( ’’ایتالوکیلونیو‘‘ کے اطالوی زبان کے افسانے ’’Coscienza’’کا اُردو ترجمہ)
جنگ شروع ہوئی تو لیوایجی ( لیو ای جی) نامی جوان نے پوچھا کہ کیا وہ اس کے لیے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پیش کر سکتا تھا؟ یہ سن کر ہر کسی نے اس کی تعریف و توصیف کی۔ لیوایجی اس جگہ گیا جہاں وہ بندوقیں بانٹ رہے تھے۔ اس نے ایک لی اور کہا، ’’مَیں اب جاؤں گا اور البرٹو نامی بندے کو مار ڈالوں گا۔‘‘ انہوں نے اس سے پوچھا کہ یہ البرٹو کون ہے؟ ’’ایک دشمن……!‘‘ اس نے جواب دیا، ’’میرا ایک دشمن!‘‘ انہوں نے اُسے سمجھایا کہ ’’وہ ایک خاص قسم کے دشمن مار سکتا ہے …… یہ نہیں کہ جسے چاہے وہ مار ڈالے۔‘‘، ’’تو……؟‘‘ لیوایجی بولا، ’’آپ مجھے احمق سمجھتے ہیں کیا……؟ یہ البرٹو بالکل اسی خاص قسم کا دشمن ہے …… ان میں سے ایک۔ مَیں نے جب یہ سُنا کہ آپ اس قسم کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے لگے ہیں، تو مَیں نے سوچا…… مَیں بھی جاؤں گا اور یوں البرٹو کو مار سکوں گا۔ مَیں اسی لیے یہاں آیا تھا۔ مَیں اِس البرٹو کو جانتا ہوں۔ وہ ایک بدمعاش ہے۔ اس نے بلا وجہ مجھے بے وقوف بنایا۔ اس نے ایک عورت کے ساتھ مل کر ایسا کیا تھا۔ یہ ایک پرانی کہانی ہے۔ اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں، تو مَیں آپ کو ساری بات بتاتا ہوں۔‘‘
وہ بولے، ’’ٹھیک ہے …… ٹھیک ہے!‘‘ ’’اچھا……!‘‘ لیوایجی بولا، ’’تو مجھے بتائیں …… البرٹو کہاں ہے؟ مَیں وہاں جاؤں گا اور اس سے لڑوں گا۔‘‘ وہ بولے کہ انہیں معلوم نہیں۔
’’کوئی بات نہیں ……!‘‘ لیوایجی بولا: ’’مَیں کوئی نا کوئی ایسا شخص ڈھونڈ لوں گا جو مجھے اس کا پتا بتا دے گا۔ جلد یا بدیر میں اُسے جا لوں گا۔‘‘
انہوں نے اسے بتایا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اسے وہیں جانا ہو گا، جہاں وہ اسے بھیجیں گے، وہیں لڑنا ہو گا اور انہیں ہی مارنا ہو گا جو وہاں ہوں گے۔ وہ البرٹو کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ’’میری بات سنیں ……!‘‘ لیوایجی نے اصرار کیا: ’’مجھے ساری کہانی آپ کو سنانا ہو گی۔ یہ بندہ واقعی میں بدمعاش ہے اور آپ ٹھیک کر رہے ہیں کہ اس جیسوں کے خلاف لڑنے جا رہے ہیں۔‘‘ وہ، لیکن، اس کی کہانی سننا نہیں چاہتے تھے۔
لیوایجی کو ان کی منطق سمجھ نہ آئی۔ ’’معاف کریں …… آپ کے لیے شاید یہ بات اہم نہ ہو کہ مَیں ایک دشمن ماروں یا کہ دوسرا…… لیکن مَیں اس بات پر پریشان ہی رہوں گا کہ میں کسی ایسے کو ماروں جس کا البرٹو کے ساتھ کوئی لینا دینا نہ ہو۔‘‘ رائفل دینے والوں کا پارہ چڑھ گیا۔ ان میں سے ایک نے لمبی تقریر کی اور اسے تفصیل سے سمجھایا کہ وہ جنگ کس لیے لڑی جا رہی تھی اور یہ کہ وہ منھ اٹھا کر جائے اور اپنے کسی مخصوص دشمن، جس سے وہ بدلہ لینا چاہتا ہے، کو قتل نہیں کر سکتا۔ لیوایجی نے کندھے جھٹکے۔ ’’اگر یہ ایسا ہی ہے …… تو مجھے اس سب سے الگ ہی رہنے دیں۔‘‘
’’تم اپنی خدمات پیش کر چکے ہو…… اب تم اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔‘‘
وہ چلائے۔ ’’آگے بڑھو…… چَپ راس …… چَپ راس!‘‘
یوں انہوں نے اسے محاذ پر بھیج دیا۔ لیوایجی خوش نہیں تھا۔ اس نے ان سب کو مارا، جو بھی اس کے سامنے آئے، وہ کسی نا کسی طرح البرٹو تک یا اس کے خاندان میں سے کسی بندے تک پہنچنا چاہتا تھا۔ انہوں نے اسے ہر ہلاکت پر تمغا دیا…… لیکن وہ پھر بھی خوش نہ ہوا۔ ’’مَیں اگر البرٹو کو نہ مار سکا……!‘‘ اس نے سوچا ’’تو مجھے بہت سے لوگوں کو خواہ مخواہ مارنا پڑے گا۔‘‘
اسے یہ اچھا نہ لگا۔ اس دوران میں وہ اسے تمغے پر تمغا دیے جا رہے تھے، چاندی کے، سونے کے، اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ۔ لیوایجی نے سوچا، ’’کچھ آج مارو، کچھ کل…… اور یوں وہ کم ہوتے جائیں گے …… پھر اس بدمعاش کی باری بھی آ ہی جائے گی۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ البرٹو کو تلاش کر پاتا، غنیم نے ہتھیار ڈال دیے۔ اسے بُرا محسوس ہوا کہ اس نے بہت سے لوگوں کو بلا وجہ ہلاک کر دیا۔ اب جب کہ وہ حالت امن میں تھے، اس نے اپنے تمغے ایک تھیلے میں ڈالے اور ان کی بستیوں میں گیا اور سارے تمغے ہلاک شدگان کی بیواؤں اور بچوں میں تقسیم کر دیے۔ ان بستیوں میں گھومتے پھرتے اس کا سامنا البرٹو سے ہو گیا۔ ’’یہ تو اچھا ہو گیا۔‘‘ اس نے خود سے کہا ’’کبھی نہیں سے دیر ہی بھلی۔‘‘
اس نے البرٹو کو ہلاک کر دیا۔ انہوں نے اس پر اسے گرفتار کر لیا۔ اس پر مقدمہ چلایا اور پھانسی دے دی۔ مقدمے کے دوران میں اس نے بار بار یہ بات دُہرائی کہ اس نے یہ کام اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے کیا ہے …… لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سُنی۔
٭٭
https://lafzuna.com/prose/s-27511/
٭٭٭