زمین کا قطر معلوم کرنے کی پہلی کوشش قدیم یونان میں کی گئی تھی لیکن اس کے طریقے میں کئی سقم تھے۔ اس سے ایک ہزار سال بعد اس کو معلوم کرنے کا کام عباسی خلیفہ مامون نے ماہرینِ فلکیات کی ٹیم کے سپرد کیا۔
مامون نے سند، یحیٰی، الجواہری اور خالد الموارضی کو کئی ہنرمندوں کے ساتھ موجودہ عراق کے شہر موصل سے ستر میل مغربن میں سنجار کے چٹیل میدان میں اس کام کے لئے بھیجا۔
یہاں پر ٹیم دو میں تقسیم ہوئی۔ ایک شمال کی طرف، دوسری جنوب کی طرف گئی۔ اپنے قدم گنتے گئے اور راستے میں نشان لگاتی گئی۔ یہ اس وقت رکے جب انہوں نے زمین کے خم کی ایک ڈگری کی پیمائش نہ کر لی۔ اس کو ستاروں کی پوزیشن کے حساب سے ناپا گیا۔ اس کے بعد دونوں ٹیمیں واپس آئیں اور پھر فاصلے کی پیمائش کی۔ دونوں کا اوسط لیا گیا جو کہ 56.6 عربی میل تھا۔ یہ آج کے میل سے بیس فیصد بڑا ہے اور تقریباً 68 میل بنتا ہے۔ اس کو 360 سے ضرب دی جائے تو یہ فاصلہ 24,500 میل بنتا ہے۔ اور یہ ایک ہزار سال پہلے کی گئی پیمائش سے زیادہ قابلِ اعتبار تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مامون اچھا سائنسی ذہن رکھتے تھے۔ انہوں نے اس پر بس نہیں کیا۔ ایک دوسری پیمائش کا مشن شروع کر دیا۔ اس بار یہ وسطی شام کے شہر تدمر سے تھا۔ یہاں سے رقہ کے درمیان پیمائش کے ایسے ہی طریقے سے کی جانے والی پیمائش کا نتیجہ 28700 میل آیا۔
(بعد میں آنے والے مہم جوؤں مارکوپولو اور کولمبس نے اسی پیمائش کو استعمال کیا)۔
سند ابنِ علی کے پاس ایک اور حربہ تھا۔ انہوں نے ایک طریقہ بتایا جس سے صحرا میں قدم گننے کی مشقت بھی نہ کرنا پڑتی اور نتیجہ بھی زیادہ ایکوریٹ آتا۔
جب مامون 832 میں بازنطینی بادشاہ تھیوفیلس پر حملہ کرنے جا رہے تھے تو سند ان کے ساتھ تھے۔ اس سفر دوران انہوں نے یہ تجویز کیا کہ اگر اونچے پہاڑ پر چڑھ جایا جائے اور وہاں سے نظر آنے والے سمندر میں افق کا زاویہ نکالا جائے۔ اور ساتھ پہاڑ کی بلندی معلوم کی جائے تو جیومیٹری کی مدد سے زمین کا قطر نکل آئے گا۔
ہمیں معلوم نہیں کہ سند نے ایسا کرنے کی کوشش کی یا نہیں لیکن گیارہویں صدی میں موجودہ پاکستان میں البیرونی نے اسی طریقے سے زمین کا محیط معلوم کیا گیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...