زمان شاہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا اپنی شیروانی کے بٹن بند کر رہا تھا آج اس کا نکاح تھا حلیمہ شاہ کے ساتھ وہ حلیمہ شاہ سے نکاح کرنا چاہتا تھا اس لیے نہیں کہ اسے حلیمہ سے کوئی خاص محبت تھی یا وہ اسے پسند تھی وہ تو یہ سب بس شاہ فیملی سے بدلہ لینے کیلیے کرنا چاہتا تھا
تبھی زمان شاہ کے والد اسد صاحب کمرے میں داخل ہوئے تھے
اور زمان کے پیچھے آ کر کھڑے ہوئے تھے ان کا عکس بھی ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں ابھرا تھا اور زمان نے ان کے عکس کو دیکھ کر ایک کمینی مسکراہٹ اچھالی تھی
اور جواباً انہوں نے بھی ایسی ہی مسکراہٹ اچھالی تھی
بڑے خوش ہو آج ۔۔۔۔۔کہیں شادی کے بعد ارادہ بدلنے کا تو پروگرام نہیں ۔۔۔۔انہوں نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر کہا تھا
زمان بٹن بند کر کے پیچھے کی طرف مڑا تھا اور ان کی آنکھوں میں دیکھا تھا اس کی آنکھوں میں اس وقت صرف حسد، بدلہ اور نفرت کے جذبات ہلکورے لے رہے تھے
بے فکر رہیں آپ کا بیٹا ہوں جو ایک بار سوچ لیتا ہوں کر کے رہتا ہوں اب یہی دیکھ لیں آپ کی ساس صاحبہ کیا کبھی مجھ سے اپنی پوتی کی شادی کرانے پر اتنی جلدی راضی ہوتیں وہ تو میرا کمال ہے کہ میں نے ان کو منا لیا ۔۔۔۔زمان شاہ کمنگی سے بولا تھا
ہاں یہ تو ہے۔۔۔۔۔۔
زمان کی والدہ فوزیہ بیگم جو کہ زمان کو دیکھنے آئی تھیں کہ وہ تیار بھہ ہوا ہے یا نہیں ان کے قدم زمان شاہ کی بات پر دروازے پر ہی رکے تھے
جی ڈیڈ اب تو وقت آیا ہے ان سے بدلا لینے کا ساری عمر آپ ان لوگوں کی فیکٹری میں صرف سیکرٹری کی جاب کرتے رہے ہیں ان لوگوں کو اتنا احساس نہ ہوا کہ آپ ان کے گھر کے اکلوتے داماد ہیں آخر میری ماں کا حصہ بھی تو ہء اس جائیداد میں۔۔۔۔۔ اب بس ان کی الٹی گنتی گننے کے دن آگئے ہیں ڈیڈ اب ان کی ساری جائیداد ہمارے قبضے میں ہو گی اور وہ ہمارے غلام بن کر رہیں گے پل پل تڑپاؤں گا ان کی بیٹی کو اور جب وہ بیٹی کے خاطر ساری جائیداد میرے نام کر دیں گے تو ان کی بیٹی کو طلاق دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس پر دھبہ لگا دوں گا اور ان کے ہونہار سپوت کو تو پہلے ہی ان سے الگ کر چکا ہوں اور اب تو وہ ان سے اس قدر بدظن ہوگیا ہو گا کہ کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے گا ۔۔۔۔۔زمان نے حقارت سے سارا پلین اپنے باپ کے گوش گزار کیا تھا
شاباش میرے شیر شاباش ۔۔۔اسد نے اس کے کندھے تھپک کر کہا تھا جس پر دونوں کمنگی سے بھرپور قہقہہ لگا کر ہنس پڑے تھے
اور فوزیہ شاہ یہ سب باتیں سن کر صدمے سے ساکت رہ گئی تھیں
فوزیہ جانتی تھی کہ اسد کی نظر شروع سے ہی ان کے بھائیوں کے کاروبار پر تھیں جو ان کے بھائیوں نے اپنی سخت محنت سے بنائے تھے پر اسد شاہ اس میں اپنا حصہ سمجھتے تھے اسد شاہ کو سیکرٹری کی جاب بھی انہی کے بھائیوں نے دی تھی حالانکہ و ہ اس پوسٹ کے بھی قابل نہ تھے یہ صرف فوزیہ جانتی تھی اور کام کے دوران وہ اکثر گھپلا کر جاتے تھے اسد کا رویہ فوزیہ کے ساتھ شروع سے ہی ٹھیک نہ تھا وہ ایسے مرد تھے جن کی رات کوٹھوں پر گزرتی تھی فوزیہ خاموشی سے یہ سب برداشت کرتیں کیونکہ وہ اپنا گھر بچانا چاہتی تھیں
جب زمان نے زین کے جانے کے بعد حلیمہ سے شادی کی خواہش کی تو وہ خوش ہو گئی تھیں کہ ان کی بضتیجی ان کی بہو بنے گی پر وہ یہ بھول گئی تھیں کہ زمان اپنے باپ کا ہی بیٹا ہے اور اس وقت انہیں اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا
اسد زمان کو جلدی تیار ہونے کا کہتے طاہر کی طرف بڑھے تھے فوزیہ شاہ اپنا سرد وجود لیے وہاں سے جلدی سے ہٹی تھیں
________________________________________
اسد صاحب کے کمرے سے نکلتے ہی زمان کا فون بجا تھا زمان نے فون اٹھایا تو اس پر دلاور کالنگ جگمگا رہا تھا زمان نے فون اٹھایا تھا
ہیلو کیسا ہے یار آ رہا ہے نہ تو آج ۔۔۔زمان نے فون اٹھاتے ہی خیریت دریافت کہ تھیی
ابے کیسے ٹھیک ہوسکتا ہوں تیرے اس کزن کے زندہ ہوتے ہوئے ٹی وی چلا کر دیکھ وہ تیرا کمینا کزن پھر آگیا ہے اس لڑ کی کو لے کر آج اسے مارنے کا سارا انتظام کر لیا تھا کہ جب نکلے گا گھر سے چینل جانے کے لیے تو اڑا دیں گے راستے میں پر کمینا آج راستہ بدل کر چکما دے کر نکل گیا
زمان کا دلاور سیٹھ کی بات پر رنگ اڑا تھا اقر اس نے جلدی سے ٹی وی چلا کر نیوز چینل لگایا تھا پروگرام ابھی شروع ہوا تھا زین سکرین پر پورے اعتماد کے ساتھ بیٹھا تھا آج اس کے چہرے پر بڑی پراسرار مسکراہٹ تھی
السلام عليكم ناظرین میں ہوں آپ کا ہوسٹ زین شاہ اور اس وقت آپ
دیکھ رہے ہیں پروگرام سچ کی کھوج اور اس وقت ہمارے ساتھ موجود ہیں ایسے ماں باپ جن کی بیٹی کو دو درندوں نے اپنا نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد اسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا وہ لڑکی جس کی ایک ہفتے بعد شادی تھی اس کی دنیا اجڑ گئی اس کے سسرال والوں نے یہ کہہ کر رشتے سے انکار کر دیا کہ ایسے کیسے کوئی کر سکتا ہے اس لڑکی کی اپنی مرضی ہو گی ہمیں تمہاری آوارہ بیٹی سے شادی ہی نہیں کرنی ۔۔۔۔۔
اس سب میں اس معصوم اور مظلوم لڑکی کا قصور کیا ہے اور جب انصاف مانگنے کیلیے اس لڑکی کے والد نے تھانے میں رپورٹ درج کرانا چاہی تو پولیس والوں نے ان کو دھکے دے کر نکال دیا صرف اس لیے کہ وہ ایم این اے کا بیٹا ہے سر آپ بتانا چاہیں گے پولیس والوں کا رویہ کیسا تھا جب آپ تھانے گئے تو انہوں نے آپ کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا زین نے اب اپنا رخ سمرین کے والد کی طرف کیا تھا
مین وہاں اپنی بیٹی کے مجرموں کے غلاف ایف آئی آر کروانے گیا تھا پر جب انہیں پتہ چلا کے میں دلاور سیٹھ کے خلاف رپورٹ کروانا چاہتا ہوں تو انہوں نے رپورٹ لکھنے سے منع کر دیا اور ساتھ مجھے بھی وارن کیا کے دوبارہ دلاور سیٹھ کے بارے میں کوئی بات نہ کروں ورنہ انجام اچھا نہ ہو گا جب میں نے انہیں رپورٹ لکھنے پر زور دیا تو مجھے دھکے مار کر نکال دیا گیا ۔۔۔۔بات کے اختتام پر ان کی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے زین شاہ ضبط کرتا آنکھیں میچ گیا تھا
اب اس کا رخ سمرین کی طرف ہوا تھا آپ کچھ کہنا چاہیں گی سمرین اس بارے میں ۔۔۔۔
جی میں آج یہاں موجود ہوں اس لیے کے مجھے اور مجھ جیسے ہزاروں لڑکیوں کو جو دلاور سیٹھ اور زمان شاہ جیسے درندوں کا شکار ہو جاتی ہیں ان کو انصاف دلوا سکوں یہ درندے تو معصوم بچیوں کو بھی نہیں چھوڑتے جن کی آنکھوں میں ہزاروں خواب سجے ہوتے ہیں ان لوگوں کی وجہ سے وہ خواب مٹ جاتے ہیں اور ان لڑکیوں کے نصیب میں صرف رہ جاتی ہے رسوائی دھتکار
کیا آپ میں سے کوئی بھی اپنی بہن یا بیٹی کو میری جگہ تصور بھی کرنا چاہے گا نہیں نہ تو پھر ہمارا سوچیں کہ ہمارے اور ہمارے گھر والوں پر کیا بیتتی ہے
میں صرف انصاف چاہتی ہوں ان درندوں کو سرعام پھانسی دی جانی چاہئے ان کو زندہ درگور کر دینا چاہیے ۔۔۔۔سمرین کی آواز شدت ضبط سے کانپنے لگی تھی اس کی آنکھوں سے موتی کی لڑیاں ٹوٹ کر گرنے لگی تھیںزین پھر بولنا شروع ہوا تھا
کیا یہی ہے ہمارے معاشرے کا انصاف کیا یہی ہے ہماری پولیس کی کارکردگی کیا ساری عمر مائیں بہنیں بیٹیاں اس معاشرے میں غیر محفوظ رہیں گی کیا ہماری ان بہنوں کو کبھی انصاف نہیں ملے گا
زین اس وقت اپنا پروگرام پورے اعتماد کے ساتھ کر رہا تھا اس کیلیے تو وہ اپنے سارے رشتوں سے ناطوں سے اتنی دور ہوا تھا
اور اس کی ہر بات کے ساتھ ساتھ زمان شاہ کے چہرے کی رنگت اڑتی جا رہی تھی
اسے موت کی دستک کہیں قریب سے آتی ہوئی سنائی دی تھی
________________________________________________________
حلیمہ پارلر سے تیار ہو کے آچکی تھی آئمہ اسے کمرے میں بٹھا کر جا چکی تھی اس کی آنکھوں میں انتہا کا سرد پن تھا وہ ماعوف ہوتے ذہن کے ساتھ بیڈ سے اٹھ کر ڈریسنگ کے سامنے آئی تھی اور نظر اٹھا کر سامنے شیشے میں نظر آتے اپنے عکس کی طرف دیکھا تھا اپنا سجا سنورا روپ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے اس نے ہمیشیہ اپنے آپ کو اس روپ میں صرف زین کے لیے دیکھا تھا پر اب وہ اس کے ساتھ کی نہیں صرف اس کی زندگی کے لیے دعا گو تھی کل رات زمان شاہ کی بات سے وہ بے حد پریشان تھی اسے زین کی زندگی سے زیادہ تو کچھ عزیز نہیں رتھا کمرے کے دروازے پر کھٹکا ہوا تھا اس نے جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کی تھیں
________________________________________________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...