“جلدی کریں ہاسپٹل جانا ہے۔۔۔ احسن کا فون آیا تھا۔”
ثریا چادر اوڑھتی ہوئی بولی۔
“بتایا نہیں احسن نے کون ہے ہاسپٹل میں؟”
وہ منہ پر پانی کے چھینٹے مارتے ہوۓ بولے۔
“آپ کو بتایا تو تھا فون پر۔۔۔ وائز ہے ہاسپٹل میں اب خدا جانے کس وجہ سے ہے۔”
وہ متفکر سی بولی۔
“اچھا اچھا۔۔۔ چلو پھر دیر نہیں ہونی چائیے۔”
وہ تولیے سے چہرہ خشک کرتی ہوۓ بولے۔
ثریا ان کے عقب میں چلتی سُرعت سے باہر نکل آئی۔
جنید صاحب گھر کو تالا لگانے لگے۔
وہ ہاسپٹل کی حدود میں داخل ہوتے دائیں بائیں دیکھنے لگے۔
“ریسپشن سے پوچھ لیں۔”
ثریا اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
وہ لڑکی سے بات کرتے اثبات میں سر ہلانے لگے۔
“آؤ۔۔۔ ”
وہ اشارہ کرتے ہوۓ چلنے لگے۔
“کیا ہوا وائز کو؟”
وہ رضی حیات کے پاس آتے ہوۓ بولے۔
“ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔۔۔ ”
ان کی مدھم سی آواز گونجی۔
“اب کیسی طبیعت ہے اس کی؟”
وہ احسن کو دیکھتے اس سے مخاطب تھے۔
“کچھ بہتر ہے۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا تھا دس گھنٹے پریشانی کے ہیں اگر وائز اس میں ٹھیک رہا تو ان شاءاللہ ری کور کر جاےُ گا۔”
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
“ﷲ اسے صحت و تندرستی والی زندگی دے۔۔۔ ”
وہ رضی حیات کے ہمراہ بیٹھتے ہوۓ بولے۔
“بیٹا زرش دکھائی نہیں دے رہی؟”
ثریا کوریڈور میں نگاہ دوڑاتی ہوئی بولی۔
“انہیں بیہوشی کی دوا دے کر کمرے رکھا گیا ہے۔۔۔ ”
وہ سپاٹ انداز میں بول رہا تھا۔
“کس کمرے میں؟”
وہ بےچینی سے بولی۔
“اس کمرے میں۔۔۔ ”
وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا ہوا بولا۔
“وائز۔۔۔ ”
زرش آنکھیں کھول کر اٹھ بیٹھی۔
چہرہ آنسوؤں اور پسینے سے تر تھا۔
“وائز؟”
وہ پکارتی ہوئی تاریکی میں نگاہ دوڑانے لگی۔
اس تاریک کمرے میں اس کے سوا کوئی نہیں تھا۔
“وائز کہاں گیا؟ وہ خواب تھا کیا؟”
وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتی سوچنے لگی۔
“مجھے دیکھنا ہو گا وہ کہاں ہے۔۔۔ ”
وہ تھوک گلے سے نیچے اتارتی بیڈ سے اتر آئی۔
“زرش کہاں جا رہی ہو؟”
دروازے میں ثریا اسے مل گئی۔
“امی وہ وائز۔۔۔ ”
وہ ہاتھ سے اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
“ہاں بیٹا اب اس کی طبیعت کچھ بہتر ہے تم اندر چلو۔۔۔ ”
وہ اسے ساتھ لئے اندر آ گئیں۔
“امی مجھے دیکھنا ہے اسے۔۔۔ مہ۔۔۔ میں نے بہت برا خواب دیکھا ہے مجھے اس کے پاس جانا ہے۔”
وہ دروازے کی جانب بڑھتی ہوئی بولی۔
“ٹھیک ہے چلو۔۔۔ ”
وہ اسے ساتھ لگاتی چلنے لگیں۔
“احسن میں اس کمرے میں کیسے گئی؟”
وہ کمرے سے باہر نکل کر اسے دیکھنے لگی۔
“سوری بھابھی ڈاکٹر نے کہا تھا اس لئے میں نے پانی میں بیہوشی کی دوا ملا دی تاکہ آپ کچھ دیر آرام کر لیں اور وائز بھی۔”
وہ سر جھکا کر مجرم کی مانند بولا۔
“مطلب؟”
وہ الجھ گئی۔
“مطلب بھابھی ڈاکٹر نے کہا تھا چند گھنٹے پیچیدہ ہیں اگر آپ وائز سے ملتیں تو وہ آپ سے بات کرتا اس کی طبیعت بگڑ سکتی تھی اس لئے۔۔۔ ”
وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
“تو کیا اب میں مل سکتی ہوں اس سے؟”
وہ اجازت طلب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
“لیکن بات مت کیجئے گا۔۔۔ ہم میں سے بھی کوئی دوبارہ اندر نہیں گیا۔”
وہ لاچاری سے دیکھتا ہوا بولا۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی اس کے کمرے کی جانب چل دی۔
اس نیم تاریک کمرے میں وہ خاموشی سے لیٹا ہوا تھا۔
نجانے ہوش میں تھا یا بیہوشی کی حالت میں۔
آکسیجن ماسک چہرے پر لگاےُ وہ آنکھیں بند کئے ہوۓ تھا۔
وہ لب کاٹتی آگے بڑھنے لگی۔
آنکھیں دم بخود برسنے لگیں۔
وائز کو اس حال میں دیکھ کر اسے تکلیف ہو رہی تھی۔
اس سے قبل کہ وہ اس کے بلکل پاس پہنچتی وہ الٹے قدم واپس لوٹ گئی۔
“امی وہ تکلیف میں ہے۔۔۔ اس کے سر پر۔۔۔ ”
وہ سوں سوں کرتی بول رہی تھی۔
“تم ﷲ سے دعا کرو نہ کہ وہ جلد صحتیاب ہو جاےُ۔۔۔ ”
گل ناز اس کے سر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
“وہ جلدی ٹھیک ہو جاےُ گا نہ؟”
وہ احسن کو دیکھتی استفسار کرنے لگی۔
“جی بھابھی بس یہ دس گھنٹے گزر جائیں۔۔۔ ”
وہ آسودگی سے مسکرایا۔
“آؤ تم بیٹھ جاؤ میرے ساتھ۔۔۔ ”
گل ناز اس کی پشت تھپتھپاتی ہوئی بولی۔
وہ آنکھیں رگڑتی ان کے ہمراہ بیٹھ گئی۔
دائیں جانب ثریا آ کر بیٹھ گئی۔
وہ سر جھکاےُ ٹہلنے لگا۔
فون کی رنگ ٹون نے کوریڈور کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا۔
احسن نمبر دیکھتا اس راہداری کو عبور کرتا آگے آ گیا۔
“بولو؟”
وہ فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔
“وائز بھائی کیسے ہیں؟”
نور ہچکچاتی ہوئی بولی۔
“دعا کرو۔۔۔ خالہ سے بھی کہنا۔”
وہ سپاٹ انداز میں کہتا ہاسپٹل کی حدود سے باہر نکل آیا۔
“جی ضرور۔۔۔ امی کہہ رہی تھیں ہاسپٹل بتا دیں کون سا ہے۔”
اتنے عرصے بعد اس سے مخاطب ہونا اسے عجیب لگ رہا تھا۔
“میں ٹیکسٹ کر دیتا ہوں۔ کچھ اور؟”
وہ سامنے کھلے آسمان کو دیکھتا ہوا بولا۔
“نہیں۔۔۔ ”
وہ آہستہ سے بولی۔
“خدا حافظ۔۔۔ ”
نور کو سنے بنا اس نے فون بند کر دیا۔
“عمر اسے کیا ہوا؟”
وہ آنکھوں میں حیرت سموےُ سامنے اس زخمی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔
“یار اس کے بھائی نے مارا ہے اسے۔۔۔ باقی باتیں بعد میں بتاؤں گا۔”
وہ بغور اسے دیکھنے لگا مار نے اسے ادھ موا کر دیا تھا۔
وہ کسی معصوم پنچھی کی مانند خود میں سمٹی عمر کے ہمراہ چل رہی تھی۔
یہ دونوں کزن تھے اور احسن کے کلاس فیلو۔
وہ پیشانی مسلتا ان کے عقب میں چلنے لگا۔
“یہ سب کس نے کیا؟”
نرس انہیں دیکھتی ہوئی بولی۔
“آپ پلیز ان کا علاج کریں۔۔۔ ”
عمر التجائیہ انداز میں بولا۔
“ڈاکٹر اصغر کو بولو احسن رضی حیات نے بولا ہے ان کو چیک کریں۔۔۔ ”
وہ آگے آتا ہوا بولا۔
“اوکے سر۔۔۔ ”
وہ اثبات میں سر ہلاتی انہیں اشارہ کرتی چلنے لگی۔
وہ تاسف سے انہیں دیکھنے لگا۔
“بیٹا تم گھر چلی جاؤ تھک جاؤ گی بیٹھ کر۔۔۔ ”
گل ناز متفکر سی بولی۔
“ہاں گل ناز بیگم ٹھیک کہہ رہی ہیں تم میرے ساتھ گھر چلو۔۔ صبح میں پھر آ جانا۔”
ثریا اس کے سر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
“نہیں آپ نے کہا وائز سے بات نہیں کرنی میں نے کوئی بات نہیں کی۔۔۔ لیکن اب میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔”
وہ قطعیت سے بولی۔
“بیٹا ضد نہیں کرتے۔۔۔ ”
گل ناز نے نرمی سے سمجھانا چاہا۔
اب اسے چھوڑنا نہیں چاہتی میں۔۔۔ وہ کہنا چاہتی تھی لیکن کہہ نہ سکی۔
“امی پلیز میں نہیں جاؤں گی۔”
وہ ثریا کا ہاتھ ہٹاتی ہوئی بولی۔
“رہنے دو۔۔۔ ”
گل ناز بیگم خفگی سے بولیں۔
وہ پیر اوپر کرتی غیر مرئی نقطے کو دیکھنے لگی۔
احسن ایک نظر سب پر ڈالتا دوسری سمت میں چل دیا۔
“کیسی طبیعت ہے حیا کی؟”
وہ ڈاکٹر کے کیبن میں آتا ہوا بولا۔
“ٹھیک ہے۔۔۔ زخم وقت کے ساتھ ہی بھرتے ہیں کافی بے دردی سے مارا ہے اس کے بھائی نے۔”
وہ چشمہ اتارتے ہوۓ بولے۔
وہ اثبات میں سر ہلاتا چئیر پر بیٹھ گیا۔
“بہت زیادہ مارا ہے کیا؟”
وہ آہستہ سے بولا۔
“ہاں ایسا ہی سمجھ لو۔۔ ہم تو تقریباً ہر ہفتے ہی ایسے کیسز دیکھتے ہیں کسی کے شوہر نے مارا تو کسی کے باپ نے۔۔۔ ”
وہ سرد آہ بھرتے ہوۓ بولے۔
“کتنا عجیب ہے نہ یہ؟”
وہ کہے بنا رہ نہ سکا۔
“ہاں عجیب تو ہے۔ مرد کو حاکم بنایا تو وہ ظالم حکمران بن گیا۔”
وہ دروازے کو گھورتے ہوےُ بولے۔
“لیکن یہ تو ظلم ہے اسے پولیس کے پاس جانا چائیے۔”
وہ بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔
“کس کس کے خلاف پولیس میں جاؤ گے؟ بھائی کے خلاف، باپ کے خلاف، شوہر کے خلاف؟ سب سے اہم بات یہ لڑکیاں کبھی جائیں گیں ہی نہیں۔۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔
“اسے کیوں مارا؟”
وہ ہاتھ مسلتا ہوا بولا۔
“بتایا نہیں۔۔۔ اس کا کزن بتا رہا تھا بڑی مشکل سے بچا کر لایا ہے اسے۔”
وہ فائل کھولتے ہوۓ بولے۔
احسن خاموشی سے اثبات میں سر ہلانے لگا۔
“نرس بتا رہی تھی تم نے بھیجا ہے میرے پاس؟ تم جانتے ہو انہیں؟”
وہ چہرہ اوپر اٹھا کر اسے دیکھنے لگے۔
“جی میرے کلاس فیلو ہیں۔ آپ سے دوستی ہے اس لئے آپ کے پاس بھیج دیا۔”
وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
“ٹھیک ہے۔۔ ”
وہ پیشہ ورانہ مسکراہٹ لئے بولے۔
“وائز کے لئے پریشان مت ہونا وہ ٹھیک ہو جاےُ گا۔”
وہ اس کی پشت کو دیکھتے ہوۓ بولے۔
“ان شاءاللہ۔۔۔ ”
وہ دروازے میں رک کر انہیں دیکھتا ہوا بولا۔
کچھ سوچ کر وہ کمرہ نمبر پچس کی جانب چلنے لگا۔
معدوم سی دستک دے کر وہ اندر داخل ہو گیا۔
حیا ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کر رہی تھی۔
احسن کے قدم منجمد ہو گئے۔
آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
اس معصوم سی لڑکی کا کیا حال ہو گیا تھا۔
بال بکھرے ہوۓ، چہرے پر جابجا نیلے اور سرخ نشاں پڑے ہوۓ، آستین پر خون کے دھبے تھے۔
اس نے نظروں کا زاویہ موڑ لیا۔
اس سے زیادہ اس میں سکت نہ تھی۔
“احسن تم؟”
عمر اسے دیکھتا ہوا بولا۔
“ہاں۔۔۔ کیسی ہے حیا؟”
وہ بولتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔
“تمہارے سامنے ہے۔”
وہ کرب سے کہتا مڑ گیا۔
“تم اس کے پاس رک سکتے ہو کچھ دیر؟ میں پین کلرز لے آؤں؟”
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
“ہاں لے آؤ۔۔۔ ”
اس کی نظریں حیا پر تھیں جو چہرہ جھکاےُ اپنے ہاتھ کی پشت کو دیکھ رہی تھی۔ جس پر سرخ نشانات تھے۔
“یہ سب کیوں کیا تمہارے بھائی نے؟”
وہ سٹول پر بیٹھتا ہوا بولا۔
وہ اسی پوزیشن میں اپنے ہاتھ کو تکتی رہی۔
“حیا۔۔۔ ”
وہ اس کی بازو ہلاتا ہوا بولا۔
وہ سہم کر پیچھے ہو گئی۔
آنکھوں میں خوف اور تکلیف نمایاں تھی۔
“ڈرو مت۔۔۔میں جانتا ہوں تم کسی سے زیادہ بات نہیں کرتی لیکن مجھے بھی اپنا دوست ہی سمجھو۔”
وہ مدھم آواز میں سرگوشی کر رہا تھا۔
وہ سوں سوں کرتی چہرہ جھکا گئی۔
“مجھے بتاؤ شاید میں مدد کر سکوں؟”
وہ بےچینی سے بولا۔
“بھائی میری شادی ساٹھ سال کے آدمی سے کرنا چاہتے تھے۔۔ میں نے انکار کر دیا تو۔۔۔ ”
وہ ہونٹوں پر ہاتھ کی پشت رکھتی خاموش ہو گئی۔
آنسو اس کے چہرے کے ساتھ ساتھ ہاتھ کو بھی تر کر رہے تھے۔
“لیکن کیوں؟”
وہ بےبسی سے گویا ہوا۔
“کوئی اپنی جوان بہن کی شادی کسی بوڑھے آدمی سے کیوں کرے گا؟”
وہ آنکھوں میں اشک لئے اس سے سوال کر رہی تھی۔
چند لمحے وہ اس کی سرخ درد بھری آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر چہرہ جھکا گیا۔
“یہ غلط ہے۔۔۔ ”
وہ بڑبڑاتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
“تھینک یو۔۔۔ ”
وہ آہستہ سے بولی۔
“نہیں ضرورت نہیں۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتا دروازے کے پاس آ گیا۔
دماغ ابھی تک اس کی کربناک آنکھوں میں الجھا ہوا تھا۔
وہ بیس سالہ معصوم سی لڑکی اس سب کی حقدار نہیں تھی۔
“کیا غربت یہ سب کروا لیتی ہے؟”
وہ خود کلامی کر رہا تھا۔
“سوری ڈسپنسری پر رش تھا۔۔۔ ”
عمر اندر آتا ہوا بولا۔
“کوئی بات نہیں۔۔ ”
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا کوریڈور میں آ گیا۔
سب کے چہرے غم کی داستاں بنے ہوۓ تھے۔
وہ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔
دماغ سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔
ڈاکٹر وائز کے کمرے سے باہر نکلے تو زرش کھڑی ہو گئی۔
“کیا میں مل سکتی ہوں؟”
وہ التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
آنکھ کے پپوٹے سوجھ چکے تھے۔
“جی مل سکتی ہیں لیکن خیال رہے زیادہ بات نہ کریں ان سے۔۔۔ ”
وہ مسکراتے ہوۓ احسن کو اشارہ کرتے اپنے کیبن کی سمت چل دئیے۔
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ان کے عقب میں چلنے لگا۔
“کیسی طبیعت ہے اب وائز کی؟”
وہ دروازہ بند کرتا ہوا بولا۔
“کل سے بہتر ہے۔ اب وہ خطرے سے باہر ہے لیکن پھر بھی محتاط رہنا چائیے۔۔۔ ”
وہ مسکرا کر کہتے چئیر پر بیٹھ گئے۔
“جی ٹھیک ہے اور اس کی صحت پر اس ایکسیڈنٹ کا کوئی اثر تو نہیں پڑے گا؟”
اسے خدشہ لاحق ہوا۔
“نہیں فلحال تو ان کی پوری باڈی ٹھیک ریسپانس کر رہی ہے۔ آپ چیک اپ کے لئے آتے رہنا۔”
وہ اس کی فائل کو دیکھتے ہوۓ بولے۔
“ٹھیک ہے۔۔۔ ”
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
زرش خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر ابھی بھی آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا۔
نرس اسے دیکھ کر باہر نکل گئی۔
وہ اسے دیکھتی سٹول پر بیٹھ گئی۔
آنکھوں میں پھر سے نمی تیرنے لگی۔
“آئم سوری وائز۔۔۔ ”
وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی ہوئی بولی۔
اس کے لمس پر وائز نے آنکھیں کھول دیں۔
وہ آنکھوں میں حیرت سموےُ اسے دیکھ رہا تھا۔
“تم؟”
وہ آکسیجن ماسک ہٹاتا ہوا بولا۔
“پلیز تم جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔۔۔ ”
وہ اشک بہاتی بول رہی تھی۔
چہرہ جھکا ہوا تھا۔
وائز کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ رینگ گئی۔
“کیوں؟”
وہ دلچسپی سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہا تھا۔
“کیوں؟”
وہ تعجب سے زیر لب دہراتی اسے دیکھنے لگی۔
“اب سزا سے کیوں بچا لیا مجھے؟”
وہ جیسے لطف لے رہا تھا۔
“میں نے تمہیں معاف کر دیا تھا لیکن بیچ میں وہ سب۔۔۔ ”
وہ مجرمانہ انداز میں بول رہی تھی۔
“کیا کہا تم نے؟”
اس نے جیسے سنا نہیں یا پھر دوبارہ سننا چاہتا تھا۔
“تم سن چکے ہو۔۔۔ ”
وہ نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
“ہاں لیکن میں دوبارہ سننا چاہتا ہوں۔”
وہ معدوم سا مسکرایا۔
“کیا؟”
وہ معصومیت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
وہ گھورتا ہوا اٹھنے کی سعی کرنے لگا۔
“نہیں لیٹے رہو تم۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
“تم نے مجھے معاف نہیں کیا۔۔۔ ”
وہ رخ موڑتا ہوا بولا۔
“وائز میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔۔۔ آج نہیں پہلے ہی لیکن کہا نہیں۔”
وہ سر جھکا کر ندامت سے بولی۔
وہ سانس خارج کرتا چھت کو دیکھنے لگا۔
جیسے کوئی بوجھ اس پر سے ہٹا لیا گیا ہو۔
“انسان کے ضمیر پو بوجھ ہو تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔”
وہ آہستہ سے بول رہا تھا۔
“پلیز تم بس ٹھیک ہو جاؤ۔۔۔ ”
وہ ہاتھ کی پشت سے رخسار صاف کرتی ہوئی بولی۔
“کیوں؟ تاکہ تمہیں میری خدمت نہ کرنی پڑے؟”
وہ سانس لینے کو رکا۔
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔میں تمہیں اس حال میں نہیں دیکھ سکتی اور اب تم زیادہ بات مت کرو۔”
وہ آکسیجن ماسک اس کے چہرے پر لگاتی ہوئی بولی۔
وہ مسکرا کر اسے دیکھنے لگا۔
“میں یہیں ہوں تمہارے پاس۔۔۔ ”
وہ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
وہ پرسکون سا ہو کر آنکھیں بند کر گیا۔
“کیا کہا ڈاکٹر نے؟”
جنید صاحب اس کے پاس آتے ہوۓ بولے۔
“بہتر ہے اب۔۔۔ لیکن ابھی کچھ دن ہاسپٹل میں رہے گا وہ۔”
احسن عقب میں دیکھتا ہوا بولا۔
” ﷲ کا شکر ہے اس کی طبیعت سنبھلی۔۔۔”
وہ بولتے ہوۓ رضی حیات کے پاس آ گئے۔
فیض حیات بھی انہی کے پاس بیٹھے تھے۔
احسن دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
“حیا؟”
وہ اسے پکارتا تیز قدم اٹھانے لگا۔
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
سرخ اور نیلے نشانات ابھی تک اس کے چہرے کی زینت بنے ہوۓ تھے۔
“تم اسے گھر لے جا رہے ہو؟”
اب وہ عمر سے مخاطب تھا۔
“ہاں ظاہر ہے گھر ہی جانا ہے۔۔۔ ”
وہ آسودگی سے بولا۔
“نہیں۔۔۔ ایسا کرو تم اسے ہاسپٹل ہی رکھو۔”
وہ پرسوچ انداز میں بولا۔
“یار اتنے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔۔۔ اور کب تک ہاسپٹل رکھیں گے حیا کو ایک دن تو گھر جانا ہی ہے۔”
وہ بےبسی سے گویا ہوا۔
“بل میں دیکھ لوں گا لیکن تم اسے ابھی گھر مت لے کر جاؤ۔۔۔ ”
وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
حیا الجھ کر اسے دیکھ رہی تھی۔
یہ کیوں مہربان ہو رہا ہے؟
وہ کہنا چاہتی تھی لیکن خاموش رہی۔
وہ ایک نظر حیا پر ڈالتا اندر کی جانب چلنے لگا۔
“چلو حیا۔۔۔۔ ”
عمر اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
وہ خاموشی سے اس کے ساتھ اندر کی جانب چلنے لگی۔
شاید وہ بھی گھر نہیں جانا چاہتی تھی۔