ضمیر اظہر مرحوم کے ماہیوں میں پنجاب کی مٹی کی خوشبو،اس کے دریاؤں کی روانی،اس کے صحراؤں کی گرمی،اس کے کھیتوں کی ہریالی،۔۔۔خوشیاں اور دُکھ۔۔۔سب موجود ہیں۔ضمیر اظہر کے ماہیے پنجابی مزاج کے مطابق بھی ہیں اور پنجابی روایت سے آگے کے سفر کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں۔زندگی کے بارے میں ان کی سوچ کے انداز کو ان دو ماہیوں سے بڑی ھد تک سمجھا جا سکتا ہے۔
کیا مان جوانی کا کیا روپ جوانی ہیں
ہے انجام خزاں نقش جو دنیا میں
اس پھول کہانی کا موجود ہیں،فانی ہیں
ضمیر اظہر نے جب درست وزن کی ماہیا نگاری کو اختیار کیا تو یہ امید بندھی تھی کہ ان کی آمد سے درست وزن کی تحریک کو مزید تقویت حاصلو ہو گی۔ایسا ہوا بھی۔۔۔لیکن افسوس موت نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ جلد ہی ہم سب کو داغِ مفارقت دے گئے۔انڈیا میں رشید اعجاز اور پاکستان میں ضمیر اظہر کی بے وقت موت نے اردو ماہیے کی تحریک کو دو خوبصورت ماہیا نگاروں سے محروم کر دیا۔
میر ذاتی طور پر ضمیر اظہر سے کبھی رابطہ نہیں رہالیکن جب وہ غلط وزن کی”ماہیانگاری“ ترک کرکے درست وزن کی طرف آئے تو براہِ راست رابطہ نہ ہونے کے باوجود میرا ان سے ایک قلبی تعلق سا بن گیاتھا۔اسی لیے ان کی ناگہانی وفات سے مجھے شدید دکھ ہوا۔
”پھول کہانی“ کے یہ تھوڑے سے ماہیے تعداد میں بے شک کم ہیں لیکن اپنے معیار کے لحاظ سے ثلاثی قسم کی چیزوں کو ماہیے کے لیبل کے ساتھ پیش کرنے والے مجموعوں پر بھاری ہیں۔یہ ماہیے صرف ضمیر اظہر کی یادگار نہیں ہیں بلکہ یہ اردو ماہیے کی تاریخ میں بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
(ماہیوں کے مختصر سے مجموعہ”پھول کہانی“میں شامل)