’ کیا یہ ممکن نہیں کہ تم وہاں میرے لئے کوئی جگہ تلاش کر سکو‘۔
’ جگہ‘؟ اس نے کچھ اس انداز سے کہا کہ اُس کی اُجلی آنکھوں میں سَائے منڈلانے لگے۔
’ بھائی وہاں تم ایسے پیارے لوگوں کے لئے جگہ کہاں ہے۔ میں وہاں پاوں سُکیڑ کر سو بھی جاتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ جگہ پھر بھی تنگ ہے۔ اگر تم اسے مبالغہ نہ سمجھو تو میں اکثر جاگتا ہی رہتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم بھی اس سُلگتی ہوئی بھٹّی میں جاگرو۔ پھر میں نے بھی وہ جگہ خاموشی سے تلاش نہیں کی تھی مجھے تو وہاں جیسے کسی نے زبردستی ڈھکیل دیا تھا۔‘
’ پھر میں کہاں جاؤں ؟ میرے لئے کہیں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
’ جگہ تو ہے ، سکڑی سکڑی ، مٹِیالی تنگ اور تاریک۔‘
’ کیا وہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔‘
’ شائد ہوتا ہو۔‘
لیکن میں تند و تیز ہواؤں اور طوفانوں سے ڈرتا ہوں۔ میری مُراد اُن دھماکوں سے ہے ، جن میں میں گھِرا ہوا ہوں۔‘
’ تمہیں جِینے کی اس قدر ہوس کیوں ہے‘؟
’ اگر یہی بیہودہ سوال میں تم سے کروں ‘؟
’ میں ایک بے حِس آدمی ہوں ، اس لئے جی رہا ہوں تم تو شروع ہی سے اچھی زندگی کے خواب دیکھتے رہے ہو‘۔
’ لیکن اب وہ خواب کرچی کرچی بن چکے ہیں‘۔
’ کوئی اور خواب دیکھنے کی تمنّا نہیں ہے‘۔
’ نہیں اب زندگی کے لَق و دَق صحرا میں وہ عَصائے پیری بھی چھن چکا ہے‘
’ پھر اب مزید کچھ نہ سوچو زندگی جیسی ، جس طرح جہاں کہیں گزر رہی ہے ، اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو‘۔
دیکھو کالج کی عمارت سے لڑکوں اور لڑکیوں کا سیلاب پھُوٹ پڑا ہے۔ ان کے چُست لباس دیکھ رہے ہو۔ ان کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ ہے وہ دراصل ایک سمجھوتہ ہے جو انھوں نے ہر لمحہ بدلتی زندگی سے کر رکھا ہے۔ مگر لڑکوں کے چہرے پر بڑھے ہوئے یہ لمبے لمبے بد نُما خط۔ ان لڑکوں نے خواہ مخواہ اپنا چہرہ کیوں بگاڑ رکھا ہے۔ اس حُلیہ میں تو وہ جنگل سے بھاگے ہوئے بندر معلوم ہوتے ہیں۔ یہ کس قِسم کی مراجعت ہے۔ دیکھو میں موضوع سے ہٹ گیا۔ میں جگہ کی تلاش میں ہوں۔ ایک ایسی جگہ جہاں لیٹ کر میں اطمینان سے لکھ سکوں ، پڑھ سکوں ، مسکرا سکوں۔‘
’ لیکن جس چیز کو تم اطمینان سے تعبیر کر رہے ہو وہ جگہ یہاں نہیں ہے۔ تم لکھ سکتے ہو ، مسکرا سکتے ہو ، ہنس سکتے ہو اور کبھی جی گھبرا جائے تو پتّھر سے سر کو ٹکرا بھی سکتے ہو۔ اتنی ڈھیر ساری نعمتیں جب زندگی میں مُیسّر ہوں تو آدمی کو اور کیا چاہیئے۔‘
’ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم بھی مسخ شدہ زندگی کا تابُوت اپنے کندھے پر اُٹھائے ہوئے ہو‘۔
’ مگر میرے کندھے پر ایسی کوئی نعش نہیں ہے جسے میں کسی کھڈ میں پھینک آؤں کیونکہ کھائی میں پہلے ہی سے اتنی سڑی بسی نعشیں پڑی ہیں کہ میں اس کے تصوّر ہی سے کانپ اُٹھتا ہوں۔ لیکن میں پاوں کی زنجیر بن کر رہ گیا ہوں۔ کتنے قدموں کے نشانات ثبت ہیں یہاں اس چوکھٹے میں جب کبھی میں نے قدم رکھنے کی کوشِش کی مجھے ایسا لگا جیسے کسی دیو زاد نے میرا گلا گھونٹ دیا ہو۔
میرے شلف میں رکھی ہوئی ساری خوبصورت کتابیں جل چکی ہیں۔ میری میز کا سینہ کسی نے چِیر دیا ہے۔ کرسیوں کی ٹانگیں برتنوں کے چہرے کپڑے اور یہ بدن کہیں ایسا تو نہیں میں تمہیں بور کر رہا ہوں۔
مجھے تم سے جُدا ہونے میں ابھی چند گھنٹے اور باقی ہیں۔ تم مزید چند گھنٹے میرے ساتھ گذار سکتے ہو۔ لیکن ان چند گھنٹوں میں ، میں نے صرف ایک گھنٹہ اپنے لئے مختص کر رکھا ہے۔ بظاہر اس ایک گھنٹہ پر میرا قبضہ ہے ، لیکن ‘؟
’ مجھے تمہاری بات سمجھ میں نہ آئی۔‘
یہ ضروری نہیں کہ ہر بات سمجھ میں آئے۔ جب بات سمجھ میں آ جاتی ہے تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ مجھ میں کوئی کمی واقع ہو گئی ہے۔ سوچ کی اتھاہ گہرائیوں سے کبھی میرا واسطہ نہیں رہا ہے۔ تم میرے ساتھ چلو تو تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔‘
وہ مجھے مختلف راستوں سے گھُما پھرا کر ایک چاڑی چکلی سڑک پر لے آیا۔ اُوپر آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارت پر رنگ برنگی برقی قمقمے جگمگا رہے تھے۔
’ یہی وہ جگہ ہے جہاں مجھے جانا ہے۔ چند لوگ مجھ سے مِلنا چاہتے ہیں‘۔
’ یہ گھر بُقعۂ نُور کیوں بنا ہوا ہے‘؟
’ یہ اہتمام میرے لئے نہیں ہے۔ یہاں لائٹ ہمیشہ ہی جلتی رہتی ہے تاکہ اندھیرے کا احساس ہی مر جائے۔‘
وہ مجھے بھی ساتھ چلنے پر اصرار کرتا رہا۔ لیکن میں باہر ہی ٹھیرا رہا۔
وہ لِفٹ کے ذریعہ دیکھتے ہی دیکھتے اُوپر چلا گیا۔
پھر جب وہ وہاں سے لَوٹا تو وہ بیحد اُداس اوری گمبھیر دکھائی دے رہا تھا۔
وہ چُپ چاپ گُم سُم تار کول کی لمبی سڑک پر یونہی چلتا رہا۔پھر میں نے دیکھا وہ بڑی درد بھری آواز میں گُنگُنا رہا تھا۔
لہو کی بُوندیں
گورے کالے
نِیلے پِیلے
چہروں کی تفسیریں
عقاب کے نُکیلے پنجے
سڑی بُسی نعشوں پر
بھُوکے گِدھوں کا اژدہام
کیا یہی وہ عذاب ہے
جس کے لئے ہمیں زمیں مِلی تھی
اپنا عقیدہ ٹُوٹنے سے پہلے
آؤ اِک بار پھر
اپنی قبروں کے دروازے
مقفّل کر لیں
میں اُس کے چہرے پر آئی ہوئی لکیروں کو پڑھتا رہا۔ وہ بغیر مجھ سے کچھ کہے بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا تاریکی میں ڈُوبے ہوئے قبرستان کی طرف چلا گیا۔