چاندنی میں جاناں کی پلکوں پر اٹکے آنسو شفاف موتیوں کی مانند چمک رہے تھے ۔۔۔
اور زمان خان ان موتیوں کو چن لینا چاہتا تھا لیکن بے بسی سی بے بسی تھی ۔۔
کتنے ہی لمحے سرک گئے تھے ۔۔۔
نا زمان خان نے اس کے سر سے اپنا ہاتھ ہٹایا تھا ۔۔
نا جاناں نے اب ہاتھ ہٹانے کی کوئی کوشش کی تھی ۔۔۔!
وہ بس چپ چاپ نظریں جھکائے اپنا جواب سوچ رہی تھی ۔۔
بلکہ جواب تو شائد وہ ہمیشہ سے جانتی تھی ۔۔۔۔ اسے کہنے کی ہمت پیدا کر رہی تھی ۔۔۔
گہری سانس بھر کے اس نے نظریں اٹھائیں تو وہ اپنی آنکھوں پر ہی جمی زمان خان کی آنکھوں سے ٹکرا گئیں ۔۔
لیکن اس بار جاناں نے نظریں نہیں چرائی تھیں ۔۔۔
اور اس کا نظریں نہ چرانا زمان خان کو اندیشوں میں گھیر گیا تھا ۔۔۔۔
“نہیں !”
جاناں کے لبوں سے سرسراتی سی آواز نکلی تھی لیکن زمان خان کے لب مسکرا اٹھے تھے ۔۔
“میں نے کہا میری آنکھوں میں دیکھ کر یہ “نہیں” کہو !!!”
“نہیں ‘ نہیں ہوتا ہے!”
جاناں بگڑی تھی ۔۔
“کہنے کے انداز میں بڑا فرق ہوتا ہے”
زمان خان کا اطمینان بحال ہونے لگا تھا ۔۔
“آپ کا سر پھوڑ کر کہوں میں “نا” ؟”
“میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہو تم “نا” !!”
کچھ دیر تک جاناں دانت پیس کر اسے گھورتی رہی پھر پتھر مار سا “نہیں” کہ ہی ڈالا ۔۔۔
“آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈالیں تم نے !”
زمان خان شان بے نیازی سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
“ارے !! آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو ہے اس بار !”
“کب ڈالی تھیں ؟”
“ابھی جو ڈالی تھیں !”
“اتنی دوو۔۔۔۔۔۔ر تھیں تمہاری آنکھیں میری آنکھوں سے تو !”
“تو آپ کا کیا مطلب تھا ؟
میں سچ مچ اپنی آنکھیں آپ کی آنکھوں میں انڈیل دوں ۔۔؟”
“ہاں تو اور کیا مطلب تھا میرا ؟”
سکون سے کہتا زمان خان دروازے سے باہر نکلا ہی تھا جب جاناں نے جھٹکے سے اس کا بازو تھم کر اسے اپنی طرف گھمایا ۔۔
زمان خان بھی ڈھیلے ڈھالے انداز میں گھوم گیا ۔۔۔
“آپ چٹنگ کر رہے ہیں !”
“چٹنگ تم کر رہی ہو ۔۔۔
میرے الفاظ پہلے بھی یہی نہیں تھے ؟
آنکھوں میں آنکھیں ۔۔۔۔۔۔۔”
بات ادھوری چھوڑ کر بیساختہ ہنستے ہوئے زمان خان نے دروازہ اپنے منہ پر بند ہوتا دیکھا تھا ۔۔۔
“جاناں !!”
زمان خان کی پکار پر دروازے سے ہی کان لگائے کھڑی جاناں نے تلملا کر پوچھا تھا ۔۔
“کیا ہے ۔۔؟”
زمان خان نے بھی اپنا منہ دروازے کے قریب کر لیا ۔۔
“جاناں ؟؟؟”
“کیا ہے بھئی کیا ہے ؟”
جاناں کا بی پی ہائی ہو رہا تھا ۔۔۔۔
“جاناں چہ پاکے اوسے !!”
زمان خان کے ترنگ میں کہنے پر جاناں بھی اسی ترنگ میں بولی تھی ۔۔
“در فٹے منہ !!”
پلنگ پر جا کر گرتے ہوئے اس نے زمان خان کا قہقہ سنا تھا اور ہول گئی تھی ۔۔۔
“میرے ہاتھوں سے نہیں تو خرانٹ دادی کے ہاتھوں ضرور مرے گا ۔۔۔
اور مجھے بھی مروائے گا ۔۔۔
مگر اس “چا پاکہ اسے” کا مطلب کیا ہے ؟”
پشتو گانے کے یہ الفاظ اس کے سر پر سے گزر گئے تھے ۔۔۔۔
*****************************
واصفہ بیگم کی آصفہ کا نکاح تھا ۔۔
تیاریاں زوروں پر تھیں ۔۔۔
پہلی بار سیاہ گیٹ پورا کا پورا کھلا تھا کہ آنے جانے کا سلسلہ بغیر کسی دشواری کے چلتا رہے ۔۔۔۔
اس کے بعد نا جانے قدرت اسے موقح دیتی یا نہیں ۔۔۔۔
جاناں نے صبح سے پیٹ میں درد کا ایسا رولا ڈالا کہ سب کے ہاتھ پیر ہی پھلا دیئے ۔۔۔۔
یہ پیارے سے دل والے لوگ اسے ڈاکٹر کے پاس لیجانے کو تیار تھے لیکن وہ ظاہر ہے کہ نہیں جانا چاہتی تھی ۔۔
“نہ جی ۔۔ ہم غریبوں میں ایسے چونچلے نہیں ہوتے ۔۔
تھوڑا آرام کرونگی تو بھلی چنگی ہو جائوں گی ۔۔۔”
اور شام کو جب مہمانوں کی امد زور پکڑ چکی تھی ۔۔۔
تب واصفہ بیگم اور نازنین اس کے سونے کا اطمینان کرتی چلی گئیں ۔۔۔
ان کے جاتے کے ساتھ ہی جاناں اچھل کر پلنگ سے اتری تھی ۔۔۔
الماری سے اپنے ساتھ لایا ایک مردانہ لباس پہن کر وہ جواد کے روپ کو چادر میں چھپائے خدا خدا کرتی شاہ ولا سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی ۔۔۔
اس نے تو اپنی طرف سے تمام احتاط اپنائی تھی ۔۔
اب کامیابی یا ناکامی ۔۔۔
جو اللہ کو منظور ہو ۔۔۔۔
****************************
سنجیدہ نظروں سے وہ اس خستہ حال عمارت کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔
جہاں کے در و دیوار میں بھی شراب و سگرٹ کی رچی ہوئی تھی ۔۔۔۔
وہ اتنا تو جانتی تھی کہ یہی وہ جمیل کا آنا جانا رہتا تھا ۔۔۔۔
یہاں تک کہ اسی جگہ اسے قتل کر دیا گیا ۔۔۔۔
لیکن وہ قاتلوں کے صرف نام سے واقف تھی ۔۔۔
انہیں کبھی دیکھا نہیں تھا ۔۔۔۔۔
باہر چوکیداری پر معمور لحیم شحیم شخص کے قریب جا کر اپنی مردانہ آواز میں اس نے کہا تھا ۔۔۔
“سلام بھائی ! میں منصور صاحب سے ملنا چاہتا ہوں ۔۔ بڑا ضروری کام ہے ۔۔۔ ان کو بھیج دو ۔۔!!”
کیونکہ سیدھا منصور کا نام لیا تھا سو وہ ہٹا کٹا شخص مونچھوں کو تائو دیتا سر ہلا کر اندر چلا گیا ۔۔۔۔۔
کھڑے کھڑے بہت دیر گزر چکی تھی اور رات بھی گہری ہونے لگی تھی ۔۔
اب جاناں کا دل ڈرنے لگا تھا ۔۔۔
“کہیں انہیں بھنک تو نہیں پڑ گئی ۔۔۔”
دل میں سوچتی وہ واپس لوٹنے کا ارادہ کر ہی رہی تھی جب دروازہ کھلا تھا ۔۔۔
اس لحیم شحیم شخص کے پیچھے ہی بھاری جسامت اور قدرے صاف رنگت والا منصور جھومتا جھامتا نکلا تھا جبکہ اس کے پیچھے قدرے بہتر حالت میں چھریری جسامت والا سانولا سا فیروز بھی تھا ۔۔۔
کون فیروز تھا کون منصور ؟
یہ تو وہ نہیں جانتی تھی ۔۔۔
لیکن وہ دونوں وہی دونوں تھے !
اتنا اسے اندازہ ہو گیا تھا ۔۔۔
“کیا ہے بے لڑکے ؟
کون ہے تو اور ہم سے سے کیوں ملنا ہے ؟”
“اسلام علیکم صاحب ! مجھے زمان خان نے جمیل کی لڑکی ڈھونڈنے کا کام دیا تھا ۔۔۔”
بری طرح دھڑکتے دل کے ساتھ کہ کر اس نے ایک پیر پیچھے کھسکایا تھا ۔۔۔
اگر انہوں نے فوراً ہی اس کا جھوٹ پکڑ کر حملہ کر دیا تو وہ بھاگ لے گی ۔۔
زمان خان نے اُس روز ان سے آگے کیا بات کی تھی ۔۔۔ یہ تو وہ سن ہی نہیں پائی تھی ۔۔۔۔
“اوئے ہاں ۔۔۔۔ ہم تو امید ہی چھوڑ بیٹھے تھے ۔۔۔!!”
منصور خوشی سے چیخا تھا ۔۔
“خان نے وعدہ کیا تھا ! کیسے نہ نبھاتا ۔۔!!!”
فیروز نے منصور کی پشت ٹھونک کے کہا تھا ۔۔۔۔
نشے سے منصور کی حالت کچھ زیادہ ہی خراب ہو رہی تھی ۔۔
جبکہ فیروز کے ہوش کافی حد تک ٹھکانے پر تھے ۔۔۔
“پہلے مجھے اس ہوش مند شخص پر حملہ کرنا چاہیے ۔۔۔۔
دوسرا نشے میں زیادہ مزاحمت نہیں کر پائے گا ۔۔۔ بھاگ بھی نکلے گا تو زیادہ دور نہیں جا پائے گا ۔۔۔۔
تب تک میں اس کالے کو جہنم پہنچا دوں گی ۔۔۔”
جاناں کا دماغ تیزی سے آگے کا لائحہ عمل طے کر رہا تھا ۔۔
“کدھر ہے وہ پتہ چل گیا نہ ؟”
منصور کے پوچھنے پر وہ سوچوں سے باہر آئی تھی ۔۔۔
“ہاں صاحب ۔۔۔۔ پکڑ لیا ہے اسے میرے بندوں نے ۔۔ آپ آئو جی ۔۔ وہاں گاڑی میں ہے۔۔”
وہ ایک طرف کو چل پڑی ۔۔ جہاں قدرے ویرانی تھی ۔۔۔
یہاں ٹریفک کا آنا جانا تھا ۔۔۔۔
پھر اندر نا جانے ان کے اور کتنے ساتھی ہوں ۔۔
“ایک منٹ !”
فیروز کی آواز پر رکتے دل کے ساتھ اس نے قدم بھی روکے تھے ۔۔
کونسی گاڑی ؟
یہاں کیوں نہیں لاتے ؟”
“ابے یار یہ سوال بعد میں پوچھ لیں گے ۔۔۔ ”
زمین ہر اکڑوں بیٹھتا منصور بد مزاجی سے بولا ۔۔۔
اس سے چلنا دوبھر ہو رہا تھا ۔۔۔
“صاحب یہاں لوگ موجود ہیں ۔۔۔”
جاناں کو اپنی آواز کمزور پڑتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔۔
“سب اپنے ہی ہیں ۔۔۔ گاڑی یہاں لا !”
فیروز کا اعتماد اس کا اعتماد ڈانوا ڈول کر رہا تھا ۔۔
سر ہلا کر وہ خاموشی سے پلٹ گئی ۔۔۔
وہ کوئی پیشہ ور قاتل تو تھی نہیں ۔۔
خوف اندیشے پہلے ہی کم نہیں تھے ۔۔۔
اس پر فیروز کا سخت انداز ۔۔۔!
اور اسے صرف اپنی جان ہی نہیں اپنی عزت کی بھی حفاظت کرنی تھی ۔۔۔۔
پیر گھسیٹتے ہوئے اندھیر حصے کی طرف بڑھتی وہ پیچھے فیروز کی چبھتی نظریں اور دو قدموں کے فاصلے پر سرکتے اس کے قدم محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔
“ابھی میں بھاگ بھی جائوں !
کیا بعد میں کبھی قسمت مجھے بدلہ لینے کا ایسا موقح دے گی ؟
میں معاف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔۔۔۔
میرے دل کی آگ کیا ہمیشہ بھڑکتی رہے گی ؟”
مرے مرے قدموں سے آگے بڑھتی وہ یکدم رکی تھی ۔۔۔
بغیر دیکھے بھی وہ سمجھ گئی تھی کہ فیروز چوکننا ہوا تھا ۔۔۔۔
چادر ہٹا کر اس نے ایک جھٹکے سے مڑ کر ہاتھ میں پکڑا تیز دھار آلہ فیروز کے عین دل کے مقام پر اتارا تھا ۔۔۔
فیروز نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑا تھا لیکن لمحہ بھر کی دیر ہوگئی تھی اسے ۔۔۔۔
منصور ، وہ لحیم شحیم گارڈ اور بھی بہت سی آوازیں ایک ساتھ ابھری تھیں ۔۔
کسی کے قریب آنے سے پہلے ہی جنون میں مبتلا جاناں نے چیخ کر آلہ فیروز کے سینے سے نکال کر اپنی طرف بڑھتے منصور کے گلے میں گھونپا تھا ۔۔۔۔
پیچھے کتنے لوگ بھاگ رہے ہیں ۔۔۔
کیسی کیسی ہیبت ناک آوازیں ہیں۔ ۔۔۔
کیا کیا دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔۔۔
جاناں سب ان سنا کیئے صرف بھاگتی چلی جا رہی تھی ۔۔۔
بھاگتی جا رہی تھی ۔۔۔
اسے تو یہ بھی یقین نہیں تھا وہ دونوں مرے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔!
بس بھاگتی گئی ۔۔
بھاگتی گئی ۔۔
بھاگتی ہی گئی ۔۔
چھپتی چھپاتی پچھلی طرف سے وہ اپنے گھر پہنچ گئی ۔۔۔
اور وہاں جا کر گھپ اندھیرے کمرے میں بند ہو کر جو اس نے اپنی آہوں کا گلا گھونٹا تھا ۔۔۔۔!
کمرے میں اندھیرا اتنا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا ۔۔۔۔
صرف اس کی آہیں تھیں
سسکیاں تھیں ۔۔۔
جو اس اندھیرے کو اور ہیبت ناک بنا رہی تھیں ۔۔۔
روتے روتے ہی وہ نیم بیہوش سی ایک طرف کو گرنے لگی لیکن اس کے پاس بیہوش ہونے کا وقت بھی نہیں تھا ۔۔۔۔
ہمت کر کے اٹھنے کی کوشش میں وہ لڑکھڑا کر گر گئی تھی ۔۔۔
بھاری سانسوں کے ساتھ وہ ٹٹول ٹٹول کر واش روم تک پہنچی تھی ۔۔۔
اندر بالٹی بھر کر اس نے کپڑوں سمیت ہی خود پر پانی انڈیلنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔
اس پر خون کے بہت گہرے چھینٹے پڑے تھے ۔۔۔۔۔
اب آنکھیں اس اندھیرے سے مانوس ہو گئی تھیں ۔۔۔۔
سر پر ٹھنڈا پانی پڑنے سے حواس بھی کچھ بحال ہوئے تھے ۔۔۔۔
صحن میں کہیں نہ کہیں سے آتی روشنیاں گزارے کے لیئے کافی تھیں ۔۔
ماچس کی تیلیاں جلا جلا کر اس نے پیٹی سے اماں کا ایک بوسیدہ سا لباس نکالا تھا ۔۔۔۔
جسے پہن کر وہ ایک بار پھر سسک اٹھی تھی ۔۔
ایک اور چادر نکال کر اس نے باقی کپڑے ہٹا کر سب سے نیچے اپنے خون کے چھینٹوں والے بھیگے کپڑے رکھے تھے ۔۔۔
گھر کے پچھلی طرف سے نکلتے ہوئے اسے یقین تھا وہ کہیں نہ کہیں ہوش کھو کر گر جائے گی۔۔۔
اور وہ گری بھی ۔۔۔
لیکن شکر تھا کہ اپنے پلنگ پر ۔۔۔۔!!!
****************************
ہفتہ بھر بخار میں جلنے کے بعد وہ اپنے دل میں شاہ ولا میں بسنے والے اچھے دلوں کے پیارے سے لوگوں کے لیئے بے پناہ محبت اور عزت محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔
جنہوں نے اس کا یوں خیال رکھا تھا جیسے وہ کوئی ننھی بچی ہو ۔۔۔۔
اور اس طرح جاناں نے انصاف کے در بند ہونے پر خود ، خود کو انصاف دیا تھا ۔۔۔۔
وہ دونوں مر چکے تھے ۔۔ یہ خبر اسے ٹی وی سے ملی تھی ۔۔۔۔
جسے سن کر اس کے منہ سے بیساختہ نکلا تھا ۔۔
“خس کم جہاں پاک !”
*****************************
“جاناں !
جاناں اٹھو !!
کیا ہوا ہے ؟
بیہوش ہو گئی ہو کیا ؟”
نیند سے بوجھل آنکھیں کھول کر اس نے زمان خان کی طرف دیکھا تھا ۔۔۔
جو اس کی طرف کا دروازہ کھولے جھکا ہوا تشویش ناک نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
جس کا وجود گاڑی کا اے سی چلا ہونے کے باوجود بھی پسینے میں بھیگ رہا تھا ۔۔۔۔
اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اس نے دوپٹے سے اپنا پسینے سے چپچپاتا چہرہ صاف کیا تھا ۔۔۔
“کیا کوئی برا خواب دیکھ رہی تھیں ؟”
اس کے گاڑی سے باہر نکلنے پر زمان خان نے پوچھا تھا ۔۔۔
“نہیں ۔۔۔ بری حقیقت !”
جاناں کے جواب پر وہ اپنے ہونٹ سکیڑ کر رہ گیا ۔۔۔۔
“یہ آپ کا گھر ہے ؟”
“تو اور کہاں لاتا تمہیں ۔۔۔”
“میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں ۔۔”
“وہ جگہ خطرے سے خالی نہیں ۔۔!”
“آپ مجھے جیل کیوں نہیں بھیجتے ۔۔؟”
“تم میری دوست جو ہو ۔۔”
“میں آپ کی دوست نہیں ہوں ۔۔۔
آپ جیسوں کو دوست نہیں بناتی میں !!”
جاناں کے بگڑ کر کہنے پر زمان خان اس پر ایک ترچھی گھوری ڈال کے رہ گیا ۔۔۔
“آپ مجھے کب تک بچا لیں گی ؟”
زمان خان نے سیاہ آہنی گیٹ کھولا تو وہ پوچھ بیٹھی ۔۔۔
“اب تو ساری عمر بچانا پڑے گا ۔۔۔!
فرض بھی تو بن جائے گا ۔۔۔”
زمان خان کے مزے سے کہنے پر اس نے ناک کے پھنگ پھیلائے تھے ۔۔۔
“بڑے آپ فرض و سنت نبھانے والے ہیں ۔۔۔۔”
“ایک فرض و سنت ایسی بھی ہے ۔۔۔ جو گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی نبھانے کو بیقرار رہتا ہے ۔۔۔!!!”
پر اسرار سے لہجے میں کہ کر وہ جاناں کے جواب کا منتظر تھا ۔۔۔
لیکن جاناں کی طرف سے کوئی جواب نہ ملنے پر زمان خان نے سوالیا نظروں سے اسے گردن موڑ کر دیکھا تھا ۔۔۔
اور اسے لان کو منہ کھولے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا دیکھ کر مسکراہٹ دباتا پھر ناک کی سیدھ میں چلنے لگا تھا ۔۔۔۔
******************************
“السلام علیکم ۔۔۔ ”
“وعلیکم سلام !”
سلام کر کرا کے سونیا اور جاناں ایک دوسرے کو جائزہ لیتی نظروں سے گھورنے لگی تھیں ۔۔
جاناں سوچ رہی تھی ۔۔
” کتنی خوبصورت ہے زمان خان کی “بہن” !!
اگر میں امیر لڑکا ہوتی تو اسی سے شادی کر لیتی ۔۔۔”
جبکہ سونیا کی آنکھوں کی حیرت ہی ختم نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔
“یہ تھی جاناں ۔۔۔
زمان خان کی جاناں !”
اتنی معمولی ۔۔۔۔
ایک چیز بھی تو ایسی نہیں تھی جو زمان خان کے مقابلے کی ہوتی ۔۔۔”
سونیا حسد میں زمان خان کی اصلیت جان کر بھی بھول رہی تھی ۔۔
زمان خان بظاہر ہر لحاظ سے مکمل ۔۔۔
لیکن اس کا کردار !!!
“سونیا !!”
زمان خان کی پکار پر دونوں ہی اپنی سوچوں سے باہر آئی تھیں ۔۔
“ہاں ؟”
“تمہیں سب سمجھا دیا ہے میں نے !
اسے سنبھالنا تمہارا کام ہے ۔۔
میں ضروری کام سے جا رہا ہوں ۔۔۔۔
ساڑھے سات آٹھ تک آجائوں گا ۔۔
تب تک اپنا کام کر چکی ہوں تو بہتر ہوگا ۔۔۔۔!!!”
انداز وارننگ دینے والا تھا ۔۔۔
“میں جلد آجائوں گا ۔۔ ڈرنہ مت !”
نرمی سے جاناں سے کہتا زمان خان گاڑی کی چابی اٹھاتا جا چکا تھا ۔۔۔۔
اس کے لہجے کی تبدیلی اتنی اچانک اور شدید تھی کہ سونیا تو سونیا ۔۔۔ جاناں بھی محسوس کیئے بغیر نہیں رہ سکی تھی ۔۔۔
سونیا کی نظروں میں جانے کیا تھا کہ ایک بار پھر ٹھنڈے ٹھار لائونج میں بیٹھی جاناں کے پسینے چھوٹ گئے تھے ۔۔۔۔
“آپ کون ہیں ؟”
کچھ لمحوں تک لائونج میں خاموشی چھائی رہی ۔۔۔
پھر جاناں نے ہکلا کر پوچھا ۔۔۔
“نام نہیں سنا ؟”
سونیا کا لہجہ پتھر مار تھا ۔۔۔۔
“نہیں ۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔ م ۔۔۔ م۔۔ میرا مطلب ۔۔ نام تو پتہ ہے ۔۔۔
زمان خان کی بہن ہیں نہ آپ ؟”
جاناں کا اعتماد اس ظالم حسینہ کے سامنے ساتھ چھوڑ رہا تھا ۔۔۔۔
سونیا کے لبوں پر نافہم سی مسکراہٹ ابھری تھی ۔۔۔۔
“نہ ۔۔۔!! گیس کرو !”
“گیس ؟؟ کیا میرے پیٹ کی گڑگڑ اسے بھی سنائی دے رہی ہے ۔۔
نہیں !!! ایک پیاری سی لڑکی کے سامنے گیس !!!
ناہییں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!”
جاناں بی بی نے اس “گیس” کا اپنا ہی مطلب لیا اور پیٹ پکڑ کر دوہری ہونے لگی ۔۔۔۔۔
حیرت سے تڑھتی مڑتی جاناں کو دیکھتی سونیا نے کافی دیر بعد سمجھ کر بیزاری سے آنکھیں گھمائیں اور اسے واش روم کا راستہ دکھایا ۔۔۔
*****************************
“لڑکی ہے یا سو سال سے بھوکی ڈائن ۔۔۔”
جاناں کو ندیدوں کی طرح ایک کے اوپر ایک چیز کھاتا دیکھ کر سونیا نے سوچا تھا ۔۔
اپنی پلیٹ پرے کھسکا کر وہ کچھ دیر اسے گھورتی رہی ۔۔۔ پھر تپ کر بولی ۔۔
“کیا اچھا کھانا پہلی بار کھا رہی ہو ؟
یا آخری بار ۔۔۔!!”
آخر میں سونیا کا لہجہ کچھ عجیب سا ہوگیا تھا ۔۔۔
“آخری بار کھائیں میرے دشمن !
میں تو جب کھاتی ہوں ۔۔ ایسے ہی کھاتی ہوں ۔۔۔
ایسے ہی کھانا چاہیے ۔۔۔۔!!”
جاناں بھرے منہ کے ساتھ جواب دے کر پھر کھانے میں مگن ہو گئی ۔۔۔
لیکن کچھ دیر بعد اسے سونیا کی نظروں کی چبھن کچھ زیادہ ہی محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔!
“آپ کو میں بری لگ رہی ہ۔۔۔ ؟”
“بہت !!”
جاناں نے سوال پورا بھی نہیں پوچھا کہ سونیا کی طرف سے جواب دے دیا گیا ۔۔
خفت زدہ سی جاناں سر ہلا کے رہ گئی ۔۔۔۔
“تم نے پوچھا تھا میں زمان خان کی کون ہوں ؟”
زمان خان کی طرف سے کی گئی تمام تنبیہ بھول کر سونیا جاناں سے بری طرح جلن محسوس کرتی پوچھ بیٹھی ۔۔۔۔
جاناں نے بغور اسے دیکھا پھر اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔
“میں اس کا کھلونا ہوں ۔۔۔۔
جس سے وہ جب تک دل چاہتا ہے کھیلتا ہے اور پھر جی بھر جانے کے بعد اسے پھینک دیتا ہے ۔۔۔۔!”
پندہ منٹ !
پندرہ منٹ لگے تھے جاناں کو اس پہیلی سے جواب کو بوجھنے میں ۔۔۔
اور سمجھ جانے کے بعد جاناں کی نظریں ہی نہیں اٹھ پائیں پھر سونیا کی طرف ۔۔۔
وہ سونیا کی طرف دیکھنے سے مکمل گریز کر رہی تھی جب سونیا خود ہی اٹھ کر اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
جاناں کے حلق میں نوالہ پھنسنے لگا ۔۔۔
سونیا نے پانی کا گلاس اٹھا کے دیا ۔۔۔۔
غٹ غٹ پانی چڑھاتے ہوئے جاناں نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
جو کہ رہی تھی ۔۔
“جانتی ہو ۔۔۔ اس سے بڑا رشوت خور شائد ہی کوئی ہو ۔۔۔
اس بات کا تو خیر تمہیں پتہ ہوگا ۔۔۔
پولیس والوں نے تو رشوت خوری فرض سمجھ لی ہے ۔۔۔
بلکہ آج کل کون ہے جو رشوت نہیں لیتا ۔۔۔
اگر کوئی نہیں لیتا تو لوگ خود ہی اسے دے دیتے ہیں ۔۔۔
خیر !
اسمگلرز کا بھی اچھا ساتھی ہے ۔۔۔
اور آتو اور ! وہ قاتل بھی ہے ۔۔۔!”
سونیا نے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا تھا وہ جاناں کو سب سے ہلکی لگی تھی اب !!!
زمان خان قاتل تھا تو وہ بھی قاتلہ تھی !!
“اچھا !!!”
سب جاننے کے بعد جاناں کے منہ سے نکلنے والا “اچھا” سونیا کے چودہ طبق روشن کر گیا ۔۔۔۔۔
“کیا اچھا ؟ ایک قاتل سے شادی کیسے کر سکتی ہو تم ؟
غریب ہو ۔۔۔ مگر عزت دار تو ہو نہ ؟
غریبوں کو تو سب سے بڑھ کر اپنی عزت کی فکر ہوتی ہے ۔۔۔۔
پھر اتنے گندے انسان سے شادی کیسے کر سکتی ہو تم ؟
کیا پیسوں کی ہوس ہے تمہیں ؟”
سونیا پھٹ پڑی تھی ۔۔۔
ناجانے کیا کیا کہے جا رہی تھی جبکہ لفظ “شادی” پر جاناں ساکت رہ گئی تھی ۔۔۔۔
کان کے آس پاس دھماکے ہو رہے تھے ۔۔۔۔
“زمان خان سے شادی!!!
وہ مجھ سے شادی کر رہا ہے !”
“جاناں !!!”
سونیا نے اس کا بازو پکڑ کر جھنجوڑ ڈالا تھا ۔۔۔۔
“بتائو ! کیا واقعی ایسے شخص سے شادی کرو گی تم ؟”
“زمان خان سچ مچ مجھ سے شادی کر رہا ہے ؟”
جاناں کے جواباً الٹا پوچھنے پر سونیا چپ رہ گئی تھی ۔۔۔۔
جبکہ جاناں کچھ دیر بعد پھر بولی تھی ۔۔۔
“اگر وہ واقعی مجھ سے شادی کر رہا ہے تو !
ہاں میں بھی یہ شادی کروں گی !
میں کروں گی !!!”
*****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...