وہ اختررومانوی کی ذات میں پوری طرح ڈوب گئی تھی۔اس کے خیال میں بھی نہیں تھا کہ اختر رومانوی کے لبادے میں شعیب موجود ہے اور وہ اس کا اپنا ہی خون ہے۔اگرزبیدہ پھوپھو کا راز رہتا ہے تو وہ بھی راز ہی رہے گی۔شعیب اسے کبھی نہیں پا سکے گا۔اور وہ خود اختر رومانوی سے رابطہ نہیں چاہتی تھی۔وہ اس کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا۔اسے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ شعیب حویلی میں آیا ہے ۔مگر دل کے کونے میں کہیں بھی خواہش نہیں اٹھی کہ دیکھوں تو سہی وہ حقیقت میں کیسا ہے؟ایک لمحہ کی دوری اور چند قدم کے فاصلہ پر تھا وہ ۔اسے محض کھڑکی تک جانا تھا اور اسے دیکھ لینا تھا۔لیکن اس نے شعیب کو ایک نظر بھی نہیں دیکھا۔وہ آیا اور چلا گیا۔اس نے ایک نگاہ بھی نہ ڈالی۔یہ غصہ تھا ،بے بسی تھی یا پھر وہ بے نیاز ہوگئی تھی۔یہی سب سوچتے ہوئے اسے ایک لمحے کو خیال آیا کہ کیا اس کی محبت اتنی سی ہی تھی کہ چند دن وہ محبت کی پنہا یوں میں رہی اور پھر سدا کے لیے اس سے یہ جذبے اور احساس چھین لیے گئے۔یہاں سے پھر’’کیوں‘‘ اس کے سامنے آ کھڑا ہوتا۔جیسے وہ مہارانی ہو اور اس کے دربار میں یہ سوال کسی سوالی کی طرح اس کی نظر کرم کے منتظر ہوں۔اب اس کے پاس تھا بھی کیا، یہی سوال تھے اور انہی سوالوں کی بنیاد پر ابھرتے ڈوبتے سوچوں کے پندار، اس کے علاوہ اب اس کے پاس تھا بھی کیا۔ وہ خود اپنے اندر سے جاگ اٹھی تھی۔اسے خود اپنے فیصلے کرنا تھا۔جن کے سہارے اس نے اپنی زندگی کے باقی ایام گذارنے تھے۔اس کا سیل فون نجانے کہاں تھا اور کتابیں میگزین ڈبوں میں بند کرکے کسی کونے کھدرے میں ڈال دئیے تھے۔وہ ان کے بارے میں اب سوچنا بھی نہیں چاہ رہی تھی۔اس کا تمام تر محور اب اس کی اپنی ذات تھی،جہاں سے اب سوچوں کے نئے سوتے پھوٹ رہے تھے۔
رات لمحہ بہ لمحہ گذرتی چلی جا رہی تھی۔اور سوچوں کا ایک طوفان تھا جو امنڈ تا چلا آ رہا تھا۔اس نے خود کو حالات کے سپرد کر دیا تھا۔وہ چاہتی تھی کہ اب اپنے اعتماد کے بل بوتے پر ان حالات کا مقابلہ کرے،اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ ایک مجبور ،بے بس او ر تنہا لڑکی ہے۔وہ ان حالات کا کیسے مقابلہ کر پائے گی۔پھوپھو کا ایک سہارا بنا تھا،وہ بھی ختم ہو گیا۔وہ اس کی اگر بات مان کر اس کے ساتھ چلی جاتی تو شاید اسے اپنی تنہائی کا اتنا احساس نہ ہوتا۔اسے شعیب کی محبت چاہے نہ ملتی لیکن اس کا سہارا تو مل جاتا۔اور اگر نفرت مل جاتی۔؟ اس خیال کے ساتھ ہی جب یہ سوچ ابھرتی تو وہ دل مسوس کر رہ جاتی۔زندگی اچانک ہی بے رنگ دکھائی دینے لگی۔اسے یوں لگتا جیسے زندگی کے صحرا میں وہ یک تنہا کھڑی ہے،آسمان سے کڑی دھوپ اس پر ہے اور وہ آبلہ پائی میں کھڑی اسی حیرت میں ہے کہ کوئی تو راستہ ہو؟لیکن راستہ تو کیا ملنا تھا۔اسے کوئی سراب بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔وہ مایوسی کی انتہاؤں کو چھو رہی تھی۔باہر موجود اندھیرے کی طرح اس کا مقدر بھی سیاہی میں ڈوبا ہوا تھا۔اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔اچانک ہی اسے یہ احساس ہوا کہ اس کے آنسو بہہ رہے ہیں۔کھڑکی پر دھرے ہاتھ کی پشت پر جب گرم گرم نمی محسوس ہوئی تو وہ اپنے آپ میں آ گئی۔اس نے بے بسی کی سی کیفیت میں اپنے آنسو صاف کیئے اور باتھ روم میں چلی گئی۔وہ منہ پر کافی دیر تک پانی کے چھپاکے مارتی رہی۔ذرا سکون محسوس ہوا تو اس نے وضو کرنا شروع کر دیا۔وہ باتھ روم سے وضو کر کے نکلی تو ایک گونہ سکون اس کے دل میں اتر آیا تھا۔وہ جائے نماز بچھا کر رب تعالی کے حضور کھڑی ہوگئی اور پھر اتنہائی جذب کے عالم میں نماز پڑھنے لگی۔نجانے اتنا سرور نماز میں کہاں سے آ گیا تھا۔بے بسی کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے جب انسان اپنے خالق حقیقی کی طرف رجوع کرتا ہے ،اس کی مددد کا طلب گار ہوتا ہے تو اسے اپنے رب کی طرف سے یقین مل جاتاہے کہ وہ اس کی مدد کرتا ہے۔منفی سوچیں نہ جانے کہاں تحلیل ہو جاتی ہیں اور اس کی جگہ ایمان ویقین آ جاتاہے۔جس سے دل کو تسلی ملتی ہے کہ بندے اور رب کا تعلق جب بن جاتاہے تو پھر اس میں دوئی نہیں آتی،تعلق گہرا ہونا شروع ہوس جاتا ہے۔
حویلی کی اوپری منزل کے اس کمرے میں دھیمی روشنی تھی۔نادیہ پورے خشوع وخضوع کے ساتھ رب تعالی کے حضور جھکی ہوئی تھی۔اس کی دعاؤں میں نجانے کیسی رقت آ گئی تھی کہ بہتے آنسوؤں کا اسے خیال ہی نہیں تھا ،بلکہ ایک گونہ سرور اس کے دل میں اترتا چلا جا رہا تھا۔اسے لگا جیسے تپتے ہوئے صحرا میں چمکتے ہوئے سورج کے آگے بادل آ گئے ہیں اور موسم خوشگوار ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔اسے یقین ہو گیا کہ اب سراب نہیں،حقیقی نخلستان اسے نہ صرف ملیں گے ،بلکہ وہ انہی راستوں پہ چلتی ہوئی اپنی منزل تک ضرور پہنچے گی۔ایک ایک چہرہ اس کی نگاہ میں تھا۔وہ انہیں دیکھتی جاتی تھی او ر غور کرتی چلی جا رہی تھی۔زندگی اسے با مقصد دکھائی دینے لگی تھی۔
***
شعیب اگرچہ اپنے آفس میں مصروف تھا لیکن وہ ذہنی طور پر الجھا ہواتھا۔حویلی سے آنے کے بعد اسے نجانے اپنی ہزیمت کا احساس کیوں ہو رہا تھا۔اسے لگ رہا تھ کہ پیر سائیں نے اسے اسی کے سامنے ہرا دیا ہے۔وہ جو بہت کچھ کرنے کے بلند و بانگ دعوے لیے ہوئے تھا۔کچھ بھی نہیں کر سکا۔وہ یوں خالی ہاتھ واپس لوٹا تھا کہ جیسے اس کا ہاتھ جھٹک دیا گیا ہو۔وہ لا شعوری طور پر محمد الیاس کا انتظار کر رہا تھا جو ہنوز اس تک نہیں پہنچا تھا۔جبکہ نادیہ تک پہنچنے کی ایک راہ اسی کی ذات سے ہوکر جارہی تھی۔وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا کہ جیسے اچانک سب کچھ ہی اس سے چھین لیا گیا ہو۔وہ جتنا اپنا دھیان اپنے کام کی طرف لگاتا ،اتنا ہی الجھ جاتا۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ابھی اٹھے اور کسی ویرانے میں چلا جائے۔وہاں بس وہ ہو،اس کی تنہائی ہو اور نادیہ کی یادیں ہوں۔اسی کشمکش میں دوپہر گذر گئی۔دفتر کا وقت ختم ہوا تو وہ سرکاری گاڑی میں واپس رہائش گاہ آ گیا۔اس کا دل تھا کہ ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔شاید اس کے اندر کا عکس اس کے چہرے پر پھیلا ہوا تھا۔اس لیے جیسے ہی وہ گھر آیا ۔زبیدہ نے ایک ہی نگاہ میں دیکھ لیا کہ شعیب نارمل نہیں ۔ضرور کسی ذہنی کشمکش میں مبتلا ہے۔
’’کھانا لگواؤ بیٹا۔؟‘‘ زبیدہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’جی۔!‘‘اس نے ہنکارہ بھرا اور ایزی ہونے کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا۔اسے معلوم تھا کہ اس کی ماں کھانانہیں کھایا ہو گا۔وہ اس کے بغیر کھاتی ہی نہیں تھی۔اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کھانے کی میز پر آ گیا۔یوں ماں کا ساتھ دینے کی غرض سے وہ کھاتا رہا۔دونوں نے ہی بہت کم کھایا اور پھر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ملازم جب برتن سمیٹ کر چلا گیا اور اس نے چائے لا کر ان دونوں کے سامنے رکھ دی تو اس وقت زبیدہ اپنے طور پر فیصلہ کر چکی تھی۔
’’کیا بات ہے بیٹا۔!تم مجھے خاصے پریشان دکھائی دے رہے ہو؟‘‘
’’امی۔!میں پریشان تو ہوں۔۔اس میں کوئی شک نہیں ہے۔میں چاہوں بھی تو اپنا آپ چھپا نہیں پاؤں گا ۔لیکن جو میری پریشانی ہے،اس کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ایساکچھ ہے کہ کسی نقصان کا اندیشہ ہو۔‘‘اس نے الجھتے ہوئے صاف گوئی سے کہا تو وہ بولیں۔
’’تیرا تعلق تو مجھ سے ہے نا۔۔بتاؤ۔ممکن ہے تمہارے مسئلے کا کوئی حل میرے پاس ہو۔۔۔‘‘
’’امی۔!بس ایسے ہی۔۔بس چھوڑیں آپ۔۔‘‘اس نے نظر انداز کرنے والے لہجے میں کہا۔
’’بیٹا۔!آج سارا دن میں ایک بات سوچتی رہی ہوں۔۔بعض اوقات ہم جو باتیں کہہ نہیں پاتے ،بعد میں وہ بڑا نقصان دیتی ہیں۔کوئی بھی راز رکھنے کا ایک وقت ہوتا ہے اور پھر اسے افشا کر دینا چاہئے۔ورنہ بہت زیادہ نقصان ہو جانے کا اندیشہ ہوتاہے۔‘‘ زبیدہ نے نجانے کس جذبے کے تحت کھوئے ہوئے انداز میں کہا،تو شعیب چونک گیا۔
’’امی۔!آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔؟‘‘
’’دیکھو بیٹا۔!میں نے تم سے ایک بہت بڑا راز چھپائے رکھا۔وہ راز ایسا تھا کہ اگر میں وہ تمہیں وقت سے پہلے بتاتی تو شاید تمہاری یہ شخصیت نہ بن پاتی۔اور پھر اس میں میری اپنی غرض بھی شامل تھی۔میں خود غرض ہو گئی تھی۔لیکن اب وقت آ گیا ہے۔۔وہ سب میں تمہیں بتا دوں۔۔اب اس کے بعد تم جو چاہو سمجھو،میری ذمے داری تو پوری ہو چکی ہے۔‘‘زبیدہ نے یوں اعتماد سے کہا جیسے اب اسے اپنا آپ چھپانے سے کوئی خوف نہ ہو۔
’’آپ ساری دنیا میں ایک ایسی ہستی ہیں کہ جیسے میں اہمیت دیتا ہوں۔۔میں آپ سے ہوں۔۔چاہوں بھی تو آپ سے خود کو الگ نہیں کر سکتا۔۔میں کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں ،میں زمانے کی مار کھا چکا ہوں۔سمجھتا ہوں کہ حقیقت کبھی کبھی کتنی تلخ ہوتی ہے اور میں کسی بھی تلخ حقیقت کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتا ہوں امی۔۔آپ بتائیں۔۔‘‘
’’ہاں۔!شاید یہ حقیقت اتنی ہی تلخ ہو کہ تمہیں اپنی ماں کا وجود بھی اچھا نہ لگے۔۔‘‘زبیدہ نے روہانسو ہوتے ہوئے کہا۔
’’آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔۔۔آپ کہہ دیں جو آپ کے دل میں ہے۔۔‘‘
’’تو سنو بیٹا۔!یہ میری زندگی کی کہانی ہے۔۔‘‘زبیدہ نے کہا اور جس قدر ممکن ہو سکا آہستہ آہستہ اسے اپنے بارے میں سب کچھ بتا تی چلی گئی ۔شعیب ہمہ تن گوش پورے تحمل سے سب کچھ سنتا چلا گیا۔یہاں تک کہ سہ پہر کا وقت ہو گیا۔’’حقیقت یہ ہے شعیب کہ میں یہاں تمہارے لیے نہیں نادیہ کے لیے آئی تھی۔اور شاید نادیہ تم سے بہت دور چلی جائے گی۔اس نے صرف میری خاطر،میرے راز کی خاطر ۔۔تم سے اپنا آپ چھپا لیا ۔۔‘‘
شعیب یہ سب سن کر پہلے تو کافی دیر تک خاموش رہا۔شاید وہ اس حقیقت کی تلخی کو نگل رہا تھا یا پھر زندگی کے اس نئے منظر میں خود کو دیکھ رہا تھا۔پھر جب بولا تو اس کے لہجے میں اعتماد چھلک رہا تھا۔
’’امی۔!مجھے اس سے غرض نہیں کہ آپ نے جو کچھ کیا وہ غلط تھا یا صحیح، بس وہ درست تھا،جو بھی تھا۔۔آپ نے میرے لیے اتنے دکھ سہے۔۔تنہائی کی زندگی سے لڑتی رہیں۔۔ایمان سے امی۔۔آپ میرے لیے زیادہ مقدس ہو گئی ہیں۔آپ فکر نہ کریں۔۔ حویلی والوں کے خلاف ڈٹ جائیں ۔۔میں آپ کے ساتھ ہوں۔۔اس لیے نہیں کہ مجھے نادیہ چاہئے ۔۔بلکہ اس لیے کہ انہوں نے آپ کو وہ مان نہیں دیا،جو آپ کا ہونا چاہئے تھا۔بلکہ دلاور شاہ نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا۔وہ جو کوئی بھی ہے ۔۔اسے میری ماں کے سامنے جھک کر معافی مانگنا ہو گی۔‘‘شعیب نے کافی حد تک جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔
’’وہ مجھ سے معافی مانگے یا نہ مانگے۔۔مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔۔بلکہ نادیہ تمہاری ہونی چاہے۔۔مجھے اس سے نہیں اس لڑکی کو زندہ درگور ہوتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتی۔۔‘‘زبیدہ نے کہا اور ساتھ ہی اس کے آنسو نکل گئے۔
’’ایسا ہی ہو گا۔۔تیاری کریں۔۔ہم ابھی حویلی جائیں گے۔۔‘‘شعیب نے اٹھتے ہوئے کہا۔اس کے لہجے میں نہ جانے کیا تھا کہ زبیدہ ایک لمحے کو خوف زدہ ہو گئی۔جبکہ شعیب کے ذہن سے ساری الجھنیں ختم ہوئیں تو ہر منظر واضح ہو گیا ہوا تھا۔اس نے گاڑی نکالی تو زبیدہ اس کے ساتھ والی پسنجر سیٹ پر آن بیٹھی۔جس وقت وہ رہائش گاہ سے چلے عصر اورمغرب کا درمیانی وقت ہو رہا تھا۔
حویلی پہنچتے انہیں زیادہ وقت نہیں لگا۔تقریباً آدھے گھنٹے میں وہ وہاں پہنچ گئے جہاں انہیں صدر دروازے پر ہی روک لیا گیا۔
’’کس سے ملنا ہے صاحب۔؟‘‘وہاں موجود ایک شخص نے اس کے ساتھ بیٹھی خاتون کو دیکھ کر تذہذب سے کہا،جوکچھ دیر پہلے ہی یہاں سے گئی تھی۔اس نے شعیب کو بھی دیکھا تھا اور یہی گاڑی پہلے بھی یہاں آئی تھی۔شعیب نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔بلکہ سیل فون نکال کر دلاور شاہ کے نمبر پش کر دیئے۔دوسری ہی بیل پر فون ریسو کر لیا گیا۔
’’نمبرسے معلوم ہو گیا ہو گا کہ میں کون بات کر رہا ہوں۔‘‘اس نے اپنے لہجے پر قابورکھتے ہوئے کہا۔
’’کہیے آفیسر۔!اب کیا بات ہے۔‘‘دوسری طرف سے اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’میں آپ کا بھانجا بات کر رہا ہوں اور حویلی کے دروازے پر ہوں۔۔کہیے اندر آنے کی اجازت دیں گے یا اپنی ماں کو حویلی کے اندر بھیج دوں۔۔‘‘
’’کیا مطلب کیا کہنا چاہتے ہو تم۔۔؟‘‘دلاور شاہ نے انتہائی الجھے ہوئے تشویش زدہ لہجے میں کہا۔
’’ظاہر ہے ہم یہاں کھڑے رہیں گے ،جب تک آپ ہمیں اندر آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ۔‘‘وہ پھر غصے میں چھلکتے ہوئے لہجے پر قابو پا کر بولا ۔
’’کس نیت سے آئے ہو؟‘‘پیر سائیں نے پوچھا
’’اس کا جواب میں آمنے سامنے بیٹھ کر دوں گا۔اور اس شرط پر کہ آئندہ مجھے حویلی کے دروازے پر کوئی نہیں روکے گا۔‘‘شعیب کا غصہ بے قابو ہونے لگا تھا۔تبھی چند لمحے دوسری طرف خاموشی رہی۔پھر نجانے کی سوچ کر پیر سائیں بولا۔
’’ٹھہرو۔!میں ملازم بھیجتا ہوں ۔۔ورنہ یہ تجھے اندر نہیں آنے دیں گے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے فون بندکر دیا ۔چند منٹ وہ ویسے ہی کھڑے رہے،تبھی اندر سے ایک ملازمہ نے آ کر سکیورٹی والوں سے کہا اور انہیں اندر جانے کا اشارہ کر دیا۔شعیب نے گاڑی پورچ میں لے جا کر روک دی اور پھر اتر کر اندر چل پڑے۔ڈرائینگ روم میں سامنے ہی پیر سائیں کھڑا تھا۔اس کے چہرے پر گہرے اطمینان کی پرچھائیاں تھیں۔اس نے زبیدہ پر ایک نگاہ ڈالی اور دونوں کو ایک صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وہ بیٹھ گئے تو پیر سائیں ان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔
’’تو پھر تمہاری ماں نے ساری روداد تمہیں سنا دی۔۔یہ بھی بتا دیا کہ میں رشتے میں تمہارا ماموں لگتا ہوں۔ہو گئی رشتے داری۔۔اب بتاؤ یہاں کیا کرنے آئے ہو۔۔؟‘‘
’’دلاور۔!اس لہجے میں بات کرو گے تو پہلے مجھ سے بات کرو۔۔بتاؤں میں تمہیں یہ یہاں کیا کرنے آیا ہے۔یہ نادیہ کو لینے کے لیے آیا ہے جسے تم ان درودیوار میں زندہ درگور کرنے جا رہے ہو۔‘‘
’’آپا۔!زبان بند رکھو۔۔‘‘پیر سائیں نے کہنا چاہا مگر زبیدہ نے ہتھے سے اکھڑتے ہوئے کہا۔
’’خبر دار اگر مجھے ٹوکا دلاور۔!تم نے میرے ساتھ دھوکا کیا۔پوچھ رہے ہو یہ یہاں کیا کرنے آیا ہے۔یہ بھی اس حویلی کا اتنا ہی مالک ہے جتنے تم ہو۔۔یہ جب چاہے یہاں آ سکتا ہے ۔۔تم اسے روکنا بھی چاہو تونہیں روک سکتے دلاور۔‘‘زبیدہ ایک دم سے پھٹ پڑی تھی۔شاید دلاور کو امید نہیں تھی کہ وہ اتنا اونچا بولے گی۔
’’اچھا تو تم اپنا یہ حق جتانے آئی ہو۔۔مگر تم اپنا یہ حق بہت پہلے بڑے پیر سائیں کے دور میں کھو چکی ہو اور۔۔۔‘‘اس نے کہنا چاہا تو شعیب بولا۔اس کے لہجے میں تحمل کے ساتھ ساتھ برداشت کا بھی عنصر تھا۔
’’پیرسائیں۔!آپ اس طرح میری ماں کو بلیک میل نہیں کر سکتے ۔۔اگر آپ کو اپنے مریدین کا زعم ہے تو یہ آپ کا خوف بھی ہے۔۔یہ نہ ہو کہ آج آپ اجازت دینے والے ہیں تو کل ہم آپ کو اجازت دینے والے بن جائیں ۔اس سے پہلے کہ میں ادب کا دامن چھوڑ دوں۔۔آپ اپنا لہجہ ٹھیک کر لیں۔‘‘
’’کیا کرو گے تم۔؟‘‘پیر سائیں نے سرسراتے ہوئے کہا۔
’’میں نے تو کچھ نہیں کرنا۔۔جو کرنا ہے وہ آپ ہی نے کرنا ہے۔‘‘وہ اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے بولا تو پیر سائیں چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا ،پھر آہستگی سے بولا۔
’’بتاؤ۔تم ماں بیٹا کیسے آئے ہو؟‘‘
’’میں نادیہ کو لینے کے لیے آئی،جسے تم نے دھوکے سے یہاں قید کر لیا ہے۔‘‘ زبیدہ نے غصے میں کہا۔
’’میں نے تو اسے قید نہیں کیا۔وہ اپنی مرضی سے یہاں موجود ہے۔اور زبیدہ آپا۔۔کیا اس نے آپ کو بتایا نہیں۔‘‘وہ کافی حد تک طنزیہ انداز میں بولا۔اس سے پہلے کہ زبیدہ کوئی جواب دیتی اماں بی دروازے میں آ کھڑی ہوئیں۔اسے دیکھتے ہی زبیدہ اٹھ گئی اور پھر ان کی طرف دیکھتے ہی رونے لگ گئیں۔وہ کچھ دیر یونہی کھڑکی تکتی رہی ۔پھر بھیگے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’آ جاؤ ۔۔!آؤ۔۔‘‘پھر شعیب کی طرف دیکھ کر بولی۔’’میں تمہاری نانی ہوں پتر۔!آؤ میرے گلے لگ جاؤ۔‘‘وہ اٹھا اور اپنی نانی کے گلے لگ گیا۔دلاور شاہ انہیں دیکھتا رہا۔پھر انہیں اماں بی کے ساتھ جاتا دیکھ کر اٹھ گیا۔اس کے چہرے پر سے غضب چھلک رہا تھا۔
اماں بی انہیں اپنے کمرے کے سامنے بڑے گول کمرے میں لے گئیں جو ڈرائینگ روم کے طور پرسجا ہوا تھاا ور خاندان کے لیے مخصوص تھا۔بہت عرصے بعد اس کمرے کو استعمال کرنے کی نوبت آئی تھی۔اطمینان سے بیٹھنے کے بعد زبیدہ نے اپنی ماں سے کہا۔
’’دلاور شاہ اس قدر غیریت برتے گا میرے ساتھ۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔اب مجھے اس حویلی میں آنے کے لیے اجازت لینا پڑے گی۔اگر میں اپنی ضد پر اتر آئی تو اس کی ساری شان و شوکت چھین لوں گی۔‘‘
’’تم تو چلی گئی تھی۔۔واپس کیوں آئی۔۔‘‘
’’میں نادیہ کو لینے آئی ہوں۔۔صرف میرا راز نہ کھولنے کی غرض سے اس نے یہاں حویلی میں گھٹ کر مرنا قبول کر لیا ہے۔اب تو وہ شرط بھی نہیں رہی۔‘‘زبیدہ نے تیزی سے کہا۔
’’مطلب۔؟‘‘ اماں چونکی۔
’’مطلب یہ کہ میں نے اپنے بیٹے کو سب بتا دیا۔کچھ نہیں چھپایا۔۔‘‘اس نے کہا تو دلاور شاہ اور اس کی بیوی اسی لمحے کمرے میں داخل ہوئے اور بڑے اطمینان سے آ کر سامنے صوفے پر بیٹھ گئے۔
’’زبیدہ آپا۔!میں تم سے زیادہ بحث نہیں کروں گا۔دو ٹوک بتاتا ہوں کہ تم نادیہ کو یہاں سے نہیں لے جا سکتی ہو۔ہاں،اس حویلی میں حصے داری کا دعویٰ میں مان لیتا ہوں۔ اپنے حصے کی جو قیمت لگاؤ۔میں ابھی دینے کو تیا رہوں۔۔ورنہ اگر تم لوگوں کے ذہن میں یہ ہے کہ عدالت میں لو گے۔۔تو وہ تم لوگوں کی بھول ہے۔۔‘‘
’’مجھے نہ حویلی سے کوئی غرض ہے اور نہ میں نے کبھی ایسا سوچا۔۔میں نے فقط تیرے رویے کے جواب میں تجھے احساس دلایا ہے۔تم نادیہ کو مجھے دو۔۔میں دوبارہ یہاں قدم بھی نہیں رکھوں گی۔چاہئے یہ کاغذ پر لکھوا لو۔۔‘‘زبیدہ نے واضح کہا۔
’’نادیہ کی منگنی میرے بیٹے ظہیر شاہ سے ہو چکی ہے۔اورابھی تھوڑی دیر بعد اس کا نکاح ہے۔ظہیر کے ساتھ۔۔اس لیے تمہیں یہاں سے مایوس لوٹنا پڑے گا۔۔‘‘پیر سائیں سکون سے بولا۔
’’تم ایسا نہیں کر سکتے دلاور شاہ۔!میں نادیہ کے جذبات جانتی ہوں۔تم اس پر ظلم نہیں کر سکتے۔۔‘‘زبیدہ بولی۔
’’زبیدہ آپا۔!اگر نادیہ ہی یہاں سے نہ جانا چاہئے تو۔۔۔؟‘‘وہ طنزیہ انداز میں بولا۔
’’ایسا نہیں ہو سکتا۔۔‘‘وہ ہذیانی انداز میں بولی۔۔’’ضرور تم نے اسے خوف زدہ کر دیا ہو گا۔۔‘‘
’’قطعاً خوف زدہ نہیں کیا۔چاہو تو اس سے پوچھ لو۔۔آپ کا کہنا بھی یہی تھا نا کہ جو نادیہ چاہے گی ،ویسا ہی ہو گا۔اب نادیہ کی سن لو۔۔وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔۔‘‘اس نے کہاتو اماں بی بولی۔
’’بیٹا شعیب ۔!کیا یہ درست ہے کہ ہم نادیہ کے کہنے پر اپنا فیصلہ دے دیں۔؟‘‘
’’ضرور اس میں کوئی چال ہے۔۔ورنہ اتنی آسانی سے۔۔۔‘‘زبیدہ نے کہنا چاہا کہ باہر سے نادیہ کی آواز آئی۔
’’نہیں پھوپھو۔!اس میں کسی کی کوئی چال نہیں ہے۔میں نے فیصلہ دے دیا تھا کہ میں حویلی میں رہوں گی۔وہ فیصلہ میں نے جس بنیاد پر بھی کیا،ہو گیا۔کسی کا مجھ پر کوئی جبر نہیں ہے۔یہ میرا اپنا ذاتی فیصلہ ہے۔‘‘ شعیب نے اس آواز کو سنا تو اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔وہی آواز،وہی لہجہ۔۔وہی انداز۔۔ہاں بس اس آواز میں حزن ملا ہوا تھا۔جو نادیہ کی آواز کو انفرادیت بخشتا تھا۔
’’تم سامنے آ کر کہو۔۔ضرور۔۔۔‘‘
’’نہیں پھوپھو۔!میں سامنے نہیں آؤں گی۔شعیب کا شکریہ کہ اس نے مجھے مان دیا۔میرے لیے یہاں تک چل کر آیا۔وہ مجھے اپنانا چاہتا ہے۔اس عزت افزائی کا بھی شکریہ۔ یقیناًمیں نے پھوپھو کے راز کو افشاہ نہ ہونے کے ڈر ہی سے یہاں حویلی میں رہنے کا فیصلہ دیا تھا،لیکن اب میرا یہی فیصلہ ہے۔‘‘نادیہ نے پورے اعتماد سے کہا تھا۔
’’کیا تمہارے اس فیصلے میں دلاور شاہ۔۔۔‘‘
’’ہاں۔!میں نے ان کے ساتھ ، اماں بی کے ساتھ اور زہرہ بی کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا ہے،مجھے اپنی اور اس حویلی کی عزت اور روایات کی پاسداری کرنا ہے۔۔‘‘نادیہ نے واضح طور پر کہہ دیا۔
’’تم وہ نادیہ بات نہیں کر رہی ہو جو میرے پاس گئی تھی۔انہوں نے تمہارے دماغ کو نجانے کیا کر دیا ہے۔میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔۔‘‘زبیدہ نے روتے ہوئے کہا۔
’’نہیں پھوپھو۔!میں نے پیر سائیں کی یہ بات مان لی ہے اور مجھے یقین ہے کہ پیر سائیں بھی میری بات مانیں گے۔۔کیوں پیر سائیں؟‘‘نادیہ نے کہا تو سبھی اس دروازے کی طرف دیکھنے لگے جہاں سے اس کی آواز آ رہی تھی۔شاید دلاور شاہ سے اس کی کوئی بات طے ہو چکی تھی ۔اس لیے دلاور شاہ نے کہا۔
’’ہاں۔!میں مانوں گا۔۔بولو۔؟‘‘
’’شعیب۔!معذرت خواہ ہوں کہ مجھے بڑوں کے سامنے ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی ،لیکن یہ ضروری ہے،کیا آپ مجھے سے محبت کرتے ہیں۔۔۔؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...