وہ کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی جبھی امی نے آکر اسے اطلاع دی کے ماروی آئی ہے ۔۔
ماروی ۔۔حارث ۔۔۔وہ بڑ بڑاتے ہوئے تیر کی سی تیزی سے اٹھ کر کمرے کا سامان سمیٹنے لگی ۔۔کچھ الماری میں ٹھونسے اور کچھ بیڈ کے نیچے دبائے ۔۔۔
شیطانوں کا شیطان حارث جو آیا تھا ۔۔۔
وہ پھولتی سانس کے ساتھ بیڈ پر ڈھیر ہو گئی ۔۔۔۔
امل ۔۔۔ماروی کی آواز پر وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی ۔۔بالوں کو ہاتھ سے اچھی طرح جماتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
خالہ ۔۔۔حارث بھاگتا ہوا اس سے لپٹ جاتا اس سے پہلے وہ سامنے سے ہٹ گئی جبھی حارث بروقت سمبھل نہ پایا ۔۔لڑہکتا ہوا زمین بوس ہو گیا ۔۔
ہا ۔۔۔ کیسی ڈائن ہو میرا بچہ تمہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔۔چوٹ لگا دی منے کو ۔۔ماروی روتے حارث کو اٹھاتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔
یہ بچہ کم۔۔۔ فٹ بال زیادہ ہے ۔۔اگر میرے اوپر گر جاتا میری ہڈی وڈی ٹوٹ جاتی تو ۔۔۔
قسم سے میرے بچے کو تو تم نے نظر لگا دی ہے کتنا کمزور ہو گیا ہے ۔۔بس ٹھیک ہے آئندہ میں آؤں گی ہی نہیں جب میں اور میرا بچہ تم لوگوں کو ایک آنکھ بھاتا نہیں تو ۔۔۔ماروی نے ناراضگی سے منہ موڑتے ہوئے الٹے قدم واپسی کی راہ اختیار کی ۔۔
افف ۔۔۔۔اب میں نے کیا کیا ۔۔۔۔؟ وہ زچ ہوتے ہر پیر پٹختے ہوئے انکے پیچھے چل دی ۔۔۔۔
۔*************۔
وہ فون میں مصروف کانوں میں ہینڈ فری لگائے بلکل گانے میں کھوئی ہوئی تھی جبھی ایک جھٹکے سے حدید نے گاڑی کا بریک دبایا ۔۔۔
اندھے ہو بلکل ۔۔۔گاڑی چلانے بھی نہیں آتی ۔۔۔وہ اپنی پیشانی کو مسلتے ہوئے حدید پر بھڑک اٹھی ۔۔۔۔
اگر اتنا اندھا ہوتا نہ تو سامنے سڑک پر پڑی لاش کیوں نظر آتی ۔۔وہ سڑک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے طنزیہ کہنے لگا ۔۔
لاش ۔۔۔۔تابی نے حیرانگی سے سامنے دیکھا ۔۔۔جہاں ایک آدمی منہ کے بل زمین پر پڑا تھا ۔۔۔
ارے چل کر دیکھو ۔۔۔تابی نے حدید سے کہا ۔۔۔
قسم ہے ۔۔۔رات کے اس پہر ۔۔۔سنسان سڑک کے بیچ کسی لاش کا پڑے رہنا ۔۔بلکل ہارر فلم جیسا لگتا ہے ۔۔۔ڈر کے مارے حدید کی آواز کانپنے لگی ۔۔
تم ڈرا کیوں رہے ہو ۔۔۔۔مرد بنو ۔۔۔تابی پیشانی کا پسینہ صاف کرتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔
تو تم عورت بن جاؤ ۔۔۔حدید نے تابی پر طنز مارا ۔۔۔
کانپتے ہاتھوں کے ساتھ وہ دروازہ کھولتی ہوئی باھر جانے لگی ۔۔
ویران سڑک پر ہوا کی زن زناہٹ کی وجہ سے خوف بڑھنے لگا ۔۔۔
وہ ہولے ہولے سے قدم اٹھاتی ہوئی اسکے قریب جانے لگی جبھی حدید کو شرارت سوجھی ۔۔
وہ گاڑی سے اترتے ہوئے تابی کے پیچھے جاتے ہوئے ٹھاہ ۔۔۔کی آواز نکالی ۔۔۔جبھی تابی ڈر کے مارے چیخ لگاتی ہوئی الٹے قدم بھاگنے لگی ۔۔۔جبھی حدید کو گدھوں کی طرح ہنستے دیکھ کر وہ کڑے تیور لئے اسکی جانب لپکی ۔۔
گدھے ڈرا دیا مجھے ۔۔وہ حدید پر مکوں کی برسات کرتے ہوئے بولی ۔۔۔
کیا ہوا ۔۔۔میں تو مذاک کر رہا تھا ۔۔۔۔
چلو اس بیچارے کو چل کر دیکھو تو کہیں اسکی روح نکل کر ہمیں نچوائے نہ ۔۔۔
اب تم خود جاؤ ۔۔۔میں نہیں آؤں گی ۔۔۔صاف الفاظوں میں تابی نے منا کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
لیکن تم مجھے نہ ڈرانہ ۔۔۔وہ جاتے ہوئے اسے وارن کر گیا ۔۔۔
حدید نے جھکتے ہوئے جونہی اسے پلٹا ۔۔چیخ لگاتے ہوئے وہ سیدھا ہوا ۔۔اسکی چیخ پر تابی بھی چیخ لگاتے ہوئے دور جا کھڑی ہوئی ۔۔۔
ارے ۔۔۔یہ تو نوبیتا پارٹ ٹو ہے ۔۔۔میرا مطلب ہے یہ تو باسط ہے ۔۔۔
کیا ۔۔۔۔؟ باسط ۔۔۔۔وہ جلدی سے آگے کی جانب بھاگی جہاں باسط خون میں لت پت بیہوش پڑا تھا ۔۔
ہا ۔۔۔۔یہ یہاں کیسے ۔۔۔اور اسے ہوا کیا ہے ۔۔وہ منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے دور ہٹتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔
اسے دیکھنے سے تو لگتا ہے کہ کسی نے لاتوں اور مکوں کے ساتھ اس پر تشدد کیا ہے ۔۔۔اسکے سر کی چوٹ کو دیکھتے ہوئے حدید نے جواب دیا ۔۔۔
چلو چلو ۔۔نکلو یہاں سے ۔۔۔کسی کی دشمنی میں بلاوجہ ہم کیوں مارے جائیں ۔۔۔تابی نے اسے بازو سے کھینچتے ہوئے کہا ۔۔۔
پاگل ہو تم ۔۔۔اسے ہم ایسی حالت میں کیسے چھوڑ سکتے ہیں ۔۔۔
حدید کا یہ کہنا تھا جبھی باسط کراہتے ہوئے بڑبڑانے لگا ۔۔۔
انسانیت کے ناطے ہمیں اسے ہسپتال لے جانا ہوگا ۔۔۔آؤ میری مدد کرو ۔۔۔حدید نے اسے شرم دلانا چاہی ۔۔۔
۔**********۔
باسط کا انتظار کرتے کرتے برآمدے میں پیلر کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اسے نیند نے اپنی آغوش میں آلیا ۔۔۔
اچانک دروازے کی آواز پر اسکی آنکھ کھلی ۔۔
اس نے مندی مندی آنکھوں کو کھولتے ہوئے دروازے کی جانب دوڑ لگا دی ۔۔۔
دروازہ کھولتے ہی اسکی پہلی نگاہ باسط پر پڑی ۔۔۔
پیشانی پر پٹی ۔۔بندھی ہوئی ۔۔چہرے پر زخموں کے کئی نشان ۔۔۔
بھائی ۔۔۔یہ سب کیا ہے ۔۔۔مناہل تڑپ اٹھی اس نے وہیں کھڑے کھڑے رونا شروع کر دیا ۔۔
حدید جس کو نیند نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا ۔۔با مشکل ہی اس نے پوری آنکھیں کھولتے ہوئے سامنے روتی ہوئی مناہل پر نظریں جماتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔
ساری کہانی کل پوچھ لینا ۔۔فلحال تو اسے اندر لے جاؤ ۔۔ورنہ میں یہی لیٹ جاؤں گا ۔۔۔
حدید کی آواز سنتے ہی اس نے اچھی طرح سے دوپٹے کو سر پر جماتے ہوئے باسط کو بازو سے پکڑتے ہوئے اندر لے جانے لگی جبھی اسکے قدم لڑکھڑائے ۔۔۔
قسم ہے اتنے قد بت کے ساتھ تم ایک بندے کو بھی نہ سمبھال پاؤ تو تف ہے ۔۔حدید نے بر وقت اسے سمبھالتے ہوئے کہا ۔۔۔
مناہل کی بھنویں تن گئی ۔۔جبھی وہ نظر انداز کرتی ہوئی آگے بڑھ گئی ۔۔
۔***********۔
صبح آنکھ کھلتے ہی اس کے ذہن میں ایک ترقیب آئی ۔۔
جلدی سے فریش ہوتے ہوئے اس نے ترقیب پر عمل کرنا چاہا ۔۔
تم نے ہی تو کہا تھا نہ کہ میں بد تمیز ہوں ۔۔
اب آنکھوں کو مت ڈھانپ خود کو بدلتا ہوا دیکھ ۔۔
وہ سر پر بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا مسکراتا ہوا بائیک کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔
۔***********۔
رات کے پچھلے پہر نہ جانے کس وقت اسکی آنکھ لگی ۔۔۔
اور اب دن چڑھے اسکی آنکھ کھلی تھی ۔۔
الارم کے بجتے ہی وہ کرنٹ کھاتے ہوئے اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔
اس نے وقت دیکھا جہاں گھڑی 9 بج کر دس منٹ بتا رہی تھی ۔۔۔
وہ حیران ہوتے ہوئے بال سمیٹنے لگی ۔۔
کمال کی بات یہ ہے کہ آج اماں اپنے چنگیز خان کے روپ میں اٹھانے نہیں آئیں ۔۔۔ذرا پتا تو کروں ۔۔۔وہ کمرے سے باھر جانے لگی ۔۔
جبھی جاتے جاتے پلٹی ۔۔پہلے تیار ہو جاؤں ورنہ دیر ہو جائے گی ۔۔یہ سوچتے ہوئے وہ وارڈ روب کی جانب بڑھی ۔۔
جونہی اس نے وارڈ روب کھولا ۔۔نت نئے شلوار قمیض کے ساتھ لمبا سا دوپٹہ دیکھ کر وہ حیران رہ گئی ۔۔
اس نے ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے تصدیق کرنا چاہی کہ یہ میرا کمرہ ہے ۔۔۔
لیکن میرے کپڑے کہاں گئے ۔۔وہ ایک ایک جوڑے کے بیچ ٹٹولتے ہوئے بڑبڑانے لگی ۔۔جب غصہ سر سے پار ہونے لگا جبھی وہ چیختی ہوئی باھر کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔
۔***********۔
وہ سب سے بےخبر گدھوں کی طرح سویا پڑا تھا جبھی مسلسل رنگ کے بجنے پر اسنے آنکھیں بند کئے ہوئے کان سے لگایا ۔۔۔
ہیلو ۔۔۔
ہیلو ۔۔۔آواز نہ پاکر اسنے ہیلو کہتے ہوئے ہاتھ کو دیکھا جہاں فون کے بجائے اس نے الارم کان سے لگایا ہوا تھا ۔۔۔
دھک تیرے کی فون کہاں گیا ۔۔۔
بڑبڑاتے ہوئے اسنے دوبارہ تکیئے پر سر رکھا تھا جبھی تابی کی چنگھاڑتی ہوئی آواز اسکے سماعت پہنچی ۔۔
کیا مصیبت ہے ۔۔۔وہ آنکھوں کو رگڑتا ہوا فریش ہونے کے لئے آگے بڑھ گیا ۔۔
میرے کپڑے کہاں ہیں۔ کوئی بتائے گا مجھے ۔۔۔۔۔۔
اپنے کمرے میں دیکھو ہمیں کیا پتا ۔۔۔۔اماں نے صاف صاف کہہ دیا ۔۔
مطلب کمرے میں کپڑے ہیں پر میرے نہیں ہیں ۔۔وہ زچ ہوتے ہوئے بولی ۔۔
تو پھر کیا جن کے ہیں ۔۔۔۔اماں نے کہا ۔۔
امی میرے ساکس نہیں مل رہے کہاں ہیں ۔۔۔؟نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے آنکھیں لال ۔۔۔نک۔ سک سا تیار حدید گھڑی پہنتے ہوئے بولا ۔۔۔
لو اب اسکے ساکس غائب ۔۔
کون سی آفت آئی تھی رات گھر میں جو سب کی چیزیں غائب ہیں ۔۔۔
جلدی سے ڈھونڈ کر دیں ۔۔دیر ہو رہی آج پیپر ہے ۔۔
ہاں پیپر تو میرا بھی ہے مجھے بھی بتائیں ۔۔یاد آنے پر تابی بولی ۔۔
کیوں اپنی اس جانوں ۔۔مانوں سے پوچھو ۔۔سارا دن جسے ہاتھ میں اٹھائے پھرتے ہو ۔۔۔سرچ کرو گوگل پر ۔۔
Where is my socks ۔۔۔?
لوکیشن ڈالو نہ گوگل پر ۔۔۔
طائی جان نے اسے شرم دلانا چاہی ۔۔۔
گڈ آئڈیا ۔۔۔۔یہ کہتے ہی جونہی اسنے جیب میں ہاتھ ڈالا ہی تھا موبائل نکلنے کے لئے جبھی جابھی وہ ٹھٹھکا ۔۔۔
موبائل ۔۔۔۔۔او تیری خیر ۔۔۔۔۔اسنے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔۔
کیا ہوا ۔۔۔؟ تینوں نے بیک وقت پوچھا ۔۔۔
میری جان میرا موبائل ۔۔۔رونی صورت بناتے ہوئے اس نے باھر کی جانب دوڑ لگا دی ۔۔۔۔
۔**********۔
باسط کی طبیعت ابھی سمبھلی تھی مگر پھر بھی سر میں درد کی ٹیس اٹھ رہی تھی ۔۔۔
مناہل کے لاکھ منا کرنے کے باوجود بھی وہ یونی جانے کے لئے تیار ہونے لگا ۔۔ذہن میں بیشمار سوالات نے جنم لینا شروع کیا کہ آخر رات کون لوگ تھے جنہوں نے بیچ راستے میں اس پر حملہ کر دیا ۔۔۔
اسکی سوچوں کا تسلسل دروازے کے بجنے پر ٹوٹا ۔۔
وہ ناشتہ بنا کر صحن کی صفائی کرنے لگی تھی جبھی دروازے پر اسے فون پڑا ملا ۔۔۔
اسنے الٹ پلٹ کر دیکھنا چاہا ۔۔
فون تو بڑا مہنگا والا ہے مگر یہ ہے کس کا ۔۔۔۔وہ سوچنے لگی ۔۔
بھائی سے پوچھتی ہوں ۔۔۔جونہی وہ جانے لگی تھی جبھی زور زور سے دروازہ بجنے لگا ۔۔مانو کوئی آفت آگئی ہو۔۔۔
اس وقت کون ہے ۔۔۔وہ جھنجھلاتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھی ۔۔۔
جونہی دروازہ کھولا ۔۔سامنے حدید کو دروازے پر براجمان دیکھ کر وہ ٹھٹھکی ۔۔۔
سامنے سے ہٹو لڑکی ۔۔۔۔وہ پھولتی سانس کے ساتھ گویا ہوا ۔۔
ایسے کیسے آپ زبردستی کسی کے گھر گھس سکتے ہیں ۔۔۔مناہل کو رات والی اپنی بے عزتی یاد آنے لگی جبھی وہ کڑھتے ہوئے بولی ۔۔۔
او مس ۔۔۔جتنا آپکا یہ گھر ہے نہ اس سے کئی زیادہ مہنگا میرا فون ہے ۔۔اور وہی ڈھونڈنے میں آیا ہوں ۔۔وہ مضبوط لہجے کے ساتھ گویا ہوا ۔۔
فون ۔۔۔وہ ٹھٹھکی ۔۔یہ ۔۔ وہ دوپٹے میں چھپایا ہوا ہاتھ باہر نکالتے ہوئے کچھ کہنے لگی ۔۔
آ ۔۔۔یہ میرا ہے ۔۔پر تمہیں کہاں سے ملا ۔۔۔؟حدید اسکے ہاتھ سے موبائل جھپٹتے ہوئے بولا ۔۔
آ ۔۔میں جان گیا ۔تم نے کل رات میری جیب سے نکال لیا ہوگا ۔۔اسکے بولنے سے پہلے ہو حدید نے کہا ۔۔
کیا ۔۔۔میں ایسا کیوں کروں گی ۔۔اور مجھے تو پتا بھی نہیں کہ یہ آپکا ہے یہ کسی اور کا ۔۔۔مناہل کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ۔۔۔
آ ۔۔اتنی نازک ہو تم کہ میرے مزاق کرنے پر بھی رونے لگی ۔۔۔ارے ان لڑکیوں کو دیکھو نہ جنکو گالی دو تو بھی فرق نہیں پڑتا ۔۔
مہربانی کر کے جائیں یہاں سے ۔۔۔پتا نہیں کیسے کیسے لوگ کس شکل میں آجاتے ہیں ۔۔۔۔
او ہیلو ۔۔۔بہت اچھی شکل ہے میری ۔۔اور بہت شریف اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں میں ۔۔۔شریف خاندان کے لڑکے یوں غیروں کے گھر دندناتے نہیں پھرتے ۔۔۔مناہل کے کہنے پر حدید کو چپ لگ گئی ۔۔۔
کون ہے گڑیا ۔۔۔۔۔باسط نے وہی سے پوچھا ۔۔۔
کچھ نہیں بھائی ۔۔شاید کوئی فقیر تھا اپنی کھوئی ہوئی چیز یہاں ڈھونڈنے نکلا تھا ۔۔۔مناہل نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا ۔۔۔جو حدید نے با آسانی سن لیا تھا ۔۔صدمہ تو اسے اپنے فقیر پکارے جانے پر ہوا تھا ۔۔۔
۔***********۔
مجبوراً اسے وہ کھلی شلوار قمیض کے ساتھ لمبا دوپٹہ اوڑھ کر یونی میں داخل ہونا ہی پڑا ۔۔
سب سے پہلے تو امل کو حیرت ہوئی وہ سارے راستے اسے تنگ کرتی آئی ۔۔
امل ۔۔یہ سب مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں ۔۔کیا میں اتنی بری لگ رہی ہوں ۔۔؟ تابی نے آس پاس کے سٹوڈنٹس کو دیکھتے ہوئے امل سے پوچھا جو سب پیپر کی ٹینشن اور اپنے کام چھوڑ کر تابی کو دیکھ کر حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا ۔۔۔وہ لڑکی جو تنگ کپڑے پہنے ۔۔ہر کسی کی نظروں رقص کرتی تھی آج اسکا حلیہ ہی بدلہ ہوا لگا ۔۔۔
ویسے ایک بات بتاؤں ۔۔۔۔؟ امل نے اسکے کان میں سر گوشی کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
تابی نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔
تم ان کپڑوں میں اور بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔۔ہلکا گرے رنگ تمہاری شخصیت کو اور بھی نکھار رہا ہے ۔۔۔
بس زیادہ بونگیاں نہ مارو ۔۔۔یہ میرا پہلا اور آخری دن ہے ان کپڑوں میں ۔۔۔
وہ جو نہ جانے کب سے سیڑھیوں پر بیٹھا تابی کے انتظار میں تھا ۔۔کہ نا جانے آج اسے کس روپ میں دیکھنا پڑے ۔۔جونہی امل کے ساتھ باتیں کرتی ہوئی تابی اسے نظر آئی ۔۔وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
اسکا جائزا لیتے ہوئے وہ پوری طرح اس میں کھو گیا ۔۔اسے اپنا پلین دس فیصد کامیاب ہوتے نظر آیا ۔۔
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے اسکی جانب بڑھنے لگا ۔۔
حزیفہ کا اشارہ سمجھتے ہوئے امل نے دوسری راہ اختیار کر لی ۔۔۔جبھی وہ تابی کے راستے میں رکاوٹ بنا ۔۔۔
وہ اس پر ایک طنزیہ نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھنے لگی جبھی وہ اسکے راستے میں حائل ہوتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔
کون سے بوتیک سے نئے سٹائل کے کپڑے بنوائے ۔۔۔۔؟
تمہیں اس سے کیا مسلہ ہے ۔۔؟ میں وہ کڑھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔
مجھے کچھ خاص اچھے نہیں لگے اس لئے ۔۔۔وہ آنکھوں میں شرارت لئے ہاتھ باندھتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔
لیکن مجھے بہت پسند آئے ۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اعتماد سے کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔۔وہ جانتا تھا اگر وہ اسکی تعریف کرتا تبھی وہ اس طرح کے کپڑے پہننا ہی چھوڑ دیتی ۔۔ضدی تو وہ بچپن سے تھی ۔۔۔
۔***********۔
پیپر ختم ہونے کے بعد سب نے سکھ کا سانس لیا تھا ۔۔۔مگر ابھی کہاں آج تو پہلا پیپر تھا اب تو پورا ویک باقی تھا یہ سوچتے ہوئے انکا دل دہل جاتا ۔۔۔
ہے تمہیں کیا ہوا ۔۔۔لنگڑاتے ہوئے زخمی باسط پر نظر پڑی جبھی وہ اس کے پاس جاتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔
کچھ نہیں بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ تھا ۔۔اپنا سامان سمبھالتے ہوئے اس نے جواب دیا ۔۔۔
سامان سمبھالتے ہوئے وہ لڑکھڑایا جبھی امل اسکے بازو سے تھامتے ہوئے گویا ہوئی ۔۔۔
آرام سے ۔۔۔
وہ اس جھلی کو دیکھنے لگا جو اپنا سامان سائیڈ پر رکھ کر اسکی مدد کر رہی تھی ۔۔۔
واؤ نائس کپل جوڑی ۔۔۔ہاں ۔۔بیسٹ اف لک ۔۔۔۔پاس سے گزرتے ظفر کے اس طرح کہنے پر سامنے سے آتے حزیفہ کو غصہ آنے لگا ۔۔۔
تیزی سے اس نے باسط کا ہاتھ امل سے چھڑاتے ہوئے خود سہارا دے کر اسے ایک جگہ بٹھا دیا ۔۔۔
آئندہ تم مجھے اس طرح نظر نہ آؤ ۔۔۔ورنہ ۔۔۔
کیا ورنہ ۔۔۔کیا کر کو گے تم ۔۔اور یہ کس لہجے میں بات کر رہے ہو تم باسط سے ۔۔۔حزیفہ کی دھمکی سنتے ہے تابی کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔۔غصے سے وہ پھٹ پڑی ۔۔۔۔
میں تم سے بات نہیں کر رہا ۔۔۔۔باسط کی طرف داری کرتے دیکھ کر حزیفہ کو تابی پر اور غصہ آنے لگا ۔۔
واہ واہ ۔۔تم تو کسی ریاست کے شہزادے ہو نہ جیسے ۔۔۔کچھ بھی بولو گے ہم سنتے رہیں گے ۔۔اور اگر ہم کچھ بول دیں تو ہم گندے ہے نہ ۔۔۔وہ طنزیہ انداز میں کہنے لگی ۔۔۔
حزیفہ ضبط کی آخری حدوں کو چھو رہا تھا ۔۔
مجھے تو لگتا ہے کہ اسکی اس حالت کے ذمہ دار بھی تم ہو ۔۔تم نے ہی اسے مارا ہے ۔۔۔تاکہ میں اس سے بات نہ کروں ۔۔۔
وہاٹ ۔۔۔۔؟باسط اور امل کے ساتھ حزیفہ کو بھی حیرت کا جھٹکہ لگا ۔۔۔
یہ تم کیا بکواس کر رہی ہو ۔۔۔۔؟ وہ دو قدم آگے آتے ہوئے بولا ۔۔
میں بکواس نہیں سچ بتا رہی ہوں ۔۔۔جو تمہیں بہت چبھ رہا ہے ۔۔۔وہ اس انداز سے کہنے لگی کہ ناچار حزیفہ کا ہاتھ تابی کا گال لال کر گیا ۔۔
سب ششدر رہ گئے ۔۔۔
میں کب سے تمہاری بکواس برداشت کر رہا ہوں صرف اس لئے کہ تم لڑکی ہو ۔۔۔
مگر لڑکیاں تم جیسی تیز زبان اور بدتمیز ہر گز نہیں ہوتیں ۔۔۔جو مرد اور عورت کی تمیز کرنا نہ جانتی ہو ۔۔۔جسے اپنے مذہب کے اصول کے بارے میں علم نہ ہو ۔۔۔جو ننگے سر کہیں بھی دندناتی پھرتی ہو ۔۔۔بے وجہ کسی نا محرم کے ساتھ ناجائز تعلقات استوار کرے ۔۔۔
عورت تو اسے کہتے ہیں جو ساتھ پردوں میں خود جو چھپاکر رکھے ۔۔۔ننگے سر اگر وہ یوں دندناتی پھرے نہ تو شیطان کی لعنتوں لی حقدار ہے وہ عورت ۔۔جس طرح تم ۔۔۔
وہ اسے بتا نہیں اس پر زہر اگل رہا تھا جو شرمندگی کے باعث منہ پر ہاتھ رکھے اسے گھورے جارہی تھی ۔۔۔
۔***********۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...