بیانیہ فکری شاعری کی ایک حسین مثال نظم ’’ زمانہ‘‘ ہے، گرچہ اس کے بھی بعض اشعار میں ڈرامائی اشارے ہیں، اس لیے کہ اقبال کی تیز شاعرانہ حیات اپنے تخیلات کو بالعموم رنگین پیکروں میں متحرک دیکھتی ہیں اور نتیجتہً ان کا اظہار کا تمثیل و ترنم کے ساتھ کرتی ہیں۔
طویل بحر میں دس اشعار کی یہ نظم دو حصوں میں معنی کے اعتبار سے منقسم ہے، نصف اول میں پانچ اشعار تک وقت کی فلسفیانہ تشریح شاعرانہ انداز میں ہے، اس کے بعد نصف ثانی کے باقی پانچ اشعار، خاص کر چار، عصر حاضر کے حال زار پر تبصرہ اور مستقبل کا لطیف اشارہ کرتے ہیں۔ ارتقائے خیال اس مربوط طریقے سے ہوا ہے کہ ابتدائے نظم میں کہا گیا:
جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے ایک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
یعنی دور جدید کے مغربی چیرہ دستوں کو زمانہ حال میں اپنے تسلط و اقتدار پر بہت زیادہ نازاں نہ ہونا چاہیے۔ زمانے کا ورق الٹنے والا ہی ہے، اور ہمیشہ اسی طرح الٹتا رہتا ہے۔ ماضی کے بعد حال اور اس کے بعد مستقبل بہت تیزی سے ایک دوسرے کے تعاقب میں آتا ہے، جب کہ دنیا برابر نئی قوتوں کی منتظر رہتی ہے، تاریخ کے گزرتے ہوئے لمحوں کی حقیقت یہی ہے۔ اس طرح وقت کی فلسفیانہ تعریف میں بھی ستم گران وقت کے لیے ایک تنبیہہ ہے، یہ تیور نظم کے پہلے حصے کو دوسرے کے ساتھ اس انداز سے پیوستہ کرتا ہے کہ پہلا دوسرے کی تمہید بن جاتا ہے چنانچہ دوسرا شعر بھی تمہید و تنبیہہ ہی ہے۔
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
کیا حسین ا ستعارہ ہے اور کتنا دبیز کہ بہ یک وقت مسجد و میخانہ دونوں ایک ہی تصویر میں جمع کر دئیے گئے ہیں! زمانہ اگر ساقی ہے تو اس مینا سے نئے حوادث قطرہ قطرہ ٹپک رہے ہیں اور اگر عابد ہے تو وہ اپنے روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتا ہے، جبکہ وہ ساقی بھی ہے اور عابد بھی، وقت تار حریر دو رنگ ہے ہی بہرحال وقت حساب لیتا ہے، لہٰذا روز حساب کو فراموش نہ کرنا چاہیے۔ قدرت نے ہر بات کا شمار کر رکھا ہے اور گن گن کر لوگوں کے اعمال کا بدلہ چکائے گی، لوگوں کو اپنے حال میں مگن نہ رہنا چاہئے، حوادث کا اندیشہ بھی رکھنا چاہئے اور مکافات عمل پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے۔ تیسرا شعر مختلف انسانوں کے ساتھ ان کے مختلف کرداروں کے مطابق زمانے کے مختلف سلوک کا خیال آفریں بیان ہے۔
ہر ایک سے آشنا ہوں، لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب، کسی کا مرکب، کسی کو عبرت کا تازیانہ
یہ تازیانہ عبرت اہل مشرق کے لیے خاص ہے، پہلے دو شعروں میں ایک چھپی ہوئی تنبیہہ اہل مغرب کے لیے تھی کہ وہ حال پر نازاں نہ ہوں، اب اہل مشرق کو جتایا جا رہا ہے کہ زمانے سے سابقہ تو سب کو ہے مگر ہر ایک کے ساتھ اس کا برتاؤ الگ ہے، کوئی زمانے پر سوار ہے، کسی پر زمانہ سوار ہے اور کسی کے لیے عبرت کا کوڑا ہے، یہ اپنے اپنے عمل پر منحصر ہے کہ وقت کس کے ساتھ کس طرح پیش آتا ہے اور کیا کرتا ہے چنانچہ چوتھا شعر لمحہ حاضر کی عملی اہمیت واضح کرتا ہے:
نہ تھا اگر تو شریک محفل قصور میرا ہے یا کہ تیرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مے شبانہ
محفل مے کا بیغ اشارہ اس کے بعض تلازمات و تضمنات کے ساتھ بڑے خوبصورت انداز سے استعمال کیا گیا ہے۔ دنیا ایک مے خانہ ہے اور مے نوش نوشا نوش میں لگے ہوئے ہیں، اس مقابلے میں اول تو ساری مے ایک ہی نشت شبانہ میں ختم ہو جاتی ہے اور جو نشست سے غیر حاضر ہوا محروم ہوا۔ دوسرے ساقی وقت ہر جلسہ مے نوشی میں تازہ شراب لاتا ہے، پچھلے جلسے کی بچی ہوئی نہیں رکھتا، اس لیے جس کسی کو وقت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے وقت پر ہولے ورنہ محرومی اس کا مقدر ہے۔ اس تصویر میں بھی اہل مشرق کو خبردار کیا گیا ہے۔
دو دو اشعار میں زمانے کی فلسفیانہ تشریح کرتے ہوئے اہل مغرب اور اہل مشرق دونوں کو مختلف جہتوں سے خبردار کرنے کے بعد پانچویں شعر میں بہ یک وقت دونوں ہی کو متنبہ کیا جا رہا ہے۔
مرے خم و پیچ کو نجومی کی آنکھ پہنچاتی نہیں ہے
ہدف سے بیگانہ تیر اس کا نظر نہیں جس کی عارفانہ
اہل مغرب وقت کا غلط استعمال کررہے ہیں اور اہل مشرق استعمال کر ہی نہیں رہے، یورپ ستاروں پر رصد لگا رہا ہے، جبکہ ایشیا ضعیف الاعتقادی میں مبتلا ہے، دونوں ہی علم نجوم پر حد سے بڑھ کر بھروسہ کئے ہوئے ہیں اور اس طرح حقیقت سے نابلد یا غافل ہیں، حیات و کائنات کی معرفت کے بغیر محض مادی علوم انسان کو اس کی منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے یورپ کی لادینی اور ایشا کی اوہام پرستی دونوں ہی کی آخری ناکامی کا باعث ہو گی، گرچہ ایشیا بروقت بھی نامراد ہے اور یورپ اپنی موجودہ کامیابی پر پھولا ہوا ہے۔ بہرحال، دونوںہی ایک ترقی میں اور دوسرا پسماندگی میں فروغ انسانیت کے اصل نشانے سے ہٹے ہوئے ہیں۔ دونوں کو سمجھنا چاہیے کہ زمانے کے خم و پیچ کسی نجومی کے بس کے نہیں ہیں، ان کو پہچاننے کے لیے ایک عارف کی نگاہ چاہیے، جو اپنے نفس اور اپنے رب دونوں سے شناسائی رکھتی ہو۔
اس کے بعد دوسرے حصے کے دو اشعار مغرب کے ظاہری عروج کے لمحہ حاضر ہیں اس کے آئندہ زوال کے آثار دریافت کرتے ہیں:
شفق نہیں مغربی افق پر، یہ جوئے خوں ہے، یہ جوئے خوں ہے
طلوع فروا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ
شفق نشان سحر بھی ہے اور علامت شام بھی، یہاں آخر الذکر کی طرف اشارہ نظر آتا ہے۔یعنی مغرب کے آسمان پر جو روشنی ہے وہ ابھرتے سورج کی نہیں، ڈوبتے سورج کی ہے۔ عروج کا پیام نہیں، زوال کا نشان ہے، اور شفق شام کی یہ سرخی خون انسانیت کے اس سمندر کا عکس ہے جو اہل مغرب نے اپنے زیر نگیں روئے زمین پر بہایا ہے۔ لہٰذا ماضی و حال میں مغرب کے سامراجی جتنا عیش کر چکے ہوں وہ وقت گزر چکا یا گزر رہا ہے، لیکن مستقبل ان کے ہاتھوں سے ان کی بد اعمالیوں کے سبب نکل چکا، چنانچہ اہل مشرق کو اب مستقبل پر نظریں جما کر اس کی بہتری کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ اس طرح پہلے شعر کے بیان جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا کی تصدیق و تکرار زیر نظر شعر کے بیان دوش و امروز ہے فسانہ سے ہوتی ہے اور کڑیاں ایک مربوط مسئلہ خیال کی ملنے لگتی ہیں، یہاں تک کہ دوسرے حصے کا دوسرا شعر ترقی حال کا راز کھول کر ایک ہولناک مستقبل کا اشارہ اہل مغرب کے لیے کرتا ہے:
وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اسی کی بے تاب کبلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ
پہلے مصرعے کی خطابت کو دوسرے مصرعے میں بجلی اور آشیانہ کی شاعرانہ تصویر شعریت میں ڈبو دیتی ہے۔
ارتقائے خیال کے اس مرحلے پر، جب مغرب و مشرق کے احوال و حقائق نمایاں ہو چکے ہیں شاعر اپنے قاری کو بڑی ہو شیاری اور بڑے خوبصورت انداز سے، ایک ذہنی کشمکش میں ڈال کر اس کی ساری حیات کو بیدار کر دیتا ہے:
ہوائیں ان کی فضائیں ان کی ہمندان کے، جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر؟ بھنور ہے تقدیر کا بہانہ!
پورا خیال ایک بحری استعارے میں ممثل کیا گیا ہے اور بندش الفاظ روانی بحر کا آہنگ پیدا کرتی ہے، پھر انگریزوں یا یورپی اقوام کی بحری طاقت بھی اس استعارے کے پس منظر میں اس کی موزونی اور اثر انگیزی کی ضمانت دے رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر؟ مشرق کا جہاز اس سمندر وقت کے گرداب میں پھنس گیا ہے جس پر مغرب کا تسلط ہے ہوا اسی کی ہے فضا اسی کی ہے، سمندر اسی کا جہاز اسی کا، لہٰذا گرداب بھی اسی کا پیدا کیا ہوا ہے۔ جس میں وہ مشرق کو پھنسائے ہوئے ہے، یہ آدمی کا آدمی کے لیے بنا ہوا مصنوعی جال ہے جس کو آدمی بآسانی توڑ سکتا ہے، اگر حوصلے سے کام لے، مگر اس جال کو تقدیر کا پھندا بتایا اور سمجھا جا رہا ہے، لہٰذا اس کو توڑنے کی کوشش کی بجائے اس پر صبر کیا جا رہا ہے۔ یہ بے جا صبر و تحمل ہے اہل مشرق اس کو جلد سے جلد ترک کریں۔ انہیں جاننا چاہیے کہ:
جہان نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ!
اب ابتدائے نظم میں ’’ جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا‘‘ کا پور امفہوم نظم کے تقریباً آخر میں بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ مغرب نے اپنے سائنس، صنعت اور سیاست سے جو دنیا اپنے لیے جنت اور دوسروں کے لیے جہنم کی شکل میں بنائی تھی وہ اب پرانی ہو چکی اور گردش ایام اس کا ورق الٹنے والی ہے، مغرب کی تعمیر کی ہوئی فرسودہ دنیا مر رہی ہے اور ایک جہان نو پیدا ہو رہا ہے، فرنگیوں نے دنیا کو ایک جفا خانہ بنا رکھا تھا اور جوا بازی میں اپنی مہارت اور عیاری کے سبب دوسروں کو بے وقوف بنا کر ہرا رہے تھے مگر اب ان کی چالیں الٹی پڑ رہی ہیں اور وہ اپنے ہی کھیل سے آپ ہاریں گے، قمار بازی کا استعارہ سیاست بازی کے لیے انگریزی یا مغربی سماج کے سلسلے میں بہت موزوں اور دلچسپ ہے، اس لیے کہ جوا کھیلنا ان کی عادت ہے اور وہ اس میں اپنے ہاتھ کی صفائی کا بدترین مظاہرہ بساط عالم پر کر رہے ہیں۔ بہرحال، ان کی ساری پر فریب تدبیروں کی بازی تقدیر کی طرف سے مات ہونے والی ہے اس لیے کہ قدرت الٰہی دنیا کا کارخانہ قمار بازی پر نہیں، مکافات عمل پر چلا رہی ہے اور اہل مغرب کی مہلت عمل ان کے عمل بد کے نتیجے میں ختم کی جا چکی ہے، اب انہیں تاریخ کا حساب گذشتہ اقوام کی طرح اپنے وقت اور اپنی باری پر دینا ہے۔ لہٰذا اہل مشرق مغرب کے تباہ ہوتے ہوئے، عالم پیر کے طلسم سے نکل کر انسانیت کے ابھرتے ہوئے جہان نو کا استقبال اور اس میں بسنے بسانے کی تیار کریں۔
آخر میں وہ شخص یعنی شاعر جو زمانہ کے یہ سارے حقائق اس بصیرت و جرأت کے ساتھ آشکار کر رہا ہے سامنے آتا ہے اور اعلان کرتا ہے:
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
مستقبل اہل مشرق کے لیے کتنا ہی روشن ہو، بروقت وقت کی، تند و تیز، ہوا مغرب کی برق رفتار ترقیات کے سبب چل رہی ہے اور مشرق کے چراغ حیات کی لوتھر تھرا رہی ہے بلکہ بیشتر مقامات پر بجھ چکی ہے یا اتنی دھیمی ہے کہ روشنی کی کوئی لکیر اس سے نہیں پھوٹتی، لیکن مرد درویش اپنی شاعری کا چراغ جلا کر ذہنوں میں جالا پھیلا رہا ہے، فضا کی تاریکی دور کر رہا ہے، نگاہوں کو روشن کر رہا ہے، تاکہ اہل مشرق حقائق کو صاف صاف دیکھیں اور اپنی منزل کے راستے پر گامزن ہوں، حالات کا مقابلہ کریں، اپنی کشتی بھنور سے نکالیں، ساحل مراد کی طرف بڑھیں، زمانے کا ورق الٹ دیں اور زندگی کا ایک نیا باب شروع کریں، تاریخ میں ایک بار پھر انسان کو جدید دور جاہلیت کی ظلمتوں سے نکال کر ایک نیا باب شروع کریں، تاریخ میں ایک بار پھر انسان کو جدید دور جاہلیت کی ظلمتوں سے نکال کر نور حق کے دائرے میں لے آئیں۔
وقت کے موضوع پر یہ نظم اقبال کے تصور وقت کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے کہ اس سے ان کے نظریے کے محرکات و مقاصد معلوم ہوتے ہیں اور یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ وقت جیسے فلسفیانہ موضوع کو اقبال خالص انسانی و عملی پس منظر میں لیتے ہیں اور اس کو زبردست شاعرانہ انداز میں پیش کرتے ہیں، تاکہ قاری کا دماغ روشن ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا د بھی گرم ہو اور وہ فکر سے عمل کی طرف قدم بڑھائے۔ اس نظم کی شعریت وقت کو ایک نکتہ فکر کے ساتھ ساتھ ایک نغمہ فن بنا دیتی ہے اور ہم اس کے لمحات کو اپنے دور کے آسمان پر خیال آفریں حرکتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
لالہ صحرا
لالہ اقبال کی شاعری کے نظام علائم میں گل سرسبد ہے لالہ صحرا کی ترکیب اقبال نے ’’ شمع اور شاعر‘‘ میں اپنی ہی طرف منسوب کی ہے:
در جہاں مثل چراغ لالہ صحرا ستم
نے نصیب محفلے، نے قسمت کا شاد
حسرت کے باوجود اس شعر میں بھی لالہ کی تنہائی و یکتائی نیز درخشانی و تابانی کا وہ احساس موجود ہے جو زیر نظر نظم کا موضوع ہے۔ شمع اور شاعر کی طرح ایک بار پھر شاعر لالہ صحرا، میں بھی اپنی اور لالہ کی ہستی کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیتا ہے اور ایک مشترک عمل کی نغمہ سرائی کرتا ہے۔ لالہ صحرا، ظاہر ہے کہ کوئی نباتاتی نظم نہیں ہے، ایک علامتی تخلیق ہے اور اسی حیثیت سے اس کے معانی و مضمرات کی تشریح و تعین صحیح طور پر کی جا سکتی ہے۔ مظاہر فطرت پر، ہم شروع سے دیکھ رہے ہیں، اقبال کی طبع آزمائی فقط فطرت نگاری کے لیے نہیں ہوتی ایک خاص مقصد کے لیے، ایک خاص تصور کے تحت ہوتی ہے۔ یہ مقصد ہمالہ اور گل رنگین وغیرہ خاص مظاہر فطرت پر لکھی ہوئی نظموں میں اسی طرح کار فرما ہے جس طرح تصویر درد، اور خضر راہ جیسی فکری تخلیقات کی جزوی منظر نگاری میں چنانچہ لالہ صحرا ہو کہ شاہین اقبال کے سبھی موضوعات فطرت ان کے مقصد شاعری کے مطابق ان کی نظموں میں بروئے اظہار آئے ہیں اس کے باوجود یہ حقیقت فن اپنی جگہ ہے کہ موضوعات فطرت پر لکھی ہوئی نظموں کے ساتھ ساتھ فکری نظموں میں بھی اقبال نے جن تصویروں اور تمثالوں کا استعمال بکثرت کیا ہے ان سے حسن فطرت کی رعنائیوں کا وفور اور سرور مترشح ہوتا ہے، اس لیے کہ قدرتی جمالیات سے اقبال کو بڑا گہرا شغف ہے، وہ غمزہ ستارہ سے لے کر ریگ نواح کاظمہ تک سے شدید طور پر متاثر ہوتے ہیں اور اس شدت تاثرکو حسین شاعرانہ پیکروں میں ڈھال دیتے ہیں، لیکن یہ پیکر ان کی کسی نہ کسی تصور کی تزئین و توضیح کے لیے ہوتے ہیں اور متعلقہ فکری تخلیقات کے مناسب موضوع ہوتے ہیں فطرت کے فن کارانہ برتاؤ کی یہ کیفیت ہم مسجد قرطبہ ، ساقی نامہ اور ذوق و شوق میں بھی پاتے ہیں۔
’’ لالہ صحرا ‘‘ کا موضوع ہے:ـ
اک جذبہ پیدائی، اک لذت یکتائی
یہ نظم ہی کا ایک مصرع ہے اور اس کے مفہوم میں شاعر و لالہ شریک و ہم آہنگ ہیں۔ نظم ایک تصویر سے شروع ہوتی ہے جس سے پیدا ہونے والا احساس بھی ساتھ ہی درج کر دیا گیا ہے:
یہ گنبد مینائی، یہ عالم تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
’’ گنبد مینائی‘‘ افلاک کی وسعت، رنگینی اور رعنائی کی خیال آفریں علامت ہے اور اس دشت و صحرا کی پہنائی کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں گل لالہ اپنی بہار دکھاتا ہے اس اشارے کے اطلاق میں شاعر بھی لالہ کے ساتھ شریک ہو جاتا ہے اور گنبد مینائی کی وسعتوں میں اپنے اور لالہ دونوں کے لیے ایک عالم تنہائی کا احساس کرتا ہے۔ پہلے مصرعے میں صرف دو لفظوں کی دو ترکیبوں کے ذریعے فطرت اور حقیقت دونوں کی پیکر تراشی کر دی گئی ہے۔ دوسرا مصرع اس پیکر کی تاثیر کا اندراج کرتا ہے اور خود شاعر اظہار کرتا ہے کہ گنبد مینائی کے نیچے ایک لق و دق صحرا کی وسعتیں بڑی پر ہول ہیں اور وہ ان سے خائف ہے۔ اوپر کھلا آسمان، نیچے دشت بے کنار اور اس فضا میں اکیلا شاعر یا اکیلا انسان، کائنات میں اپنی قسم کا تنہا وجود، مظاہر حیات کے حامل واحد سیارے زمین پر اور انسان کے ساتھ ساتھ گل لالہ مطلب یہ کہ جس طرح لالہ دشت زمین کی پہنائیوں میں تنہا اپنی بہار دکھا رہا ہے، اسی طرھ انسان صحرائے وجود میں اکیلا ہی رونق افروز ہے۔ لہٰذا لالہ و انسان ایک دوسرے کے مماثل بلکہ مترادف ہیں۔ اس مکمل آہنگی کے بعد اب دونوں کی یکساں صفات کی کچھ تفصیلات بیان کی جاتی ہیں:
بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی
دشت وجود میں گم لالہ بھی ہے، شاعر یا انسان بھی، اس لیے کہ دونوں کا سرچشمہ وجود ان سے دور ہو چکا ہے اور وہ اپنی اصلی منزل سے گویا بھٹک کر راہ حیات میں آوارہ ہیں محبوب ازل سے جدا ہو کر انہوں نے اپنے گوہر مقصود کا نشان کھو دیا ہے لہٰذا شاعر لالہ سے استفہام کرتا ہے کہ اس کی منزل اب کہاں ہے اس سوال کا جواب واضح نہیں اور اس کا ابہام بہت معنی خیز، بہت حسین اور بہت حقیقت افروز ہے۔ شاید جواب کی ضرورت ہی نہیں، سوال ہی کافی ہے۔ اس لیے کہ جواب بہرحال کہیں وجود ہے اور کبھی ملے گا، منزل کی گمشدگی ہی منزل کا سراغ دیتی ہے۔ اس کے متعلق بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اصل بات یہ ہے کہ دشت وجود میں کیا پھول، کیا انسان سب کے سب سرگشتہ آوارہ ایک تجسس اور ایک جستجو میں لگے ہوئے ہیں، یہی ان کی زندگی ہے یہی ان کی ترقی کا باعث ہے، یہی انہیں بالآخر منزل مقصود تک پہنچا دے گی۔ بہرحال وسعت کائنات میں مظاہر وجود کی یہ نمود بجائے خود ایک جلوۂ حقیقت ہے۔ ایک سرمہ بصیرت ہے، مگر اس تجلی کا مشاہدہ کرنے والا کوئی نہیں، کوئی نہیں جو مظاہر قدرت سے قدرت تک پہنچنے کی کوشش کرے، قدرت سے کلام کرے اور اس کا پیغام لے، تاکہ جلوۂ حق تنہائی اور آوارگی کے عالم میں مخلوقات کی تسکین اور ہدایت کا باعث ہو۔
خالی ہے گلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلہ سینائی، میں شعلہ سینائی
سینا و کلیم کی یہ تلمیح بڑی خیال انگیز ہے، شعلہ سینائی کا پیکر اسی طرح لالہ کی تصویر کشی کرتا ہے جس طرح عالم تنائی ایک لالہ اکیلا ہی پورے صحرا کو روشن و رنگین کیے ہوئے ہے، اس کی سرخ شعاعیں پورے دشت کو منور کر رہی ہیں، جس طرح دشت وجود کا نور انسان کے شعلہ سوز سے ہے اور اس کی جفا طلبی ایک دشت سادہ کی رنگینیوں سے لالہ گوں کئے ہوئے ہے۔ بہرحال یہ رنگینی و روشنی لالہ و انسان دونوں کے وجود کا اندرونی تقاضا اور مقصد ہستی ہے۔
تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہ پیدائی، اک لذت یکتائی
یہ تمنائے حیات کی نمود اور آرزوئے کمال کا ظہور ہے، لالہ و انسان شجر قدرت کے پھول ہیں اور وہ اپنی شاخ سے الگ ہو کر اپنی یکتائی کا پر لطف جلوہ دکھا رہے ہیں، شاخ بہت ہی خیال آفریں اور حقیقت افروز پیکر ہے اور پھوٹا اور ٹوٹا کے افعال جہان معانی کا دروازہ کھولتے ہیں۔ لالہ شاخ سے ٹوٹا نہیں ہے اسی پر پھوٹا ہے وہ انسان کی طرح ذی شعور نہیں، صرف ایک مظہر فطرت ہے، لیکن انسان شاخ سے ٹوٹ گیا ہے، اس کے شعور نے اس پر ایک بار امانت ڈال دیا ہے، اس باریک فرق کے باوجود نمو اور نمود دونوں ہستیوں کا مشترک وصف ہے اور ان میں ہر ایک اپنی اپنی جگہ ایک یکتائی کے جذبے سے سرشار ہے۔
عالم تنہائی، شعلہ سینائی اور جذبہ پیدائی لذت یکتائی، لالہ کی ظاہری و باطنی دونوں قسم کی عکاسی کرنے والے پیکر ہیں اور ان تصویروں کا انطبا ق انسان پر بھی ساتھ ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایک اور تصویر سرگشتگی و آوارہ خیالی میں بھی دونوں شریک ہیں، مگر اس ہم آہنگی میں صرف ایک بیان اپنی دقیقہ سنجی۔۔۔۔ پھوٹا اور ٹوٹا۔۔۔۔ سے بے شعور و با شعور مخلوقات کے درمیان لطیف سا فرق پیدا کر دیتا ہے۔ یہ ارتقائے خیال کا ایک ہلکا سا خم ہے جو تخیل کے آئندہ مرحلوں کے لیے ذہن کو تیار کر سکتا ہے۔ اگلا شعر ہے:
غواص محبت کا اللہ نگہبان ہو
ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی
ابھی تک دشت کوہ و کمر اور شاخ کی تصویریں تھیں جن میں شاعر اور لالہ ایک دوسرے کے شریک تھے، اب دریا کی تصویر ہے اور بجائے لالہ و شاعر غواص محبت کا پیکر دریا کی مناسبت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ غواص محبت انسان ہے جس عالم تنہائی میں لالہ و انسان ایک دوسرے کے ساتھ تھے اور گویا فراق محبوب میں ’’ شعلہ سینائی‘‘ بنے ہوئے تھے، اب انسان اس کیفیت میں تنہا رہ جاتا ہے، اس لیے کہ اس کے شعور نے اسے وقتی طور پر شاخ سے کاٹ کر بالکل الگ کر دیا ہے۔ لہٰذا عالم فراق میں وہ کائنات کے بیکراں اور پر خطر دریائے محبت کی عوآصی کر رہا ہے، تاکہ گہر مقصود تک پہنچ سکے، حالانکہ یہ آسان کام نہیں، دریا کی گہرائی اتنی زیادہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے، ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی ایسی حالت میں تہ تک صحیح و سالم اتر کر موتی نکالنا بے حد دشوار ہے بلکہ سخت اندیشہ ہے کہ لہروں کا کوئی گرداب غواص کو غرقاب کر دے گا:
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
خواص دریا اور اس کی گہرائی کے تسلسل میں غواص کو گویا ایک موج سے تشبیہہ دی جا رہی ہے، اس لیے کہ موج ہی کی طرح غواص بھی سطح اور اس کی لہروں سے گزر کر تک تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح موج ایک ساحل سے اٹھ کر دوسرے ساحل تک جاتی ہے، اگر درمیان میں کوئی رکاوٹ یا حادثہ حائل نہ ہو، یہ گویا ساحل مراد تک پہنچنا ہے، جبکہ ایسی بیشمار موجیں ہیں جو ایک کنارے سے اٹھتی ہیں مگر دوسرے کنارے تک پہنچ نہیں پاتیں، درمیان ہی میں لہروں کا کوئی چکر بھنور بن کر ان موجوں کو فنا کر دیتا ہے، اس کے بعد موج کے ماتم، میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بھنور کی آنکھ مگر مچھ کی طرح رو رہی ہو۔ وہ دریائے محبت جس میں انسان موج کی طرح تیر رہا ہے، بہت ہی ہولناک اور پر خطر ہے۔ اس کے باوجود انسان کی خطر پسندی، جو اس کے ازلی و آفاقی عشق کی دین ہے، اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی، ہر لمحہ بے تاب اور سرگرم رکھتی ہے اور اسی انسانی سرگرمی سے در حقیقت کائنات کی رونق اور عالم وجود کی ساری گرم بازاری ہے:
ہے گرمی آدم سے ہنگامہ عالم گرم
سورج بھی تماشائی، تارے بھی تماشائی
کائنات کا فعال کردار انسان ہے، جبکہ تمام مظاہر فطرت، کیا چاند تارے اور کیا سورج، سب کے سب صرف تماشائی ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ شوق نمو اور ذوق نمود میں شریک رہنے اور ایک ناموس فطرت ہونے کے باوجود لالہ صحرا انسان سے کچھ جدا ہے، اس کے کندھوں پر بار امانت نہیں، اسے فریضہ خلافت نہیں ادا کرنا، آسمان کے سورج اور تارے کی طرح وہ بھی تماشائی ہے۔ بہرحال عالم تنہائی میں شعلہ سینائی بننے اور جذبہ پیدائی و لذت یکتائی میں لالہ صحرا انسان کے مانند ہے، اس کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ لہٰذا شاعر ایک انسان کی حیثیت سے لالہ صحرا کی بعض وہ صفات حاصل کرنا چاہتا ہے جو دریائے محبت کی غواصی اور ہنگامہ عالم کی گرمی میں اس کے لیے قدرے سکون و قرار اور سرور و نشاط کا باعث ہو سکتی ہیں:
اے بادبیابانی مجکو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی
اس سوال ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خاموشی و دل سوزی اور سرمستی و رعنائی جو ایک غیر متحرک وجود کو نصیب ہے انسان کو بہ آسانی میسر نہیں، سکون و سرور ایک گل رنگین کا حصہ ہے مگر انسان تو بے تاب و پریشان ہے، بلا شبہہ وہ پھول کے حسن خاموش پر رشک کر سکتا ہے لیکن طنز بھی کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ لالہ صحرا کے آخری شعر میں یہ دونوں احساسات ہیں، جس انداز سے قریب کے ماسبق اشعار میں انسان کی سرگرمیوں کا فاخرانہ ذکر کیا گیا ہے، اس کے بعد بادبیانی سے گل لالہ کی طرح خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی، طلب کرنا صرف رشک نہیں ہو سکتا، اس میں طنز کا ایک پہلو سیاق و سباق ہی سے نکل آتا ہے۔ اس صورت حال سے نظم کے موضوع و مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ مقصود نہ تو لالہ کی نباتیات کا بیان ہے نہ اس کے کمالات کا چرچا، صرف اس کی جمالیات پیش نظر ہے اور وہ بھی شاعر کی اخلاقیات کے تحت، اسی لیے لالہ کے ساتھ بعض جہتوں سے انسان کی ہم آہنگی کا بیان ہے اور بعض جہتوں سے فرق و امتیاز کا یہ ایک پیچیدہ و مرکب، حسین و جمیل، پر معنی اور خیال آفریں نظم ہے۔ اس سے کلام اقبال میں شعریت کی تہوں اور فن کاری کے پیچ و خم کا اندازہ ہوتا ہے۔
اقبال کی فطرت نگاری میں جو تصور کی پرواز، تخیل کی وسعت اور تفکر کی گہرائی نیز فن کی دبازت و نفاست ہے اس کا مزید اندازہ ملتے جلتے موضوعات پر انگریزی شعرا کے اظہار خیال سے ہوتا ہے۔ انگلستان کا ایک محبوب پھول ہے ’’ ڈیفو ڈل‘‘ Daffodil جس سے سترہویں صدی میں ما بعد الطبیعاتی رحجان کے ایک شاعر رابرٹ ہیرک Herric Robert نے بھی نظم لکھی ہے اور انیسویں صدی کی تحریک احیائے رومانیت کے شہرۂ آفاق فطرت نگار ورڈس ورتھ نے بھی ہیرک پھول سے براہ راست خطاب کر کے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہتا ہے، جیسے اقبال نے لالہ صحرا میں کای ہے:
حسین ڈیفو ڈل! ہم یہ دیکھ کر روتے ہیں
تم اتنی جلدی رخصت ہو جاتے ہو
ہنوز سویر اٹھنے والا سورج
اپنی دوپہر تک نہیں پہنچا ہے
ٹھہرو، ٹھہرو
تاوقتیکہ جلد بھاگنے والا دن گزر جائے
بس نغمہ شام تک رک جاؤ
اور ساتھ ساتھ عبادت کر کے ہم
تمہارے ساتھ ہی چلیں گے
ہمارے قیام کا وقت بھی تمہاری ہی طرح مختصر ہے
ہماری بہار بھی ویسی ہی مختصر ہے
یہ ابھار زوال سے اتنا ہی جلد دو چار ہوتا ہے
جتنا تم یا کوئی اور چیز
ہم مرتے ہیں
جس طرح تمہارے لمحات، اور خشک ہو جاتے ہیں
موسم گرما کی بارش کے مانند
یا صبح کی شبنم کے موتیوں کی طرح
جو پھر کبھی پائے نہیں جاتے
’’ To Daffodils‘‘
ورڈس ورتھ پھول کی تصویر کشی کر کے اس سے اپنا مخصوص فکری نتیجہ اخذ کرتا یا سبق لیتا ہے:
میں ایک بادل کی طرح اکیلا گھوم رہا تھا
جو وادیوں اور پہاڑیوں کے اوپر اوپر تیرتا ہے
اس وقت یکایک میں نے ایک ہجوم دیکھا
سنہری ڈیفوڈل کا ایک لشکر
جھیل کے کنارے، درختوں کے نیچے
نرم ہوا میں بلتے ناچتے ہوئے
ان ستاروں کی طرح قطار اندر قطار جو چمکتے ہیں
اور کہکشاں کی صف میں چشمک کرتے ہیں
وہ ایک غیر مختتم لکیر میں پھیلے ہوئے تھے
ایک جھیل کے کنارے
ایک نظر میں مجھے دس ہزار دکھائی پڑے
ایک زندہ دلانہ رقص میں اپنے سر مٹکاتے ہوئے
لہریں بھی ان کے آس پاس ناچ رہی تھیں مگر وہ
سرور میں چمچاتی لہروں سے سبقت لے گئے
ایک شاعر بے اختیار شادماں ہوا
ایسی پر نشاط صحبت میں
میں محو نظارہ رہا محو نظارہ رہا، لیکن گویا سوچا ہی نہیں
اس منظر نے مجھے کیسا خزانہ دیا تھا
کیونکہ اکثر جب میں اپنے پلنگ پر لیٹتا ہوں
خالی الذہن یا فکر مندی و آزردگی کی کیفیت میں
وہ اس نگاہ باطن پر جلوہ نما ہوتے ہیں
جو نشاط تنہائی ہے
اور تب میرا دل مسرت سے پر ہو جاتا ہے
اور ڈیفو ڈلوں کے ساتھ رقص کرنے لگتا ہے
ہیرک کی نظم میں ایک دو پیش پا افتادہ تصویروں۔۔۔۔۔۔ موسم گرما کی بارش اور صبح کی شبنم کے موتی کے سوا کوئی منظر فطرت نہیں اور تخیل صرف فنا کا ہے جس میں انسان اور پھول شریک ہیں اس فرق کے ساتھ کہ پھول شاعر سے بھی زیادہ اور جلد فنا پذیر ہے۔ یقینا اس تصویر میں عبرت ہے مگر فکر و فن کی کوئی خاص، گہری اور اونچی بات نہیں ورڈس ورتھ کی نظم میں یقینا ایک مرقع فطرت اور اس کی شاعرانہ تاثیر کی تصویر بھی ہے۔۔۔۔ بادل ہیں، پہاڑیاں ہیں، پھول ہیں، درخت ہیں، جھیل ہے، ستارے بھی ہیں، پھولوں اور لہروں کا مقابلہ رقص بھی ایک نرم ہوا میں ہے، اور شاعر کے حافظے پر یہ سارے پیکر نقش ہو کر ایک خزانہ مسرت فراہم کرتے ہیں جو ہمیشہ شاعر کو بوقت ضرورت کام آتا ہے اور تکدر و تنہائی دونوں حالتوں میں ایک سرور عطا کرتا ہے۔ لیکن ’’ چشم باطن‘‘ کا ذکر کرنے کے باوجود شاعر فطرت ایک سرور تخیل سے آگے نہیں بڑھتا، اس لیے کہ وہ محض شاعر فطرت نگار ہے اس کی روح میں کوئی گہرائی نہیں، اس کے ذہن میں کوئی وسعت نہیں، چشم باطن کا حوالہ دینے کے باوجود نظم میں صرف مشاہدہ خارج کے ایک عکس یا نقش کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی کو نشاط تنہائی قرار دیا گیا ہے۔ عالم تنہائی کا بیان لالہ صحرا میں بھی ہے لیکن اس میں اقبال کا تخیل ایک شعلہ سینائی بلند کرتا ہے جس کا تصور بھی ورڈس ورتھ نہیں کر سکتا، حالانکہ شعلہ گل کو وہ کہکشاں کی طرح تاباں و درخشاں بتاتا ہے مگر اس کا ذہن اس سے آگے نہیں بڑھتا، اس کی نظر صرف سامنے کے نظاروں تک محدود رہتی ہے، خواہ وہ زمین کے ہوں یا آسمان کے، ان نظاروں کے پیچھے چھپی حقیقت کا احساس اس کو بہت ہی کم ہے۔ بلا شبہہ اس نے بچپن کی معصومیت کو الوہیت کے قریب تصور کیا ہے لیکن اس کا بھی مقصد صرف، سادگی، تازگی اور معصومیت جیسے معمولی تصورات کو ایک الوہی رنگ دینا ہے، یہی وجہ ہے کہ ورڈس ورتھ مناظر قدرت ہی کی پرستش بھی کرنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے مظاہر پرستش یونان کے ضمیات و خرافات کی اساطیری علامتوں کو بے دریغ استعمال کرتا ہے اور ان کے لیے اپنا مذہب تک ترک کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ اس لیے کہ مذہب پر مبنی معاشرے میں لوگ فطرت سے دور جا چکے ہیں اور اس دوری ہی کو وہ دنیا داری کہتا ہے، گویا فطرت پرستی اس کے نزدیک کوئی دین داری ہو۔ یہ سب خیالات ورڈس ورتھ کی ایک چھوٹی سی پر معنی نظم ’’ The World in too much with us‘‘ میں بداہتہ موجود ہیں اور اس کی شاعری کا فکری رخ واضح کرتے ہیں۔ بلا شبہ فطرت کی یہ شاعری بہت اچھی، بہت دلچسپ، بہت کامیاب اور پر اثر شاعری ہے مگر اس شاعری کا دائرہ بادل، پہاڑ، پھول، درخت جھیل، ستارہ اور ہوا کے مظاہر سے آگے نہیں بڑھتا۔ جبکہ یہ سب چیزیں صرف مناظر یا علامات ہیں، حقائق و معارف نہیں۔ اقبال اور ورڈس ورتھ کے درمیان فرق یہی ہے کہ اقبال علامات کے ساتھ حقائق کا بھی براہ راست مطالعہ کرتے ہیں اور ورڈس ورتھ علامات کے مشاہدے ہی میں محو رہ جاتا ہے۔ اسی لیے اس کی چشم باطن جس نشاط تنہائی کا مرکز و معیار ہے وہ بہت ہی محدود اور ناقص ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کی نگاہ اور اس کا نشاط پوری کائنات پر محیط ہے جس میں خارج و باطن، آفاق و انفس سب شامل ہیں۔ اقبال وسیع ترین انسانیت کے شاعر ہیں جس کے لیے فطرت زیادہ سے زیادہ ایک دل کش جلوہ ہے، منزل حقیقت نہیں سب سے بڑی بات یہ کہ اقبال نے حقیقت ہی کو شعریت میں ڈھال دیا ہے اور اس کی عکاسی و نقاشی کے لیے فن کے ایسے ایسے پیکر تراشے ہیں کہ ورڈس ورتھ کا پورا نگار خانہ فطرت ان کے رنگ و آہنگ کے سامنے گرد ہو جاتا ہے۔ اسی لیے مظاہر فطرت سے بھی جمال حقیقت کی آرائش کا جو کام اقبال نے لیا ہے ورڈس ورتھ نہ لے سکا۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ فن بے حد اہم ہے کہ فطرت اقبال کا وسیلہ فن ہے اور ورڈس ورتھ کا مقصد فن ۔ میرے خیال میں بحیثیت شاعر یہی فرق اقبال کی مضبوطی کا سبب ہے اور ورڈس ورتھ کی کمزوری کا۔
شاہیں
ایک مظہر فطرت پر علامتی نظم، لالہ صحرا کی طرح شاہیں بھی ہے۔ اقبال کے تصور شاعری میں اس کی بڑی اہمیت ہے اور اس شاعری کے نظام فن میں اس کا ایک نمایاں مقام ہے۔ یہاں شاعر بخلاف لالہ صحرا، مظہر فطرت کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کرتا، بظاہر اس سے الگ اور دور رہ کر اس کا مشاہدہ و مطالعہ دونوں کرتا ہے اور اس کی ایک ایسی تصویر کھینچتا ہے جو اسے اس نظریے کا ایک عامل بنا دیتی ہے جو اقبال کی شاعری اور زندگی کا نصب العین ہے۔ پہلا ہی شعر اس مشہور پرندے کو نہ صرف دوسرے پرندوں بلکہ خود اس کے متعلق دوسرے شعرا کے تصورات سے بالکل الگ کر کے ایک منفرد و ممتاز حیثیت دے دیتا ہے:
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب ودانہ
فضائے زمین سے تعلق رکھنے کے باوجود یہ تصویر شاہیں کو فلک نشیں بنا دیتی ہے اور عام تصور کے برخلاف اسے ایک زاہدانہ کردار عطا کرتی ہے، خاکداں کا لفظ بہت پر معنی ہے اور آب و دانہ سے کنارہ کشی ایک تجسس انگیز خیال آفرینی کا باعث ہے۔ دوسرا شعر کسی حد تک اس تجسس کو دور اور پہلے شعر کے تصور کی تشریح کرتا ہے:
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
بیابان کی خلوت، شاہیں کے فطری ماحول کی منظر نگاری ہے لیکن راہبانہ فطرت، ایک نیا انوکھا اور چونکانے والا خیال ہے، جس کے نتیجے میں شاہیں کی اصلیت و حقیقت کے متعلق تجسس کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔ اول تو شاہیں کو شکاری پرندہ سمجھا جاتا ہے، دوسرے اقبال کو رہبانیت کا مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود شاعر اپنے محبوب پرندے کی تعریف میں راہبانہ کا لفظ استعمال کرتا ہے لیکن غور کیا جائے تو پہلا ہی شعر راہبانہ فطرت کی غمازی کرتا ہے۔ اس لیے کہ پرندے نے خاکداں سے کنارا کر لیا ہے اور آب و دانہ کو رزق نہیں سمجھتا، لہٰذا دوسرے شعر میں یہ نتیجہ نکالنا بالکل معقول ہے کہ ایسے پرندے کی فطرت راہبانہ ہے۔ دوسرے مصرعے میں رہبانیت کا اقرار دوسرے شعر کے پہلے مصرعے کی اس تصویر کے بھی مطابق ہے کہ شاہیں کو بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے۔ اس طرح چوتھے مصرعے کا پیکر مسلسل تین ماہ قبل کے مصرعوں کے مواد سے تیار ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی تصویر کے تسلسل میں آئندہ دو اشعار شاہیں کے کردار کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتے ہیں جس کا ذکر پہلے دو شعروں میں ہوا ہے:
نہ باد بہاری، نہ گلچیں، نہ بلبل
نہ بیماری نغمہ عاشقانہ
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
یہ گویا ایک متضاد ماحول کی پر فریب اور شجر کار دل کشی کا نقشہ ہے جو اس کے برعکس رویے کی اہمیت اور اس کے حامل کردار کی صلابت میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔ اس سے رہبانیت کی اندرونی طاقت کا بھی زبردست اظہار ہوتا ہے۔ صرف چند دلآویز پیکر بزم فطرت سے لے لیے گئے ہیں جن کا عکس بزم انسان میں بھی عام طور پر پایا جاتا ہے۔ باد بہاری، گلچیں، بلبل، نغمہ عاشقانہ، خیابانیوں، ادائیں، دلبرانہ جیسے الفاظ فطرت و انسانیت کے رومانی تصورات کا ایک نگار خانہ آراستہ کرتے ہیں اور فطری و انسانی حسن و عشق کی ایک داستان مرتب کرتے ہیں، مگر ان تمام رومانی دلآویزوں سے شاہیں آزاد، ان کے طلسم میں گرفتار نہیں، وہ نغمہ عاشقانہ کو ’’ بیماری‘‘ کہتا ہے اور خیانیوں سے ’’ پرہیز‘‘ کو لازم قرار دیتا ہے، حالانکہ اس کو اقرار کرنا پڑتا ہے:
ادائیں ہیں ان کی دلبرانہ شاید اس اقرار اور اس کے اندر مضمر شدت احساس ہی کے سبب وہ ان کے خلاف اپنا رد عمل زیادہ زور کے ساتھ ظاہر کرتا ہے اور حد یہ ہے کہ رہبانیت اختیار کر چکا ہے، تاکہ دنیا کے پر فریب نظارے دوسروں کی طرح اسے بھی مریض اور کمزور بنا کر نہ رکھ دیں، اس لیے کہ اس کے سامنے زندگی کا جو بلند تر مقصد ہے اس کے حصول کے لیے حسن و عشق کی رومانیت نہیں، فکر و عمل کی صلابت درکار ہے، فطرت پرستی نہیں حقیقت پسندی درکار ہے، لطف و لذت نہیں، سخت کوشی و پنجہ آزمائی درکار ہے۔ لہٰذا خیابان عالم کی ایک نہایت حسن منظر نگاری اور اس کے متعلق اپنا رویہ ظاہر کر دینے کے بعد اب شاہیں اپنے اصل مقصد اور اس کے حصول کے لیے مطلوب کردار کی نشان دہی کرتا ہے۔
ہو اے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں کی ضربت غازیانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کہ زاہدانہ
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
جلوت خیاباں کے مقابلے میں شاہین نے بہت سمجھ بوجھ کر بیاباں کی خلوت اختیار کی ہے، اس لیے کہ بیاباں کی کھلی وسعتوں اور سختیوں میں خیاباں کی تنگیوں اور نرمیوں کے برخلاف، جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کا موقع ورزش ملتا ہے، جس سے جواں مرد کی ضربت غازیانہ، کاری ہوتی ہے۔ باد بہاری کے خواب آور جھونکوں کے درمیان ہو اے بیاباں کے تند و تیز تھپیڑے پسند کرنا باز کی زندگی کو زہدانہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ لہٰذا حمام و کبوتر جیسے شکاروں کے خون کا جو الزام باز پر ہے اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اس سلسلے میں باز کی ساری سرگرمیاں، لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ، ورنہ شاہیں نہ تو پرندوں کا بھوکا ہے نہ لالچی، وہ صرف بقدر ضرورت اپنا رزق زمین کی پستیوں کی بجائے آسمان کی بلندیوں میں حاصل کرتا ہے اور اس کے لیے کڑی محنت، بڑی ریاضت کرتا ہے۔ جن لوگوں نے باز کو شکار کرتے ہوئے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کا سارا کھیل شکار کرنے پر مرکوز ہے۔ شکار کھانے پر نہیں اور اس سلسلے میں اس کی فن کاری اور طول عمل سے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا مقصد اپنی ورزش کے سوا کچھ اور نہ ہو اسی کیفیت کو اقبال نے لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ، سے تعبیر کیا ہے، یہ شاہین کی ایک حقیقی تصویر بھی ہے اور اس کے زاہدانہ و راہبانہ کردار اور ضربت غازیانہ کی علامت بھی۔ اپنی رائے اور اپنے ماحول کی مرقع نگاری کے بعد شاہین اپنے کردار کی آفاقیت پر تاکیدی نشان لگاتا ہے:
یہ پورپ یہ پچھم، چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بے کرا نہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
جب شاہیں نے خاکداں سے کنارہ کر لیا ہے، بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے، وہ خیابانیوں سے پرہیز لازم سمجھتا ہے تو اس کی فلک پردازی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا اور وہ بہ آسانی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کا نیلگوں آسمان بے کرا نہ ہے جبکہ دوسرے تمام پرندے چند سمتوں اور جہتوں میں محدود ہیں کوئی پورب، کوئی پچھم پر مبنی، چکوروں کی دنیا میں محصور ہے۔ اپنی اس آفاقیت کا آخری ثبوت شاہیں یہ دیتا ہے کہ وہ آشیانہ نہیں بناتا، لہٰذا اس کی حیثیت پرندوں کی دنیا میں درویش کی ہے جو دنیا کے تمام ساز و سامان سے بے نیاز اور اس کے سارے پھندوں سے آزاد ہوتا ہے۔ یہ درویش وہی ہے جس کے بارے میں قبل کہا چکا ہے کہ اس کی فطرت راہبانہ اور زندگی زاہدانہ ہے، وہ ایک جوانمرد ہے جو ضربت غازیانہ کا حامل ہے۔ یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا، کہہ کر صرف ایک مصرع میں شاعر نے اہل دنیا کی تنگ دماغی اور محدود نظری کی ایک تصویر کھینچ دی ہے اور اس متضاد پس منظر کی ترتیب کے بعد دوسرے مصرعے میں صرف نیلگوں آسماں بے کرانہ، کے پیکر سے اس نے وسیع النظری اور اعلیٰ دماغی کا ایک موثر مرقع تیار کر دیا ہے اور پہلے مصرعے میں یہ پورب یہ پچھم کے لہجے سے چکوروں کی دنیا کی تحقیر نیز دوسرے مصرعے میں ایک صفت نیلگوں سے شاہیں کے آسماں بے کرانہ کی تعظیم کا احساس ابھار دیا ہے۔ درویش کا استعارہ بھی اپنی جگہ معنی خیز ہے اور شاہیں بناتا نہیں آشیانہ کے بیان کو خیال آفرین بناتا ہے۔ ان حسین تصویروں کو نہ کی ردیف اور بندش الفاظ کا ترانم نغمات میں تبدیل کرتا ہے۔
نظم از اول تا آخر ارتقائے خیال اور اشعار کے درمیان ربط معنوی کے لحاظ سے ایک مکمل ہیئت تخلیق ہے۔ اس میں شاہیں کی عادات و حرکات کی مصوری بھی ہے، اس کے ماحول کی عکاسی بھی اور اس کے احساسات و خیالات کی ترجمانی بھی صرف نو اشعار اور اٹھارہ مصرعوں میں یہ سب کچھ اس موثر طریقے سے کر لینا فن کے ایجاز کا اعجاز ہے اس نظم سے شاہین کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ اس تصور کے بالکل خلاف ہے جو لوگوں نے شاہین اور اس کے سلسلے میں اقبال سے منسوب کر رکھا ہے۔ یہاں نہ تو شاہیں کشت و خون کا پیکر ہے نہ اقبال نے اسے تشدد اور جبر و ستم کی علامت بنایا ہے، وہ قوت و طاقت کی تصویر پر بن کر ضرور ہمارے سامنے آتا ہے مگر یہ قوت و طاقت ایک زاہد اور راہب کی ہے جو دنیائے دنی کے حرص و ہوس کو بالکل ترک کر چکا ہے اور صرف ایک درویش و غازی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ یہ اقبال کے تصور ترک اور نظریہ قوت کے عین مطابق ہے:
کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری
(غزل۔ بال جبریل)
٭٭٭
تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحب نظراں! نشہ قوت ہے خطرناک
لادیں ہو تو ہے زہر ہلا ہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
(’’قوت اور دین‘‘ ۔ ضرب کلیم)
مطلب یہ کہ قوت کا استعمال دنیا کی دولت و سلطنت کے لیے نہیں بلکہ دفع شر اور قیام عدل و حق کے لیے ہونا چاہیے۔ اسی معنے میں شاہیں اقبال کے مرد مومن کی علامت ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے یہاں فوق البشر کا کوئی تصور نہیں، اس لیے کہ اسلامی عقیدے میں انسان کامل ؐ بھی صرف خیر البشر ہے، خدا کا آخری رسول ؐ ہونے کے باوصف بشری ہے۔
شاہین پر اقبال کی نظم کے محاسن فنی کا اندازہ لگانے کے لیے اس کا موازنہ ورڈس ورتھ کی To the sky lark اور شیلی کی To a sky lark کے ساتھ کرنا نہایت مفید ہو گا۔ اسکائی لارک بھی شاہیں کی طرح آسماں پر داز ہے اور انگریزوں کا محبوب پرندہ ہے۔
ورڈس ورتھ کہتا ہے
مغنی ہوا! دائر آسماں!
کیا تو زمیں سے متنفر ہے جہاں ہجوم افکار ہے؟
یا عین اس وقت جب باز و محو پرواز ہیں، دل و نگاہ
دونوں شبنمی زمیں پر ترے آشیانے سے لگے ہوئے ہیں؟
آشیانہ جس میں تو جب جی چاہے پٹک پر سکتا ہے
اپنے کپکپاتے بازو سمیٹ کر، نغمہ خاموش کی صورت!
آخری نقطہ نگاہ تک اور اس سے بھی پرے
پرواز کرتا جا، جری زمزمہ پرواز! تیرا نغمہ محبت
تیرے اور تیری محبوبہ کے درمیان ایک دائمی عہد
سینہ میداں کے لیے کم سرور انگیز نہیں
ہمیشہ تو گاتا نظر آتا ہے، ایک باعث فخر فضیلت،
اوراق بہار سے بالکل بے نیاز
بلبل کو اس کے سایہ دار جنگل میں رہنے دو
تیرا نصیب ایک شاندار روشنی کی خلوت ہے
جہاں سے تو دنیا پر ایک سیلاب نازل کرتا ہے
نغمے کا ایک زیادہ الوہی جبلت کے ساتھ
تو دانش مندوں کے زمرے میں ہے، جو اونچا اڑتے ہیں
مگر کبھی بھٹکتے نہیں
آسمان و آشیانہ کے مماثل نشانوں کے یکساں وفادار ہیں
شیلی کہتا ہے:
خوش آمدید، روح مسرور!
چڑیا تو تو کبھی نہ رہی
جو آسماں یا اس کے قریب سے
اپنا دل نکال کر رکھ دیتی ہے
فی البدیہہ فن کے کثیر نغمات میں
اونچی اور اونچی
تو زمینس ے اڑتی جاتی ہے
ایک ابر آتشیں کی طرح
نیلے سمندر میں تو اڑتی ہے
اور گاتی ہوئی برابر اونچی اڑتی جاتی ہے اور اونچی اڑتی ہوئی برابر گاتی ہے
سنہری بجلی میں
ڈوبے ہوئے آفتاب کی
جس کے اوپر بادل چمک رہے ہیں
تو تیرتی اور دوڑتی ہے
جسم سے بے قید ایک مسرت کی طرح جس کا سفر ابھی شروع ہوا ہے
ہلکی سی سرخی بھی
تیری پرواز کے دوران گھل جاتی ہے
ایک ستارہ آسمان کی طرح
دن کی پھیلی ہوئی روشنی میں
تو نظر نہیں آتی، پھر بھی میں تیری تیز آواز نشاط سنتا ہوں
تیر کی طرح تیز
اس دائرہ سیمیں میں
جس کا تیز جلتا ہوا چراغ دھیما ہو جاتا ہے
صاف و سفید سحر کے وقت
یہاں تک کہ ہم بمشکل دیکھ پاتے ہیں، ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ وہاں ہے
تمام زمین و آسماں
تیری آواز سے پر شور ہیں
جیسے، جب رات صاف ہوتی ہے
ایک اکیلے بادل سے
ماہتاب اپنی شعاعیں برساتا ہے اور آسمان جل تھل ہو جاتا ہے
تو کیا ہے ہم جانتے نہیں
کون سی چیز سب سے زیادہ تیرے مشابہ ہے
شبنم کے بادلوں سے نہیں برستے
دیکھنے میں ایسے چمکیلے قطرے
جیسے تیرے وجود سے ایک بارش نغمہ ہوتی ہے
ایک پوشیدہ شاعر کی طرح
فکر کی روشنی میں
اپنے آپ نغمہ خواں
یہاں تک کہ دنیا آمادہ ہو جاتی ہے
ان امیدوں اور اندیشوں کے ساتھ ہمدردی کے لیے جن کی طرف اس نے توجہ نہ دی تھی۔
ایک اعلیٰ خاندان دوشیزہ کی مانند
ایک محل کے مینار میں
تسکین دیتی ہوئی اپنی محبت بھری
روح کو ایک خفیہ ساعت میں
عشق کی طرح شیریں موسیقی سے جو اس کے کمرے سے باہر ابل رہی ہے
ایک نہری جگنو کی مانند
ایک وادی شبنم میں
بکھیرتی ہوئی نگاہوں سے دور
اپنے فضائی رنگ کو
پھولوں اور گھاس کے درمیان جو اسے نگاہوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں
ایک گلاب کے مانند پردہ نشیں
اپنی ہی سبز پتیوں کے درمیان
جن کے پھول گرم ہواؤں سے جھڑتے رہتے ہیں
یہاں تک کہ اس نکلتی ہوئی خوشبو
اپنی زبردست شیرینی سے ان گراں باز و چوروں کو مدہوش کر دیتی ہے
باران بہار کی صدا
چمکتی ہوئی گھاس پر
بارش کے جگائے ہوئے پھول
جو کچھ بھی کبھی تھا
پر سرور اور صاف اور تازہ، تیری موسیقی سب پر فائق ہے
ہمیں سکھا اے پری یا چڑیا
جو کچھ بھی تیرے شیریں خیالات ہیں
میں نے کبھی نہیں سنی
محبت یا مے کی تعریف
جس نے ایسی الوہی ولولوں کا سیلاب اپنی سانسوں سے بہایا ہو
حمد کا اجتماعی نغمہ
یا زمزمہ فتح مندی
تیرے گیت کے مقابلے میں سب کے سب ہوں گے
فقط ایک بے معنی شیخی
ایک ایسی شے جس میں ہم کوئی چھپا ہوا نقص محسوس کرتے ہیں
کون اشیا سرچشمے ہیں
تیرے سرود نشاط کے؟
کون سے میدان یا لہریں یا پہاڑ؟
آسمان یا زمین کے کون سے پیکر؟
تیری اپنی ہی جنس کا کون سا عشق؟ درد سے کیسی بے گانگی؟
تیری صاف و تیز مسرت میں
سستی نہیں ہو سکتی
ناراضگی کا سایہ
کبھی تیرے قریب نہ پھٹکا
تو محبت کرتی ہے مگر کبھی تو نے محبت کی غمگیں آسودگی کو نہ جانا
سوتے یا جاگتے
تو موت کے بارے میں بتا سکتی ہے
زیادہ سچی اور گہری باتیں
بہ نسبت ہم فانی انسانوں کے خواب کے
ورنہ تیرے نغمے اتنے براق چشمے میں کیسے بہتے؟
ہم آگے اور پیچھے دیکھتے ہیں
اور جو نہیں ہے اس کا غم کرتے ہیں
ہماری مخلص ترین ہنسی
کسی درد سے لبریز ہے
ہمارے شیریں نغمے وہ ہیں جو غمناک ترین خیال کا اظہار کرتے ہیں
تاہم اگر ہم تحقیر کرتے
نفرت اور غرور اور خوف کی
اگر ہم ایسی چیزیں بن کر پیدا ہوتے
جو ایک قطرہ آنسو نہیں بہاتیں
میں نہیں جانتا کہ کس طرح ہم کبھی تیرے نشاط کے قریب بھی پھٹکتے
بہتر نغموں سے۔۔۔۔ نوائے مسرت کے
بہتر تمام تر خزانوں سے
جو کتابوں میں پائے جاتے ہیں
تیرا سبز شاعر کے لیے ہوتا، اے زمین کو حقارت سے دیکھنے والی!
مجھے اس مسرت کا نصف ہی سکھا
جو تیرے دماغ میں محفوظ ہے
ایسی سرور آفریں دیوانگی
میرے ہونٹوں سے بہے گی
پوری دنیا تب اسی طرح ہمہ تن گوش ہو گی جس طرح ابھی میں گوش بر آواز ہوں۔
شیلی کی نظم شاعری اور فطرت نگاری کی حد تک بڑی خوبصورت اور دلکش ہے مگر جہاں تک موضوع کی فن کاری کا تعلق ہے، یہ ایک پریشاں خیالی ہے۔ اسکائی لارک کی تصویر کے ساتھ بے شمار دوسری تصویریں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں اور ارتقائے خیال نہ واضح ہے نہ مربوط۔ اس کے علاوہ اسکائی لارک کے حوالے سے اپنے عام رومانی احساسات و جذبات کے اظہار کے سوا شاعر کا کوئی بلند ترین فکری و فنی مقصد نہیں۔ لہٰذا یہ نظم صرف ایک دلدادہ فطرت، وارفتہ محبت اور آزردہ حیات نوجوان کے بے محابا ولولوں کا بے تحاشا اظہار ہے، ایک جذبہ بے اختیار شوق ہے جو سینہ نظم سے باہر نکلا پڑتا ہے۔ یقینا یہ نظم ہی کے ایک بیان کے مطابق ایک سرود آفریں دیوانگی ہے اور دوسرے بیان کے مطابق الوہی ولولوں کا سیلاب ہے۔ اس دیوانگی اور سیلاب سے ضرور لطف لیا جا سکتا ہے اور مسرت کا احساس بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس میں نہ تو فکر کی سنجیدگی ہے نہ فن کی پختگی۔ بلا شبہ یہ ایک اچھی شاعری ہے مگر بڑی شاعری نہیں اور معیار فن کے لحاظ سے دوسرے درجے کی چیز ہے۔ اس میں ایک نمایاں نقص حقیقت پسندی کی کمی کا بھی ہے، شاعر نے اسکائی لارک کو ایک سراسر آسمانی مخلوق بنا دیا ہے جو زمین کو حقارت سے دیکھنے والی ہے، اور یہ صحیح نہیں اسکائی لارک آسماں میں کتنی ہی پرواز کرے، اس کا آشیانہ زمین پر ہوتا ہے ایک فطرت نگار تخلیق میں امر واقعہ کو اس طرح نظر انداز کرنا کھلا ہوا عیب ہے۔
اس کے برخلاف ورڈس ورتھ کی نظم فطرت نگاری کا ایک اعلیٰ معیار اور بے خطا نمونہ پیش کرتی ہے۔ وہ بھی اسکائی لارک کو مغنی ہوا اور زائر آسمان کہتا ہے اور یہ سوال بھی پرندے سے کرتا ہے کیا تو زمین سے متنفر ہے؟ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ بتاتا ہے کہ عین اس وقت جب بازو محو پرواز ہیں دل و نگاہ دونوں شبنمی زمین پر ترے آشیانے سے لگے ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سکائی لارک کے متعلق ورڈس ورتھ کا مشاہدہ شیلی کے مشاہدے سے زیادہ سچا ہے۔ اس سلسلے میں ورڈس ورتھ کا مطالعہ بھی زیادہ گہرا ہے۔ شیلی نے صرف اسکائی لارک کے نغمہ آواز کو سنا ہے جب کہ ورڈس ورتھ آواز کے علاوہ اس پرندے کے نغمہ خاموش کی بھی ٹھیک ٹھیک صورت گری کرتا ہے:
اپنے کپکپاتے بازو سمیٹ کر
مختصر یہ کہ شیلی کی اسکائی لارک ہیولا ہے جسم سے بے قید ایک مسرت کا جبکہ ورڈس ورتھ کی اسکائی لارک دانشمندوں کے زمرے میں ہے جو اونچا اڑتے ہیں مگر کبھی بھٹکتے نہیں، اور آسمان و آشیانہ کے مماثل نشانوں کے یکساں وفادار ہیں۔
لیکن ورڈس ورتھ کی دانشمندی، شبنمی زمین سے آگے نہیں بڑھتی، حالانکہ شاندار روشنی کی خلوت، اور الوہی جبلت کا ذکر وہ کرتا ہے مگر اس خلوت و جبلت کا نتیجہ فقط ایک نغمہ محبت ہے جو سینہ میداں کے لیے کم سرور انگیز نہیں اس کے مقابلے میں اقبال کا شاہیں بیاباں کی خلوت میں ایک فطر راہبانہ کے ساتھ بسیرا کرتا ہے۔ کبھی بناتا نہیں آشیانہ اور اس کا نیلگوں آسمان بے کرانہ ہے اس نے خاکداں سے کنارا کر لیا ہے اور خیابانیوں کی دلبرانہ اداؤں سے یہاں تک پرہیز کرتا ہے کہ فطرت و انسانیت کے مظاہر حسن سے شاید تاثر کے باوجود ایک بلند تر مقصد کے لیے ان سب کو ترک کر دیتا ہے:
دباد بہاری، نہ گل چیں، نہ بلبل
نہ بیماری نغمہ عاشقانہ
کہہ سکتے ہیں کہ شاہین اور اسکائی لارک متضاد موضوعات کے مطالعات ہیں لیکن دو بنیادی اوصاف دونوں کے درمیان مشترک ہیں، دونوں پرندے ہیں اور دونوں آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرتے ہیں، بس نغمہ و آشیانہ کا فرق ہے، اسکائی لارک ان سے وابستہ ہے اور شاہیں اس سے بے نیاز چنانچہ جس طرح ورڈس ورتھ اور ایک حد تک شیلی نے اسکائی لارک کی کردار نگاری یا پیکر تراشی کی ہے اسی طرح اقبال نے شاہیں کی اس سلسلے میں کم و بیش فطرت نگاری تینوں شعرا کی تخلیقات میں ہے، لیکن تینوں کے انداز نظر میں اختلاف ہے۔ شیلی فطرت کا صرف رومانی پہلو لیتا ہے اور اس کو انسان کے رومانی پہلو سے ملا دیتا ہے۔ ورڈس ورتھ فطرت کی حقیقی تصویر کشی سے رومان کا لطف پیدا کرتا ہے اور اس کو انسانی حقیقت پسندی کے ساتھ ہم آمیز کر دیتا ہے، جبکہ اقبال فطرت، حقیقت اور انسانیت تینوں عناصر کو ایک محیط مطمح نظر کے تحت ترکیب دے کر ایک اعلیٰ معرفت و بصیرت کا پیام دیتے ہیں اور پرندے کو اپنے نظریہ حیات کی ایک علامت بنا دیتے ہیں۔ اقبال کی اس مرکب شاعری میں نغمہ مسرت اسی طرح ہے جس طرح شیلی اور ورڈس ورتھ کی رومانیت اور فطرت نگاری میں لیکن اس کے ساتھ اعلیٰ متانت و بصیرت ایک قدر زائد ہے۔ اقبال کی نظم میں جمالیات کے ہمراہ اخلاقیات بھی ہے جبکہ شیلی کو اخلاقیات سے مطلب نہیں ورڈس ورتھ صرف ایک اخلاقی سبق دانش مندی کے عنوان سے دیتا ہے جو اخلاقیات کے کسی مکمل نظریہ و نظام سے کمتر محض ایک رسمی و روایتی درس اخلاق ہے اور اقبال کی اخلاقیات رسم و روایت کی بجائے ان کے نظریہ کائنات اور نظام حیات کا عملی پہلو یا وسیلہ عمل ہیں۔
اس سلسلے میں فن کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ شیلی کے برخلاف ورڈس ورتھ اور اقبال دونوں اپنے اپنے پرندوں کا مرقع پورے فنی ارتکاؤ اور تنظیم ہیئت کے ساتھ مرتب کرتے ہیں۔ چند خیال آفریں پیکروں اور دلکش تصویروں کے ذریعے اپنے اپنے تخیل کی ترسیل کرتے ہیں اور ایک مکمل و موثر پارۂ فن تخلیق کرتے ہیں جس میں فطرت و حقیقت دونوں کا امتزاج ہے رومان کی چنگاری کے ساتھ ساتھ تجربے کی شبنم بھی ہے اس طرح نظم کی حد تک شاہیں اور To the sky lark دونوں تسلی بخش تخلیقات ہیں جبکہ To a sky lark صرف ایک جمال پرست شاعر کے شیریں جذبات کا حسین اظہار ہے جو موثر ہونے کے باوجود نامکمل غیر منظم اور غیر تسلی بخش ہے لیکن ایک اچھے فن سے آگے بڑھ کر جب ہم ایک بڑے فن کے نمونے کی تلاش کرتے ہیں اور اس کا سراغ ہیئت نظم سے باہر عکس فگن ہونے والے اشارات و اثرات میں لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو ورڈس ورتھ کی To the sky lark کی حدود معلوم ہو جاتی ہیں یہ بس ایک کامیاب موضوعاتی نظم ہے شاہیں کی طرح کسی بڑے تخیل کی علامت نہیں کسی تصور حیات کے کسی اہم جز کا پیکر نہیں لہٰذا لالہ صحرا کی طرح شاہیں کا امتیاز یہ ہے کہ وہ پورے فنی حسن اور شاعرانہ جمال کے ساتھ ساتھ ایک فکری نصب العین کی علامت اور ایک نظام فکر کا اشاریہ ہے، اور اس اعتبار سے ایک محیط و مربوط نظام فن کا جز ہے، ایک وسیع و منظم اخلاقی جمالیات کا حصہ ہے۔