زارا ہاسٹل آئی تو علیشہ پہلے سے ہی پہنچی ہوٸی تھی۔
سوری یار میں بہت بزی تھی اسلیے نہیں آ سکی۔
کوٸ بات نہیں زارو میں ناراض تھی مگر آج میں بہت خوش ہوں ۔ اسلیے جاٶ معاف کیا۔
چلو شکر ہے ویسے اتنی خوشی کی وجہ کیا ہے ہممم؟؟؟
وجہ یہ ہے۔۔۔۔
وہ جیکٹ اسکے سامنے کرتے ہوۓ بولی۔۔۔۔
ہااااا عالی یہ تمہارے منہ کو کیا ہوا۔۔۔۔
وہ حیرانی سے اسکے منہ کو دیکھ رہی تھی جہاں زخموں کے نشان تھے۔
اوفوہ یہ دیکھو نہ معاذ جیکٹ پھینکی تھی اور میں نے کیچ کر لی سبھی لڑکیاں مجھ پر جھپٹی تھیں مگر میں نے کسی کو لینے نہیں دی تو بس تبھی یہ زخم آ گۓ۔
اور زارا اسے افسوس سے دیکھ کر رہ گٸ جو لڑکی ایک دانہ نکل جانے پہ گھنٹوں پریشان رہتی تھی آج چہرے پہ بے فکری سے نشان لیے بیٹھی تھی۔
عالی کو اتنا جنونی ہوتا دیکھ زارا نے شکر کیا کہ اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ معاذ چوہدری کی باڈی گارڈ ہے۔
ورنہ وہ اس کا کیا حشر کرتی زارا نے نہ بتانے میں ہی اپنی بہتری سمجھی۔
وہ واک کے لیے نکلی ہوٸ تھی عالی کو کوٸ سیمینار اٹینڈ کرنا تھا سو وہ اکیلی ہی آ گٸ تھی۔
کمپنی کی طرف سے زارا کو اپارٹمنٹ ملا تھا اب وہ آذادی سے آ جا سکتی تھی۔ اسے ہاسٹل ویسے بھی پسند نہ تھا۔
یونہی ٹہلتے ٹہلتے اسے جوس کا ڈبہ پڑا دکھاٸ دیا۔
اس کا ارادہ پٹاخہ بجانے کا تھا۔ جیسے ہی اس نے اچھل کر اس پہ پاٶں رکھا۔۔۔۔
واٹ دا ہیل از دس۔۔۔۔۔
مردانہ آواز پہ وہ مڑی تھی۔۔۔
اور اس وقت اپنے غاٸب ہو جانے کی دعا کی تھی۔
ڈبہ جوس سے بھرا ہوا تھا اور وہ جوس معاذ کی شرٹ پہ نقش و نگار بنا گیا تھا۔
آآآ آٸ ایم ایم سو سوری مجھے پتا نہیں تھا ام رٸیلی ویری سوری۔۔۔۔
واٹ سوری آپ کو چلنے کی تمیز نہیں ہے بیچ سڑک میں ایسے بندروں والی حرکتیں کر کے آپ لوگوں کو کیوں پریشان کر رہی ہیں۔
چھوٹی بچی ہیں کیا آپ جو اس طرح اچھل کود کر رہی ہیں۔
معاذ کا موڈ آف ہو گیا تھا۔
اسے فلم کی شوٹنگ کے لیے صبح ہی پہنچنا تھا کہ راستے میں اسکی گاڑی خراب ہو گٸ۔
سیٹ پاس ہی تھا سو اس نے خود کو کور کیا اور پیدل چل دیا۔رش کم تھا وہ جلد از جلد پہنچنا چاہ رہا تھا مگر اب اس کے کپڑوں کا بیڑا غرق ہو چکا تھا۔
زارا اس کے ماسک کے باوجود اسے پہچان گٸ تھی اسکی آواز سے اور پھر ایسا ایٹیٹیوڈ تو پوری دنیا میں ایک ہی انسان دکھا سکتا تھا۔
وہ خود کو فوراً کمپوز کرتے بولی۔۔۔۔
دیکھیں مسٹر یہ روڈ آپکی نہیں ہے۔ اور میں آپکو سوری کر چکی ہوں اور باۓ دا وے آپکو کس نے کہا کہ آپ میرے پیچھے پیچھے چلیں۔۔۔۔
زارا لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر بول رہی تھی۔
دیکھیے مس۔۔۔۔
جی میں دیکھ ہی رہی ہوں اندھی تو ہوں نہیں پتا نہیں کہاں کہاں سے اٹھ کر آ جاتے ہیں۔۔۔۔
اس نے وہاں سے فوراً بھاگنے کی کی۔
جبکہ معاذ غصے سے دانت پیس کر رہ گیا۔ اس نے کال کر کے آنے سے منع کر دیا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
گڈ مارننگ سر۔۔۔۔
گڈ مارننگ۔۔۔
حماد ساری میٹنگز کینسل کر دو آج کی۔۔۔۔۔
مگر سر۔۔۔
میں نے کہہ دیا نہ۔۔۔
اوکے سر۔
حماد باہر آ گیا۔
کیا ہوا آپ پریشان ہیں کیا۔۔۔؟؟؟؟
کچھ نہیں سر نے آج کی ساری میٹنگز کینسل کر دی ہیں۔
کیوں خیریت۔۔۔۔
ہاں انکا موڈ تھوڑا خراب ہے آج پتا نہیں صبح صبح کیا ہو گیا ایسے کرتے تو نہیں ہیں کبھی۔
اور یہ تو زارا ہی جانتی تھی کہ ایسا کیا ہو گیا تھا خیر اسکی بلا سے۔
معاذ کے گھر میں اسے آذادی تھی سو وہ ٹی وی لگا کر بیٹھ گٸ۔
حماد کو ضروری کام سے جانا پڑ گیا تو وہ چلا گیا۔۔۔
اب زارا میڈم ریموٹ لیے چینل سرچنگ میں مصروف تھیں۔
حماد حماد۔۔۔۔
سر وہ تو چلا گیا ہے آپ سے پوچھ کر ہی تو گیا تھا۔
اوہ میں بھول گیا۔
تم ایسا کرو کافی بنا دو۔۔۔
مگر سر مجھے تو کافی بنانی نہیں آتی۔۔۔۔
مطلب تمہیں کھانا بنانا بھی نہیں آتا ہو گا۔۔۔۔
نہیں سر۔۔۔۔
اوہ وہ ایکچوٸلی حماد کھانا بھی بنا لیتا ہے نہ تو مجھے شیف رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کبھی۔
ایسا کر لو باہر سے آرڈر کر لو کچھ بھی اچھا سا۔
جی ٹھیک ہے سر۔۔۔۔
معاذ اپنے امپلاٸز کے ساتھ ایسے ہی نرم خو تھا۔
خیر وہ تو سب کے ساتھ ہی پولاٸٹ تھا بس ذرا ریزرو نیچر کا تھا۔
وہ کمرے میں چلا گیا تو زارا نے اپنا فیورٹ پیزا آرڈر کیا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
سیمینار جاری تھا ٹی بریک ہوا تو علیشہ اٹھ کر باہر آ گٸ وہ زارا کو کال کر رہی تھی کہ اگر وہ فری ہو تو اسے آ کر لے جاۓ۔
اسے کال گرتے ہوۓ وہ کینٹین کی جانب بڑھ گٸ اور ایک کپ چاۓ لی۔
وہ چاۓ لیے ساتھ میں فون پر بزی چل رہی تھی۔۔۔۔
آٶچ۔۔۔۔۔۔۔
فون پر جھکے چلتے ہوۓ وہ کسی سے ٹکرا گٸ اور گرما گرم چاۓ اگلے بندے پہ الٹ گٸ تھی۔۔
آآ آٸ ایم سو سوری سر میں میرا دھیان نہیں تھا۔
علیشہ بوکھلاٸ ہوٸ تھی۔
جس بندے پہ اس نے چاۓ گراٸ تھی۔وہ کوٸ اور نہیں پروفیسر داٶد تھا۔۔۔
جو آج کے سیمینار کے لیے لندن سے آیا تھا۔
یہ ینگ اینڈ ہینڈسم پروفیسر سبھی کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔
ہاۓ کتنا ہینڈسم لگ رہا تھا وہ بولتے ہوۓ۔ اور اب علیشہ اس پہ چاۓ گرا کر اسے جلا چکی تھی۔
جلن کی شدت برداشت کرتے ہوۓ وہ اسے ایک نظر دیکھ کر وہاں سے نکل گیا اور علیشہ سر پکڑ کر بیٹھ گٸ۔
اس کا اس یونیورسٹی سے نکالا جانا تو پکا تھا۔
کتنے مہینوں کی کوششوں کے بعد تو وہ پاکستان سیمینار کے لیے راضی ہوا تھا اور اب علیشہ نے اس کے ساتھ یہ کر دیا تھا۔ وہ تو شکر تھا کہ انہیں کسی نے دیکھا نہ تھا ورنہ تو علیشہ کی شامت پکا تھی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
ٹی بریک ختم ہو گٸ تھی لیکچر دوبارہ سٹارٹ ہو چکا تھا مگر اب کہ داٶد سٹیج پر نہیں تھا وہ جا چکا تھا۔
علیشہ کو شرمنگی نے آن گھیرا تھا ساتھ ہی اسے اپنا مستقبل ڈوبتا نظر آرہا تھا۔ یہ پریشانی بھی تھی اب یا تو وہ پریشان ہو سکتی تھی یا شرمندہ۔
تو فلحال وہ صرف پریشان تھی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
زارا نے معاذ کے لیے پیزا ڈش آٶٹ کیا اور ٹرے اسکے کمرے میں لے گٸ۔
ارے زارون باہر ٹیبل پر لگاٶ میں وہیں آ رہا ہوں مل کر کھاتے ہیں۔
جی ٹھیک ہے سر۔
وہ ٹیبل پر لگا کر معاذ کا انتظار کرنے لگی۔
معاذ آ کر بیٹھا تو اس نے اس کے آگے رکھا۔
بیٹھو اور تم بھی کھاو۔ وہ بڑھنے ہی لگی تھی کہ۔۔۔
نہیں سر مجھے بھوک نہیں ہے۔
وہ معاذ کے سامنے نقاب نہیں اتار سکتی تھی۔
ارے مگر تم نے اپنی مرضی سے پیزا منگوایا ہے تو کھا لو نہ۔۔۔
نن نہیں سر وہ تو میں نے آپ کے لیے منگوایا تھا مجھے تو بالکل بھوک نہیں ہے۔
شیور۔۔۔
جی سر۔۔۔۔ وہ معاذ کو للچاٸ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ پیزا اس کا فیورٹ تھا اور بھوک کے مارے اس کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔
آج اسکا جاب کو لات مار کر جانے کا دل چاہ رہا تھا۔
ہاۓ کیا بے بسی تھی۔
معاذ کھا کر اٹھا ہی تھا کہ اس کی ضروری کال آ گٸ۔ وہ اٹھ کر ٹیرس میں چلا گیا۔
زارا نے شکر پڑھا ابھی وہ پیزا باکس اٹھانے ہی والی تھی کہ معاذ چلا آیا۔
زارون اس سب کو چھوڑو ہمیں ابھی جانا ہے۔
جی سر۔۔۔۔ بے چارگی سے کہتی پیزا کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتی وہ باہر نکل آٸ۔
پھر سارا دن معاذ کے ساتھ ہی وہ رہی اسے وقت ہی نہ ملا کہ کچھ کھا سکتی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
عالی عالی کہاں ہو یار۔۔۔۔۔۔۔
میں تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈ رہی ہوں اور تم یہاں بیٹھی ہو۔۔۔۔
کیا بات ہے عالی پریشان کیوں ہو؟؟؟؟
زاروو ایک پنگا ہو گیا ہے۔۔
علیشہ ناخن چباتی بولی۔
وہ دونوں اس وقت ٹیرس پر بیٹھی ہوٸی تھیں۔
ہوا کیا ہے۔۔۔؟؟؟ اور نکالو ہاتھ جب دیکھو ناخن چباتی رہتی ہو۔۔۔
یار زارووو وہ آج۔۔۔۔۔ پھر اس نے آج کا سارا قصہ اسے سنایا۔
ہمممم ہے تو پریشانی والی بات اب تم ہمارےملک میں مہمان آۓ بندے پہ اتنا ظلم کر دیا ہے اماں یا پھر چچی اماں کو پتا چلتا اگر کہ کہ انکی ہونہار اور قابل بیٹی نے ایسا کارنامہ کیا ہے تو انہیں کیسا لگتا میری تو خیر ہے میرا تو ان کو بچپن سے ہی پتا ہے زارا تو کسی کام کی کوٸ تمیز نہیں۔
مگر اب انکی سلجھی ہوٸ بچی ایسا کرۓ گی۔۔۔۔ چچہ چچہ
یار زاروووو میں پریشان ہوں۔۔۔۔
ویسے تمہیں شرمندہ ہونا چاہیے تھا۔
میں ایک کام کر سکتے ہوں اور میں پریشان ہوں بس۔۔۔۔
اچھا تو اگر تم پریشان ہو تو فکر نہ کرو یار مرد اتنی باتوں کا ایشو نہیں بناتے اور اگر بنا بھی لیں تو شکایتیں نہیں لگاتے تم اس بات کی گارنٹی لے لو۔۔۔۔
مگر ساتھ میں دعا بھی کرو کیونکہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔
اور پھر وہ ہے بھی انگریز اور انگریزوں پہ بھروسہ نہیں کرنا کبھی بھی نہیں۔
تم اپنے لیکچر پاس رکھو میں نے اس پہ گرم چاۓ گراٸ یار سوچو اگر کسی نے مجھ پہ گراٸ ہوتی تو میں تو شور مچا مچا کر پورا شہر ہی اکھٹا کر لیتی۔۔۔۔
ہاں تو عالی اب ہر کوٸ تمہاری طرح تو نہیں ہوتا نہ……
آآآ۔۔۔۔ فون کی آواز پہ دونوں اچھلی تھیں….
کیا ہے یار مجھے کیوں ڈرا رہی ہو؟؟؟
زارا نے اسے پیچھے دھکیلا۔
بابا کی کال ہے عالی۔۔۔۔۔
مر گٸ یار۔۔۔۔ ضرور اس نے شکایت لگا دی ہے۔۔۔۔۔
اوفوہ بات تو کرو۔۔۔
میں نہیں کر رہی تم خود ہی کرو۔۔۔۔
بزدل۔۔۔۔
السلام علیکم بابا کیسے ہیں آپ۔۔۔
میں بالکل ٹھیک ہوں آپ دونوں کیسے ہو اور پڑھاٸ کیسی چل رہی ہے۔۔۔۔
بالکل ٹھیک اور بہت اچھی۔۔۔
شاباش چھٹیاں کب ہو رہی ہیں۔۔۔
بابا ابھی تو کچھ پتا نہیں۔۔۔
اچھا ایسا کرو تم لوگ یونیورسٹی سے چھٹیاں لے لو۔۔۔
مگر کیوں سب خیریت تو ہے نہ بابا۔۔۔۔
ارے میں تو بتانا ہی بھول گیا تمہارے زَرّک ادا کی شادی کی تاریخ طے ہو گٸ ہے اور اگلے ہفتے شادی ہے۔۔۔۔
کیااااااا بابا اور آپ اب بتا رہے ہیں۔
زارا کے چیخنے پہ علیشہ نے دہل کر اسے دیکھا اور بے اختیار دل پہ ہاتھ رکھا۔۔۔۔
کیا ہوا زاروووو سب ٹھیک ہے نہ۔۔۔۔۔
بابا میں آپ سے بات کرتی ہوں بعد میں ہم پہنچ جاٸیں گے۔۔۔
کیا ہوا زارووو بتاٶ تو۔۔۔
زرک ادا کی ڈیٹ فکس ہو گٸ ہے نیکسٹ ویک شادی ہے۔۔۔۔
اور ہمیں مہمانوں کی طرح بتایا جا رہا ہے۔۔۔
وہ اسلیے کیونکہ بابا کا کہنا ہے کہ ایسے تم لوگ پڑھاٸ پہ دھیان نہ دیتے۔۔۔۔
زارا منہ پھلا کر بولی۔۔۔۔
ہاں تو پھر مہندی والے دن ہی بتاتے نہ۔۔۔۔ خیر کل ہم شاپنگ پہ جاٸیں گے۔۔۔
تم اپنے کھڑوس باس کو بتا دینا۔۔۔۔
وہ سڑا ہوا آدمی تمہیں پتا نہیں چھٹی کیوں نہیں دیتا۔
اور زارا دل ہی دل میں ہنس دی جس کے لیے وہ پاگل تھی انجانےمیں اسے ہی برا بھلا کہے جا رہی تھی۔۔۔۔۔
کیا بات ہے زارون؟؟؟ کچھ کہنا ہے کیا؟؟؟
جی سر وہ دراصل میرے بھاٸ کی شادی ہے تو مجھے چھٹی چاہیے تھی۔
اوہ کتنے دن کے لیے۔۔۔۔
سر پندرہ دن کے لیے۔۔۔۔
پندرہ دن؟؟؟؟
جی سر وہ آپکو تو پتا ہے نہ شادی والے گھر میں کتنے کام ہوتے ہیں اور پھر میرا اکلوتا بھاٸ ہے میرا تو۔۔۔۔
اوکے فاٸن چلے جانا۔۔۔۔
ویسے بھی میرے دوست آنے والے ہیں میں انکے ساتھ آٶٹنگ کے لیے جاٶں گا تو تم بے شک چلے جاٶ۔
جی تھینک یو سر۔۔۔۔
ہیے بڈی ہاٶ آر یو۔۔۔۔ اچھا تو تم میرے شہر میں آٶ گے اور مجھ سے ملے بغیر ہی چلے جاٶ گے بھٸ اب ایسا تو ہونے سے رہا۔
ایسا کرتے ہیں شام میں ملتے ہیں رِکی کو بھی بلا لیں گے۔
چل ٹھیک ہے ملتے ہیں۔
زارا پانچ بجے نکل گٸ تھی انہیں آج شام ہی نکلنا تھا۔
ڈراٸیور کو وہ سامان پکڑا کر واپس بھیج چکی تھی اور اب اسکا علیشہ کو لے کر بس سے جانے کا ارادہ تھا۔
علیشہ یونیورسٹی گٸ ہوٸ تھی اسے زارا کی اس حرکت کا اندازہ نہیں تھا۔
شام کو جب وہ گھر پہنچی تو نہ گاڑی تھی نہ انکا سامان۔۔۔
زاروو گاڑی کدھر ہے ۔۔۔؟؟؟؟
وہ وہ نہ سروس کے لیے بھیجی ہے تو میں نے رفی چاچا کو کہا ہے کہ اب آپ گھر آکر اتنا لمبا چکر نہ لگاٸیں ہم آجاتے ہیں وہیں پر۔۔۔۔
مگر زاروو ہم ابھی ٹیکسی سے کیسے جاٸیں گے۔۔۔؟؟؟
اوہ کم آن عالی ہر وقت یہ سٹوپڈ ڈرپوک والے ایکسپریشنز مت دیا کرو مجھے یار بہادر بنو باڈی گارڈ زارا راٹھور کی بہن ہو یار اور راٹھور اتنی جھوٹی چھوٹی باتوں پہ ڈرتے نہیں ہیں سمجھی تم۔۔۔۔
اور اب منہ مت بناٶ اور چلو میرے ساتھ۔۔۔
زارا اسے ٹیکسی کے بجاۓ چنگچی پر لے گٸ تھی۔
زارووو زارووو میں گر جاٶں گی۔۔۔
علیشہ زور سے زارا کو پکڑے ہوۓ شور مچا رہی تھی۔ ذرا سا جھٹکا لگتا اور علیشہ کی چیخیں آسمان چھوتیں۔
وہ چیخے جا رہی تھی اور آس پاس کے لوگ انہیں تمسخرانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
اللہ اللہ کر کے چنگچی رکی تھی۔
اور علیشہ کا حال برا تھا اس کے بال سارے جو گھنٹوں کی محنت کے بعد سیٹ کیے تھے وہ بکھر سے گۓ تھے۔
عجیب نمونہ لگ رہی تھی۔
چنگچی سے اتر کر علیشہ کے حواس بحال ہوۓ تو وہ اردگرد کا جاٸزہ لینے لگی۔ اسکی آنکھیں کھل گٸ تھیں۔
زارا یہ ہم کہاں کہاں آ گۓ ہیں۔ کیا ہم کڈنیپ ہو گۓ ہیں؟؟؟
وہ ڈری سہمی سی بولی۔
اوفوہ علیشہ کونسی دنیا میں رہتی ہو تم عجیب جاہل لگ رہی ہو تمہیں بس اڈے کا نہیں پتا کیا؟؟ بکس میں تم نے کبھی نہیں پڑھا کیا؟؟؟؟
یی یہ یہ بس اڈہ ہے۔۔۔۔؟؟؟ علیشہ کی آنکھیں باہر نکل آٸیں۔
جگہ جگہ عورتیں بیگ رکھے بچے اٹھاۓ فرش پر بیٹھی تھیں۔
مرد ٹکٹ کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دے رہے تھے کچھ ایسا ہی حال دوسری لاٸن میں عورتوں کا تھا۔
علیشہ کو یہ سب دیکھ کر خوف آیا تھا۔
کہاں وہ آساٸشات کی عادی لڑکی یہاں پھنس گٸ تھی۔
جبکہ زارا اسے چھوڑ کر ٹکٹ لینے چلی گٸ تھی۔
چھینا جھپٹی اور دھکم پیل کے بعد آخر کار وہ ٹکٹ لے آٸ تھی۔
tہم اس سے جاٸیں گے؟؟؟؟
وہ اے سی والی بس کی طرف منہ بناۓ دیکھ رہی تھی۔
پاگل ہو کیا ہم اس سے نہیں اُس سے جاٸیں گے۔ وہ اسے گھوماتے ہوۓ بولی جہاں پرانی کراچی کی مشہور بس کھڑی تھی۔
زارا تم مذاق کر رہی ہو نہ۔۔۔
نہیں بالکل بھی نہیں اس میں مذاق والی کیا بات ہے۔
زاروووو پلیز میری بہن میری حالت پہ رحم کھاٶ۔ دیکھو میرے ان برینڈڈ کپڑوں جوتوں اور میک اپ کی طرف یہ دیکھو میرے بال جو میں نے دو گھنٹے لگا کر سیٹ کیے۔ اس اس کھٹولے میں ان سب کا کیا ہو گا بتاٶ تم….
ڈرامے بازی مت کرو لاٸف میں ایڈونچر نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...