(Last Updated On: )
زمیں کے ساتھ میری آنکھ بھی مدار میں ہے
میں جانتا ہوں فلک میرے رہ گزار میں ہے
سفر ہے پیش قدم صد ہزار صدیوں کا
تمہاری شہرت دو گام کس شمار میں ہے
بندھی ہوئی ہیں اکائی میں کثرتیں ساری
ہر ایک اور کسی اور کے حصار میں ہے
خرد تو آج کا زنداں ہے اس سے باہر بھی
یہ آنکھ وہم و تصور کے اختیار میں ہے
انا کے نشے میں ورنہ خدا ہی بن جاتا
یہی تو جیت ہے جو آدمی کی ہار میں ہے
کبھی جو دھیان میں لاؤں تو ڈگمگا جاؤں
عجیب نشہ تری آنکھ کے خمار میں ہے
بلا سے، آج کسی نے اگر نہ پہچانا
وہ دیکھ! کل کا جہاں میرے انتظار میں ہے
٭٭٭