ہاتھ بھی مت لگانا مجھے ورنہ میں خود کو ہی ختم کردوگی بہت سن لی تمھاری اور تمھارے اس َظالم باپ کی مجھے یقین نہیں آتا کے کوئی کسے اتنا ظالم ہو سکتا ہے۔۔
کتنی بے رحمی سے ترپا رہے ہے انکل انتی کو میں نے سن لی تھی تمھاری امی اور ابو کی باتیں ۔۔
باتیں کسی باتیں۔۔کیا سنا تم نے۔۔
حورعین جب ہاتھ میں چاقو پکرے ریحان کو بتا رہی تھی تو ریحان نے پریشانی سے پوچھا۔۔
یہ ہی کے تمھارے پاپا نے اپنی ہی بیٹی کو اغوا کر رکھا ہے اور انتی کو کسی بات سے اپنی ہی بیٹی کو نشانہ بنا کر استعمال کر رہے ہے۔۔۔
بس یہ ہی سنا تم نے۔۔ریحان نے حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
ہاں جی یہ ہی سنا اور میں ایسے گھر میں نہیں رہو گی جہاں بس ظلم ہی ظلم ہوتے ہے۔
اگے مت بھرنا ورنہ یہ تمھارے سینے میں ماردونگی۔
ریحان جب آگے بڑھنے لگا تو حورعین نے چاقو اس کی طرف برھاتے ہوئے کہا۔۔۔
دیکھو حور میں تمھیں سب سمجھاتا ہو پلیز اسے سائڈ پر رکھو لگ جائے گی۔۔
ریحان نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔۔
میں اب تمھاری کوئی بات نہیں سنوگی تم جو بھی کرلو۔
۔حور دیکھو۔۔۔۔اہااااااااا اوففففف ماردیا ہے یار۔۔
جب ریحان نے اس سے چاقو لینے کی کی تو چاقو اس کے بازو پر لگا جس وجہ سے وہ کراہ کر زمین پر گیرا جسے دیکھ کر حورعین گھبراتے ہوئے اس کے پاس آئی۔۔۔۔
ایم سوری م م میرا مقصد تمھیں تکلیف پہنچانا نہیں تھا م م مجھے معاف کردو۔
جب حورعین نے ریحان کا خون دیکھا تو وہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی اور منہ پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی۔
جسے دیکھ کر ریحان کا دل دکھا کیونکہ وہ اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔
ریحان نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا۔
دیکھو پلیز رونا بند کرو میں ٹھیک ہو بس معمولی سا زخم ہے ٹھیک ہوجائے گا۔۔
ریحان نے اپنے بازو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جہاں بہت تیزی سے خون بہے رہا تھا۔
کیا تم پاگل ہو اتنا خون نکل رہا ہے اور تم کہے رہے ہو کے ٹھیک ہو چلو اٹھو میرے ساتھ آؤ۔
حورعین نے اسکا ہاتھ پکر کے اسے اٹھاتے ہوئے کہا اور کمرے میں لے آئی ان دو مہینوں میں حورعین نے پہلی بار ریحان سے نرمی سے بات کی تھی۔۔
ادھر بیٹھو دیکھو کتنا خون بہے رہا ہے یہ ٹیوب لگا دیتی ہو ٹھیک ہوجائے گی۔۔
حورعین نے اسے ٹیوب لگاتے ہوئے کہا۔۔
ریحان کچھ بولے بغیر بس حور کو اسکی اس طرح فکر کرتے دیکھ کر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کے دیر سے ہی سہی لیکن اس نے مجھ سے بات تو کی۔۔
کیا ہوا درد تو نہیں ہورہا۔۔
حور نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔
نہیں میں ٹھیک ہو شکریہ۔۔
حور کے پوچھنے پر اس نے جواب دیا۔۔لیکن حورعین میری ایک بات سنو۔میرا پیار تمھارے لئے کوئی دھوکہ نہیں ہے،میں نے دل سے تمھیں چاہا ہے، ہاں میں مانتا ہو کے میری غلطی ہے مجھےزبر دستی تم سے نکاح نہیں کرنا چاہیے تھا۔
بس بہت ہوگیا میں تم سے اور کچھ نہیں چھپانا چاہتا میں سب کچھ تمھیں بتا دونگا
لیکن یہاں نہیں آج شام کو باہر چلے گے میں وہاں تمھیں سب بتاونگا۔۔۔
ریحان نے حورعین کا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا جو چپ چاپ کھڑی اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔
ریحان نے پہلی بار اس سے اس طرح بات کی تھی اور اس نے اسے کچھ نہیں کہا تھا، ورنہ اکثر ریحان کے سامنے آنے سے بھی یہ چیرتی تھی۔
لیکن اب حور میں بھی بدلاو آرہا تھا۔
کیا حور کے دل میں بھی ریحان کے لئے کچھ تھا یا کوئی اور وجہ تھی۔۔
میں تم سے بدلا لوگی لیکن نفرت سے نہیں پیار سے۔۔حورعین نے ریحان کے جانے کے بعد کہا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشااللہ بہت پیاری لگ رہی ہو تم اج۔۔
ریحان نے حورعین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔جس نے بلیک کلر کا فراک پہن رکھا تھا ۔۔جس کا سرخ کلر کا دوپتہ اس نے گلے میں لے رکھا تھا۔۔چہرے پر ہلکا سامیک ہونٹوں پر سرخ کلر کی لپ ستیک میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی اور بال اگے کی طرف کھول رکھیے تھے۔
جب وہ گاڑی میں اکر بیٹھی تو ریحان نے اس کی تعریف کی جو نظریں ادھر ادھر کرنے لگی۔۔۔
ی یہ آپ کے لئے کھالے آپ کو بہت پسند ہے نا۔۔۔
حورعین نے ایک باول اسکی طرف برھاتے ہوئے کہا جس میں گاجر کا حلوہ تھا
ریحان نے حیران ہوتے ہوئے اسکی طرف دیکھا۔
کے آج پہلی بار اتنے پیار سے وہ اس کے لئے کچھ بنا کر لائی تھی ۔۔
شکریہ اس نے مسکراہتے ہوئے اس سے حلوا لیا اور کھانے لگا۔۔
اب آئے گا مزا یہ جو تم کھا رہے ہو نا تھوڑی ہی دیر میر تم سکون سے سو رہے یوگے اور میں یہاں سے بھاگ نکلو گی ریحان۔۔۔
جسے ہی حلوے کی چمچ ریحان نے منہ میں دالی تو حورعین نے زیر لب مسکراہتے ہوئے دھیرے سے کہا۔۔۔
تم نے کچھ کہا۔۔۔ریحان نے حور سے ہوچھا۔۔۔جو اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔
ج ج جی میں وہ میں کہے رہی تھی کے کیسا بنا حلوا۔۔۔
حورعین نے جھجکتے ہوئے کہا۔۔۔
بہت مزے کا بنا ہے۔ لیکن پتا نہیں میرا سر کیو بھرا ہورہا ہے۔۔۔ریحان نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ہاہاہاہا کیو کے اس میں نیند کی دوائی ملی ہے مسٹر ریحان ،
تم کیا سمجھے میں تم سے بہت ہیار سے پیش ارہی ہے۔۔۔پیار سے وہ بھی تم سے مائی فٹ ۔۔میں تم سے کبھی پیار نہیں کرسکتی میں نفرت کرتی ہو تم سے نفرت۔۔۔ اور ہاں میں یہاں سے جا کر طلاق کے پیپر بھجوا دونگی مجھے نہیں رہنا تمھارے نکاح میں سمجھے۔
۔ حورعین نے غصے سے کہا اور گاری کا دروازہ کھول کر نکل گی لیکن ریحان وہاں ہی ساخت بیٹھا اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔اور بے ہوش ہوگیا۔۔۔۔
حور بھاگتی ہوئی ایک روڈ پر آئی اور وہاں سے ٹیکسی کروا کر گھر کی طرف جانے کو کہا۔۔۔
حور نے اللہ کا شکر ادا کیا کے اخر وہ وہاں سے جان بچا کر نکل چکی ہے اور اب اپنے گھر جائے گی۔۔۔لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھی کے اس نے کتنی بری غلطی کی ہے ایک ایسے شخص کو دھوکہ دیا ہے جو اس سے پاگلوں کی طرح عشق کرتا ہے۔
نا جانے آگے کیا ہونے والا ہے کیا کبھی حور اس حقیقت سے واقف ہو پائے گی اور اگر حقیقت جان بھی گی تو کیا وہ واپس ریحان کے پاس چلی جائے گی یا ریحان ساری زندگی اکیلا ہی اس کے لئے ترپتا رہے گا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما پاپا اپی دیکھئے میں آگی۔۔۔
حورعین نے گھر میں داخل ہوتے ہی کہا جہاں سب اسکی آواز پربھاگتے ہوئے باہر آئے۔۔
ح ح حور میری بچی ت ت تم واپس آگئی۔۔
حورعین کو دیکھ کر حنا بیگم اس کے گلے لگ کر روتے ہوئے بولی۔۔۔
ماما پلیز رونا بند کرے اب میں اگی ہو نا اب کہی نہیں جاونگی۔۔۔
پاپا کسے ہے آپ۔۔حورعین بلال صاحب کے گلے لگی اور رونے لگی بابا بہت مس کیا میں نے آپ سب کو بہت ترپی ہو میں۔۔
ارے ہمیں چپ کروا کر خود رونے شروع ہوگئ۔۔
حنا بیگم نے حورعین کے سر پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
ماما اپی کہا ہے ۔انہیں پتا نہیں ہے میں آئی ہو ۔۔حورعین نے ادھر اودھر نظر گھماتے ہوئے کہا۔۔۔۔
حنا اور بلال پریشان ہوتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔
بتائے نا ماما کہا ہے ہانیہ اپی۔۔
حور نے حنابیگم سے پوچھا جو حیرانی سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔وہ ہمت نہیں کر پارہی تھی کے وہ کسے حور کو ہانیہ کی بیماری کے بارے میں بتائے لیکن بتانا تو تھا۔۔
یہ دونوں ابھی ابھی ہسپتال سے آئے تھے ہانیہ آج دیسچارج ہوگئ تھی اس لئے حنان نے انہیں واپس بھیج دیا تھا اور وہ راستے میں تھے۔۔۔
بتائے نا ماما آپ بول کیوں نہیں رہی۔۔
حور نے پھر پوچھا۔۔۔
بیٹا وہ ہسپتال میں ہے۔۔حنا بیگم نے بہت مشکل سے کہا۔۔
ک ک کیا ہسپتال میں کیا ہوا اپی کو بتائے نا ماما۔۔حور نے بےتابی سے پوچھا۔۔
میں یہاں ہو حور۔۔۔
جب حنا بیگم بتانے ہی والی تھی کے ہانیہ اور حنان گھر میں داخل ہوئے۔۔۔
اپییییییی حور نے بھاگ کر اس کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔۔
آپ ہسپتال کیو گئ تھی حورعین نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
ارے وہ راستے میں کسی کا اکسیدیند ہوگیا تھا اس لئے اسے لے کر گئے تھے ۔۔
حنان نے بات بدلتے ہوئے کہا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کے حورعین کو کچھ پتا چلے۔۔
حنان تم اور اپی ساتھ میں۔۔۔
حورعین نے حنان اور ہانیہ کو ساتھ دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔
میں سب جان چکا ہو حور میڈم اور چھوڑو سب کچھ تم ایسا کرو یہاں آو اپنے بارے میں بتاؤ کہا تھی اب تک۔۔۔
حنان نے حورعین کو صوفے پر بیٹھاتے ہوئے کہا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گیا۔
کہا تھی تم اب تک جانتی ہو کتنا مس کیا تمھیں ۔۔ہانیہ نے اسکے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔
اپی مجھے کچھ یاد نہیں ہے بس اتنا یاد ہے کے میری گاڑی کا اکسیدیند ہوا تھا،
تو ایک عورت مجھے اپنے گھر لے گئی تھی انہوں نے میری ساری دیکھ بال کی اتنےمہنے مجھے کچھ یاد نہیں تھا یہ تو اج میری یاداشت واپس آئی اور میں اب یہاں گھر پہچی۔۔۔
حورعین نے جھوٹ بولا کیونکہ وہ ابھی نہیں چاہتی تھی کے گھر والوں کو پتا چلے کے وہ کہا تھی اور اس کی شادی ہوچکی ہے۔
وہ پہلے اس بوکس کے راز کو جاننا چاہتی تھی جس کی جلدبازی میں اسکا اکسیدیند ہوا تھا۔۔۔
اپی ابھی میں بہت تھک گئی ہو میں آرام کرنا چاہتی ہو پھر بات کرتے ہے۔۔۔حورعین اٹھی اور کمرے میں چلی گئ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں بھی چالتا ہو یانیہ گھر جا کر میں نے اپنے بہت سے سوالات کے جواب لینے ہے۔۔
انتی انکل آپ ہانیہ کو میری امانت سمجھ کر اپنے پاس رکھیے انشااللہ بہت جلد میں اسے پورہ عزت کے ساتھ اپنی بیوی بنا کر لے کر جاونگا ابھی اجازت دے۔۔۔
حنان نے بلال اور حنا سے اجازت لیتے ہوئے کہا۔۔۔اور چلا گیا۔۔
ہانیہ بہت کمزور نظر آرہی تھی۔ لیکن جب سے اس نے اپنی بیماری کے بارے میں سنا تھا وہ بہت تکلیف میں تھی اور اسے اسی بات کا در تھا کے جب حورعین کو پتا چلا تو کتنی تکلیف ہوگی اسے اور وہ اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔
ناجانے اور کتنی زندگی باقی تھی اس کی ۔۔
اس لیے یہ نہیں چاہتی تھی کے حنان کی زندگی اس کے ساتھ خراب ہو اس لیے اس نے حنان کو شادی کے لئے منا کردیا تھا کے وہ ایک بیمار لڑکی سے شادی نا کرے۔۔
لیکن حنان نے اسے سمجھایا کے وہ شادی کرےگا تو اسی سے ورنہ نہیں۔۔
جس وجہ سے ہانیہ کو اس کی ہاں میں ہاں ملانی پری۔۔
لیکن حنان اپکے پاپا نہیں مانے گے۔۔
ہانیہ نے پریشانی سے کہا۔۔
دیکھو ہانیہ مجھے تم سے شادی کرنی ہے مجھے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنا یے جو میں کر چکا ہو اب کوئی کچھ بھی کہے میں اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹوگا۔۔
تم بس اپنا خیال رکھو میں تمھیں بہت جلد ہمیشہ کے لئے اپنا بنالوگا ۔۔
حنان نے اسکا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا جا سکتا ہے وہ بوکس حورعین کمرے میں آئی اور وہ بوکس دھوندنے لگی جو اس نے کبرد میں رکھا تھا لیکن اب مل نہیں رہا تھا۔۔
یہ ڈھونڈ ہی رہی تھی کے دوسری کبرد میں پرا تھا۔۔
اس نے اس بوکس کو باہر نکالا اور بیڈ پر بیٹھ گئ۔۔اب اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کے کیا کوڈ بتایا تھا ریحان نے۔۔
کے اچانک سے دیکھا کے ار ایچ RH لیکھا تھا اس نے یاد آنے پر RHلیکھا کے ٹک کی آواز سے بوکس کھولا جس میں ایک میموری کارڈ تھا اس نے حیران یوتے ہوئے اس کارڈ کو دیکھا ۔۔
اس کارڈ میں کیا ہوسکتا ہے حور نے اس کارڈ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔۔
وہ جلدی سے اٹھی اور کبرد سے کارڈ ریدر نکالا اور اس میں کارڈ لگا کر اپنے لیپ ٹاپ پر لگایا۔
اب سکرین پر ایک فولدر تھا جس پر Rh ہی لیکھا تھا۔
۔اس نے جسے ہی وہ فولدر کھولا ہی تھا کے دروازے کی آواز سے اس نے لیپ ٹاپ کو بند کیا۔اور سائڈ پر رکھ کر لیٹ گئ۔۔۔
دروازہ کھول کر حنا بیگم اندر داخل ہوئی اور حورعین کے لئے کھانا لے کر آئی۔۔ ۔۔
حور بیٹا اٹھو کھانا کھالو انہوں نے دھیرے سے اسے جگایا۔۔
جی ماما میں کھالونگی ابھی دل نہیں۔۔
حور نے بند آنکھوں سے ہی کہا۔۔
اوکے میری بچی کھالینا حنا بیگم نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور چلی گی۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...