یہ سب ایک خواب ہی تو لگ رہا تھا ۔۔ یا پھر شاید وہ سب ایک خواب سے ہی تو جاگے تھے ۔۔ ایک ایسا خواب جس نے ہر ایک کو ایک دوسرے سے دور کردیا تھا ۔۔۔ جس نے ارسا ساجد سے اسکے رشتے چھین لئے تھے ۔۔ جس نے محد سے اسکی محبت دور کردی تھی ۔۔ جس نے عفان سے ارسا ساجد جدا کر دی تھی ۔۔ اور اب ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان سب کی آنکھیں کھل گئ تھیں ۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے خواب اپنے اختتام کو پہنچا تھا ۔۔۔
وہ سب اس وقت ایک ہی ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھےتھے ۔۔ فرنٹ پر صائمہ بیگم ۔۔ جانے آج کتنی دعاؤں کے بعد یہ منظر دیکھ رہی تھیں؟؟ ان کے دائیں جانب ارسا بیٹھی تھی ۔۔ اور جانے کتنے سالوں بعد وہ اپنوں کے ساتھ بیٹھی تھی ؟
ارسا کے سامنے ساحل بیٹھا تھا ۔۔ جانے آج کتنی عرصے بعد وہ اپنی بہن کے ہاتھ کا کھانا کھا رہا تھا ؟؟
ساحل کے ساتھ محد بیٹھا تھا ۔۔ اور جانے آج کتنے انتظار کے بعد وہ ارسا کو پرسکون دیکھ رہا تھا ؟؟
محد کے ساتھ ہی ایمان بیٹھی تھی ۔۔ وہ جانے کن کن باتوں سے انجان تھی ۔۔ مگر وہ یہاں سب کو اپنا مانتی تھی ۔۔
ماما کی آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔۔۔ یہ ایک مکمل منظر تھا ۔۔ مگر شاید یہ مکمل نہیں تھا ۔۔ کوئی تھا جو اس منظر سے غائب تھا ۔۔ اور وہاں بیٹھا ہر فرد جانتا تھا کہ وہ کون ہے ؟ مگر افسوس کہ وہ وہاں آنہیں سکتا تھا ۔۔ افسوس کہ اب یہ کمی ہمیشہ رہنے والی تھی ۔۔۔ ارسا ساجد نے اپنی آنکھوں کے کناروں سے نمی صاف کی تھی ۔۔ بیک وقت ماما نے بھی یہی کیا تھا ۔۔
اور پھر وہ سب کھانے کی جانب متوجہ ہوئے تھے ۔۔۔ اور پھر وہ ایک مکمل فیملی کی طرح آپس میں ہنس بول رہے تھےْ۔۔
کھانے کے بعد وہ سب اب لاؤنچ مین بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔۔ چائے ایمان نے بنائی تھی ۔۔ وہ اس ماحول میں ۔۔ ان لوگوں کے درمیان گھل مل گئ تھی ۔۔۔
’’ تم نے اب کیاسوچا ہے ؟ ’’ کچھ دیر بعد ساحل نے ارسا سے پوچھا تھا ۔۔
’’ کس بارے میں ؟ ’’ ارسا سمجھی نہیں تھی ۔۔
’’ واپس جانے کے بارے میں ۔۔ عفان خالد کے بارے میں ’’ اس سوال پر محد نے بے اختیار ارسا کی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ میں ابھی واپس نہیں جاسکتی بھائی ۔۔ مجھے یہاں بہت کام ہیں ۔۔ اب جاکر تو میں نے اپنا ایک مقام بنایا ہے ۔۔ میں اسے چھوڑ نہیں سکتی ’’ ارسا نے آدھے سوال کا جواب دیا تھا ۔۔ اور باقی کا آدھا سوال ۔۔
’’ اور عفان ؟ تم اس سے الگ کیوں نہیں ہوئی ؟ ’’ یہ ایک ایسا سوال تھا کہ جس کا جواب کو چاہ کر بھی نہیں دے سکتی تھی ۔۔ جس کے جواب سے اسے خود بھی ڈر لگتا تھا ۔۔ وہ کیسے اقرار کر سکتی تھی ۔۔ ایک ایسے شخص سے محبت کا جس کی وجہ سے وہ اس ان حالات سے گزرے تھے ۔۔
’’ کیا آپ نے اسے معاف کردیا بھائی ؟؟ ’’ اس نے سوال کے جواب میں سوال کیا تھا ۔۔ محد نے ایمان کو اشارہ کیا اور وہ وہاں سے چلی گئ تھی ۔۔ وہ ایسی ہی تو تھی ،۔۔ محد کی ہر بات خاموشی سے مان جانے والی ۔۔۔ ارسا نے اسکے لئے ایک بہترین ساتھی کا انتخاب کیا تھا ۔۔
’’ کوئی تمہیں ذرا سی بھی تکلیف دے ارسا میں برداشت نہیں کرسکتا۔۔ اس نے تو پھر تمہیں برباد کیا ہے ۔۔ اس نے تو پاپا کو ہم سے چھین لیا ہے ۔۔ میں اسے کیسے معاف کردوں ؟ ’’ محد نے دیکھا ۔۔ ساحل کی آنکھوں میں غصہ تھا ۔۔ ارسا خاموش ہوگئ تھی ۔۔ یہ اسکے پاپا کی بات تھی ۔۔ جو اب اس دنیا میں نہیں تھے ۔۔ مگر وہ کیوں نہیں تھے ؟؟ ارسا کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی ۔۔
’’ اور اسکے پاپا ؟ اسکی ماں ؟ ’’ یہ محد کی آواز تھی ۔۔ جس نے سب کو چونکا دیا تھا ۔۔
’’ آنٹی ۔۔ کیا آپ نہیں جانتیں کہ اس کہانی کی شروعات کہاں سے ہوئی تھی ۔۔ کیا کوئی نہیں جانتا کہ عفان خالد کو اس مقام پر لانے والا کون تھا ؟ ’’ وہ وہی کہہ رہا تھا جو ارسا ساجد کے دل میں تھا ۔۔ مگر اس میں ہمت نہیں تھی کہ لفظ ادا کرسکے ۔۔ مگر آج بھی ۔۔ ہمیشہ کی طرح ۔۔ محد اسکی ہمت بن گیا تھا ۔۔ اسے اپنی قسمت پر آج رشک آیا تھا۔۔۔
’’ مگر ان سب میں ارسا کا کوئی قصور نہیں تھا ۔۔ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا ۔ وہ پاپا نے کیاتھا ۔۔ ارسا تو بے گناہ تھی ۔۔ اسے کس بات کی سزا دی اس نے ؟ ’’ ساحل کی بات واقعی ٹھیک تھی ۔۔
’’ میں آپکی بات سے متفق ہوں ساحل بھائی ۔۔ ارسا بے گناہ تھی ۔۔ مگر کوئی یہ تو بتائے اس بارہ سال کے بچے کا کیا قصور تھا جس کی آنکھوں کے سامنے اسکے باپ کو قتل کردیا گیا ؟’’ یہ وہ سوال تھا جس پر ساحل بھائی بھی ٹھہر گئے تھے ۔۔ یہ وہ سوال تھا کہ جس کا جواب وہاں موجود ہر انسان کا سر جھکا گیا تھا ۔۔
’’ میرا مقصد آپ کو شرمندہ کرنا نہیں ہے آنٹی ۔۔۔ مگر سچ تو یہی ہے نہ کہ اس معصوم بچے کے ماں باپ اس سے چھین لئے گئے تھے ۔۔ سوچیں تو ذرا کہ اس نے کس طرح ان حالات کو فیس کیا ہوگا ؟ ’’ ماما کے آنکھوں سے آنسو گرےتھے اور یہ آنسو اس بار عفان خالد کے لئے تھے ۔۔ ساحل کا سر جھکا تھا ،، اور یہ سر اس بار عفان خالد کے لئے جھکا تھا ۔۔
’’ انکل کی موت ارسا کے صدمے کی وجہ سے ہوئی ۔۔ اور ارسا کے ساتھ جو کچھ ہوا اسکا ذمہ دار عفان تھا ۔۔ عفان ہے۔۔ مگر سوچیں تو ذرا کہ عفان کے والد کی موت اسکی آنکھوں کے سامنے ہوئے اور انکی موت کا ذمہ دار کون تھا ؟ اسکی ماں جو اس صدمے سے مر گئیں ۔۔ انکی موت کا ذمہ دار کون تھا ؟ ’’ اس سوال پر ساحل نے سر اٹھا کر سامنے بیٹھی ارسا کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جو سر جھکائے بیٹھی تھی ۔۔ اور وہ دیکھ سکتا تھا کہ اس وقت ارسا صرف اور صرف اسی شخص کو سوچ رہی تھی ۔۔
’’ تو پھر اس طرح تو ہم پر عفان خالد کے بہت قرض ہیں ساحل بھائی ۔۔ ہم پر اس بارہ سال کے بچے کے بہت قرض ہیں۔۔ کیا آپ ان اقراض کو نہیں ادا کرینگے ؟ ’’ محد کے سوال کر صائمہ بیگم نے اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ کیسے ؟؟ کیسے ادا کروں میں اس قرض کو ؟؟ کیسے پورا کروں میں وہ نقصان محد۔۔ جو ہماری وجہ سے اسے سہنا پڑا ؟ ’’ انکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔۔ وہ آج محسوس کر رہیں تھیں ۔۔ اس بارہ سال کے بچے کا درد ،۔۔ وہ آج محسوس کو رہی تھی ،، ضمیر کا دھکا ۔۔۔ اور ضمیر کا دیا ہوا دھکا انسان کو منہ کے بل گِرا دیتا ہے ۔۔
’’ اسے معاف کر کے ’’ اور محد کے جواب پر وہ رک گئیں تھیں ۔۔
’’ وہ معافی ڈیزرو کرتا ہے آنٹی ۔۔ کیونکہ اسنے اپنے انتقام میں بھی اپنے اعلی کردار کا مظاہرہ کیا ہے ۔۔ وہ ایک بہترین انسان ہے ’’ اور یہ وہ لمحہ تھا جب ارسا ساجد نے محد کی جانب دیکھا ۔۔ یہ وہی شخص تھا جو اسکے لئے تین سال انتظار کرنے کو تیار تھا ۔۔ یہ وہی شخص تھا جو اس کا عمر بھر کا ساتھ چاہتا تھا ۔۔ یہ وہی شخص ہی تو تھا ۔۔ جو اس سےمحبت کرتا تھا ،،
تو محبت ایسی بھی ہوتی ہے ۔۔ محبوب کی خوشی میں خوش ہوجانے والی ۔۔ محبوب کے لئے قربان ہوجانے والی ۔۔ محبوب کی راہوں سے ہر کانٹا سمیٹ لینے والی ۔۔ محبت ایسی ہی تو ہوتی ہے ۔۔ محبوب کے لئے خود کی خوشی مار دینے والی ۔۔۔
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو محد ’’ یہ ساحل بھائی کی آواز تھی جس پر ارسا نے انکی جانب دیکھا تھا ۔۔۔
’’ وہ ہمارانہیں ۔۔ صرف ارسا کا ذمہ دار ہے ۔۔ اب اس کا فیصلہ صرف ارسا کرے گی ۔۔ اور میں اور ماما اسکے ہر فیصلے میں اسکےساتھ ہیں ’’ وہ مسکرا کر کہہ رہے تھے۔۔ اور ارسا کو لگا کہ اسکی ساری دعائیں قبول ہوگئ ہوں ۔۔ وہ بھی مسکرائی تھی ۔۔ بھیگے چہرے سے ۔۔
’’ مجھے یقین تھا کہ آپ دونوں سمجھ جائینگے ۔۔ مگر اب اس ارسا کو کون سمجھائے گا ؟ ’’ محد نے اب بات کا رخ ارسا کی جانب موڑا تھا ۔۔ جس پر سب حیران ہوئے تھے ۔۔
’’ اسے کیا سمجھانا ہے ؟ ’’ یہ ماما نےپوچھا تھا ۔۔
’’ آپ نہیں جانتیں ؟؟ یہ میڈم عفان خالد کا فیصلہ چار سال پہلے کر چکی ہیں ۔۔ مگر عفان کی سزا چار سال سے چل رہی ہے ۔۔ کوئی اسے سمجھائے کہ اتنی سزا بہت ہے ۔۔ اب اور کتنا وقت ضائع کرنا ہے اس نے ؟ ’’ محد کی بات پر سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ دیکھو یہ فیصلہ تو اب میری بہن کا ہے ۔۔ وہ جتنی چاہے اسے سزا دے ۔۔ میں اس کے ساتھ ہوں ’’ ساحل نے آنکھ مارتے ہوئے کہا تھا ۔۔ ماما بھی مسکرائیں تھیں ۔۔
’’ آپ ہی نے اسے بگاڑا ہے ۔۔ ایمان ۔۔،یہاں آؤ ’’ محد نے اب ایمان کو آواز دی تھی ۔۔ جو کے فوراً ہی آگئ تھی ۔۔
’’ بھئی تم ہی اسے سمجھاؤ کہ محبت کرنے والوں کو اتنا نہیں تڑپاتے ’’ محد نے آنکھ مار کر کہا تھا ۔۔ اس کے اس انداز پر جہاں ایمان حیران ہوئی تھی ۔۔ وہی وہاں موجود ہر انسان کے ہونٹوں پر ہنسی آئی تھی ۔۔۔ جانے کتنے دنوں بعد وہ سب ہنسے تھے ۔۔۔ جانے کتنے عرصے بعد وہ سب پرسکون تھے ۔۔۔
وہ آج تین دن بعد آفس آئی تھی ۔۔ بہت سا کام تھا جو اسکا منتظر تھا ۔۔ سٹاف سے اسے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ باس اب تک آفس نہیں آئے ہیں ،،،
’’ جانے اس انسان کا صدمہ کب کم ہوگا ’’ وہ بس سوچ کر رہ گئ تھی ۔۔ اس وقت وہ اپنے لیپ ٹاپ میں مصروف تھی ۔۔ کچھ غور سے سکرین کو دیکھتی ۔۔ کبھی قلم اٹھا کر ساتھ رکھی فائیل کر کچھ لکھنے لگتی ۔۔ وہ اسی کام میں معروف رہی ۔۔ جانے کتنا وقت ؟ جب کوئی اسکے آفس میں آیا تھا ۔۔ وہ اتنی مگن تھی کہ اسکی آمد کا اندازہ بھی نہیں ہوا تھا ۔۔
وہ اب تھوڑا جھکا تھا۔۔ اور ہاتھ کی انگلی سے اسکی ٹیبل پر دو بار ناک کیا تھا ۔۔۔ وہ چونکی تھی ۔۔ اس نے دیکھا وہ اسکی جانب جھکا تھا ،۔ اسکی چئیر کے بلکل پاس کھڑا وہ اسے ہی دیکھ رہاتھا۔۔ بہت غور سے ۔۔ ایک مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ۔۔ اس نے بے ساختہ اپنی چئیر تھوڑی پیچھے کی تھی ۔۔
’’ آپ ۔۔۔ ’’ وہ اسے اچانک دیکھ کر گھبرا گئ تھی۔۔۔
’’ آپ یہاں ؟؟ کیسے ؟؟؟ ’’ اس نے اٹکتے ہوئے پوچھا تھا۔۔ وہ اب بھی ویسا ہی جھکا کھڑا تھا ۔۔
’’ کیوں ؟؟؟ کیا میں یہاں نہیں ہوسکتا ؟؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ نہیں میرا مطلب ہے ۔۔ ’’ اب ارسا اپنی چئیر سے کھڑی ہوئی تھی ۔۔ اس سے تھوڑی دور ۔۔
’’ میرا مطلب ہے کہ آپ اندر کب آئے َ؟ ’’ اسے واقعی اسکے آنے کا معلوم نہیں ہوا تھا ۔۔ ابھی تو منیجر نے اسے بتایا تھا کہ وہ آج بھی نہیں آیا تھا تو پھر وہ اب یہاں اچانک کیسے آگیا ؟؟
’’ جب آپ اپنے کام میں مگن تھیں ’’ وہ سیدھا ہوا تھا ۔۔
’’ یا پھر ۔۔۔ ’’ وہ اب اسکی جانب بڑھا تھا ’’ آپ اپنے ہسبنٹ کے خیالوں میں مگن تھیں ’’ وہ اسکے سامنے کھڑا اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔
’’ ہسبنٹ ؟ ’’ ارسا نے بے اختیار کہا تھا ۔۔ کیا وہ جانتا تھا ؟
’’ جی ۔۔ آپکے ڈاکومنٹس میں لکھا ہے کہ آپ میریڈ ہیں۔۔۔ کیا آپ نہیں ہیں ؟؟ ’’ اس نے تصدیق چاہی تھی ۔۔ یا پھر وہ کچھ سننا چاہتا تھا ۔۔
’’ جی ۔۔ آفکورس آئی ایم ۔۔ ایسے ہی تھوڑی لکھا ہے ‘‘ اس نے جواب دیاتھا۔۔ بلکل نارمل ہوکر ۔۔
’’ تو پھر ۔۔ کیسے ہیں وہ ؟؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ بہت اچھے ہیں ۔۔ آپ بتائیں باس ۔۔ کافی دنوں بعد آنا ہوا ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔
’’ بس میں بھی کافی دنوں سے اپنی وائف کی یادوں میں گم تھا اس لئے آہی نہیں سکا ’’ عفان نے مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ کہا تھا ۔۔ اور ارسا رک گئ تھی ۔۔ اسےلگا شاید اسے سننے میں کچھ غلطی ہوئی تھی ۔۔
’’ وائف ؟؟ ’’
’’ یس مائی وائف ۔۔ یو ڈونٹ نو ؟؟ آئی ایم آلسو میریڈ ’’ وہ کہہ رہا تھا ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ ۔۔ اور ارسا ساجد کو لگا جیسے کچھ ہوا تھا ۔۔ دل میں ۔۔ کہی کوئی درد اٹھا تھا ۔۔ اسے لگا کہ وہ اب کچھ بول نہیں سکے گی ۔۔ اسے لگا کہ جیسے خوشی کی عمر اتنی ہی تھی ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔۔ اور وہ چاہ کر بھی اسے روک نہیں پارہی تھی ۔۔۔
عفان دیکھ سکتا تھا اسکے بدلتے تعصورات کو ۔۔ وہ محسوس کر سکتا تھا ارسا کے جذبات کو ۔۔ آخر وہ بھی تو انہیں سے گزر کر یہاں تک آیا تھا ۔۔ اس نے دیکھا اسکی آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔۔ جسے روکنے کے لئے اس نے اپنا چہرہ جھکا لیا تھا ۔۔
جانے کیوں مگر ارسا ساجد اسے اس طرح اچھی نہیں لگ رہی تھی ۔۔ وہ اسے کچھ سیکنڈز کے لئے اداس نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔ اسکا اپنا دل بھی اداس ہوجاتا تھا ،۔۔ اس نے اسکی طرف قدم بڑھائے تھے ۔۔ وہ اسکے بلکل قریب ہوا تھا ۔۔ ارساکی گردن اب بھی جھکی ہوئی تھی ۔۔ عفان نے اپنا چہرہ اس کے کان کے قریب کیا تھا ۔۔ ارسا چونکی تھی ۔۔ وہ اب اسکے کان کے پاس کوئی سرگوشی کر رہا تھا اور ارسا ساجد حیرت سے وہی جم گئ تھی ۔۔جبکہ عفان خالد اب پیچھے ہوا تھا ۔۔ ایک مسکراہٹ اس پر اچھال کر وہ اس آفس سے باہر نکل چکا تھا ۔۔ اور ارسا ساجد اب بھی وہی کھڑی رہ گئ تھی ۔۔ عفان کے الفاظ اب بھی اسکےکانوں میں گونج رہے رہے ۔۔
’’ میرا میرڈ ہونا تمہیں اتنا اداس کیوں کر رہا ہے ۔۔۔ مائی ڈئیر وائف ؟ ‘’
تو عفان خالد سب جان چکا تھا ْ۔۔۔ مگر کیسے ؟؟ اور اس سوال کے جواب میں صرف ایک ہی نام تھا جوکہ اسکے دماغ میں آیا تھا ۔۔ اس نے فوراً میز پر رکھا اپنا موبائیل اٹھایا تھا ۔۔
’’ کیوں کیا تم نے ایسا ؟ ’’ کال ریسیو ہوتے ہی اس نے پہلی بات کہی تھی ۔۔
’’ تمہارے لئے ’’ محد نے پر سکون انداز میں جواب دیا تھا ۔۔
’’ میرے لئے ؟؟ محد تمہیں اندازہ ہے کہ اب وہ انسان کیا کرے گا ؟ ’’ اسے محد پر شدید غصہ آرہا تھا ۔۔
’’ کیا کرے گا ؟ ’’ دوسرے جانب وہ پرسکون تھا ۔
’’ میرا سکون تباہ کردیگا وہ ’’ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے کیسے سمجھائے ؟
’’ تو اچھی بات ہے ۔۔ تم نے بھی تو بہت لوگوں کا سکون تباہ کیا ہے ’’ وہ مسکرایا تھا ۔۔
’’ یہ تم اسکے کچھ زیادہ ہی ہمدرد نہیں بن رہے ؟’’ اسے محد کا یہ بدلاؤ برا لگا تھا ۔۔
’’ میں تو تمہارا ہمدرد ہوں ۔۔ اسی لئے تو کہہ رہا ہوں ارسا ۔۔ اب بس کردو ۔۔ کیا چار سال کی سزا بہت نہیں ہے ؟ ’’ وہ اب سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ لیکن پھر بھی محد تم نے اسے کیوں بتایا ؟ ’’ وہ اسکی بات سمجھ رہی تھی ۔۔
’’ اس نے مجھے اور ایمان کو ریسٹورانٹ میں دیکھ لیا تھا ۔۔ اور وہ میرے پاس آیا ۔۔۔ شدید غصے میں ۔۔ جانتی ہو کیوں ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ کیوں ؟ ’’
’’ کیوںکہ اسے لگا کہ میں تمہیں دھوکا دے رہا ہوں ۔۔ اسے لگا کہ میں ارسا ساجد کا ہوکر کسی اور سے افئیر چلا رہا ہوں ۔۔ اسے لگا کہ ارسا ساجد کو ایک اور چوٹ لگنے والی ہے ،۔۔ اور وہ ارسا ساجد کا سوچ کر میرے پاس آیا تھا ۔۔۔ اسکی آنکھیں غصے سے لال تھیں ۔۔ اسکی آنکھوں میں تمہارے اس دکھ کی چنگاری تھی جو تمہیں ملا ہی نہیں ۔۔ سوچو ارسا اب ایسے انسان کو دھوکے میں رکھنا کہاں کا انصاف تھا ؟ ’’ وہ کہہ رہا تھا اور ارسا خاموش ہوگئ تھی ۔۔ وہ اب کچھ کہہ نہیں سکی تھی ۔۔
’’ تم نے اسکی کمپنی کیوں جوائن کی تھی ؟ ’’ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد محد نے پوچھا تھا ۔۔
’’ تم جانتے ہو ’’
’’ فرض کرو کہ میں نہیں جانتا تو بتاؤ ۔۔ کیوں جوائن کی اسکی کمپنی ؟ کیوں اسکے سامنے آئی ۔۔جان بوج کر ’’ اس نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا تھا ۔۔
’’ کیونکہ کبھی کبھی محبت سے دور ہونا پڑتا ہے ۔۔ محبت کے پاس جانے کے لئے ’’ یہ ارسا ساجد کے الفاظ تھے جن میں تمام جواب موجود تھے ۔۔۔
’’ تو پھر جاؤ ۔۔ کیوں دیر کر رہی ہو ’’ محد کی بات پر اسکےہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ ہاں شاید وقت آگیا ہے ۔۔ ’’
’’ وقت آتا نہیں ۔۔ وقت لایا جاتا ہے ۔۔ اور تم وقت لے آئی ہو ’’ محد نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔
’’ تھینک یو محد ’’
’’ کس لئے ؟ ’’ محد نے پوچھا تھا ۔۔
’’ وقت لانے میں میرا ساتھ دینے کے لئے ’’ اس نے دل سے کہا تھا ۔۔ یہ وہی تو تھا جس کی بدولت آج تو اس مقام پر تھی ۔۔
’’ ساتھ دینا تو لازم تھا ’’ یہ محد کے الفاظ تھے جو ہمیشہ کی طرح اسے مسکرانے پر مجبور کر دیتے تھے ۔۔
’’ چلو ۔۔ شام کو ملتے ہیں ’’ اس نے لیپ ٹاپ کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔۔ جہاں اسے بہت سا کام کرنا تھا ۔۔
’’ اوک بائے ’’ اس نے کہہ کر کام کٹ کی تھی ۔۔ اب وہ دوبارہ اپنے لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوئی تھی ۔۔ ہونٹوں پر ایک مخصوص مسکراہٹ تھی ۔۔ جانے کتنے سال بعد ؟
وہ ارسا سے مل کر اپنے آفس میں آیا تھا ۔۔ جب اس کے پیچھے پیچھے حاشر بھی آفس میں داخل ہوا تھا ۔۔
’’ کیسے ہیں باس آپ ؟ ’’ وہ اس سے مسکرا کر پوچھ رہا تھا ۔۔ عفان اپنی میز کے پاس رکھی کرسی پر جاکر بیٹھا ۔۔
’’ تم مینرز بھول رہے ہو حاشر ’’ اس نے سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔
’’ او ’’ حاشر اب دوبارہ آفس کےباہر گیا ۔۔ پھر اگلے ہی لمحے دروازہ ناک کیا ۔۔
’’ کم ان ’’ عفان نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ کیسے ہیں باس آپ ؟ ’’ اس نے سامنے کھڑے ہوکر اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ بہت اچھا ہوں ’’ خوشگوار آواز تھی ۔۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ۔۔ جانے کتنے عرصے بعد حاشر نے عفان خالد کا یہ روپ دیکھا تھا ۔۔ بے اختیار دل نے دعا مانگی تھی ۔۔ اس مسکراہٹ کے قائم رہنے کی ۔۔
’’ جی وہ تو اندازہ ہوچکا ہے ۔۔ آپکی مسکراہٹ دیکھ کر ’’ اب وہ بھی مسکرا رہا تھا۔۔
’’ تم ٹھیک کہتے تھے حاشر ۔۔ محبت کی آزائش کبھی خالی ہاتھ نہیں رہنے دیتی ۔۔ صلہ ملتا ہے۔۔ کسی نہ کسی صورت ۔۔ کسی نہ کسی موڑ پر ’’ کرسی پر ٹیک لگائے وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔۔
’’ یہ بھی محبت کرنے والے پر منحصر ہے سر ۔۔ کہ وہ کتنا ثابت قدم رہتا ہے ۔۔ اور آپ رہے ۔۔ اس لئے صلہ ملنا تو لازم تھا ’’
’’ میں نے کہاتھا تمہیں۔۔ بس ایک وہی ہے ۔۔ جو سارے زخم بھر سکتی ہے ۔۔ جو مجھے زندہ کرسکتی ہے ۔۔ اور دیکھو اس نے کردیا ۔۔ وہ ارسا ساجد ہے ۔۔ اور وہ اپنی بات سے مکرنے والوں میں سے نہیں ہے ’’ حاشر نے دیکھا ۔۔ اسکے انداز میں ایک فخر تھا ۔۔ اور فخر تو ہونا ہی تھا ۔۔ جب محبوب مخلص ہوجائے تو محبت کو غرور آہی جاتا ہے ۔۔
’’ اب آگے کیا کرنا ہے ؟؟ ’’ حاشر نے اس سے پوچھا تھا ۔۔
’’ ولیمہ ’’ اس نے بات پر حاشر کا حیرت سے منہ کھل گیا تھا ۔۔
’’ واٹ ؟؟ ’’
’’ کیا میں نے کوئی انوکھی بات کی ہے ؟ ’’ وہ اپنے پرانے انداز میں کہہ رہا تھا ۔۔
’’ نہیں ۔۔ مگر یہ کچھ جلدی نہیں ہے ؟ ’’ اسے واقعی سمجھ نہیں آرہی تھی ۔
’’ پانچ سال ۔۔ نکاح کے پانچ سال بعد ولیمہ تمہیں جلدی لگ رہا ہے ؟ ’’ وہ اسے گھورتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔
’’ مگر شادی ؟؟ ’’ حاشر نے اسے ایک اور رسم یاد دلائی تھی ۔۔
’’ شادی ہمارا مسئلہ ہے ۔۔ ’’ اس نے اب اپنے ٹیبل کر دراز سے ایک لفافہ نکال کر اسکے سامنے رکھا تھا ۔۔
’’ یہ ٹکٹز ہیں ۔۔ چار دن ہیں تمہارے پاس ولیمے کی تیاری کے لئے ۔۔ چار دن بعد ہمیں ولیمہ چاہئے ’’ وہ کہہ کر فوراً کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ مگر ۔۔۔ شادی ؟؟ ’’ اسکی سوئی اب بھی وہی اٹکی ہوئی تھی ۔۔
’’ میں نے کہا حاشر شادی ہم دونوں کا مسئلہ ہے ۔۔ تمہیں جو کام دیا ہے وہ کرو ’’ اس نے اب اٹل لہجے میں کہا تھا ۔۔
’’ اوک باس ’’ اس نے میز پر رکھا لفافہ اٹھایا تھا ۔۔ عفان ان آفس سے باہر نکلا تھا ۔۔ حاشر بھی اسکے پیچھے ہی باہر آیا اور اس نے دیکھا عفان ان ارسا کے آفس کی جانب جارہا تھا ۔۔
’’ ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا اور یہ دوبارہ انکے پاس جارہے ہیں ۔۔ یہ محبت بھی نا ’’ افسوس سے سر ہلاتے ہوئے اب وہ باہر نکلا تھا ۔۔ اس نے فوراً پاکستان پہنچ کر ولیمے کی تیاری کرنی تھی ۔۔
وہ اپنے کام میں مگن تھی ۔۔ جب دوبارہ وہ دروازہ کھول کر اندر آیا تھا ۔۔ اس نے دیکھا وہ اسی کی جانب آرہا تھا ۔۔ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ۔۔
’’ آپ ۔۔پھر سے ؟ ’’ وہ اسے دوبارہ دیکھ کر تھوڑی حیران ہوئی تھی ۔۔
’’ کیوں ؟؟ کیا میں اپنی ڈئیر وائف کے پاس ’’ پھر سے ’’ نہیں آسکتا ؟ ’’ اس نے پھر سے لفظ پر زور دیا تھا ۔۔
’’ کیوں آئے ہیں آپ ؟ ’’ اسکے ڈئیر وائف کہنے پر وہ سر جھکا گئ تھی ۔۔۔
’’ تمہیں لینے ’’ اس نے اپنے مخصوص حکم دینے والے انداز میں کہا تھا ۔۔
’’ کہا جانا ہے ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔
’’ آپ کے لئے یہ جاننا ضروری نہیں ہے مسز ارسا عفان ‘‘ وہ کہہ کر پلٹا تھا ۔۔ جبکہ ارسا کو اسکے انداز پر غصہ آیا تھا ۔
’’ مگر میں کام کر رہی ہوں ’’ اس کے کہنے پر وہ رکا تھا ۔۔
’’ آپ میری کمپنی پر ۔۔ میری ورکر بن کر کام کر رہی ہیں ۔۔ اور اپنے باس کی بات ماننا آپکی جاب کا حصہ ہے ’’ وہ کہہ کر آفس سے باہر نکلا تھا ۔۔
’’اللہ تمہیں پوچھے گا محد ’’ اسے ان سب کا قصوروار محد لگا تھا ۔۔ اپنا موبائیل اور بیگ اٹھا کر وہ عفان کے پیچھے بھاگی تھی۔
یہ ایک ریسٹورانٹ تھا ۔۔ جہاں تھرڈ فلور کے کونے کی ایک میز پر وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔۔۔ خاموشی دونوں طرف تھی ۔۔ مگر دونوں کی خاموشی الگ الگ معنی لئے ہوئے تھی ۔۔ ارسا ناراض سی خاموشی کے ساتھ نظریں مرر وال سے باہر جمائے بیٹھی تھی ۔۔ جبکہ عفان مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ اپنی نظریں اس پر ٹکائے بیٹھا تھا ۔۔ اس کی نظریں ارسا کو ڈسٹرب کرنے لگی تھیں ۔۔ مگر وہ کچھ بھی کہہ کر اسے اپنے پیچھے نہیں لگانا چاہتی تھی ۔۔
’’ تم پوچھوگی نہیں ؟؟ ’’ کافی دیر کے بعد اس نے کہا تھا ۔۔
’’ کیا؟ ’’ کافی دیر بعد اس نے سوال کیا تھا ۔۔
’’ یہی کہ کیسے گزرے یہ چار سال ؟ ’’ وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔۔ ارسا نے دیکھا وہ اس وقت بے حد سنجیدہ لگ رہا تھا ۔۔
’’ کیسے گزرے ؟ ’’ اس نے وہی سوال کیا تھا جو وہ سننا چاہتا تھا ۔۔
’’ ایسے جیسے میں ہوکر بھی نہ ہوں ۔۔ پیروں میں اپنے زخم تھے کہ چلنا محال ہوگیا تھا ۔۔ درد اتنا شدید تھا کہ لگتا تھا جیسے کسی بھی وقت دم ٹوٹ جائے گا ۔۔ مگر پھر مجھے یقین تھا کہ جس سفر میں تم مجھے چلنے کا کہہ گئ تھی ۔۔ وہاں اکیلا نہیں چھوڑوگی ۔۔ تم آؤگی ’’ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ سکتی تھی ۔۔اسکی سچائی ۔۔
’’ اگر میں نے واقعی سائن کر لئے ہوتے تو ؟؟ ’’ اس نے عفان کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔ وہ اس سوال پر خاموش تھا۔
’’ اگر واقعی میں نے محد سے شادی کر لی ہوتی تو ؟ ’’ اس کے دوسرے سوال پر عفان کے تعصر بدلے تھے ۔۔ ایسےجیسے کوئی ناپسندیدہ بات سن لی ہو ۔۔ ایسے جیسے یہ الفاظ دل کو چیرتے ہوں ۔۔
’’ میں ایسا سوچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ارسا ۔۔ ایسی سوچ کوئی ڈالنے کی کوشش بھی کرتا تو میں اس سے میلوں دور چلا جاتا تھا ۔۔ مگر وہم تو ہوتا تھا ۔۔ ’’ وہ رکا تھا ’’ وہم تو ہوتا تھا ۔۔ کہ کبھی ایسا ہوا ۔۔ کبھی کسی موڑ پر تمہیں اسکے ساتھ دیکھ لیا تو کیا کرونگا ؟ ’’ اس کے چہرے پر ایک ڈر تھا ۔۔ ایسا ڈر کے جیسے وہ اب بھی اک وہم میں ہو ۔۔
’’ کیا کرتے ؟ ’’ وہ آگے بھی سننا چاہتی تھی ۔۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ پھر کیا کرتا عفان خالد ؟؟ کیا وہ اس سفر کو روک دیتا ؟
’’ کچھ نہیں ۔۔ میں چلتا رہتا ۔۔ زخمی پاؤں ۔۔ اس آس پر ۔۔ کہ کبھی تو ملے گا ۔۔ مجھے میری آزمائش کا صلہ ’’ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔۔
’’ تم نے میرے لئے یہ سزا کیوں چنی تھی ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔ ایک ایسا سوال ۔۔ جسکا جواب چار سال پہلے سے اسکے پاس موجود تھا ۔۔
’’ محبت ایک مجسمہ ہوتی ہے ۔۔ ایک ایسا مجسمہ جو ہر پل ڈرتا رہتا ہے کہ کہی کوئی طوفان ، کوئی آندھی، یا کوئی ایسی نوکیلی چیز اسے نہ لگ جائے جو اسے توڑ دے ۔۔ محبت کا یہ مجسمہ بہت ڈرپوک ہوتا ہے ۔۔ اپنے ٹوٹنے سے ڈرتا ہے ’’ وہ کہہ رہی تھی ۔۔ اور اسکی بات کا مطلب شاید عفان خالد سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا ۔۔
’’ اور ڈر ڈر کر جینا سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے ’’ اس نے مزید کہا تھا ۔۔
’’ تم نے عفان خالد کی محبت کے مجسمے کو ان طوفانوں کی زد میں چھوڑ دیا ۔۔ اور ہاں ۔۔ ڈر ڈر کر جینا بہت تکلیف دے تھا ارسا ’’ وہ اب آگے کو جھکا تھا ۔۔ اسکے چہرے کے قریب ’’ مگر عفان خالد کی محبت کا مجسمہ اتنا مضبوط اور پائیدار ہے کہ کوئی آندھی ۔۔ کوئی طوفان اسے توڑ نہیں سکتا ’’ وہ اسکی آنکھوں میں جھانک کر بول رہا تھا ۔۔ اور ارسا ساجد اسکی آنکھوں میں محبت کا طوفان دیکھ کر مسکرا دی تھی۔۔ اب وہ بھی آگے کو جھکی تھی ۔۔ اسکے چہرے کے قریب۔۔
’’ لنچ بھی کروائینگے یا باتیں ہی کرینگے بس ’’ اور یہ تھا ارسا ساجد کا جواب ۔۔ عفان خالد کو پہلی بار اسکا بولنا برا لگاتھا ۔
’’ ابھی کرتا ہوں آرڈر ’’ وہ فوراً پیچھے ہوا تھا ۔۔ اور اب وہ ویٹر کو آرڈر دے رہا تھا جبکہ ارسا اسے مسکرا کر دیکھ رہی تھی ۔۔
وہ کھانے کے بعد آفس آگئے تھے۔۔ اور اس کے بعد سارا ٹائم دونوں اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے ۔۔ شام ارسا اپنا کام ختم کر کے گھر جانے کے لئے کھڑی ہوئی تھی ۔۔جب منیجر اسکے آفس میں آیا تھا ۔۔
’’ ارسا میڈم ۔۔ باس نے کہا ہے کہ وہ آپکے ساتھ جائینگے اس لئے آپ تھوڑا ویٹ کریں ۔۔ انکا کام ختم ہونے والا ہے’’’ منیجر کے انداز پر وہ تھوڑی حیران ہوئی تھی ۔۔
’’ یہ آپ مجھے میڈم کیوں کہہ رہے ہیں ؟؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ آپ میڈم ہی تو ہیں اب ’’ منیجر مسکرایا تھا ۔۔
ارسا اب اسکے سامنے آکر کھڑی ہوئی تھی ۔۔
’’ یہ بات تو آپ بہت پہلے سے جانتے تھے ۔۔ مگر پہلے تو کبھی آپنے مجھےمیڈم نہیں کہا ’’
’’ جی ہاں ۔۔ مگر تب تو باس یہاں نہیں تھے مگر اب تو وہ ہیں ’’ منیجر کی بات پر وہ مسکرائی تھی ۔۔
’’ لیکن اس وقت بھی تو باس یہاں نہیں ہیں نا ؟ ’’ اس نے آگے کو جھک کر سرگوشی کی تھی ۔۔
’’ ویسے آپنے باس کو بہت تنگ کیا ہے ’’ منیجر اب اپنے پرانے انداز میں اس سے مخاطب ہوا تھا ۔۔
’’ تمہارے باس نے بھی مجھے بہت تنگ کیا تھا ’’ مسکرا کر کہتے اس نے اپنا بیگ اٹھایا تھا ۔۔
’’ یہ تو ہے ۔۔ آپ دونوں ایک دوسرے کے لئے پرفیکٹ ہیں ’’ منیجر کی بات پر اسکی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
’’ آئی نو ’’ وہ کہہ کر باہر نکلی تھی جب وہ دوبارہ اسکے پیچھے آیا تھا ۔۔
’’ باس نے آپکو انتظار کرنے کا کہا ہے ’’ اسکے ساتھ چلتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا ۔۔ ارسا نے اب لفٹ آن کی تھی ۔۔
’’ اپنے باس سے کہو ارسا ساجد کا انتظار ختم ہوچکا ہے ’’ وہ کہہ کر لفٹ کے اندر گئ تھی ۔۔ جبکہ منیجر وہی کھڑا رہ گیا تھا۔۔
’’ یہ دونوں بہت عجیب ہیں ’’ وہ کہہ کر اب باس کے آفس کی جانب گیا تھا ۔۔
وہ جس وقت فلیٹ میں پہنچی تھی وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔ اس نے پورا فلیٹ دیکھ لیا مگر ماما اور ساحل اسے نہیں ملے تھے ۔۔ اس نے انکے نمبر ڈائل کئے تھے مگر کسی کا بھی نمبر نہیں لگ رہا تھا ۔۔ وہ اب پریشان ہوگئ تھی ۔۔ جانے سب کہاں گئے ؟ اس نے اب محد کو کال کرنے کا سوچا ہی تھا کہ اسکی نظر سامنے میز پر رکھے اس گلاس پر پڑی تھی جس کے نیچے ایک کاغذ تھا ۔۔ اس نے آگے بڑھ کر وہ کاغذ کا ٹکڑا اٹھایا تھا ۔۔ جس میں کچھ لکھا تھا ۔۔
’’ وہ سب حاشر کے ساتھ پاکستان جاچکے ہیں ۔۔ ہمارے ولیمے کی تیاری کرنے ۔۔ اب صرف ہم دو ہی ہیں ڈئیر وائف ’’ کاغذ پر لکھی تحریر پڑھ کر اسکا منہ حیرت سے کھل گیا تھا ۔۔
’’ یہ کب ہوا ؟ ’’ اس نے اب محد کو کال ملائی تھی۔۔ اور کال لگ بھی گئ تھی ۔۔
’’ کہا ہو تم ؟ ’’ اس نے کال ریسیو ہوتے ساتھ پوچھا تھا۔۔
’’ اپنے پیارے پاکستان میں ’’ محد کی مسکراتی آواز آئی تھی۔۔
’’ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم مجھے اکیلا چھوڑ کر جاسکتے ہو ’’ ارسا کو واقعی یقین نہیں آرہا تھا ۔۔ محد اسے اکیلا کیسے چھوڑ سکتا تھا ۔۔
’’ تم اکیلی ہوتی تو نا چھوڑتا ۔۔ مگر تم اکیلی کہاں ہو ۔۔ تمہارے ساتھ تمہاری محبت ہے ’’ جواب بھی فوراً ہی آیا تھا ۔
’’ اف محد ۔۔ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ؟ اور بھائی اور ماما کہاں ہے ؟ ’’ اسے اب انکا بھی خیال آیا تھا ۔۔
’’ وہ تو کراچی گئے ہیں ۔۔۔ نیشا بھابھی کو لے کر یہاں واپس آجائینگے کل تک ’’ محد کی بات سے وہ کچھ مطمئن ہوئی تھی۔
’’ مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا تم مجھے بنابتائے کیسے چلے گئے ؟ ’’
’’ کام ہی اتنا تھا کہ بتانے کا ٹائم ہی نہیں ملا ۔۔تمہارے ولیمے کی تیاری کرنی ہے اور میری بیگم نے شاپنگ بھی ’’ وہ تو جیسے بہت ہی مصروف تھا ۔۔
’’ میرے ولیمے کی تیاری ہورہی ہے اور مجھے ہی نہیں معلوم ؟ ’’ اسے اب غصہ آرہا تھا ۔۔
’’ ایسے مت کہو ۔۔ میرے سامنے ہی اس نے تمہیں خط لکھا تھا ’’ وہ اب اسے چھیڑنے لگا تھا ۔۔
’’ تم بہت بدل گئے ہو محد ’’ اس نے اب شکایت کی تھی ۔۔
’’ شادی کے بعد سب ہی بدل جاتے ہیں ۔۔ تمہیں کس نے کہا تھا میرے لئے کوئی اور بیوی تلاش کرنے کا ؟ ’’ اب وہ سنجیدہ ہوا تھا ۔۔
’’ اف ۔۔۔ ’’ اس نے کہہ کر کال کٹ کر دی تھی ۔۔ جبکہ دوسری جانب موجود محد نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کی تھی ۔۔ محبت انسان کو اداکار بھی بنادیتی ہے ۔۔
جانے کتنی بار عفان نے اسے کال کی تھی مگر اس نےاسکی کال ریسیو نہیں کی تھی ۔۔ اسے اس پر شدید غصہ تھا وہ ہمیشہ اسی طرح اسے حیران کر دیتا تھا ۔۔ جانے اسے کیا مزا آتا تھا سارے فیصلے خود کر کے ۔۔
اگلی صبح اسے عفان کی گاڑی اپنے فلیٹ کے سامنے نظر آئی تھی ۔۔ یقیناً وہ اسے لینے آیا تھا مگر ارسا کا غصہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا ۔۔ اسے اگنور کرتی وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھی اور فوراً سے گاڑی آگے بڑھا دی ۔۔ جبکہ عفان اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔
’’ یہ اس میں بہت زیادہ اکڑ نہیں آگئ ؟ ’’ خود سے کہتے اس نے گاڑی سٹارٹ کی تھی ۔۔
وہ اپنے آفس میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ اسکی میز پر رکھا ٹیلیفون بجا تھا ۔۔
’’ یس ’‘’ اس نے ریسیور اٹھا کر کہا تھا ۔۔
‘’ فوراً میرے آفس میں آؤ ’’ ایک آرڈر پاس ہوا تھا ۔۔ اور کال بند ہوگئ تھی ۔۔
’’ یہ انسان کبھی نہیں بدل سکتا ’’ اس نے کہہ کر ریسیور رکھا تھا ۔۔ اور اب مجبوراً ہی سہی اسے اسکے آفس جانا پڑا تھا ۔۔
دروازہ ناک کیا گیا تھا ۔۔ اندر بیٹھا عفان خالد جوکہ ایک فائل پر جھکا تھا اس نے باہر موجود انسان کو کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
دروازہ دوبارہ ناک کیا گیا تھا ۔۔
’’ کم ان ’’ اس نے اب جواب دیا تھا ۔۔ مخصوص پرفیوم کی خوشبو آنے والے کے ساتھ اسکے آفس میں داخل ہوئی تھی ۔۔ اس نے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا ۔۔ وہ جانتا تو تھا کہ سامنے کون ہے ۔۔
’’ آپنے بلایا باس ؟ ’’ اسکے سامنے کھڑے ہوکر اس نے کہا تھا ۔۔
’’’ یس مس ارسا پلیز ہیو آسیٹ ’’ اس نے سامنے رکھی کرسی کی جانب اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔ انداز پروفیشنل تھا ۔
ارسا اب اس کرسی پر بیٹھی اسکی بات کی منتظر تھی ۔۔ جوکہ اب اسکی جانب متوجہ ہوا تھا ۔۔
’’ سو مس ارسا ۔۔ ہماری اوپننگ کی کامیابی میں سب سے بڑا ہاتھ آپکا تھا ۔۔ آپکے ڈیزائینز بہت یونیک تھے ۔۔ اور کیونکہ ہماری آپسے ڈیل ہوئی تھی ۔۔ اس لئے وعدے کے مطابق ’’ اس نے ایک لفافہ ارسا کی جانب بڑھایا تھا ’’ یہ آپکے تین سال کے برابر سیلری کی رقم ’’ ارسا ساجد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ تھینک یو سر ۔۔مجھے خوشی ہے کہ میرے ڈیزائینز آپکو پسند آئے ’’ اس نے لفافہ ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ہمیں بھی خوشی ہے کہ آپنے ہمیں جوائن کیا ’’ اس نے بھی مسکرا کر کہا تھا ۔۔ ارسا اب جانے کے لئےکھڑی ہوئی تھی۔
’’ ابھی بات ختم نہیں ہوئی مس ارسا ’’ اس کے کھڑے ہونے پر اس نے کہا تھا اور ارسا دوبارہ بیٹھ گئ تھی ۔۔
’’ یہ بھی آپکے لئے ’’ اب اس نے ایک اور لفافہ اسکی جانب بڑھایا تھا ۔۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ آپکا ٹرانسفر لیٹر ۔۔ کل سے آپ ہماری پاکستان والی برانچ جوائن کریں گی ’’ عفان کی بات پر وہ دوبارہ کھڑی ہوئی تھی ۔۔ ’’ کیا بہانہ بنایا تھا عفان نے ۔۔ واہ’’ وہ سوچ کر رہ گئ تھی ۔۔
’’ آئی ایم سوری سر مگر میں پاکستان میں آپکو جوائن نہیں کرنا چاہتی ’’ وہ بھی تو ارساساجد تھی آخر ۔۔ آسانی سے کیسے مان جاتی ۔۔
’’ ٹھیک ہے ’’ وہ بھی کھڑا ہوکر اسکے سامنے آیا تھا ۔۔
’’ پھر میں وہاں جاکر ایک خوبصورت سی سیکریٹری اپانٹ کرونگا جوکہ میرےگھر میں بھی میری دادو کا خیال رکھے گی اور میری زندگی میں میرا بھی ’’ وہ اسکے سامنے کھڑا کہہ رہا تھا ۔۔ اور ارسا ساجد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔
’’ ضرور کریں ۔۔ جب یہاں اتنے ہینڈسم منیجر موجود ہیں تو وہاں بھی خوبصورت سیکریٹری ہونی چاہئے ’’ وہ کہہ کر آگے بڑھی تھی ۔۔ جبکہ عفان کے چہرے کے تعصورات اب بگڑے تھے ۔۔
’’ میں اس منیجر کو فائر کردونگا ’’ وہ اسکے پیچھے آیا تھا ۔۔ ارسا کے ہونٹوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی ۔۔
’’ کس کس کو کرینگے آپ عفان ۔۔ یہاں بہت سے ہینڈسم مینز موجود ہیں میرا دل لگا رہے گا ’’ وہ کہہ کر آگے چلنے لگی تھی جبکہ عفان نے اسکا بازو پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا تھا ۔۔ وہ اس کے لئے تیار نہیں تھی۔۔ فوراً اسکے چوڑے کاندھے سے لگی تھی ۔۔
’’ کیا کر رہے ہیں ’’ اس نے فوراً الگ ہوتے ہوئے اس نے کہا تھا ۔۔ جبکہ آس پاس کے ورکرز اب ان دونوں کی جانب متوجہ ہوچکے تھے ۔۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ باتیں کرتے کرتے وہ دونوں آفس سے باہر آچکے تھے ۔۔
’’ کیاکہا تم نے ابھی ؟ ‘’ وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔۔
’’ یہی کہ یہاں بہت سے ہینڈسم مینز موجود ہیں میرا دل لگا رہے گا ’’ اس نے اپنی بات دہرائی تھی ۔۔ جبکہ انکی بات پر تمام ورکرز کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی ۔
’’ اس سے پہلے ۔۔ کیا کہا تم نے ؟ ’’ اس نے دوبارہ پوچھا تھا ۔۔ اور ارسا کو اب سمجھ آیا تھا کہ وہ کیا سننا چاہ رہا تھا ۔۔اسے فوراً ہی اپنی جلدبازی کا احساس ہوا تھا ۔۔
’’ کچھ نہیں ۔۔ پتہ نہیں کیا کہا میں نے ’’ اپنا بازو چھڑوا کر اب وہ آگے بڑھی تھی ۔۔
’’ تم نے کہاں آپ عفان ؟؟ تم نے میرا نام لیا ۔۔ دوبارہ لو ’’ وہ اب اسکے پیچھے آتا کہہ رہا تھا ۔۔
’’ میں نے آپکا نام نہیں لیا باس ۔۔ آپنے غلط سنا ہے ’’ اپنے آفس میں آتے اس نے کہا تھا جبکہ عفان بھی اسکے پیچھے پیچھے آیا تھا ۔۔
’’ ٹھیک ہے میں نے غلط سنا ہے ۔۔ اب چلو ‘’ وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کہہ رہا تھا ۔۔
’’ کہاں ؟ ’’
’’ آپکا ٹرانفر ہوچکا ہے۔۔آپکو نہیں لگتا کہ اب آپکو پاکستان چلنا چاہئے ’’ وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا ۔۔
’’ میں نے کہا میں نہیں جاؤنگی ’’ وہ اب بھی ضد کر رہی تھی ۔
’’ اور میں نے کہا کہ ہم ابھی چل رہے ہیں ۔۔ ’’ اسکا بیگ اٹھا کر وہ اسے کھینچا ہوا آفس سے باہر لارہا تھا ۔۔ سب ورکرز ان دونوں کو دیکھ کر مسکرائے تھے ۔۔ جبکہ عفان اب اسے لے کر اپنی گاڑی تک آیا اور اسے اندر بٹھا کر خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا ۔۔
’’ یہ آپ ٹھیک نہیں کر رہے ’’ ارسا نے اس سے کہا تھا جو اب گاڑی سٹارٹ کر کے ائیر پورٹ کی جانب جاتی سڑک پر دوڑا رہا تھا ۔۔
’’ میں ٹھیک کرتا بھی کہاں ہوں ارسا ساجد ’’ اس نے جواب دیا تھا اور اب ارسا خاموش ہوگئ تھی ۔۔ ویسے بھی عفان خالد سے کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ لوگوں ائیر پورٹ پر موجود تھے ۔۔
’’ میں نے کہا تھا نہ ۔۔ اس بار نکاح کیا ہے ۔۔ اگلی بار رخصتی ہوگی ’’ اس کی بات پر ارسا نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’ وہ اسکی بات کا مطلب سمجھی نہیں تھی۔۔
’’ مطلب تمہیں تین گھنٹے بعد سمجھ آجائیگا ’’ اور پھر وہ دونوں ائیر پورٹ کے اندر جاچکے تھے ۔۔۔ پاکستان جانے کے لئے۔۔
وہ اس ملک واپس آگئے تھے ۔۔ ایک ساتھ ۔۔ ارسا نے دیکھا۔۔ یہ اسکا وہی شہر تھا جس نے اسکی زندگی بدل دی تھی ۔۔ یہ وہی ائیر پورٹ تھا جہاں چار سال پہلے وہ محد کے ساتھ آئی تھی ۔۔ اور آج وہ عفان خالد کے ساتھ تھی ۔۔
محبت دونوں صورتوں میں اسکے ساتھ تھی ۔۔ محبت نے کبھی اسےاکیلا نہیں چھوڑا تھا ۔۔ واقعی محد ٹھیک کہہ رہا تھا ۔۔ محبت اسکے ساتھ تھی ۔۔
عفان اسے لے کر ایک پارلر آیا تھا ۔۔ جبکہ ارسا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے ؟
’’ ہم یہاں کیوں آئے ہیں ؟ ’’ وہ اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔
’’ آفکورس تیار ہونے کے لئے ۔۔ آج ہماری شادی ہے ’’ وہ جتنا پرسکون ہوکر کہہ رہا تھا ۔۔ ارسا اتنی کی حیران ہوئی تھی ۔۔
’’ شادی ؟ ’’ وہ تقریباً چیخی تھی ۔۔
’’ اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے ؟ تم بنا شادی کے ولیمہ کرنا چاہتئ ہو کیا ؟ ’‘ وہ سنجیدہ تھا جبکہ ارسا اسکی سنجیدگی پر حیران ۔۔
’’ مگر ایسے یسے ہوسکتی ہے شادی ؟ ’’ وہ اب بھی کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی ۔۔
’’ ویسے ہی ہورہی ہے جیسے ہونی چاہئے ۔۔ باقی سب سے بھی بات ہوگئ ہے میری تم اب جلدی سے تیار ہوجاؤ ۔۔ وہ آتے ہی ہونگے ؟ ’’ اس نے کھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ کون ؟ ’’ وہ اب بھی حیران تھی ۔۔
’’ آفکورس تمہاری ماما اور ایمان ۔۔ تمہیں پارلر سے گھر لے جانے کے لئے اور پھر وہی سے رخصتی ہوگی ’’
’’ اتنا سب کچھ ہوگیا اور مجھے کسی نے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا ’’ اسے صدمہ پہنچا تھا ۔۔ اسکے گھر والے بھی عفان کے ساتھ مل گئے تھے ؟ اسے یقین نہیں آرہا تھا ۔۔
’’ عفان خالد جو نا چاہے وہ نہیں ہوتا ۔۔ اور جو چاہے اسے کوئی ہونے سے روک نہیں سکتا ’’ مسکراہٹ اس پر اچھال کر وہ کہہ کر چلا گیا تھا جبکہ اسکا پیر پٹختی اندر گئ تھی ،۔
’’ یہ کس قسم کے انسان سے محبت کرلی تم نے ارسا ’’ وہ اب اپنے آپ کو کوس رہی تھی ۔۔ مگر اب کوسنے کا بھی تو کوئی فائدہ نہیں تھا ۔۔
تقریباً چار گھنٹے بعد وہ باہر نکلی تھی ۔۔ جہاں سامنے ہی اسے ماما اور ایمان مل گئے تھے ۔۔ جو اسے دیکھ کر فوراً اسکی جانب آئے تھے ۔۔
’’ ماشااللہ ’’ ماما نے اسکا ماتھا چھوما تھا ۔۔
’’ بہت حسین لگ رہی ہیں آپ آج ’’ یہ ایمان تھی جو اسے اس روپ میں دیکھ کر ٹھہر گئ تھی ۔۔
’’ کتنا انتظار کیا تھا میں نے اس دن کا ۔۔ شکر ہے یہ نصیب ہوا ۔۔ چلو ’’ وہ اسے لے کر باہر آئیں تھیں ۔۔ جہاں ساحل ان دونوں کا گاڑی میں انتظار کر رہا تھا ۔۔ اسے دیکھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔
’’ بہت پیاری لگ رہی ہو ’’ وہ نم آنکھوں سے کہہ رہا تھا۔۔ اور اسی گاڑی میں بیٹھ کر اسے اس گھر میں لایا تھا ۔۔ جہاں وہ آج سے پانچ سال پہلے نکالی گئ تھی ۔۔ گاڑی سے اتر کر اس نے اس گھر کو دیکھا تھا ۔۔ یہ وہی گھر تھا جہاں اسکا بچپن گزرا تھا ۔۔ یہ وہی گھر تھا جو ایک بار اسکی منگنی کے لئے سجا تھا ۔۔ اور آج بھی یہ گھر سجا ہوا تھا ۔۔ اسکی شادی کے لئے۔۔ کتنی عجیب بات تھی ۔۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اس گھر میں اس روپ میں آئے گی ۔۔ اسکی آنکھیں نم ہوئی تھی ۔۔ آج اسے اپنے پاپا پھر سے یاد آئے تھے ۔۔ وہ ایک ایک قدم بڑھا کر اس گھر کے اندر داخل ہورہی تھی ۔۔ اس نے دیکھا گھر کا پورا لان سجایا گیا تھا ۔۔ بہت سے مہمان تھے جو اسکی آمد دیکھ رہے تھے۔۔ اس نے دیکھا محد اسکی جانب آرہا تھا ۔۔ کتنی عجیب بات تھی ۔۔ اسی لان میں ایسی ہی سجاوٹ میں ۔۔ ایک بار وہ محد کے لئے تیار ہونے باہر نکلی تھی ۔۔ اور آج اسی لان میں ۔۔ ایسی ہی سجاوٹ میں وہ آج کسی اور کی دلہن بنی محد کے سامنے کھڑی تھی ۔۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔۔ وقت کی اس کروٹ نے سب بدل دیا تھا ۔۔ وہ ایک دوسرے سامنے تھے ۔۔ مگر ایک دوسرے کے نہیں تھے ۔۔ فرق تو بس یہ تھا کہ محد کی آنکھوں میں آج بھی وہ محبت تھی ۔۔ اور ارسا کی آنکھوں میں بھی محبت آچکی تھی ۔۔ مگر افسوس کہ محبت محد کے نام نہیں تھی۔۔
’’ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنی خوبصورت بھی ہوسکتی ہو ’’ وہ کہہ رہا تھا ۔۔ ارسا اسے سن رہی تھی ۔۔
’’ آؤ ’’ اس نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا ۔۔ اور ارسا ساجد نے یہ ہاتھ تھاما تھا ۔۔ وہ اب اسے لے کر آگے بڑھا تھا ۔۔ ارسا نے دیکھا سامنے ہی سٹیج پر عفان خالد کھڑا تھا ۔۔ دلہے کے روپ میں ۔۔ اسکے انتظار میں ۔۔ محد اسے عفان کےپاس لے کر گیا تھا۔۔ عفان نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا اور یہ وہ لمحہ تھا جب ارسا رکی تھی ۔۔ اس نے دیکھا سامنے دادو بیٹھی تھیں ۔۔ انکی آنکھیں بھی نم تھیں۔۔ وہ جانتی تھی یہ خوشی کے ہی تو آنسو تھے ۔۔ دادو نے اپنا سر ہلایا تھا ۔۔ اور ارسا نے عفان خالد کی جانب دیکھا جو سٹیج پر کھڑا اپنا ہاتھ آگے کئے اسکے ہاتھ کا منتظر تھا ۔۔ پھر اسے محسوس ہوا ۔۔ محد نے اسکا ہاتھ اوپر کیا تھا ۔۔ عفان کے ہاتھ کے قریب ۔۔ ارسا نے محد کی جانب دیکھا تھا ۔۔ اور محد نے ارسا کی جانب ۔۔
دونوں کی نظریں ملیں تھیں ۔۔ دونوں کی نظریں ایک جیسی تھیں ۔۔ ایک دوسرے کی شکرگزار ۔۔
محد مسکرا رہاتھا ۔۔ اور ارسا جانتی تھی یہ مسکراہٹ مصنوعی نہیں تھی ۔۔ یہ حقیقی تھی ۔۔ محبوب کی خوشی محبت کو بھی خوش کر دیتی ہے ۔۔ محد نے اسکا ہاتھ عفان کے ہاتھ میں دیا تھا ۔۔ اور ارسا عفان کا ہاتھ تھامے سٹیج پر چڑھی تھی ۔۔ محد ایک قدم پیچھے ہوا تھا۔۔ جہاں ایمان تھی ۔۔ وہ دونوں اب ساتھ کھڑے سامنے اس دو لوگوں کو دیکھ رہے تھے ۔۔ جو سٹیج پر کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔۔
’’ تم سے نکاح انتقام میں کیا تھا ’’ عفان کہہ رہا تھا ۔۔ اور وہاں کھڑا ہر شخص اسے سن رہا تھا ۔۔ اور یہ صرف محد اور ارسا ہی جانتے تھے ۔۔۔ کہ وہ کہہ سب کو سنانے کے لئے رہا تھا ۔۔ وہ دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ ارسا ساجد بے گناہ تھی ۔۔ وہ سب کو بتا رہا تھا کہ ارسا ساجد اسکی محبت ہے ۔۔ وہ سب کو بتا رہا تھا کہ ارسا ساجد صرف اسی کی تھی ۔۔
’’ مگر تم سے شادی محبت میں کر رہا ہوں ۔۔۔ تم وہی ہو ارسا جس نے مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا ۔۔ تم وہی ہو ارسا جس نے مجھے محبت کا مطلب بتایا ۔۔ تم وہی ہو ۔۔ جس کی وجہ سے آج میں پر سکون ہوں ۔۔ تم نے بتایا ۔۔ کہ نفرت اور محبت کے جذبے میں سے ۔۔ ایک محبت ہی تو ہے ۔۔ جو نفرت پر بھاری ہوتی ہے’’ اس نے اسکے دونوں ہاتھ تھامے ہوئے تھے ۔۔۔ ہر طرف خاموشی تھی ۔۔ اور اگر آواز تھی ۔۔ تو صرف اور صرف عفان خالد کی ۔۔
’’تم نے ہی بتایا ۔۔ کہ نفرت کے زہر کا علاج صرف اور صرف محبت ہے ’’ وہ مسکرایا تھا ۔۔ اور ارسا ساجد کو لگا کہ ان چند الفاظوں نے ماضی مٹا دیا تھا ۔۔ اسے لگا ہر زخم بھر گیا تھا ۔۔ وہ مسکرائی تھی۔۔
’’ تم عفان خالد ۔۔ ’’ اب ارسا نے کہا تھا ۔۔ عفان چونکا تھا ۔۔ وہی سارے مہمانوں کی نظریں اب ارسا کی جانب مڑی تھیں ۔۔
’’ تم وہ شخص تھے جس نے مجھے نفرت کرنا سکھایا تھا ’’ وہ کہہ رہی تھی ۔ اور محد اسے سن رہا تھا ۔۔ اسے رشک آرہا تھا ۔۔ عفان کی قسمت پر ۔۔
’’ تم نے مجھے سکھایا ۔۔ زندگی میں جب جب کچھ برا ہو ۔۔ تو اسے اچھا کرنے کے لئے اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے ۔۔ تو وہ بس آپ خود ہیں ’’ عفان اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ اسے سن رہا تھا ۔۔ دل کی گہرائیوں سے ۔۔
’’ تم نے سکھایا ۔۔ کہ وقت بدل جائے تو تم وقت بدل کر دکھاؤ ۔۔ کیونکہ وقت کا بدلاؤ تمہارا بدلنا ہی ٹھیک کر سکتا ہے’’ وہ رکی تھی ۔۔۔
’’ تم نے مجھے بتایا ۔۔ کہ زندگی کے مشکل راستوں میں اگر کوئی آپکو سہارا دے سکتا ہے تو وہ آپکا اپنا آپ ہے ۔۔ کیونکہ آپکے اپنے آپ کے علاوہ کوئی آپکا اپنا نہیں ہوتا ’’ اس کی آنکھیں نم ہوئی تھیں ۔۔ اور سامنے کھڑا عفان بس اسے دیکھ ہی رہا تھا۔
’’ تم نے مجھے محسوس کروایا ۔۔ محبت کا جذبہ ’’ وہ اقرار کر رہی تھی ۔۔ اس دنیا کے سامنے وہ محبت کا اقرار کر رہی تھی ۔۔ عفان ٹھہر گیا تھا ۔۔ اسکا ایک ایک عضو کان بن گیا تھا ۔۔ ارسا ایک قدم آگے ہوئی تھے ۔۔ وہ اب اس سٹیج میں دولہا دلہن کے روپ میں ایک دوسرے کے سامنے ایک دوسرے کے قریب کھڑے تھے ۔۔
’’ تم نے مجھے زندگی جینا سکھائی عفان خالد ۔۔ تو پھر ۔۔ ’’ وہ رکی تھی ۔۔ اور عفان بے چین ہوا تھا ۔ وہ کیوں رکی ؟
’’ تم سے محبت تو لازم ہے ’’ وہ مسکرائی تھی ۔۔ اور عفان خالد بھی مسکرایا تھا ۔۔
ایک تالی کی آواز گونجی تھی ۔۔ اور وہ پہلی تالی محد کی تھی ۔۔دوسری ایمان کی ۔۔۔ اور پھر وہ لان ۔۔ تالیوں کی آواز سے گونج رہا تھا ۔۔۔
یہ صبح سات بجے کا وقت تھا ۔۔۔ جب قبرستان کے ایک کونے میں ایک قبر کے پاس کوئی نسوانی وجود اس قبر پر پھولوں کی پتیاں ڈال رہا تھا ۔۔ ہوا کے دوش پر اس کا دوپٹہ سر سے اتر رہا تھا مگر وہ پھر سے اسے اوڑھ لیتی تھی ۔۔ پھر وہ اس قبر کے پاس بیٹھی تھی ۔۔ قبر کی مٹی پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔۔
’’ پاپا ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ ایسے جیسے وہ اسے سن رہے تھے ۔۔
’’ کل ہماری شادی ہوئی تھی ۔۔۔ کل اس سے ان تمام لوگوں کے سامنے اقرار کیا ۔۔ اپنے انتقام کا ۔۔ اپنی نفرت کا ’’ وہ رکی تھی ۔۔ آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔۔ اس نے کناروں سے صاف کی تھی ۔۔
’’ اور اپنی محبت کا ’’ وہ مسکرائی تھی ۔۔ بھیگی آنکھوں کے ساتھ ۔۔
’’ آپ جانتے ہیں نا یہ سب کیسے ہوا ؟؟ آپ مطمئن ہے نا ؟ آپ میرے پاپا سے ناراض تو نہیں ہیں نا ؟ ’’ اب آنسو باقاعدہ اسکی آنکھوں سے گر رہے تھے ۔۔
’’ دیکھیں ۔ وہ بھی بلکل آپکے سامنے ہی ہیں ’’ اس نے اس جانب اشارہ کیا تھا ۔۔ جہاں اسکے پاپا کی قبر تھی ۔۔
’’ آپ انہیں معاف کر دیں پاپا ۔۔ انہوں نے سب ہمارے اچھے مستقبل کے لئے کیا ۔۔ وہ برے نہیں تھے ۔۔ بس طریقہ برا تھا ’’ اسکے آنسو اب اس قبر پر گر رہے تھے ۔۔۔
’’ جانتے ہیں ۔۔ عفان نے مجھ سے آپکا انتقام لیا ۔۔ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ اس میں میرا کیا قصور تھا ؟ ’’ وہ کہہ رہی تھی ۔۔ آنسو اب بھی بہہ رہے تھے ۔۔
’’ میں بھی یہی سوچتی تھی کہ اس میں میرا کیا قصور تھا ۔۔ مگر جانتے ہیں کہ جب پاپا کے جانے کامعلوم ہوا تھا تب مجھے کیسا محسوس ہوا تھا ؟ نفرت ۔۔ اس انسان سے شدید نفرت جس کی وجہ سے پاپا یہاں آگئے تھے ۔۔ جس کی وجہ سے میں نے اپنے سارے رشتے کھو دیئے تھے ۔۔ اور میرا دل چاہتا تھا کہ کبھی وہ شخص میرے سامنے آئے اور میں اسے اسی طرح تڑپاؤ جس طرح میں تڑپ رہی ہوں ۔۔ وہ وہی درد محسوس کرے جو میں کر رہی ہوں ’’ اس نے اپنے آنسو صاف کئے تھے ۔
’’ تو پھر جب پاپا کی وجہ سے آپ اس سے دور گئے ؟ جب آپکے جانے کے بعد اس نے اپنی ماں ۔۔ اپنے دو اہم رشتوں کو کھویا ۔۔ تو پھر اس نے کیا محسوس کیا ہوگا ؟؟ وہی درد ؟ وہی تڑپ ؟؟ وہی نفرت جو میں نے کی ؟؟ ’’ آنسوؤں میں تیزی آئی تھی ۔۔
’’ میرے ساتھ محد تھا ۔۔ میں سمجھدار تھی ۔۔ میں سنبھل گئ ۔۔ مگر وہ ؟؟ وہ بارہ سال کا تھا ۔۔ بچہ تھا ۔۔ معصوم جذبات تھے ۔۔ وہ کیسے سنبھل سکتا تھا ؟؟ وہ کیسے آگے بڑھ سکتا تھا ۔۔ میری نفرت کی مدت چند مہینوں کی تھی ۔۔ ایک پودہ تھا وہ ۔۔ مگر اسکی نفرت ایک پورا درخت تھا ۔۔ جو پھر وہ کیسے نہ کرتا یہ سب کچھ ۔۔ جو تڑپ میں نے سہی ۔۔ وہ تو وہ گیارہ سال سےسہہ رہا تھا ۔۔ پھر میں کیا کرتی پاپا ؟؟ میرے پاس ایک ہی تو راستہ تھا ۔۔ اور وہ تھا اسے احساس دلانا ۔۔ محبت کا احساس ۔۔ کیونکہ نفرت کے دیئے زخم محبت ہی بھر سکتی ہے ’’ وہ اب مسکرائی تھی ۔۔
’’ میں نے ٹھیک کیا نا ؟ میں جانتی ہوں آپ بھی مسکرا رہے ہونگے ’’ وہ اب ہلکا سا ہنسی تھی ۔۔
’’ اور دیکھیں کیا کمال کیا محبت نے ۔۔ میں آپکے پاس ہوں۔۔ اور وہ ’’ اس نے پلٹ کر سامنے اپنے پاپا کی قبر کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جہاں عفان خالد بیٹھا تھا ۔۔ وہ بھی باتیں کر رہا تھا ۔۔ اسی طرح جس طرح ارسا کر رہی تھی ۔۔۔
’’ آپ جیلس تو نہیں ہورہے نا ؟ ’’ ارسا نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔ اور پھر وہ اٹھی تھی ۔۔ اور اب وہ عفان کی جانب بڑھی تھی ۔۔ جو اب بھی اس قبر کے پاس بیٹھا تھا ۔۔
’’ کر لیں پاپا سے میری برائیاں ’’ اس نے پاس جاکر اس نے کہا تھا ۔۔ وہ اسکی آواز سن کر کھڑا ہوا تھا ۔۔ اسکی آنکھیں بھی نم تھیں ۔۔
’’ ہاں ۔۔ بتایا میں نے پاپا کو ۔۔ کہ تم نے کتنا بڑا ڈرامہ کیا تھا ’’ وہ اس سے مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔۔
’’وہ کوئی ڈرامہ نہیں تھا ’’ ارسا کو برا لگا تھا ۔۔
’’ ڈرامہ ہی تھا ۔۔ چلیں پاپا آپکی ڈرامے باز بیٹی کو لے کر جارہا ہوں ۔۔ آفس بھی تو جانا ہے ’’ وہ کہہ کر پلٹا تھا ۔۔
’’ اللہ حافظ پاپا ’’ وہ کہہ کر اسکےپیچھے آئی تھی ۔۔
’’ آفس کیوں ؟ ’’ وہ اب اسکے پیچھے آئی تھی ۔۔
’’ آفس کیوں جاتے ہیں مسز ارسا ؟ ’’ وہ پرانے انداز میں مخاطب ہوا تھا ۔۔
’’ مگر ابھی کل ہی تو میری شادی ہوئی ہے ۔۔ میں آفس نہیں جاؤنگی ’’ اس نے صاف انکار کیا تھا ۔۔
’’ شادی تو میری بھی ہوئی ہے ۔۔ میں تو جارہا ہوں ’’ گاڑی کا دروازہ کھول کر اس نے کہا تھا ۔۔
’’ تو جائیں ۔۔ میں نہیں جاؤنگی ’’ وہ اپنی سیٹ کر بیٹھتے کہہ رہی تھی ۔۔
’’ تم میرے ساتھ جاؤگی ’’ اس نے گاڑی آگے بڑھائی تھی۔۔
’’ میں نہیں جاؤنگی ’’ صاف جواب آیا تھا ۔۔
’’ تو پھر میں آج ہی کوئی خوبصورت سی سیکریٹری اپائینٹ کرتا ہوں جو میرا اور دادو کو بہت خیال رکھے گی ’’
’’ تو پھر میں بھی آج ہی منیجر سے کہتی ہوں کہ وہ آجائیں میں انہیں مس کر رہیں ہوں’’ وہ دوبارہ شروع ہوگئے تھے ۔۔ اور اب وہ خاموش نہیں ہونے والے تھے ۔۔ اب یہ پوری زندگی ہی چلنا تھا ۔۔
ختم شد !
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...