"مام ۔۔۔پاش۔ ۔۔۔۔۔۔بابا ”
جب سے ہوش میں آئی تھی اپنی توتلی زبان سے کُچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہاں کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی
"ابے تو بچوں والا ہے کُچھ تو سمجھ”
ایک نے دوسرے کو دھکا دیا
"یہ مجھے کوئی بگڑی ہوئی شہزادی لگ رہی ہے ۔۔۔نخرے تو دیکھو۔۔۔۔اور میرے بچے توتلے نہیں بولتے”
سر جھٹک کر پھر اُس پری چہرہ معصوم سی بچی کو دیکھ رہا تھا جو تھوڑی سی جگہ پر بیٹھی تھی اور بار بار اپنے کپڑے صاف کر رہی تھی کبھی نیچے زمین کو صاف کرتی اپنے باپ کی طرح گندگی سے چڑ تھی اور یہاں چھوٹے سے کمرے دُنیا جہاں کی مٹی پڑی ہوئی تھی جو بار بار اُسکے کپڑوں کو لگ رہی تھی
اُن لوگوں نے اسکو ابھی اپنی شکل نہیں دکھائی تھی تبی اتنا ڈری ہوئی نہیں تھی ورنہ وہ ہٹے کٹے اور سیاہ رنگ کے دیوتا کو دیکھ کر سہم ضرور جاتی
"بابا ۔۔۔۔۔نور ۔۔۔۔۔۔بابا”
شاید سمجھ رہی تھی اُسکے نے لاکر یہاں بیٹھا دیا ہے خود کہیں چھپ کر بیٹھا ہے تبی بتا رہی تھی کے نور ہے آپ آجائیں
"یار یہ بچی کا کیا کرے گا وہ سفاک انسان”
اُسے ننھی سی گڑیا میں اپنے بچے نظر آرہے تھے تبی تھوڑا دل نرم پڑا
"پتہ نہیں بس تھوڑی دیر تک چلے جانا ہے اِن لوگوں کا انتظار کر رہا ہوگا”
دوسرے نے اُجلت میں کہہ کر سگریٹ سلگائی
جبکہ ہر وقت فلٹر ایئر میں رہنے والی شہزادیوں کے آن بان رکھنے والی نور کا سانس اُکھڑا
تو اب سگریٹ والے سیاہ پوش انسان نے آگے بڑھ کر اُسکا سفید اور گلابی پڑا چہرہ دیکھا
تو نظر گلے میں۔ پہنے ہوئے ڈائمنڈ کی طرف گئی وہ چار رنگ رکھنے والا ڈائمنڈ دُنیا کے نایاب ترین ڈائمنڈ میں۔ سے ایک تھا جس کی بولی وشنٹنگ میں لگائی گئی تھی اور بازل شاہ نے اُسے اپنی متاع حیات نور کے لیے پسند کیا تھا
اُس شخص کی آنکھوں میں چمک آئی تو اپنا کالا اور بھاری ہاتھ نور کی گردن کی طرف بڑھایا
نور نے اُسکے ہاتھ پر اپنی دودھیا دانت گھاڑ دیے لیکن اُسنے سختی سے اُسکا جھبڑا پکڑ کر پیچھے کی طرف کیا اور ہاتھ لگتے اُسکے پیچھے لگا سینسر ایکٹیویٹ ہوا
"ابے یہ لڑکی تو سونے کی گڑیا ہے سمجھ آج سے ترا بھائی بھی یہ کمینے کام چھوڑ کر عیئش کی زندگی بسر کرے گا ”
کہتے ہوئے نور کا پندنٹ کھولنے لگا تو نور نے اپنا رونے کا سپیکر کھول دیا
"میری ماں بس کر دے کیوں مروے گی ہمیں”
اب وہی انسان پندانٹ چھوڑ کر اُسکے آگے ہاتھ جوڑے کھڑا
"مام۔۔۔۔۔ پاشے ”
اب اُسے مہذب سا کھڑا دیکھ کر اپنا ایک سیکنڈ میں سپیکر بند کیا اور فرمان جارہی کیا”
"پیسے لینے ہے کتنے لینے ”
اب بچوں کی طرح اُسے بچکار رہا تھا
"مالا”
سمجھانے والی آواز میں مایا کا نام لیا
"پھولوں والی مالا یہ دوسری مالا”
سر پر اُنگلی رکھ کر سوچنے والے انداز میں بولا
"میلی مام۔۔۔مالا”
(میری مام مایا )
سمجھنے والے انداز میں تھوڑا قریب ہوکر بولی وہ اس بات سے بےخبر تھی کہ اس وقت موت کے قبضے میں ہے
"بھائی مجھے نہیں پتہ تو کیا بول رہی ہو ”
تھک ہار کر پیچھے بیٹھ گیا جبکہ نظریں ابھی بھی ڈائمنڈ پر تھیں جو اتنے اندھیرے میں بھی چمک رہا تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"بیا جی ۔۔۔نور کہاں ہے ”
ماتھے پر گیلے بال بکھرے ہوئے تھے۔ڈھیلی سے ٹی شرٹ کے ساتھ ٹروزار پہنے باہر آیا موڈ کافی خوشگوار محسوس ہو رہا تھا جبکہ بیا جو کچن میں انڈہ پھینٹ رہیں تھی نہ سمجھی سے اُسکی طرف دیکھا
"بچے وہ آپ کے ساتھ ہی تھی ”
جواب دے کر انڈہ پین پر ڈال دیا
"نہیں مایا اور وہ دونوں رات کو اُدھر ہی تھیں لیکن صبح لگتا ہے ماں بیٹی دوسرے کمرے میں چلی گئیں”
مسکراتے ہوئے گویا جبکہ اسکو مسکراتا ہوا دیکھ کر نظروں سے ہی اُسکی نظر اتاری جبکہ وہ اب اپنے کمرے کی طرف گیا تھا
"بیا جی گارڈز سے پوچھیں اور باہر دیکھیں ۔۔۔۔ کہاں ہیں وہ”
ایک سیکنڈ میں تیز تیز قدم اُٹھاتا باہر آیا اور غرانے والے انداز میں بولا اُسکی آواز سے اچانک ڈر سے انڈہ نکالتے ہوئے گھی ہاتھ پر گر گیا
"کیا ہوا بازل کہاں ہیں نور بی بی ”
ڈر سے بھاگتی ہوئی باہر آئی لیکن وہ اُسکا جواب دے بغیر باہر کی طرف بھاگ گیا
"سر صبح سے ہم ڈیوٹی پر ہیں لیکن کوئی حال سے باہر نہیں آیا آپکے بغیر تو باہر کیسے چلا گیا”
تین گارڈز میں سے ایک بولا جبکہ دوسرے اُسکے غضب سے تھوڑا کھسک کر پیچھے ہوگئے تھے
"عبداللہ جلدی سے گھر اؤ”
کان پر لگے موبائل کو ہٹا کر اُنکی طرف گھورا اب انکھوں میں سُرخ لکیریں پھیل چکی تھیں
"سی سی ٹی وی کیمرے آن کرو ساری رات کی ریکارڈنگ پلے کرو ”
اُنکی بات نظر انداز کرکے اگلا حکم صادر کیا اور ایک حال سے باہر آتی بیا کو دیکھا جس کا سانس پھول چُکا تھا
"و۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں موبائل تک مایا کا وہاں ہے لیکن وہ دونوں کہیں نہیں ہیں ”
بازل کو لگا آسمان اُسکے سر آن گرا ہو دل ایک دم سے سہم گیا مایا اِس قابل تھی کے اپنا بچاؤ کر سکتی تھی لیکن نور وہ ابھی خود کھانا کھانے کے قابل نہیں تھی
"کہاں غلطی ہوئی ۔۔۔۔۔ کہاں وہ مجھ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے ”
ذہن میں لاکھوں سوال جنم لے رہے تھے اور ہر سوال اُسکی جان جسم سے نکال رہا تھا
"مایا مایا مایا کیا کروں میں تمہارا ”
پورا ریکارڈر دیکھ کر ٹیبل پر ہاتھ مار کر اُٹھا واضح تھا کے پہلے خود مایا باہر گئی اور اُسکے پیچھے نور تو ظاہر سی بات تھی ساری غلطی مایا کی ہی تھی
"عبداللہ سارے روڑ کے کیمرے جا کر چیک کرو دیکھو کہاں گیں ہیں”
غُصہ ضبط کرتا ہُوا بولا فرانس میں یہی تھا سارے روڈ پر کیمرے لگے ہوئے تھے اور آسانی سے سارے اُن کو اکسس کیا جاسکتا تھا
تھوڑی سی پریشانی کم ہوئی تھی کے کسی کے ہاتھ نہیں لگی ہونگی خود ہی ہونگیں اور آسانی سے اُن تک پہنچ سکتا تھا
چند گھنٹے بعد
"سر سارے ریکارڈ چیک کر چُکے ہیں لیکن وہ چند سیکنڈ غائب ہیں ہر جگہ سے یہاں سے وہ گھر سے باہر نکلے ہیں”
عبدااللہ نے اُسے موبائل پر نظریں جمائے دیکھ کر کہا
بات سنتے ہی موبائل دیوار پر دے مارا
"یہ مایا کا بھاگنے بگھانے والا شوق تو میں پورا کروں گا ”
غُصہ سے پھنکارا وہی ہوا جس کا ڈر تھا
مایا نے اُسے خود کو اور نور تینوں کو خود موت کے منہ دکائل چُکی تھی
°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"اپنے شوہر سے طلاق لے لو ورنہ تمہارا بچہ اور شوہر دونوں ہی جاتے رہے گیں ۔۔۔دو ہی راستے ہیں ایک شوہر کو خود چھوڑ دو اور بچے کے سہارے رہ لو یہ پھر دونوں کو کھو دو ”
کان سے لگائے ہوئے موبائل سے آواز اُبری تو ہاتھ تھر تھر کانپنے لگے
"ن۔۔۔۔۔۔نہیں میرے شوہر نے کیا بگاڑا ہے تمہارا؟”
ہمت کرکے سوال کیا
"اُسنے تو نہیں بگاڑا پر تمھیں خوش نہیں دیکھ سکتا”
دوسری طرف سے پھر آواز آئی
"دیکھو دو دن ہیں تمہارے آپریشن اور دن ہی میں تمہیں دیتا ہوں وگرنہ آپریشن کے دوران بچہ اور شوہر اس دُنیا سے کوچ کر جائیں گے”
تمخسر اراتی ہوئی ہنسی دیب کے دل کو توڑ رہی تھی
فون کٹ چُکا تھا لیکن وہ ہوبہو وہیں کھڑی تھی "خوشیوں کی مدت اتنی چھوٹی سی کیوں ہوتی ہے کیوں ہر دوسرے دن آزمائش میرے مقدر میں آجاتی ہے ۔کیوں اُس شخص کو میرے مقدر میں آنے کے بعد بھی لوگ مجھ سے چھیننا چاہتے ہیں ”
وہیں دیوار سے گھسیٹتی زمین پر بیٹھ گئی پیٹ میں درد کی لہر اُٹھ رہی تھی لیکن دل پر ہونے والے درد کا کوئی حساب نہیں تھا پیٹ میں ہونے والی درد دل کے سامنے فراموش ہوگئی تھی
اسی فون کی وجہ سے تالش سے دور ہوئی تھی اب دوبارہ اُسکا قہر کس طرح بردشت کرے گی
ماں باپ وہ تھے جو ایک بار بد نامی کے بعد بھول ہی چُکے تھے کے ایک بیٹی کو بھی جنم دیا تھا کیوں اُس کے ساتھ رشتے مخلص نہیں تھے یہی سوچ اُسے بے بس کر رہی تھی
اچانک درد بے بس کر گیا
"اہ ”
دل دہلانے والی چیخ کے سے زمین پر ڈھیر ہو چُکی تھی ایک مضبوط لڑکی زمانے کے ستم سہہ کر اتنی کمزور ہو چکی تھی کے ایک سوچ بھی اُسے اِس دُنیا سے دوسری دُنیا تک کا سفر کروا سکتی تھی
یہی معمہ آج ہر بیٹی کا ہے ہم اپنے مفاد کی خاطر اتنا گر چُکا ہیں کے بیٹیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اُنہیں زمانے کے ظلم سہنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیتے ہیں
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°
"بیغیرت انسان میرے کا قریب مت آؤ ”
وہاں ماجود تین مردوں میں سے ایک اپنی شرٹ کے بٹن کھولتا ہُوا اُسکی طرف آرہا تھا
"بیغرت کہا ہے تو ذرا نظارہ تو کرو”
اُسکی آنکھوں میں ہوس لچک رہی تھی
"یار ٹائم کم ہے جلدی کرو اس کی اکھڑ ختم پھر اِسے منان صاحب کے سامنے بھی پیش کرنا ہے”
پیچھے سے ایک نے سگریٹ کا کش لگاتا ہوا بولا
مایا نے نور کی چیخیں اور اُسکو بلانا سن لیے تھا لیکن وہ اتنی کم عقل نہیں تھی کے اپنے جذبات کو قابو نہ کر سکے اور نہ یہ چاہتی تھی کے نور کا بازل سے رشتے کا اُنکو معلوم ہو ورنہ اگلے ہی لمحے وہ نور کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے تھے
اب اُسے اپنی عزت کی فکر تھی کہاں وہ کہاں وہ ہٹے کٹے تین مرد
"میں چار قتل کر چکی ہوں اس لیے ذرا سوچ سمجھ کر آگے آنا ”
بغیر ڈرے اُسکی انکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی
"تم جیسی عورتیں گھر کا سامان ہوتیں ہیں مردوں کا مقابلہ کرنے والیں نہیں ۔۔۔۔میرے طرف سے تم نے سو قتل کیے ہوں لیکن اس وقت تم ہمارے شکنجے میں ہو”
اگلے کے بولنے سے پہلے ہی ایک آواز پیچھے سے آئی جس کے ہاتھ میں نور کا ہاتھ تھا
مایا کا دل زور سے دھڑکا کہیں وہ اُسے موم نہ کہہ
"مام”
اپنے چھوٹے چھوٹے سے ہونٹ نکال کر دُکھ سے اُسے پکارا
اتنا ٹائم ہوچکا تھا یقیناً اُسے بھوک لگی ہوگئی
"کیا لگتی ہو تم اسکی”
پیچھے سے آنے والے نے مشکوک نظروں سے دیکھا
"کیا تکلیف ہے تمھیں ”
مایا اپنا منہ موڑ گئی
"بتاؤ ورنہ یہ لڑکی نہیں رہے گی”
اُسنے چھوٹا سا تیز دار چاقو نکال کر نور کی گردن اور رکھ دیا جبکہ دوسرے اُسکی جانب بیزاری سے دیکھ رہے تھے اُنکے کام میں بلا وجہ ہی خلل ڈال رہا تھا وہ اپنے نفس کے آگے بے بس تھا
"میری بیٹی ہے”
مایا نے جلدی سے جواب دیا
"اوہ تو تم دونوں بازل کے گھر کیا کر رہی تھیں ؟”
اگلا سوال مشکل تھا
"کام تھا ”
چاقو کی نوک ابھی بھی نور کے گردن پر ماجود تھی
"ہاہاہاہا کہیں تم اُسکی رکھیل تو نہیں اور یہ تم دونوں کی ناجائز بچی”
سب کے سب اُسکا مذاق اُترتے ہوئے ہسے
"ہمارے سامنے تو پارسا بن رہی ہے ویسے مال تو بہت کمال کا ہے”
ایک لچکائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا تو مایا کا دل کیا زمین پھٹے اور وہ اُس میں سماء جائے
"ویسے بازل بھی پہنچی ہوئی چیز نکلا ”
دوسرے نے بات کا جواب دیا جبکہ مایا اپنی اس تذلیل پر رو تک نہیں سکی
اُسے پتہ تھا بازل شاہ کا قہراُسکے انتظار میں ہوگا کیا ہوگیا تھا اگر وہ یہ غلط قدم نہ اٹھاتی
لیکن اب پانی سروں سے گزر چکا تھا
°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...