وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ آنکھیں موند رکھی تھیں جبکہ ذہن بالکل خالی خالی سا تھا۔ بخار کے باعث آنکھوں میں جلن ہو رہی تھی۔ چہرہ بھی تپ رہا تھا۔ ایسے میں اپنوں کی یادیں شدت سے حملہ آور ہوئی تھیں۔ گھر میں تو ذرا سی بیماری پر وہ سارا گھر سر پر اٹھا لیتی تھی۔ سب کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے۔ لیکن اب۔۔۔ شاید اس کے گھر والوں کو خبر بھی نہ ہو گی کہ ان کی بیٹی کس اذیت سے گزر رہی ہے۔ بہت انتظار کیا تھا اس نے کہ شاید اس کے اپنے اسے ڈھونڈتے ہوئے اس تک پہنچ ہی جائیں۔ ساری رات آنکھوں میں کاٹی تھی اسی امید پر۔ لیکن اب ساری امیدیں دم توڑ چکی تھیں۔ ناولز پڑھتے پڑھتے وہ اتنا تو جان ہی چکی تھی کہ گھر سے باہر رات گزارنے والی لڑکی کو یہ زمانہ، یہ معاشرہ کس نظر سے دیکھتا ہے۔ لیکن یہ خبر نہ تھی کہ اسے بھی ایک دن اس سب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نہ جانے کس کس کو اس کی گمشدگی کی خبر ہو چکی ہو گی۔ اس کے گھر والے، مما بابا۔۔۔ کیا حال ہو گا ان کا؟؟ کیا وہ لوگوں سے نظریں ملا پائیں گے؟؟ اور مرتضٰی۔۔۔ جو اس سے شادی کا خواہش مند تھا، کیا وہ اب اسے اپنائے گا؟؟ تایا ابا اور تائ جان، جو بڑی چاہ سے اسے اپنی بہو بنانا چاہتے تھے، کیا ایک اغواء شدہ لڑکی کو اپنی بہو کے طور پر قبول کریں گے؟؟ دادو جن کی جان بستی تھی اس میں، کیا اس سب کے بعد وہ جی پائیں گی؟؟ کیا وہ یہاں سے، اس ظالم شخص کی قید سے نکل پائے گی؟؟ کیا حالات پہلے کی طرح ہو پائیں گے؟؟ بہت سی سوچیں تھیں جو ہر گزرتے پل کے ساتھ اسے ڈستیں شدت اختیار کرتی جا رہی تھیں۔
“ٹھک ٹھک ٹھک” دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ پھر لاک کھلنے کی آواز سنائی دی۔ نمرہ نے جلتی آنکھوں کو بمشکل کھولا۔ آنکھوں کی سرخی مزید بڑھ گئ تھی۔ دروازے سے علیزے اندر داخل ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز تھے۔ نمرہ نے نگاہوں کا رخ موڑ لیا۔
“نمرہ! یہ آپ کا ڈریس، سینڈل اور جیولری بھجوائ ہے سر نے۔” علیزے نے بغور اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے مخاطب کیا۔ وہ ابھی تک مرتضٰی کو اس کے سامنے سر کہہ کر ہی بلاتی تھی۔ نمرہ نے بغیر کوئی جواب دئیے آنکھیں موند لیں۔
“آپ ڈریس چینج کر لیں تاکہ میں آپ کا میک اپ کر دوں۔ سر کا آرڈر ہے آدھے گھنٹے تک آپ مکمل ریڈی ہوں۔ مولوی صاحب اور گواہان آنے ہی والے ہیں۔” علیزے نے دوبارہ اسے مخاطب کیا۔ ساتھ ہی بیڈ پر شاپنگ بیگز رکھے۔نمرہ کے تصور میں مرتضٰی کا سراپا لہرایا۔ اور اپنی پسند سے بارات کے لیے لیا گیا وہ جوڑا۔ آنکھوں کی جلن مزید بڑھی۔ دل چاہا چینخ چینخ کر خدا سے اپنا قصور پوچھے جس کے بدلے میں یہ سزا مل رہی تھی۔ لیکن اسے خاموش رہنا تھا۔ بالکل خاموش۔ چند پل خاموشی چھائ رہی تھی کمرے میں۔ نمرہ نے آنکھیں کھولیں تو علیزے کو اپنی جانب منتظر نگاہوں سے دیکھتے پایا۔
“آپ جائیں۔ میں خود تیار ہو جاؤں گی۔” سرد و سپاٹ لہجے میں کہا تھا اس نے۔ علیزے نے تذبذب سے اسے دیکھا۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر کمرے سے نکل گئ۔
نمرہ نہ جانے کیا سوچ کر اٹھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ سامنے نظر آتے عکس پر نگاہ جمائی۔ سیاہ شکن زدہ لباس میں بغیر کسی میک اپ کے بجھا بجھا سا چہرہ، آنکھوں تلے واضح ہوتے حلقے، بالوں کو ہاتھوں سے سنوار کر بے ترتیب سا بنایا گیا جوڑا، جوڑے سے نکلتی چند آوارہ لٹیں جو رخساروں کو چھو رہی تھیں، خشک اور بے رونق لب، رونے کے باعث سوجی ہوئی آنکھیں، بخار سے تپ کر سرخ پڑتا چہرہ۔ یہی وہ چہرہ تھا نا جسے اس شخص نے سب سے پہلے دیکھا، اور آج نوبت یہاں تک آ گئ۔ اس کا دل چاہا تھا اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا چہرہ نوچ لے، اپنی یہ صورت بگاڑ دے تاکہ اس شخص کو نفرت ہو جائے اس سے۔ وہ سر جھکائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
“چچ۔۔۔ چچ۔۔۔ چچ۔۔۔ کیا فائدہ اب رونے کا نمرہ انور؟؟ تم ہی تو خواہش کیا کرتی تھی اس سب کی۔ اب جب خواہشات پوری ہو رہی ہیں تو یہ گریہ و زاری کیوں؟؟” کمرے میں کسی کی آواز گونجی تھی۔ نمرہ نے چونک کر سر اٹھایا۔ نگاہ آئینے تک جا کر تھم گئ تھی۔۔آئینے میں سفید لباس میں کھڑے اس کے عکس کے لبوں پر تمسخرانہ مسکراہٹ تھی۔ وہ منجمند سی اسے تکتی رہ گئ۔
“مجھے یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ چاہیے۔ پلیز میری مدد کرو۔” نمرہ نے فریاد کی۔
“کہاں جاؤ گی یہاں سے نکل کر؟؟ ” آئینے میں کھڑا وجود سوال کر رہا تھا۔
“اپنے۔۔۔۔ اپنے گھر۔۔۔ مما بابا کے پاس۔۔۔” اس نے فوراً جواب دیا تھا جیسے وہ عکس ابھی اسے یہاں سے نکال لے جائے گا۔
“اچھا! اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہارے گھر والے تمہیں قبول کر لیں گے؟؟ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کو کوئی قبول نہیں کرتا۔” اس کا عکس سفاک ہوا تھا۔
“نہیں ہوں میں گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی۔ اغواء کیا گیا ہے مجھے۔ میری مرضی کے خلاف یہاں لایا گیا ہے۔ لیکن میری عصمت بالکل محفوظ ہے۔ ” وہ چینخی تھی۔
“یہ تو تم جانتی ہو نا کہ تمہیں اغواء کیا گیا، لیکن ایک پوری رات گھر سے باہر گزاری ہے تم نے، وہ بھی انجان جگہ پر، اجنبی مرد کے گھر۔ اور جانتی ہو نا رات گھر سے باہر گزارنے والی عورت کو لوگ کیا کہتے ہیں؟؟ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی، ماں باپ کی اور اپنی عزت کو داغدار کرنے والی لڑکی، کسی غیر کے ساتھ۔۔۔” عکس کا لہجہ انتہائ بے رحم تھا۔ نمرہ نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر ان آوازوں کو دبانا چاہا۔۔۔
“خدا کے لیے بس کر دو۔ مزید سننے کی طاقت نہیں ہے مجھ میں۔” وہ بلکنے لگی تھی۔
“تو یہ تسلیم کر لو نمرہ کہ اب کوئی تمہارا یقین نہیں کرے گا۔” آئینے کے اس پار کے وجود نے جیسے مشورہ دیا تھا۔
“کک۔۔۔ کریں گے یقین۔۔۔ میرے مما بابا میرا یقین کریں گے، مرتضٰی میرا یقین کرے گا۔ وہ محبت کرتا ہے مجھ سے۔۔۔” نمرہ نے جیسے خود کو یقین دلانا چاہا تھا۔ جواب میں اس کے عکس نے قہقہہ لگایا تھا۔ نمرہ کو لگا جیسے اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔
“کیا تم سمجھتی ہو کہ تمہارے وہ ماں باپ تمہارا یقین کریں گے جن کا سر آج تمہاری وجہ سے جھک گیا؟؟ یا وہ مرتضٰی جو تم سے محبت کرتا تھا ایک اغواء شدہ لڑکی سے شادی کرنے کی ہامی بھرے گا؟؟ آنکھوں دیکھی مکھی کون نگلتا ہے نمرہ؟؟ ہوش میں آؤ۔ جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا ہے اس کے بعد اس دنیا میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہو گا جو تمہاری پارسائی کا یقین کرے گا۔” اس کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا تھا۔
“لل۔۔۔ لیکن۔۔۔ اس سب میں میرا کیا قصور ہے؟؟” وہ سسکی تھی۔
“تمہارا قصور یہ ہے کہ تم اس سب کی دعائیں مانگتی رہی ہو جو آج تمہارے ساتھ ہوا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نہ جانے کونسی گھڑی قبولیت کی ہو۔ تمہاری دعا کو بھی قبولیت بخش دی گئی اور اب انجام تم خود دیکھ رہی ہو۔ ” اسے آئینہ دکھایا گیا تھا۔
“وہ سب۔۔۔ وہ سب میرا پاگل پن تھا۔ میری بیوقوفی تھی۔ لیکن اس پاگل پن کی اتنی بڑی سزا؟؟” وہ ٹوٹنے لگی تھی۔ لبوں سے سسکیاں نکل رہی تھیں۔ دوسری جانب خاموشی چھا چکی تھی۔ نمرہ نے سر اٹھا کر دیکھا۔ سفید کپڑوں میں ملبوس عکس غائب ہو چکا تھا۔ اس کی جگہ وہی سیاہ لباس میں روتی ہوئی لڑکی کا عکس دکھائ دے رہا تھا۔ نمرہ نے نگاہ ہٹائ پھر لڑکھڑاتے قدموں سے واپس مڑی۔ آنکھوں کے سامنے مما بابا کے چہرے آئے تھے۔ ان کی شفقت، ان کی محبت، ان کے لاڈ۔ پھر مرتضٰی دکھائ دیا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑتا ہوا، کبھی اس کے ساتھ اور سارہ کے ساتھ مل کر کوئی کھیل کھیلتا ہوا، اس کی نادانیوں پر جھنجھلاتا ہوا، سب سے پہلے اسے برتھ ڈے وش کرتا ہوا۔
نمرہ نے رخساروں پر بہتے آنسوؤں کو صاف کیا۔ بے شک پہلے وہ مرتضٰی کے ساتھ شادی پر راضی نہیں تھی۔ لیکن جب سارہ نے اسے سمجھایا تو آہستہ آہستہ ہی سہی وہ مرتضٰی کو اپنے ہمسفر کے روپ میں دیکھنے لگی تھی۔ اس کے حوالے سے سوچوں نے رخ بدلا تو دل کی لے بھی بدلنے لگی۔ چپکے چپکے مرتضٰی کو تکتے ہوئے اسے اندازہ ہوا تھا کہ مرتضٰی اتنا بھی برا نہیں جتنا اس نے سمجھ رکھا تھا۔ اور یونہی وہ بہت آہستگی سے نمرہ کے دل میں داخل ہوتا اس کی روح پر قابض ہو چکا تھا۔ وہ بھی شادی سے پہلے کے دنوں کو کھل کر انجوائے کرنے لگی تھی، خوش ہونے لگی تھی۔ اور جب خود کو مرتضٰی سے شادی پر تیار کر لیا تو زندگی کا پانسہ ہی پلٹ گیا۔ کیا کرے وہ؟؟ کوئی راستہ سجھائ نہ دے رہا تھا۔
بیڈ کے کنارے بیٹھتے ہوئے نمرہ نے ہتھیلیاں اپنے سامنے پھیلائیں۔ چند دن بعد ہی تو ان ہتھیلیوں پر مرتضٰی کے نام کی مہندی سجنے والی تھی۔ تو اب وہ کیسے کسی اور کی ہو جائے؟؟ کیسے کسی اور کو اپنا وجود سونپ دے؟؟ کیسے اپنا یہ ہاتھ کسی دوسرے کے ہاتھوں میں تھما دے؟؟ اس کی آنکھوں کی ویرانی بڑھنے لگی۔ یونہی بے خیالی میں نگاہ انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیانی جوڑ تک گئ۔ ذہن میں کچھ پرانی آوازیں گونجنے لگی تھیں۔
“نمی! اپنا ہاتھ دکھانا ذرا۔” کالج میں خالی پیریڈ کے دوران اس کی دوست عذرا نے اس کا ہاتھ تھاما۔
“کیوں کیا ہوا؟؟” نمرہ نے تجسس سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے اسے دیکھا جو اس کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کی درمیانی جگہ کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔ پھر بال پوائنٹ پکڑ کر وہ ہاتھ کی اس جگہ پر موکود چند لکیروں کو آپس میں ملانے لگی۔
“یہ کیا کر رہی ہو؟؟ میرا ہاتھ گندا کر دیا سارا۔” نمرہ جھنجھلائی تھی۔ ساتھ ہاتھ کھینچنا چاہا۔
“ارے چپ کرو یار۔ ایک راز کی بات بتانے لگی ہوں میں۔” عذرا نے پھر سے اس کا ہاتھ کھینچ کر اپنے سامنے کیا۔
“ایم۔ نمی تمہارے شوہر کا نام ایم سے شروع ہو گا۔” عذرا چلائ تھی۔
“ہائیں! تمہیں کس نے کہا؟؟” نمرہ حیران ہوئی۔ پھر اپنے ہاتھ کو دیکھا جہاں بال پوائنٹ سے ہاتھ کی لکیروں کے اوپر لکیریں کھینچ کر ‘ایم’کی نشاندہی کی گئ تھی۔
“پگلی! جسے آپ کا ہمسفر بننا ہوتا ہے نا آپ کے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان اس کے نام کا پہلا حرف ہوتا ہے۔ یہ دیکھو۔ میرے ہاتھ پر W لکھا ہے اور میرے منگیتر کا نام وقار ہے۔ اسی طرح تمیارے شوہر کا نام بھی M سے شروع ہو گا۔” عذرا نے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ اسے دکھایا۔ نمرہ واقعی حیران ہوئی تھی۔
“واہ! یہ تو بڑے کمال کی بات بتائ تم نے۔ اچھا چلو تکا لگاتے ہیں کہ اس کا پورا نام کیا ہو گا؟؟ ایسا کرتے ہیں پرچیاں بناتے ہیں اور ان پر مردوں کے M سے شروع ہونے والے سب نام لکھتے ہیں۔ پھر ایک پرچی اٹھا کر دیکھیں گے کیا نام آتا ہے۔ کیا پتا ہمارا تکا ٹھیک ہو جائے۔” نمرہ کے ذہن میں ایک نیا آئیڈیا آیا تھا۔ عذرا نے بھی سر ہلا دیا۔ نام لکھتے ہوئے عذرا نے مرتضٰی نام بھی بتایا تھا۔ پہلے تو نمرہ نے یہ نام لکھنے سے انکار کر دیا تھا لیکن عذرا کے اصرار پر اس نام کی پرچی بھی شامل کر لی۔ اور جب پرچی اٹھائ گئ تو مرتضٰی نام کی پرچی ہی نکلی تھی۔ جس پر عذرا نے اسے اچھا خاصا چھیڑا بھی تھا۔
“ایسا کچھ نہیں ہو گا یار! اس کھڑوس کو تو میں ایک آنکھ نہیں بھاتی، مجھے دیکھنا بھی گوارا نہیں اسے اور تم چلی یو اسے میرا ہمسفر بنانے۔” نمرہ نے تب شدت سے اس کی بات کی نفی کی تھی لیکن آج وہ اتنی ہی شدت سے خواہش کر رہی تھی کہ کاش مرتضٰی ہی اس کا شریک حیات بنے۔ کاش عذرا کی بات سچ ہو جائے۔ آنسو پھر سے پلکوں کو بھگونے لگے تھے۔
“یااللّہ! کیا کروں میں؟؟” وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔ مرتضٰی کے علاوہ کسی اور کو سوچنا بھی گناہ لگتا تھا۔ لیکن کیسی بے بسی تھی کہ وہ چاہ کر بھی اس قید سے نکل کر مرتضٰی تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اور اگر کوئی معجزہ ہو بھی جائے، وہ اس شخص سے بچ کر صحیح سلامت اپنے گھر پہنچ بھی جائے تو کیا مرتضٰی اسے اپنی بیوی کے طور پر قبول کرے گا؟؟ وہ تو شاید اس کی شکل تک دیکھنا گوارا نہ کرے۔ کوئی مرد اتنے اعلٰی ظرف کا حامل کیسے ہو سکتا تھا کہ ایک اغواء شدہ لڑکی کو قبول کر سکے؟؟
تو کیا یہی اسے اغواء کرنے والا، زبردستی اس سے شادی کرنے والا شخص ہی اس کا مقدر تھا؟؟ وہ شخص جو کچھ بھی اس کے ساتھ کر رہا تھا کیا اسے واقعی محبت کا نام دیا جا سکتا تھا؟؟ نہیں۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔ یہ تو بس ہوس تھی۔۔۔ اور کون جانے کہ نکاح کرنے کے بعد، اپنی غرض پوری کر لینے کے بعد یہ شخص بھی اس کا ساتھ دے گا یا نہیں؟؟ جب طلب ختم ہو جائے تو کسی چیز کی اہمیت کہاں رہ جاتی ہے پھر؟؟ زمانے کی نظر میں، اپنوں کی نظر میں تو وہ اسے بے مول کر ہی چکا تھا۔ اپنی طلب پوری کر لینے کے بعد شاید اسے بھی ٹشو پیپر کی طرح کہیں پھینک دیتا۔ چھپ کر کیا گیا یہ نکاح پائیدار ہو سکتا تھا کیا؟؟ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔ پاکیزہ رشتے تو ساری دنیا کے سامنے بنائے جاتے ہیں۔ چھپ کر تو گناہ کیے جاتے ہیں۔ وہ کیسے اس گناہ میں شامل ہو سکتی تھی؟؟ اس کے ذہن میں نیلی آنکھوں والے مرد کا جملہ گونجا تھا۔
“رہنا تو تمہیں میرے ساتھ ہی ہے۔اب حلال رشتے سے رہو یا حرام رشتے سے، یہ تم پر چھوڑتا ہوں۔”
وہ بہت دیر تک سوچتی رہی تھی۔۔۔ اس کے سامنے اس وقت فقط دو آپشنز تھیں۔۔ عزت۔۔۔ یا زندگی۔۔۔ اگر زندگی کو بچاتی تو عزت داغدار ہو جاتی، اور اگر عزت بچانے کی کوشش کرے تو۔۔۔ زندگی ہارنی پڑے گی۔۔۔
اگر وہ اپنی عزت کو بچانے کے لیے اس نکاح کے لیے رضامندی دے دے تو کیا یہ نکاح قابل قبول ہو گا؟؟ زبردستی کے نکاح کا شمار تو زنا میں ہوتا ہے نا؟؟ تو اس سب کے بعد کیا وہ جی سکے گی؟؟ نکاح کے بعد جب گھر جا کر اپنوں کی آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتباری دیکھے گی تو کیا اس کے لیے سانس لے پانا ممکن ہو گا؟؟ اور اگر مولوی صاحب کے سامنے نکاح سے انکار کر دے تو کیا وہ شخص اسے باعزت یہاں سے جانے دے گا؟؟ دونوں صورتوں میں وہ دنیا والوں کے سامنے کبھی سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہ رہتی۔۔۔ تو پھر؟؟ ایک ہی راستہ بچتا تھا پیچھے؟؟ جس سے عزت پر حرف بھی نہ آتا۔۔۔ گھر والوں کی آنکھوں میں بے اعتباری بھی نہ دیکھنی پڑتی۔۔۔ زمانے کی تلخ نگاہوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔۔۔ معاشرے کے منہ سے دل کو چیر کر رکھے دینے والے الفاظ نہ سننے پڑتے۔
“اللّہ! مجھے معاف کر دیجیے گا۔۔۔ آپ تو میری حالت سے واقف ہیں نا؟؟ جب بات عزت پر بن آئے تب یہ قدم اٹھانا تو ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہیں آپ اپنے بندے سے۔ میری مجبوری کو سمجھتے ہوئے مجھے بخش دیجیے گا۔” وہ اذیت کی انتہا پر پہنچتے ہوئے آنکھیں سختی سے میچتی اپنے رب سے مخاطب ہوئی تھی۔ پھر آنکھیں کھولیں تو ان میں اٹل اور مضبوط ارادے کی جھلک دکھائی دی۔ نگاہ سامنے پینٹنگ تک گئی جسے فریم کروا کر دیوار پر لگایا گیا تھا۔ نمرہ نے گردن موڑی۔ اگلے ہی پل لب بھینچ کر اٹھتی وہ گلدان ہاتھ میں لے چکی تھی۔۔۔
” یار یہ ایک منٹ کیپ پکڑنا ذرا میری۔۔۔” ایان نے تیسری بار اپنی کیپ مرتضٰی کو پکڑائ تھی۔ اب وہ پولیس یونیفارم میں آئینے کے سامنے کھڑا تنقیدی نگاہوں سے اپنا جائزہ لے رہا تھا۔
“بس کر دو ایان! تمہاری سسرال والے نہیں دیکھنے آ رہے تمہیں جو بار بار آئینے کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہو۔۔۔ ” مرتضٰی جھنجھلایا تھا۔ ڈراپ سین کا وقت آ چکا تھا لیکن ایان کے بچے کے نخرے ہی ختم نہیں ہو رہے تھے۔
“کیا ہو گیا ہے یار! پہلی بار پولیس کا یونیفارم پہنا ہے۔ جی بھر کر اپنی نظر تو اتار لینے دو۔ ویسے قسم سے میری بڑی خواہش تھی پولیس آفیسر بننے کی۔ لیکن تمہاری یہ جو چڑیل بھابھی ہے نا اس نے مجھے پولیس فورس جوائن نہیں کرنے دی۔ ” ایان اپنے رونے لے کر بیٹھ گیا تھا۔
“ایسے نہیں مانو گے تم۔ رکو علیزے بھابھی کو بلاتا ہوں میں۔ ” مرتضٰی نے دھمکی دی اور اس دھمکی پر عمل درآمد کرنے کو دروازے کی جانب بڑھا جب ایان بھاگتے ہوئے دروازے سے چپک گیا۔
“نہیں لالے! تمہیں میری قسم اس ڈائن کو مت بلانا ورنہ وہ میرا خون پی جائے گی۔” ایان نے چہرے پر مصنوعی بے چارگی سجائ۔
“اپنا یہ مسخرہ پن بند کرو۔ اور خبردار جو میری بھابھی کو ایسے الٹے سیدھے ناموں سے پکارا۔ شکر کرو بھابھی نے تمہیں قبول کر لیا ورنہ جیسی تمہاری حرکتیں ہیں نا ساری عمر کنوارے ہی رہنا تھا تم نے۔” مرتضٰی نے ایک دھپ رسید کی تھی اسے۔
“اچھا! میری حرکتوں پر بڑی نظر ہے تمہاری۔ اور جو تمہاری حرکتیں ہیں نا اگر ابھی جا کر بھابھی کو بتا دوں تو تم اس زمین کے اوپر چلنے کے قابل بھی نہیں رہو گے، شادی کرنا تو دور کی بات۔۔۔” ایان نے فوراً حساب چکتا کیا۔
“اور پھر تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا ہاں؟؟” مرتضٰی نے اس کی گردن دبوچی۔۔۔
“اے لڑکے! خبردار! تم ایک آن ڈیوٹی آفیسر پر ہاتھ اٹھا رہے ہو۔ اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا۔” ایان نے فوراً وردی کا رعب جھاڑا۔ مرتضٰی نے کچھ کہنے کو لب کھولے تھے جب ساتھ والے کمرے سے کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی تھی۔ یوں جیسے کانچ پر کوئی سخت چیز مار کر اسے توڑا گیا ہو۔
“یہ لو! بھابھی آ گئیں جلال میں۔ غصہ اب کمرے کی چیزوں پر اتر رہا ہے۔ یار روک انہیں۔۔۔۔ کل میرے ابا کا وزٹ ہے یہاں۔ اپنی خون پسینے کی کمائ سے خریدی گئ چیزوں کی یہ حالت دیکھ کر مجھے الٹا لٹکا دیں گے وہ۔۔۔” ایان نے دہائ دی تھی۔ البتہ لہجے سے شرارت صاف جھلک رہی تھی۔
“کہہ دینا علیزے بھابھی سے لڑائ ہو گئ تھی تو انہوں نے غصے میں چیزیں اٹھا اٹھا کر تمہیں ماریں۔ بلکہ اگر تم کہتے ہو تو میں تمہارا سر بھی پھاڑ دیتا ہوں۔ مظلومیت کا رونا رونے میں آسانی ہو گی۔” مرتضٰی نے بغیر کوئی اثر لیے کہا تھا۔ لیکن اگلے ہی پل وہ تھما۔ کوئی خیال اچانک ذہن میں آیا تھا جو اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا کر گیا۔ اس کے چہرے کا رنگ بدلا۔ اگلے ہی پل وہ تیزی سے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ ایان اس کی یہ حالت دیکھ کر اسے آوازیں ہی دیتا رہ گیا۔ لیکن اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم سے جان نکل رہی ہو۔ لرزتے ہاتھوں سے ساتھ والے کمرے کا لاک کھولتے ہوئے وہ تیزی سے اندر داخل ہوا۔ اس کے دل میں ابھرتے خدشات کے عین مطابق نمرہ پینٹگ کے فریم کا شیشہ توڑ کر اب اس کا ایک ٹکڑا اپنی کلائ پر رکھ چکی تھی۔ مرتضٰی کی سانس گویا رک سی گئ۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر نمرہ نے تیزی سے اس کانچ سے اپنی نس کاٹنی چاہی تھی لیکن مرتضٰی بجلی کی سی تیزی سے اس تک پہنچ کر کانچ کا ٹکڑا چھینتا ہوا دور پھینک چکا تھا۔ پھر بھی کلائ پر ہلکا سا کٹ لگ چکا تھا جس میں سے اب خون بہہ رہا تھا۔۔۔
“چھ۔۔۔ چھوڑو مجھے۔۔۔” نمرہ آنے والے کو دیکھے بغیر چلائ تھی۔ پھر دوبارہ کانچ اٹھانے کو لپکی تھی لیکن مرتضٰی نے اس کی کلائ تھام کر اسے اپنی جانب گھسیٹا۔۔۔ علیزے اور ایان ششدر سے دروازے میں کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔
“نمرہ ہوش کرو۔۔۔” مرتضٰی نے اسے جھنجھوڑا تھا۔ اور نمرہ۔۔۔ وہ تو جیسے ساکت ہوئی تھی مرتضٰی کی آواز سن کر۔۔۔ نگاہیں اٹھا کر دیکھا تو سامنے مرتضٰی کو پا کر آنکھوں میں شاک کی سی کیفیت ابھری جبکہ چہرے پر بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔۔۔
“مم۔۔۔ مرتضٰی۔۔۔ تم آ گئے؟؟ کک۔۔۔کتنا انتظار کیا میں نے تم سب کا۔۔۔ کہاں رہ گئے تھے؟؟” وہ لرزتی ہوئی سی آواز میں اس کے کندھے سے لگی رو رہی تھی۔ جہاں مرتضٰی کو اپنے سامنے دیکھ کر دل کو سکون ملا تھا وہیں کل سے آج تک کی ساری فرسٹریشن، غصہ، اذیت آنسوؤں کے ذریعے بہنے لگی تھی۔ جبکہ مرتضٰی تو ہلنے کے قابل بھی نہ رہا تھا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ فقط نمرہ کو سبق سکھانے کی غرض سے کیا گیا ایک چھوٹا سا ڈرامہ اس قدر سنگینی اختیار کر جائے گا۔ اگر اسے آنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر ہو جاتی تو؟؟ اس سے آگے سوچتے ہوئے ہی اسی وحشت نے آن گھیرا تھا۔
“مرتضٰی! مم۔۔۔ میں خود اپنی مرضی سے نہیں آئ یہاں۔۔۔۔ میں بھاگی ہوئی لڑکی نہیں ہوں۔۔۔ مم۔۔۔ مجھے اغواء کیا تھا اس شخص نے۔۔۔ اس میں میری مرضی شامل نہیں تھی۔۔۔ میں رات بھر انتظار کرتی رہی کہ کوئی تو آئے گا جو مجھے اس قید سے رہائ دلائے گا۔ بابا۔۔۔ تایا ابا۔۔۔ تم۔۔۔ لیکن۔۔۔ کک۔۔۔ کوئی نہیں آیا۔۔۔ مجھے لگا میں اب کسی کو اپنی پارسائ کا یقین نہیں دلا پاؤں گی۔” وہ روتی ہوئی اب بھی بولے جا رہی تھی۔ جبکہ مرتضٰی نے سختی سے آنکھیں میچتے ہوئے خود کو اذیت کی انتہا پر محسوس کیا۔ پھر اپنے بازو کو جکڑے، کندھے سے لگی اس لڑکی کو دیکھا جو گھر میں تو سب کو تگنی کا ناچ نچائے رکھتی تھی لیکن اب کیا حال کر لیا تھا اس نے اپنا۔۔۔
“نمرہ! ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ میں آ گیا ہوں نا۔۔۔ دیکھو تمہاری کلائ سے خون نکل رہا ہے۔ چلو ڈاکٹر کے پاس چلیں۔ بینڈیج کروا کے گھر جائیں گے۔ ” مرتضٰی نے نرمی سے اسے خود سے الگ کیا تھا۔ پھر اس کا ہاتھ تھاما۔
“مم۔۔۔ مجھے نہیں جانا گھر۔ میں نے پوری ایک رات گھر سے باہر گزاری ہے۔ میں کیسے سامنا کروں گی سب کا۔ بابا جان مجھے جان سے مار دیں گے۔ ان کی جھکی نظریں نہیں دیکھ پاؤں گی میں۔” نمرہ کا چہرہ خوف سے سفید پڑنے لگا تھا۔ مرتضٰی کو شدید پشیمانی نے آن گھیرا۔ اس نے بے بس نگاہوں سے ایان اور علیزے کو دیکھا۔
“کوئی کچھ نہیں کہے گا تمہیں۔ میں ہوں نا؟؟ میں سب سنبھال لوں گا۔ تم رونا بند کرو اور چلو میرے ساتھ۔” مرتضٰی نے آگے بڑھ کر اس کادوپٹا اٹھایا۔ اس کے کندھوں پر دوپٹہ پھیلاتے ہوئے اس کے آنسو صاف کیے اور پھر اسے ساتھ لے کر آگے بڑھ گیا۔ ایان اور علیزے کے چہرے پر بھی تاسف تھا۔ مرتضٰی بغیر کسی سے نگاہ ملائے نمرہ کو گاڑی میں بٹھاتا گاڑی بڑھا لے گیا۔ پہلے ڈاکٹر سے نمرہ کی کلائ کی بینڈیج کروائ اور پھر گاڑی گھر کی جانب موڑ لی۔
شادی ہال میں اس وقت خاصی گہما گہمی تھی۔ اسٹیج پر دلہا دلہن بیٹھے تھے۔ اسٹیج کے بالکل سامنے فوٹو گرافر اس نئے نویلے جوڑے کی تصاویر لینے میں مصروف تھا۔ جبکہ فیملی کے سبھی افراد ان دونوں کے ساتھ بیٹھتے تصاویر اتروا رہے تھے۔ نمرہ سرخ اور گولڈن امتزاج کے لہنگے میں گہرا میک اپ کیے، دلہن بنی قیامت ڈھا رہی تھی جبکہ مرتضٰی مہرون شیروانی پہنے کسی شیزادے سے کم نہ لگ رہا تھا۔ کچھ دیر قبل ہی ان دونوں کا نکاح ہوا تھا اور اب فوٹو سیشن چل رہا تھا۔ جب فوٹو سیشن مکمل ہوا اور کھانا کھلنے پر سب لوگ کھانے کی جانب متوجہ ہوئے تو انہیں سانس لینا نصیب ہوا۔
چند پل خاموشی کی نظر ہوئے۔ مرتضٰی نے گردن کا رخ ذرا سا موڑ کر نمرہ کی جانب دیکھا جو سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس نے گلا کھنکار کر نمرہ کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ نمرہ چونکی تھی لیکن اس کی جانب دیکھنے سے گریز کیا۔ دلہناپے کے روپ میں فطری جھجھک اور شرم آڑے آ رہی تھی۔
“سارہ سے کیا کہا تھا تم نے؟؟ کہ تم نے ایک رات گھر سے باہر گزاری ہے اور تم میرے قابل نہیں رہی اس لیے میں اس شادی سے انکار کر دوں؟؟” مرتضٰی کی سنجیدہ سی آواز ابھری تھی۔ نمرہ اس کی بات سن کر دنگ سی رہ گئ۔ اسے ہرگز امید نہیں تھی کہ مرتضٰی شادی کے دن براہ راست اس سے یہ سوال کرے گا۔ اور وہ بھی یوں اسٹیج پر سب کے سامنے۔
“تم سے مخاطب ہوں میں۔” مرتضٰی نے اسے خاموش پا کر دوبارہ مخاطب کیا۔ نمرہ کو سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے۔
“ہاں تو کیا غلط کہا میں نے؟؟” آنسو ضبط کرنے کی کوشش میں اس کی آواز بھرائ تھی۔ وہ بھیانک دن اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ ذہن میں آیا تھا۔
“تم آج یہ فنکشن ختم ہونے کے بعد میرے کمرے میں آؤ۔ پھر بتاؤں گا تمہیں کہ کیا غلط کہا تم نے اور کیا صحیح۔۔۔” مرتضٰی نے دانت پیسے۔۔۔
“تم دھمکی دے رہے ہو مجھے؟؟” نمرہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
“ہاں کیونکہ فی الوقت دھمکی ہی دے سکتا ہوں۔ لیکن کمرے میں پہنچ کر اس دھمکی کو عملی طور پر کر کے دکھاؤں گا۔” مرتضٰی کا لہجہ سنگین ہوا تھا۔ نمرہ اس کے اس روئیے پر ٹھٹھر کر رہ گئ۔
“مم۔۔۔ میں نے نہیں آؤں گی پھر تمہارے کمرے میں۔” وہ بنا سوچے سمجھے تیزی سے بولی۔ لہجے میں خوف کا عنصر تھا۔
“چلو تم نہ آنے کی کوشش کرو میں تمہیں اپنے کمرے میں لے جانے کی کوشش کروں گا۔ دیکھتے ہیں کون کامیاب ہوتا ہے۔ اب تو تمہیں اٹھا کر لے جانے کا پرمٹ بھی مل چکا ہے مجھے۔” مرتضٰی نے اس کے چہرے سے نگاہ ہٹا کر سامنے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
“یہ زیادتی ہے۔۔۔ میں تایا ابا کو بتاؤں گی۔” نمرہ نے اپنی پوزیشن کا خیال کیے بغیر احتجاج کیا۔
“اچھا! کیا بتاؤ گی اپنے تایا ابا کو۔۔۔؟؟” مرتضٰی نے چبا چبا کر پوچھا۔
“میں ان سے کہوں گی کہ مجھے تمہارے کمرے میں نہیں جانا۔ اور یہ کہ تم مجھے زبردستی اپنے کمرے میں لے جانے کی دھمکی دے رہے تھے۔” نمرہ نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا۔
“اچھی بات ہے۔ بتانا اپنے تایا ابا کو۔ لیکن وہ کیا ہے نا کہ میرے بابا تمہاری طرح بے وقوف نہیں ہیں۔ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ شادی کے بعد دلہن دلہا کے کمرے میں ہی جاتی ہے۔ اگر انہوں نے تمہارا ساتھ دیا تو اپنے پوتے پوتیوں کا منہ کیسے دیکھیں گے؟؟” مرتضٰی روانگی میں کہتا چلا گیا جبکہ اس کی آخری بات پر نمرہ کا منہ کھل گیا۔ مرتضٰی کو جب خود احساس ہوا کہ وہ کیا کہہ گیا ہے تو ایک پل کو وہ گڑبڑایا۔ پھر نمرہ کو دیکھا جو آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔
“نظریں جھکا کر بیٹھو لڑکی! لوگ کیا کہیں گے کتنی بے شرم دلہن ہے۔ دیدوں میں شرم حیا ہی نہیں ہے۔ کیسے آنکھیں پھاڑے اپنے دلہا کو دیکھے جا رہی ہے۔” مرتضٰی نے نمرہ کو لتاڑا جبکہ لہجے میں شرارت تھی۔ نمرہ اس کی بات پر لب بھینچ کر سر جھکاے گئ۔
وہ مرتضٰی کے کمرے میں سیج پر بیٹھی تھی۔ کمرے میں چاروں طرف گلاب کے پھولوں کی مسحور کن خوشبو پھیلی تھی۔ بیڈ کے اطراف میں بھی گلاب کے پھولوں سے سجاوٹ کی گئ تھی۔ بیڈ کی پائنتی کی جانب پڑی میز پر دئیے روشن کر کے رکھے گئے تھے جو ماحول کو خوابناک بنا رہے تھے۔ نمرہ اس وقت گھونگھٹ گرائے بیٹھی مرتضٰی کی منتظر تھی۔ ڈیڑھ بج رہا تھا اور مرتضٰی ابھی تک نہیں آیا تھا۔ آنے والے لمحات کا سوچ کر نمرہ کی ہتھیلیاں بھیگنے لگیں۔ مرتضٰی کی دی گئ دھمکی کانوں میں گونجی تو دل لرز سا گیا۔ ایک پل کو خیال آیا اٹھ کر اپنے کمرے میں بھاگ جائے۔ لیکن پھر وہ دل مسوس کر رہ گئ کہ ایسا کر نہیں سکتی تھی کیونکہ گھر مہمانوں سے بھرا تھا۔
وہ انہی اوٹ پٹانگ خیالوں میں گھری تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا۔ نمرہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔ مرتضٰی نے اندر داخل ہوتے ہوئے دروازہ لاک کیا۔ ایک پل کو وہیں رک کر کچھ سوچا۔ پھر لائٹس آن کیں۔
“اٹھو میرے بیڈ سے۔” مرتضٰی کی سخت آواز سن کر نمرہ کا دل اچھل کر حلق میں آیا۔ وہ حیران پریشان گھونگھٹ کی اوٹ سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی جس پر غصے کے تاثرات تھے۔
“سنائی نہیں دیا تمہیں؟؟ ابھی اور اسی وقت اٹھو میرے بیڈ سے۔” مرتضٰی نے آگے بڑھ کر نمرہ کو کلائ سے تھاما اور بیڈ سے کھینچ کر اتارا۔ وہ بے چاری ہکّا بکّا صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسے لگا جیسے یہ سب ایک مذاق ہے لیکن مرتضٰی کے چہرے کے سنجیدہ تاثرات دیکھ کر پل میں آنکھیں بھر آئ تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ روتے ہوئے اپنا سارا میک اپ خراب کرتی مرتضٰی کی ہنسی چھوٹ گئ۔ جبکہ نمرہ حیران پریشان سی سوں سوں کرتی اسے دیکھنے لگی۔۔۔
“بس؟؟ اتنی سی برداشت تھی؟؟ اتنا ہی حوصلہ تھا تم میں شوہر کی نفرت سہنے کا؟؟” وہ اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔
“کیا تھا یہ سب؟؟” نمرہ نے لب بھینچتے ہوئے سوال کیا۔
“کچھ نہیں۔ تم ہی تو کہتی تھی کہ مجھ میں ہیرو والی کوئی بات نہیں تو اسی لیے تھوڑی ہیرو والی فیلنگ لے رہا تھا۔ یو نو ہیرو جو ہیروئین پر دن رات ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے، اسے ہر پل کڑی نگاہوں سے گھورتا ہے، اسے مارتا پیٹتا ہے، اس کے جسم کو کئ جگہ سے جلاتا ہے، کئ کئ دن بھوکا رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن تم نے تو سارا موڈ ہی خراب کر دیا۔ ہیروئین والا تو کوئی گن ہی نہیں تمہارے اندر۔ ہیروئین اتنا سب کچھ برداشت کر کے بھی ہٹی کٹی رہتی ہے اور تم میرے صرف ایک ڈائیلاگ سے ہی مرنے والی ہو گئیں۔” مرتضٰی ہنستے ہوئے اس کا مذاق اڑا رہا تھا جبکہ نمرہ کے چہرے پر غصے کے آثار دکھائ دینے لگے۔
” بہت ہی برے انسان ہو تم۔۔ میں ابھی تایا ابا کو بتاتی ہوں تمہاری اس حرکت کے بارے میں۔” نمرہ اپنا لہنگا دونوں ہاتھوں سے سنبھالتی آنکھوں میں آنسو لیے دروازے کی جانب بڑھی جب مرتضٰی نے اس کی کلائ تھام کر اسے اپنی جانب کھینچا تھا۔ وہ توازن برقرار نہ رکھ پائ اور اس سے آن ٹکرائ۔
“نہ کرو یار! شادی کی پہلی رات ہے۔ آج تو بخش دو۔ سب مہمانوں کے سامنے ابا حضور سے بےعزت کرواؤ گی کیا؟؟” مرتضٰی نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے نرم لہجے میں کہا تھا۔
“چھوڑو مجھے۔ تم واقعی جلاد ہو۔” نمرہ مچلی تھی۔
“یہ جلاد محبت کرنا بھی جانتا ہے۔ اور محبت کا عملی مظاہرہ کرنا بھی بشرطیکہ آپ کی اجازت ہو۔” مرتضٰی نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو وہ سٹپٹا کر نگاہوں کا رخ بدل گئ۔ البتہ مرتضٰی کے لہجے کا اثر تھا کہ اب مزاحمت ترک کر دی تھی۔
“بولو اجازت ہے؟؟” مرتضٰی نے ٹھوڑی تلے انگلی رکھ کر اس کی ٹھوڑی اونچی کی تو وہ آنکھیں میچ گئ۔ پھر کچھ یاد آنے پر ایک دم آنکھیں کھولیں۔
“میری منہ دکھائ کدھر ہے؟؟ کتنے بدتمیز ہو تم۔ میرا چیرہ دیکھ لیا اور منہ دکھائ دی ہی نہیں۔” نمرہ منہ بسورتی اس سے فاصلے پر ہوئی۔ مرتضٰی کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ ابھری تھی۔ اس کا ہاتھ تھام کر وہ اسے ڈریسنگ ٹیبل تک لایا۔
“آنکھیں بند کرو۔” مرتضٰی کے کہنے پر وہ فوراً آنکھیں بند کر گئ۔ مرتضٰی نے دراز سے جیولری باکس نکالا۔ پھر اسے کھولتے ہوئے اس میں موجود گولڈ کی چین کو باہر نکالا جس میں لاکٹ جھول رہا تھا۔ لاکٹ پر NM لکھا تھا۔ یہ لاکٹ اس نے خود آرڈر پر بنوایا تھا۔ مرتضٰی نے ہک کھولتے ہوئے چین نمرہ کی گردن کی زینت بنا دی۔ پھر آہستگی سے اس کا رخ آئینے کی جانب کیا۔
“اب کھولو آنکھیں۔” مرتضٰی کی آواز سنائی دی تھی۔ نمرہ نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔ پھر اپنی گردن میں موجود اس چین اور لاکٹ کو دیکھا۔ لاکٹ کا ڈیزائن اتنا خوبصورت تھا کہ وہ کتنے ہی پل اسے انگلیوں سے چھو کر محسوس کرتی رہی۔۔۔ اپنے اور مرتضٰی کے نام کے پہلے حروف کو ساتھ جڑا دیکھ کر ایک خوشگوار احساس جاگا تھا اس کے دل میں۔
“تھینک یو۔۔۔۔” اس کے چہرے پر مسکان نے اپنا ڈیرہ جمایا تھا۔۔۔
“اونہوں۔۔تھینکس ٹو یو۔۔۔ کہ تم نے مجھے شرف قبولیت بخشا، تھینکس ٹو یو کہ تم نے آج مجھے مکمل کر دیا۔ ” وہ اس کے کندھے پر ٹھوڑی جمائے آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو آنکھوں میں بسا رہا تھا۔
“تم مجھے ناولز لا کر دیا کرو گے نا اب؟؟” نمرہ نے جھجھکتے ہوئے معصومیت سے سوال کیا۔ مرتضٰی کو بے ساختہ پیار آیا تھا اس کی اس ادا پر۔
“ہاں میری جان! تمہیں ناولز لا کر دینا میری ذمہ داری ہے۔ لیکن پہلے وعدہ کرو مجھ سے۔۔۔ کہ تم اپنے ناولز کے ہیروز کو مجھ سے کمپئیر نہیں کرو گی۔” مرتضٰی نے اپنی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائ۔
“کبھی نہیں کروں گی۔۔۔ میں جان گئ ہوں کہ ناولز کی دنیا میں اور حقیقی دنیا میں بہت فرق ہوتا ہے۔” نمرہ نے اس کی ہتھیلی پر اپنا مہندی سے سجا ہاتھ رکھا۔
“تو پھر ٹھیک ہے۔ ارے ہاں! ایک اور گزارش ہے۔ جب جب میں تمہیں تنگ کروں تو جا کر بابا سے شکایت مت لگانا۔ قسم سے شادی شدہ ہو کر پٹتے ہوئے بہت عجیب لگوں گا۔” مرتضٰی پھر سے شرارت پر آمادہ ہوا تھا۔ اس کی بات پر نمرہ کی ہنسی بے ساختہ تھی جبکہ مرتضٰی مبہوت سا اسے ہنستے ہوئے دیکھتا رہ گیا۔ کھڑکی کے اس پار چمکتا چاند ان کے ملن کی اس خوبصورت رات میں مسکراتا ہوا بدلیوں کی اوٹ میں چھپ گیا۔
یہ شرارت تیری اور یہ نادانیاں۔۔۔
میری مسکراہٹ کی وجہ بن گئیں۔۔۔
تو ملا تو صنم تیری خوشیاں سبھی۔۔۔
میرے ہونٹوں سے نکلی دعا بن گئیں۔۔۔
ہے سبب تو ہی جینے کا اے زندگی!
تم ہی اب میرے دل کی سدا بن گئیں۔
ختم شد۔۔۔