جیری کا اکلوتا بیٹا ٹامس اپنے گھر اور باپ سے دور ایک شہر میں ملازمت کے سلسلے میں رہتا تھا۔ جیری کو اس بڑھاپے میں بیٹے کی یہ دو ری بڑی تکلیف دیتی تھی۔ ایک دن اس نے ارادہ کرلیا کہ وہ شہر جاکر اپنے بیٹے سے مل آئے۔ وہ اس پتے پر پہنچ گیا جہاں سے اسکا بیٹا اسے خط لکھا کرتا تھا۔ اس نے کمال شوق سے دروازے پر دستک دی۔ جس شخص نے دروازہ کھولا بدقسمتی سے وہ جیری کا بیٹا ٹامس نہیں تھا۔ ” کیا میرا بیٹا ٹامس یہاں نہیں رہتا ؟” اس نے تعجب سے پوچھا۔
” نہیں وہ اب یہاں نہیں رہتا۔ یہاں سے جاچکا ہے ” اجنبی نے رکھائ سے جواب دیدیا۔
جیری مایوس ہوکر واپس پلٹنے کو تھا کہ ایک پڑوسی نے اس کے قریب آکر کہا۔” کیا آپ ٹامس کیلئے پوچھ رہے تھے۔ یہ رہا اسکے دفتر کا پتہ ” جیری نے اسکا شکریہ ادا کیا اور اس پتے پر پہنچ گیا۔ استقبالیہ کلرک سے اس نے پوچھا ” کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ اس دفتر میں ٹامس کہاں پر بیٹھتے ہیں ؟ میں انکا والد ہوں ” کلرک نے فون پر نمبر ملاتے ہوئے اسے انتظار کرنے کو کہا۔ انتظار کے یہ لمحے جیری کو قیامت سے کم نہیں لگے۔ ٹامس کو کلرک کی بات سن کر حیرت ہوئ۔ اس نے جیری کو اسکے پاس پہنچانے کی کلرک کو ہدایت کی۔ بیٹے کو اپنے سامنے دیکھ کر جیری کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔۔ ٹامس بھی باپ کو دیکھ کر خوش ہوگیا۔جذبات سے مغلوب دونوں کو ایک دوسرے سے بات کرنے میں مشکل ہورہی تھی۔
” بیٹے کیا تم کچھ دنوں کیلئے گھر نہیں آسکتے۔ کتنے عرصے سے تم گھر نہیں آئے مجھے تمہاری جدائی بڑی شارق گزرتی ہے۔ ” جیری نے رندھے گلے سے کہا۔ ” نہیں پاپا یہ میرے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ میں اتنا مصروف ہوں کہ ایک دن کیلئے بھی کام سے رخصت نہیں لے سکتا۔” ٹامس نے روکنے پن سے کہا۔ جیری مایوسی سے صرف مسکرا کر رہ گیا۔
” تو ٹھیک ہے۔ میں آج شام۔کو واپس گاوں جانا چاہوں گا ” جیری نے اعلان کردیا۔
” تم میرے پاس کچھ دن تو ٹھہر سکتے ہو ” ٹامس نے روا روی میں کہا۔
” نہیں بیٹے تم ایک مصروف آدمی ہو اور مجھ جیسے بوڑھے آدمی کو تم پر بوجھ نہ بننا چاہیئے” جیری بولا
جیری واپس چلاگیا۔کچھ دن گزرگئے تو ٹامس کو احساس ہونے لگا کہ اسکا رویہ اسکے باپ کے ساتھ کچھ اچھا نہ رہا۔ اس نے دفتر سے کچھ دنوں کی رخصت لے لی اور گاوں کی راہ لی۔ جب وہ اپنے گھر پہنچا تو اس نے جیری کو وہاں موجود نہیں پایا۔ وہ گھبرا گیا اور پڑوسی سے اسکے بارے میں پوچھا۔ پڑوسی سے معلوم ہوا کہ جیری نے وہاں کی رہائش ترک کردی ہے اور وہ کہیں اور چلاگیا ہے۔ اس نے ٹامس کو جیری کا نیا پتہ دیدیا۔ ٹامس وہاں پہنچا تو اسے بہت دکھ ہوا کہ اسکے باپ نے قبرستان میں اپنی رہائش اختیار کی ہے۔ جیری نے اسے دیکھا تو تپاک سے اسکا خیر مقدم کیا۔ دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے۔
” پاپا کیسے ہیں آپ۔ مجھے یقین نہیں ہورہا کہ آپ ایسی جگہ رہ رہے ہیں” ٹامس نے تاسف سے کہا۔ اسے اپنے باپ کو اس جگہ دیکھ کر شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔
” کیا ہوا بیٹے۔ اس جگہ میں کیا برائ ہے ؟” جیری نے بیٹے کو شرمندہ دیکھ کر پوچھا۔
” نہیں پاپا۔ دراصل مجھے یقین نہیں آرہا کہ اپنا گھر بار ہوتے ہوئے آپ اس جگہ رہ رہے ہیں ” ٹامس لجاجت سے بولا۔ جیری یہ سن کر ہلکے سے مسکرایا اور یوں گویا ہوا ” تمہاری اونچی پڑھائ کیلئے میں نے قرضہ اٹھایا تھا۔ پھر جب تم نے نئ کار لینے کی ضد کی تو مجھے پھر بھاری قرضہ لینا پڑا۔ یوں قرضے کی رقم اتنی زیادہ ہوگئ کہ میں اسکی ادائگی نہ کرسکا۔ میں تم۔کو پریشان نہ کرنا چاہتا تھا سو میں نے مکان اور زمین فروخت کردی اور قرضہ ادا کردیا ۔
” تم مجھے تو کہہ سکتے تھے ”
ٹامس نے آہستہ سے کہا۔
” نہیں بیٹے۔ تم۔پہلے ہی اپنے کام میں حد سے زیادہ مصروف اور پریشان تھے۔ میں تم۔پر اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ پھر میں تم کو خوش بھی تو دیکھنا چاہتا ہوں” جیری نے معاملے کی سنگینی کو سنبھالتے ہوئے جواب دیا۔
ٹامس کا سر شرمندگی کے مارے جھکا جارہا تھا۔ اس نے باپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور سسکیاں بھرنے لگا۔ ” مجھے اس سب کا اندازہ نہیں تھا پاپا۔ مجھے معاف کیجیئے۔” فرط جذبات سے اسکی آواز نہیں نکل رہی تھی۔
جیری نے اسکی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا ” ارے پگلے اسکی کوئ ضرورت نہیں۔ میں اس جگہ پر بہت خوش ہوں۔ کچھ ریر میں آخر تم بھی مجھے یہیں تو پہنچاتے کہ یہی سب کا آخری گھر ہے۔ میں تو بس تمہارے ساتھ اپنی کچھ آخری گھڑیاں گزارنا چاہتا تھا اور بس۔ بڑھاپے میں دوڑ دھوپ نہیں کرسکتا اسلئے تم سے کچھ دن یہاں میرے ساتھ رہنے کو کہا تھا۔”
یاد رکھیں والدین آپ کو سب کچھ دینے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ انکی بس یہی تمنا ہوتی ہے کہ آپ خوش رہیں۔ لیکن آپ اکثر انکو سمجھ نہیں پاتے اور جب سمجھنے لگتے ہیں تو دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ جب آپ کو زندگی میں کامیابی ملے تو والدین کو کبھی بھی فراموش نہ کریں۔ کیونکہ آپکی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ وہی تو ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...