صبح تیمور خان کی آنکھ کھلی تو اُس کی نظر اپنے برابر میں لیٹی ہوئی ژالے پر گئی۔۔۔ وہ کندھے تک چادر اوڑھے سیدھی لیٹی ہوئی،، مسلسل کمرے کی چھت کو گھور رہی تھی۔۔۔ تیمور خان نے دوسری نظر اپنی شرٹ کے ساتھ پڑے اُس کے کپڑوں پر ڈالی،، کل رات اُس نے تھوڑی بہت مزاحمت کے بعد تیمور خان کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔۔۔ وہ بیڈ سے اُٹھ کر اپنی شرٹ پہننے لگا،، شرٹ پہننے ہوئے اُس کی نظر مسلسل ژالے پر تھی جو ابھی تک اُسی پوزیشن میں لیٹی ہوئی چھت کو دیکھ رہی تھی
“کیا ہوا یہ کپڑے پسند نہیں ہے تمھیں یا پھر تم دوسرے کپڑے پہنا چاہ رہی ہو”
تیمور خان کی بات سننے کے بعد بھی ژالے نے کوئی ری ایکٹ نہیں کیا تھا وہ ابھی بھی کمرے کی چھت کو دیکھ رہی تھی
“اب سمجھا،، تم یہ کپڑے مجھ سے پہننا پسند کروں گی”
تیمور خان اس کے کپڑے ہاتھ میں لیتا ہوا بیڈ پر ژالے کے پاس آکر بیٹھا،، تیمور خان نے پاؤں کی طرف سے چادر سرکائی تو ژالے کے وجود میں ہلکی سی جنبش ہوئی ژالے نے اپنے پاؤں سمیٹنا چاہے تو تیمور خان نے اُس کے دونوں پاؤں پکڑ کر اُس کی کوشش ناکام بنادی،،، اب ژالے کی بجائے اپنے ہاتھ میں موجود ٹراوزر کو دیکھنے لگا
“تمہیں کتنے پیار سے بولا تھا کہ مجھے سمیٹ لو،، اپنا بنا لو،، پھر خان صرف تمہارا رہے گا مرتے دم تک صرف تمہارا۔۔۔ مگر تم ٹھہری ایک الٹی کھوپڑی کی ضدی لڑکی۔۔۔ جو میں نے پہلے تمہارے ساتھ کیا تھا اس کے لئے میں شرمسار تھا،، مگر کل رات اپنے کیے عمل پر مجھے کوئی شرمندگی نہیں۔۔۔ تمھارے جملہ حقوق میرے نام ہیں مکمل اختیار رکھتا ہوں میں تم پر،، اس طرح اپنے آپ کو ہلکان کرو گی تو اپنا ہی نقصان کرو گی”
اب تیمور خان ژالے کی آنکھوں سے آنسو صاف کر کے اُسے بٹھاتے کے بعد شرٹ پہنانے لگا
“میں تمہاری محبت کو تب سمجھ نہیں پایا تھا۔۔۔ جب تم نے اُس محبت کا اظہار کیا تھا۔۔۔ مگر اب تمہاری آنکھوں میں یہ بے اعتباری اور غُصہ مجھے بے چین کرتا ہے،، پلیز ژالے میں تمہاری آنکھوں میں دوبارہ اپنے لیے وہی محبت دیکھنا چاہتا ہوں،، میں نہیں مان سکتا کہ تم نے مجھ سے جو محبت کی تھی اس کی مُدت اتنی کم تھی کہ وہ فوراً ہی مر گئی،، وہ محبت تمہارے دل میں ابھی بھی زندہ ہے بس روٹھ گئی ہے”
تیمور خان اُسے شرٹ پہنانے کے بعد واپس بیڈ پر لٹاتا ہوا اب کی بار اپنے ہونٹوں سے اُسکے آنسوں چننے لگا
“میں صرف تمہارے جسم کا طلب گار نہیں ہو،، مجھے تمہاری محبت بھی واپس چاہیے۔۔۔ جو پہلے کی طرح تمہاری آنکھوں میں نظر آئے، تمہارے عمل سے ظاہر ہو،، جس دن ایسا ہوجائے گا اس دن تم اپنے خان کا ایک نیا روپ دیکھو گی اُجلا صاف شفاف سا اپنا من پسند”
تیمور خان ژالے سے بولتا ہوا بیڈ سے اٹھا اپنے کپڑے الماری سے لے کر واش روم چلا گیا
*****
“کل رات ژالے کو تم اپنے کمرے میں لے کر گئے تھے”
تیمور خان ناشتے کی ٹیبل پر پہنچا تو سردار اسماعیل خان اور زرین پہلے سے وہاں پر موجود تھے یقیناً اُن دونوں کو ملازموں سے اطلاع مل چکی تھی
“وہ ابھی بھی میرے کمرے میں موجود ہے، اب اُسے وہی رہنا ہے”
تیمور خان کو کرسی کھسکا کر بیٹھتا ہوا سردار اسماعیل خان کو بتانے لگا
“کیا ژالے کی رضامندی شامل تھی تمہارے کمرے میں جاتے وقت”
اب زرین تیمور خان کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
“کیا آپ لوگوں نے نکاح کے وقت اُسکی دلی رضامندی جاننی چاہی تھی۔۔۔ جو اب یہ سوال اٹھایا جارہا ہے۔۔۔۔ اُسے ایک نہ ایک دن تو اپنے کمرے سے رخصت ہوکر میرے کمرے میں آنا ہی تھا تو اب کیا مسلہ ہے”
تیمور خان چڑتا ہوا بولا
“اماں حضور کو اِس بات کا علم نہیں ہے ابھی تک،، زری تم انہیں مناسب لفظوں میں بتا دینا اور اب جبکہ ژالے اپنے کمرے سے رخصت ہو چکی ہے تو ولیمے کی تقریب بھی رکھ لیتے ہیں”
سردار اسماعیل خان بات بڑھانے کی بجائے ختم کرتا ہوا بولا
“ولیمے کی تقریب بھی ہوجائے گی۔۔۔۔ مگر اس تقریب میں ایک فردِ خاض کا ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے آپ کو تھوڑے دن انتظار کرنا پڑے گا”
تیمور خان بات مکمل کر کے ناشتے میں مگن ہوچکا تھا۔۔۔ ناشتے کے دوران ہی اُس کے موبائل پر میسج آیا جس میں اُس کے آدمی نے اُسے اطلاع دی تھی کہ ضیغم جتوئی اور فیروز جتوئی دو دن کے لئے آج شہر روانہ ہوئے ہیں۔۔۔ تیمور خان چائے کے گھونٹ بھرتا ہوا کچھ سوچنے لگا
****
“ارے پاگل اِس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے خوشی کی بات ہے،، لگ رہا ہے تمہارے گھر میں ضرور کوئی خوشخبری آنے والی ہے، اپنے سائیں کو بتایا تم نے اپنی طبیعت کے بارے میں”
وہ جو کل پرسوں سے محسوس کر رہی تھی آج زرین سے موبائل پر شیئر کرنے لگی
“نہیں سائیں کو تو ابھی کچھ نہیں بتایا،، بس جو بات محسوس کی آپ کو بتا دی۔۔۔ ویسے بھی سائیں شہر میں ہیں اور میں اِس وقت یہاں پر حویلی میں موجود ہو”
خوشخبری کا سننے کے باوجود روشانے بُجھے دل سے بولی کیونکہ ضیغم اُس سے خفا تھا
“ہاں تو اچھی بات ہے اس حالت میں سفر کرنا مناسب بھی نہیں ہے،، روشی بچے اب تمہیں اپنا بہت خیال رکھنا ہوگا اپنے بچے کے لئے،، ویسے ایک خوشخبری میرے پاس بھی ہے”
زرین اُسے خاص خاص ہدایت دینے کے ساتھ ساتھ بولی
“کونسی خوشخبری”
روشانے کے پوچھنے پر زرین نے اُسے ژالے اور تیمور خان کے نکاح کے بارے میں بتانے لگی یہ بات اُس نے روشانے کو ابھی تک نہیں بتائی تھی۔۔۔ اُس خبر کے سنتے ہی روشانے کو تیمور خان پر مزید غصہ آیا۔۔۔۔ اتنی اچھی لڑکی ملنے کے باوجود وہ اُسے تنگ کر رہا تھا شاید اُس کی فطرت ہی ایسی تھی۔۔۔ روشانے کا دل چاہا وہ زرین کو تیمور خان کی ساری حرکتیں بتا دے مگر پھر زرین کی خوشی ملیامیٹ ہونے کے خیال سے ایسا نہیں کر سکی
“تائی ماں شاید کوئی آیا ہے میں بعد میں بات کرتی ہوں آپ سے”
دروازے پر کھٹکے کی آواز پر روشانے کا سارا دھیان کمرے کے بند دروازے پر گیا،، ساتھ ہی اُس نے زرین کی کال کاٹ کر دروازہ کھولا
“موبائل دے اپنا”
کشمالا کمرے میں آتے ہی بغیر کسی دوسری بات کے روشانے کے آگے ہاتھ بڑھاتی ہوئی بولی۔۔۔ روشانے نے بھی بغیر کچھ کہے اُسے اپنا موبائل فوراً دے دیا۔۔۔ وہ اِس پوزیشن میں نہیں تھی جو کشمالا کو منع کرتی پھر ضیغم بھی اُس کے پاس موجود نہیں تھا
“کتنے دن چڑھے ہیں”
موبائل لینے کے بعد کشمالا روشانے کو دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھنے لگی جس پر روشانے کو اندازہ ہو گیا کہ وہ زرین اور اُس کی ساری باتیں سن چکی ہے
“کچھ اندازہ نہیں ہے مجھے، ضروری نہیں ہے جیسا تائی ماں سمجھ رہی ہیں ویسا ہی ہو”
روشانے نظریں جھکا کر آہستہ آواز میں بولی
“اس کا تو پتہ چل جائے گا۔۔۔ تُو یہ بتا پرسوں رات تُو نے اپنے تایا زاد تیمور خان کو یہاں کیوں بلایا تھا”
کشمالا کے سوال پر روشانے کا سانس بند ہونے لگا۔۔۔ اگر وہ کشمالا کے سامنے مُکر جاتی تو یقیناً کشمالا بغیر اُس کی حالت کا لحاظ کیے اُسے مارنا شروع کر دیتی
“مامی میں قسم کھا کر کہہ رہی ہو میں نے یہاں پر کسی کو نہیں بلایا تھا،، وہ خود یہاں پر آئے تھے۔۔۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتی ہوں پلیز سائیں کو کچھ مت بھولیے گا۔۔۔ مجھ پر رحم کریں میں آپ کی بیٹیوں کی جیسی ہو۔۔۔ اپنے دل میں موجود میرے لئے سارا غُصہ اور بدگمانی نکال دیں”
روشانے کشمالا کے آگے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر روتی ہوئی بولی تو کشمالا خاموش ہو کر اُسے دیکھنے لگی
“اگر خوشخبری ہے پھر تو تُجھے اپنا دھیان رکھنا پڑے گا۔۔۔ کمرے سے بلاوجہ میں نکلنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ نہ ہی سیڑھیاں چڑھنے اترنے کی ضرورت ہے اگر کسی کام کے لئے ضرورت پڑے تو شانو کو آواز دے لینا”
کشمالا بے تاثُر اُس کو دیکھ کر بولی اور اُس کا موبائل لے کر کمرے سے چلی گئی
****
اسموکنگ کرنا اُس کی بری عادت تھی۔۔۔ مگر یہ کام وہ لمٹ میں رہ کر کرتا تھا لیکن پچھلے دو گھنٹوں سے وہ مسلسل سگریٹ پھونکے جا رہا تھا،، آج صبح وہ روشانے کو حویلی میں چھوڑ کر خود یہاں چلا آیا تھا۔۔۔ غُصے میں وہ روشانے کے ساتھ ایسا ہی کرتا تھا اُسے اپنے آپ سے دور کر دیتا تھا۔۔۔ پچھلی بار وہ روشانے سے ناراض ہوکر غُصّے میں کشمالا کے کمرے میں چلا گیا تھا۔۔۔ تیمور خان کے ساتھ روشانے کا نام دیکھ کر،، اُس دن وہ کافی دیر بعد آفس سے گھر لوٹا تھا۔۔۔ معلوم نہیں ایسا کر کے وہ روشانے کو سزا دیتا تھا یا پھر خود کو
آج شام آفس سے آنے کے بعد اس نے اپارٹمنٹ کے انتظامیہ سے کہہ اُس نے اپنے فلور پر لگے کیمرے سے اُس دن کی ویڈیو دیکھی جب اُس کے فلیٹ کی اچانک لائٹ بند ہوئی تھی اور روشانے بری طرح ڈری تھی۔۔ کیوکہ دوسرے دن روشانے کو نارمل دیکھ کر اس وقت ضیغم نے بھی اِس بات کو سر پر سوار نہیں کیا تھا
لیکن اس وقت کیمرے میں تیمور خان کو دیکھ کر ضیغم کا خون کھول اٹھا تھا،، وہ اس کے فلیٹ میں کیا کرنے آیا تھا۔۔۔ کیا وہ روشانے سے ملتا رہتا تھا۔۔۔۔ روشانے اُس سے کتنی باتیں چھپاتی تھی،، ایسی بھلا کون کون سی باتیں ہوگیں جو اُس کے علم میں نہ تھی۔۔۔ ضیغم مسلسل سگریٹ پیتا ہوا سوچ رہا تھا
وہ تیمور خان کو لے کر روشانے پر شک نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا اُس کی بیوی معصوم ہے مگر تیمور خان۔۔۔ اُس گھٹیا انسان پر ضیغم کو بالکل بھی اعتبار نہیں تھا۔۔۔ اُس نے تھوڑی دیر پہلے روشانے کے موبائل پر کال ملائی تھی مگر اُس کا نمبر مسلسل بزی جا رہا تھا روشانے آخر اتنی دیر تک کس سے بات کر رہی تھی زرین سے یا پھر تیمور خان سے۔۔۔
شک نہ کرنے کے باوجود کئی سوالات اُس کے دماغ میں اٹھ کر مسلسل شور مچا رہے تھے۔۔۔ اب وہ اِن کے جوابات پر ہی سکون سے بیٹھ سکتا تھا۔۔۔۔ وہ واپس جا کر روشانے سے سارے جوابات پوچھنے کا ارادہ رکھتا تھا
****
تھوڑی دیر پہلے ملازمہ تیمور خان کے کمرے میں ژالے کے سارے کپڑے رکھ کر گئی تھی جسے ژالے الماری میں جگہ بنا کر سیٹ کر رہی تھی۔۔ اُس کا سارا سامان بیڈ کر بکھرا پڑا تھا۔۔۔ تیمور خان نے جس طرح کی بات خرم کے سامنے کہی تھی ژالے خرم کے سامنے بےحد شرمندہ ہوئی تھی۔۔۔ اُس نے تیمور خان کا اپنی خالہ اور خرم کے سامنے کافی اچھا امیج بنایا تھا جو پرسوں تیمور خان نہ صرف خرم کے سامنے ڈاؤن کر چکا تھا بلکہ ژالے کو بھی شرمسار کر چکا تھا
تیمور خان کے ساتھ بنے اِس رشتے کو وہ ابھی تک قبول نہیں کر پائی تھی وہ خود تو ژالے سے محبت کا طلب گار تھا مگر بدلے میں وہ اُسے عزت تک نہیں دے سکا تھا،، کیسے اُس نے خرم کے سامنے اُن دونوں پر الزام لگا کر اُن کے رشتے کو شرمسار کیا تھا۔۔ بے شک یہ حرکت تیمور خان نے پہلی بار نہیں کی تھی مگر وہ خرم کے سامنے اتنی گھٹیا بات کر سکتا تھا یہ ژالے تصور میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی
بکھرا ہوا سامان سمیٹ کر وہ ابھی فارغ ہوئی تھی تب کمرے کا دروازہ کُھلا اور تیمور خان کمرے کے اندر داخل ہوا۔۔۔ وہ ژالے کو دیکھ کر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا
“کیا میرا کمرہ بہت زیادہ پسند آ گیا ہے،، جو کل سے تمہیں اِس کمرے سے باہر نکلنے کا دل نہیں چاہ رہا ہے”
تیمور خان خوشگوار موڈ میں ژالے کو چھیڑتا ہوا بولا
وہ کل سے اب تک اس کے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔۔ زرین اُس کے پاس اُس کی طبعیت پوچھنے کے لیے آئی تھی اور چند منٹ باتیں کر کے واپس چلی گئی تھی۔۔۔ رات کے وقت کھانے کی میز پر ژالے کی غیر موجودگی دیکھ کر تیمور خان نے اپنا کھانا بھی ملازمہ سے کہہ کر اپنے کمرے میں ہی منگوا لیا تھا
“قید خانہ کسی بھی قیدی کو پسند نہیں ہوتا خان، صرف قیدی اُس قید خانے میں اپنے آپ کو رہنے کا عادی بنا رہا ہوتا ہے”
ژالے کی بات پر تیمور خان نے اُسے کھینچ کر اپنے سے قریب کر لیا
“اور جس ظالم دیو نے تمہیں قید کیا ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔ اُس ظالم دیو کی بھی عادت ڈال لو،،، یہ تمہیں بالکل اِسی طرح ساری زندگی قید رکھنا چاہتا ہے۔۔۔ اِس دیو سے بلاوجہ کی تکرار ختم کر ڈالو”
وہ ژالے کو اپنی گرفت میں لیتا ہوا بہکے بہکے انداز میں بولا۔۔ اب وہ ژالے کے ہونٹوں پر اپنا انگوٹھا پھرتا ہوا مدہوشی سے اُسے دیکھ رہا تھا تیمور خان کے کسی بھی عمل وہ اُس نے مزاحمت نہیں کی تھی،، پرسوں رات سے ہی اُس نے ساری مزاحمت ترک کر دی تھی
“کوئی بھی لڑکی کسی ظالم دیو کی خواہش نہیں کرتی،، ہر لڑکی کو ایک شہزادے کا انتظار ہوتا ہے۔۔۔ کوئی بھی لڑکی کسی ظالم دیو کا انتظار نہیں کرتی ہوتی ہے کچھ لڑکیاں میری طرح بے وقوف ہوتی ہیں جو ظالم دیو کو اپنا شہزادہ تصور کر بیٹھتی ہیں۔۔۔ لیکن جب حقیقت اُن پر آشکار ہوتی ہے تو اُن کا یہی حال ہوتا ہے جو میرا ہوا ہے۔۔۔ کسی شہزادے کے ساتھ تو لڑکی ساری زندگی خوشی خوشی گزار سکتی ہے مگر کسی ظالم دیو کی قید میں وہ صرف ساری زندگی سِسکتی رہتی ہے اور یونہی سِسک سسِک کر ایک دن مر جاتی ہے”
ژالے تیمور خان کی گرفت میں اُسے دیکھتی ہوئی بولی جس پر تیمور خان کے چہرے کے تاثرات ایکدم تکلیف زدہ ہوئے مگر دوسرے ہی پل اُس نے غصے میں ژالے پر اپنی گرفت مزید سخت کردی۔۔ اتنی سخت کے ژالے کے منہ سے بے ساختہ سسِکی نکلی۔۔۔ اب تیمور خان کا دوسرا ہاتھ اُس کے ہونٹوں کے بجائے اُس کے بالوں میں تھا وہ ژالے کے بالوں کو مٹھی میں جکڑتا ہوا اُس کا چہرہ اوپر کرکے مزید اپنے چہرے کے قریب کر چکا تھا
“تو میں ظالم دیو ہوں تمہارے لیے پھر ایسا ہی سہی،، مگر اپنے دماغ سے یہ خوش فہمی نکال دو کہ کوئی شہزادہ تمہیں مجھ سے چھین کر لے جائے گا۔۔۔ شاید اُس خرم کو تم اپنا شہزادہ ہی تصور کر کے بیٹھی ہو،، میں اُس خبیث کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالوں گا”
تیمور خان غُصے میں اُس کے وجود کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا بولا
“خاموش ہو جاؤ خان،، خبردار جو تم نے اپنی زبان سے خرم کا نام لیا۔۔۔ مت گراؤ خود کو میری نظروں میں اتنا،، کہ تمہارا اٹھنا، مجھ سے نظر ملانا تمہارے لیے مشکل ہو جائے۔۔۔ مت گالی دو میرے اور خرم کے پاک تعلق کو،، دودھ شریک بھائی ہے وہ میرا”
ژالے تیمور خان کی گرفت میں چیخ کر بولی تو ایک دم سے ژالے کی بات سن کر تیمور خان کی گرفت ڈھلی ہوئی
یہ ایک عجیب انکشاف تھا جو آج ژالے نے اُس پر کیا تھا۔۔ وہ حیرت سے ژالے کو دیکھ رہا تھا جب کہ ژالے حقارت بھری نظر اُس پر ڈال کر کمرے سے باہر چلی گئی
تیمور خان کو اچانک سے شرمندگی نے آ گھیرا تھا۔۔۔ وہ کیا کچھ بول چکا تھا ژالے اور خرم کے بارے میں۔۔۔ صرف اپنے اندر کی جلن کے باعث،، وہ ژالے کے سامنے خرم کا نام لے کر اُس کو نشتر چھبوتا تھا۔۔ یہ جانے بغیر کہ آپس میں اُن کا رشتہ کیا ہے
وہ شرمندہ ہوتا ہوا بیڈ پر جا بیٹھا ویسے ہی موبائل کی رینگ ٹون نے اُس کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔۔۔ بیڈ پر ژالے کا موبائل پڑا ہوا تھا جس پر روشانے کا میسج آیا تھا اور روشانے نے ژالے سے تیمور خان کا موبائل نمبر مانگا تھا تیمور خان کو یہ میسج پڑھ کر حیرت ہوئی،، یہ روشانے کا نیا نمبر تھا جو اس کے پاس موجود نہیں تھا۔۔۔
بھلا اب روشانے کو اُس سے کیا کام پڑ گیا تھا یہ بات تیمور خان کو جاننے کے لیے ژالے کے موبائل سے روشانے کو اپنا نمبر سینڈ کرنا پڑا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ہی اُس کے موبائل پر روشانے کا میسج آیا جس میں اُس نے فیروز جتوئی اور ضیغم جتوئی کے شہر میں ہونے سے اگاہ کیا اور اسے حویلی میں پیچھے کے دروازے سے بلایا
تیمور خان روشانے کا میسج دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا۔۔۔ اُسے کل ہی اپنے بندے سے اطلاع مل چکی تھی کہ فیروز جتوئی اور ضیغم جتوئی شہر میں موجود ہیں اور یہی بات روشانے کا اسے بتا کر حویلی بلانا۔۔۔۔ یہ میسج واقعی اُسے روشانے نے کیا تھا یا دشمن کی کوئی چال تھی جو بھی تھا یہ جاننے کے لیے اُسے آج رات دشمنوں کی حویلی جانا ہی تھا تیمور خان بیڈ سے اٹھ کر الماری کی ڈراز میں رکھی اپنی پسٹل دیکھنے لگا
*****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...