“زمانہ خدا ہے، اِسے تم بُرا مت کہو”
مگر تم نہیں دیکھتے۔۔زمانہ فقط ریسمانِ خیال
سبک مایہ، نازک، طویل
جدائی کی ارزاں سبیل!
وہ صبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں،
وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہونگی،
اُنہیں تم نہیں دیکھتے، دیکھ سکتے نہیں
کہ موجود ہیں، اب بھی، موجود ہیں وہ کہیں،
مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسّی تنی ہے
اِسے دیکھ سکتے ہو، اور دیکھتے ہو
کہ یہ وہ عدم ہے
جسے ہست ہونے میں مدّت لگے گی
ستاروں کے لمحے، ستاروں کے سال!
مرے صحن میں ایک کمسن بنفشے کا پودا ہے
طیّارہ کوئی کبھی اُس کے سر پر سے گذرے
تو وہ مسکراتا ہے اور لہلہاتا ہے
گویا وہ طیّارہ، اس کی محبّت میں
عہدِ وفا کے کسی جبرِ طاقت ربا ہی سے گذرا!
وہ خوش اعتمادی سے کہتا ہے:
“لو دیکھو، کیسے اِسی ایک رسّی کے دونوں کناروں
سے ہم تم بندھے ہیں!
یہ رسّی نہ ہو تو کہاں ہم میں تم میں
ہو پیدا یہ راہ وصال؟”
مگر ہجر کے اُن وسیلوں کو وہ دیکھ سکتا نہیں
جو سراسر ازل سے ابد تک تنے ہیں!
جہاں یہ زمانہ۔۔ہنوزِ زمانہ
فقط اک گرہ ہے!