(Last Updated On: )
“سنئیے سید صاحب ! سامان باندھ لیں ،لگتا ہے بیٹی کے ساتھ نئے سفر پر جانا ہی پڑے گا” امی بابا سے بات کر رہی تھیں بالکل اس وقت جب وہ نیند کے ہاتھوں آدھے سلائے جا چکے تھے
“بہکی بہکی باتیں کرنا تم نیند میں بھی سیکھ گئیں؟ سو جاو شریک حیات۔۔۔۔اٹھ کر قصے مکمل کرتے ہیں “
امی کی بات سن کر باباجانی نیند میں بڑبڑانے لگے
“شوق سے سویئں بس دعا کیجئے گا کہ آنکھ کھلنے پر کہیں بستر کی جگہ زمین پر نہ پڑے ہوں، چونکہ شوق سفر بڑی شدت کے ساتھ ابھرتا ہوا نظر آرہا ہے”
امی نے انہیں خبردار کیا اور کروٹ لے کر سو گیئں
فجر کے وقت آنکھ کھلی تو مریم کے کمرے میں جھانکنا اپنا فرض جانا
جلتی بتی دیکھ کر کہنے لگیں
“اب تو بل بھی زیادہ آیا کرے گا،کوئی اندھیروں سے شائد خائف ہے”
نماز ادا کی اور اسکو اسکے حال پر ہی چھوڑ کر بابا جانی کیلئے ناشتہ تیار کرنے لگ گیں
ناشتہ میز پر لگا کر پھر سونے کیلئے لیٹ گیئں
“نیند کا دامن اب چھوڑ دیجئے۔
آج طبیعت ناساز ہے۔۔۔۔۔ناشتہ بنا کر میز پر رکھ آئی ہوں، اٹھ کر کھا لیں اور دفتر بھی چلے جایئں “
“اور ہاں ! آج مریم کو میز پر ناشتے کیلئے نہ بلایئے گا، اسے کمرے سے ہی لگ کر رہنے دیں”
بابا کو جگایا اور ساری کہانی سنا کر خود لیٹ گیئں
لیکن آخر سونا تھا ہی کسے؟ انھیں تو بس فکر سپوت کھائے جا رہی تھی
********* “””””””” ******* “””” *******
دو دن گزرے دعاوں کے قدموں میں اور پھر ایک دن فون کی گھنٹی بج اٹھی
فون تو اسکے ہاتھ میں ہی تھا فوراً کال اٹینڈ کی
“السلام علیکم۔۔۔کیسے ہو خضر؟”
اس نے مرجھائی آواز میں جوش پیدا کرتے ہوئے کہا
“وعلیکم السلام ! میں ٹھیک ہوں ، تم کیسی ہو؟”
خضر نے بھاری آواز مگر ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا
رو رو کر سونے والے بھلا کیسے ہو سکتے ہیں؟
مریم نے جواب دیا
“رونے کا سبب اگر بچھڑ جانا ہے تو آگے نہ کہنا کچھ”
خضر نے کہا
“مجھے اب گمان ہوتا ہے تم بشر ہی ہو۔۔۔۔۔مینے کہیں پڑھا تھا بشر اہلِ وفا نہیں ہوتے”
مریم نے شکوے سے بھرپور جواب دیا
“تو پھر پہلے یہ جانچ لو کہ تم بھی بشر ہی ہو یا کہیں سایہ جن تو نہیں؟”
خضر نے یوں جواب دیا گویا وہ مسکرا رھا ہو
“مجھ کو صورت کو دور رکھ کر سمجھتے ہو تمھارا ہنسنا مجھے دکھ نہ سکے گا؟”
مریم کا لہجہ مسلسل شکوہ ظاہر کر رہا تھا
“میرے ہنسنے پر نظر نہ لگاو جانِ وفا۔۔۔بڑی مدتوں بعد ملتی ہے ایسی ہنسی
میرے جانے پر تم یہ سمجھو گی”
خضر نے پھر جانے کی بات کی۔۔۔۔۔۔۔بس پھر کیا تھا؟بس اب تو آنسو کے ساتھ آواز بھی سنائی دے رہی تھی
وہ کہتے ہیں نا ! “تڑپنے پہ میرے نہ پھر تم ہنسو گے۔۔۔۔۔کبھی دل کسی سے لگا کر تو دیکھو”۔۔۔
خضر کو کہنے کیلئے فلحال یہی جملے بہترین تھے
“اچھا اچھا۔۔۔۔رونا تو بند کرو
مردوں کی کمزوری ہے عورتوں کا یہ رونا،اور میں کمزور مردوں میں سے نہی لہذا تمھارے رونے کا اثر مجھ پر کچھ ہوگا نہیں
اور بہتر یہی رہے گا کہ خود کو ہلکان نہ کرو۔۔۔اور خوشی خوشی مجھے رخصت کر دو۔۔۔۔۔۔۔ کہ راجہ بیٹا راج کرے”
خضر یہی تھا بس۔۔۔۔۔۔مشکل سے مشکل وقت میں بھی ساکن، اٹل ایک دم پہاڑ جیسا۔۔۔۔اسے جانے کا دکھ تو تھا مگر اظہار کرنا تو اسنے کبھی سیکھا ہی نہ تھا
اگلے تین روز بعد نکاح تھا اور ان تین روز قبل جو واقعہ رونما ہونے جا رھا تھا وہ نجانے کیا نیا گل کھلانے والا تھا
“بات سنو خضر۔۔۔؟
مت جاو تمہیں واسطہ ہے میرے اللہ جی کا”
وہ روتی رہی اور کسی غریب کی طرح جھولی پھیلائے اس سے اسکا ٹھہر جانا بھیک میں مانگتی رہی
“رک جانا تو ممکن نہی۔۔۔۔تمھارے پاس آنے کا جو مقصد تھا وہ بہت پہلے ہی پورا ہو چکا۔۔
زندگی کے جو راستے صحیح نہ تھے انکی اطلاع دینے ہی تو آیا تھا بس
اب جب پہچان گئی کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے تو جی لو اب اپنی زندگی۔۔۔۔جانے والوں کو روکنے سے نقصان اپنا ہی ہوتا ہے”
اسنے جاتے جاتے پھر اسے نصیحت کی تو بھڑک اٹھی
میں نہی جانتی کچھ۔۔۔مجھے یہی راستہ چاہیئے بس ،جس میں میرے ہمقدم بھی تم ہو اور میرے ہمسفر بھی تم رہو
“اف میرے خدایا ! نیکی کر اور دریا میں ڈال دینے والی بات ہو گئی یہ تو
چلو تمھارے لیئے ایک پیشکش ہے ،وفا سے دامن لبریز ہے نا؟۔۔۔۔تو جاو
آج کے بعد مجھے ڈھونڈ لاو۔۔۔سامنے لے آؤ میرا وجود
میں اسی لمحے سے تمہارا، صرف تمہارا۔۔۔! وعدہ رہا، میں آس پاس ہی کہیں رہوں گا
ہمت عورتاں تے مدد خدا”
“اللہ حفظ مریم پھر ملیں گے”
یہ کہ کر فون رکھ دیا، مریم کو کچھ کہنے پوچھنے کا موقع ہی نہ دیا
وی زارو وقطار پوری گفتگو کے درمیان بس روتی ہی رہی تھی
اگلے ہی لمحے اسے ایک پیغام موصول ہوا
“سنو ! میری آواز تو پہچانتی ہو نا؟”
“تم بھیڑ میں بھی پکارو گے تو مریم پہچان لے گی”
اس نے روتے ہوئے میسج ٹائپ کیا
“مبارک ہو پھر ،اگر نصیب میں ملنا ہوا تو میری آواز ہی تمہیں پہچاننے میں کام آئے گی،
پر میری مانو تو محبت پر پردہ ڈال کر نکاح کے پردے میں بیٹھ جانا۔۔۔میں دعا کروں گا تم ہمیشہ خوش رہو
سننا چاہتی تھی نہ محبت ہے یا نہیں ؟میں کہ تو نہ پایا مگر لکھ رہا ہوں ۔۔۔
ہاں محبت ہے، ابتدا سے تھی ،انتہا تک ہے
مریم مگر آسمان والے کے فیصلے اتر آیئں تو زمین والوں کے ہاتھ ساکن ہو جاتے ہیں”
یکےبعد دوسرا پیغام موصول ہوا، جس میں کچھ یوں لکھا تھا
“اور ہاں مجھے دیکھنے کی حسرت تھی نا؟ میں جاتے جاتے تمہیں اپنا آ پ دکھا جاتا۔۔۔۔۔پر مجھے ڈر تھا کہیں میرے جانے کے بعد تم مجھے بھول نہ پائی تو خوش نہی رہ سکو گی
میں پہلے آیا بھی تمھاری خوشی کیلئے تھا اور اب جا بھی تمھاری خوشی کیلئے رہا ہوں
صورتیں دیکھ لینے سے یادیں پختہ ہوجاتی ہیں،پس ایک آخری گزارش ہے میری تم سے ،تمہیں تمھاری محبت کی قسم ! میں تمہیں جس اندھیرے سے نکال کر لایا ہوں وہاں واپس مت جانا۔۔۔۔۔
خوش رہنا کہ کوئی تمھاری ہنسی سے محبت کرتا ہے اور۔۔۔۔۔مجھت کبھی یاد مت کرنا”
“تمھارے گرد دائرہ ہے میری دعاوں کا
تم میرے انتخاب کی مقدس لکیر ہو۔۔۔
اب اجازت دو، خدا حافظ”
خضر نے الودائی الفاظ میسج کے ذریعے مریم تک پہنچائے جو کہ ابھی تک اس غم سے بےحال تھی کہ خضر اب کبھی نہیں لوٹے گا
یہ سب پڑھ کر امید کی کرن جاگی اور ایک بار پھر اسے فون ملایا کہ شائد ایک بار پھر اسکی دل لبھانے والی جاندار آواز سن سکے
فون ملایا تو ایک دفعہ پھر اس لڑکی نے بولنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ہائے وہ لڑکی۔۔۔۔بہت ظالم لمحوں کی سدا دیتی تھی
شام سے جس گفتگو کا آغاز ہوا تھا اسے ختم ہوتے نو بج چکے تھے
۔۔۔۔بابا جانی گھر آئے تو مریم کا ذکر کیا
اب امی نے مریم کے کمرے کا رُخ کیا
یہی شائد اسکی خوشقسمتی تھی کہ وہ جلد پہنچ گئیں۔۔۔۔۔۔اسے بےسدھ بستر پر پڑا پایا تو دل ہاتھوں میں لے لیا،بابا اور بھائی کے ساتھ اسے اسپتال لے گیئں
****** “”””””””** ****** “”””””” *****
“کیا ماجرہ ہوا ڈاکٹر؟ وہ ٹھیک ہی تو تھی بالکل۔۔۔۔اب کیا خبر ہے؟”
امی نے دل مضبوط کرتے ہوئے پوچھا ،بابا تو سائڈ پر ہلکان ہوئے بیٹھے تھے
“آپکی بیٹی کا ذہن کسی بات پر شدید غمزدہ ہے یا پھر شائد کسی دباو کا شکار ہے
ویسے تو خطرے کی کوئی بات نہی، لیکن اگر اچانک ہو جائے تع کچھ کہ نہیں سکتے
بس اتنی ہی احتیاط کریں کہ اس پر طاری بوجھ کا اگر علم ہے تو اسے آزاد کر دیں”
ڈاکٹر صاحب اپنا فرض پورا کرتے ہوئے چلے گئے،
اب امی کی باری تھی کہ فیصلہ کس حق میں دیتیں ؟۔۔۔۔ایک طرف بیٹی تھی تو دوسری طرف دنیا۔۔
کچھ سوچ کر بابا کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں
“دیکھئے سید صاحب میں نہ کہتی تھی سفر کی تیاری کر لیں ، بیٹی کے ساتھ شائد ہمیں بھی سفر پر جانا پڑ جائے
لیں ہم بھی گئے بیٹی کے ساتھ”
بکھرے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے پھر کہا
“عادل کو بلانا اب ضروری ہے۔۔۔۔اسے فون کر دیں ،کہیں رشتے اب خطرے میں پڑ چکے ہیں ۔۔۔۔۔اگر ہمت ہے تو آکر بچالے”