔۔۔زحم بھی تھوڑا گہرا لگا ہے ۔۔۔مگر اب وہ ٹھیک ہیں ۔۔۔تھوڑی دیر میں انہیں مکلمل ہوش آ جائے گا تو انہیں روم میں شفٹ کر دیا جائے گاپھر آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں” ۔۔۔ڈاکٹر نے ایک ہی سانس میں ان سب کے سوالوں کے جواب دے ڈالے ۔۔۔اور وہ سب جو دھیان سے سن رہے تھے ڈاکٹر کے بات ختم کرنے پر حوشی سے جھوم اٹھے ۔۔۔”تھینک یو ڈاکٹر” فاروق صاب آنکھوں میں خوشی کے آنسوں لیے بولے تو ڈاکٹر مسکراتا ہوہا وہاں سے چلا گیا ۔۔۔بسماء پرہیر روم کی جانب بھاگی تھی ۔۔۔اسے یہ خبر ان سب کو بھی دینی تھی جو اسکے لیے دعا کرنے گئے تھے
“””””””””””””””””””””””””””””””””””‘”””””””””””””
اسے ہوش آیا تو اسنے اپنے آپ کو ہسپتال کے کمرے میں پایا ۔۔۔کچھ دیر حالی دماغ لیے کمرے کی چھت کو گھورتی رہی ۔۔۔پھر ایک جھٹکے سے سب یاد آنے پر وہ گھبرا کے اٹھی ۔۔ باہیں کندھے سے درد کی ایک ٹھیس سی اٹھی ۔۔”امی” ۔۔وہ درد سے کراہی ۔۔۔
وہ سب جو اسکے پاس تھے وہ یک دم اسکے کراہنے پر اسکے قریب گئے ۔۔ “نایاب میری جان تم ٹھیک ہو”؟۔۔۔سریا بے چینی سے اس تک آہیں ۔۔جھک کر اسے گلے سے لگایا ۔۔۔وہ حیران نظروں سے سب دیکھنے لگی ۔۔سریا نے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالوں بھر کر اسکا ماتھا چوما تھا ۔۔۔ “میں ٹھیک ہوں امی “!۔۔۔۔وہ مسکرا کر انکے ہاتھ تھام کر بولی ۔۔۔آواز بلکل صاف تھی ۔۔۔اسے پہلے کے کوئی اور کچھ بولتا ۔۔۔پولیس کے اہلکار اندر آئے تھے ۔۔۔سریا نے اسے تکیے کا سہارا دے کر بیٹھایا تھا ۔۔۔
“آپ سب پیچھے ہٹیے ہمیں ان سے کچھ سوال کرنے ہیں ۔۔ ” اے ایس پی کی کڑک دار آواز آئی تو وہ سب پیچھے ہوئے ۔۔اپنی ماں کا بازو تھام کر کھڑے زارون کی دل کی دھڑکن یک دم تیز ہوئی ۔۔۔
سریا نایاب کو چھوڑتی پیچھے آکر ناہل کے ساتھ کھڑیں ہوہیں تو انسپکٹر نایاب کے پاس رکھے سٹول پر یبٹھ گیا ۔۔۔
“سو مس نایاب اب آپ ٹھیک ہیں “۔۔۔وہ پیشہ ورانہ مسکراہٹ سجائے اس سے مخاطب ہوہا ۔۔۔
“الحمداللہ “۔۔۔وہ بھی رسمی سا مسکرا کر بولی ۔۔۔
“تو پھر کچھ سوالوں کے جواب جو میں اب آپ سے پوچھنے لگا ہوں ،”آئے ہوپ” ان کے جواب آپ پورے ہوش سے اور ایمانداری سے دیں گی” ۔۔۔انسپکٹر اسے چانچتی نظروں سے دیکھا تو اسنے اعتماد سے سر اٹھا کر اثبات میں ہلایا ۔۔۔
“اس کمرے میں جس پر آپ پے گولی چلی وہاں اس وقت اور کون کون تھا ؟”۔۔۔انسپیکٹر کے سوال پر نایاب نے ایک نظر خود کو گھورتے ناہل پر ڈالی اور دوسری نظر سر جھکا کے کھڑے زارون پر ڈالی ۔۔۔اور پھر سر جھٹک کے بولی
“وہاں بس ہم تین لوگ تھے ۔۔۔میں اور میرے دو کزن “۔۔۔
“آپ انکے نام بتا سکتی ہیں ۔۔۔؟؟”
“ناہل اور زارون” ۔۔۔ہاتھ سے ان دونوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا ۔۔ تو انسپیکٹر نے بری نظر ان دونوں پر ڈالی ۔۔۔
“آپ پر گولی کس نے چلائی ۔۔۔۔؟؟” یہ وہ سوال تھا جس پر سب کی دھڑکنیں تھمی تھیں ۔۔۔اس سوال کا جواب کسی کو نہیں پتہ تھا ۔۔۔
___________________________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...