ارسل ،شہروز، ارباز، زین سب کے سب ۔۔اس وقت شاہ ویلا میں جمع تھے
"زین ہم سب کو ٹریٹ کب دے رہے ہو ”۔ ارسل نے ٹی وی دیکھتے زین سے مخاطب ہو کر کہا ۔۔
”ٹریٹ وہ کیا ہوتی ہے ۔۔یہ کس بلا کا نام ہے” ۔زین نے ان کی طرف دیکھ کر جواب دیا
"وہ اس کھانے کا نام ہے جو تو اپنے پیسوں سے کھلانے والے ہو "۔۔ ارسل نے جواب دیا
”یہ زمان تم کس خوشی میں دانت نکو س رہے ہو اس سے لو ٹریٹ” ۔اس نے زمان کی طرف اشارہ کر کے اپنی جان چھڑانی چاہی
”اس سے بھی لے لیں گے جب تم دو گے۔۔ "شہروز بولا
”یہ فر نگی کام مجھ۔ سے نہیں۔ ہوں گے "۔۔ اس نے کہتے ہوۓ واپس اپنی توجہ تو پر مرکوز کر لی ۔۔
”اچھا تو تامل سمجھ کے ہی دے دو ۔۔”۔ ارباز لوگوں نے بھی ضد پکڑ لی
"مطلب "۔۔ زین نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا
"یہ جو تم عجیب و غریب مووی دیکھنے میں۔ مشغول ہو”۔اس نے بولتے ہوۓ ٹی وی کی طرف رخ کر کے دیکھا ۔
"۔ یہ ۔۔یہ ہیرو تو ابھی مرگیا تھا تو یہ واپس کدھر سے آ گیا ۔۔” شہروز نے حیران ہو کر پوچھا
”ارے ۔۔ ہیروئن کی محبّت میں آگ کو۔ چیر کر واپس آیا ہے بہت مزے کی ہے مووی ہے تم لوگ بھی دیکھو ۔ ”
وہ واپس مووی دیکھنے من مشغول ہو گیا
تب ہی ۔۔ شایان دھڑ سے دروازہ کھل کر اندر آیا اور دھڑ سے ہی بند کر دیا ۔۔ اور دروازے کے ساتھ لگ کر سانس بحال کرنے لگا
وہ سب ہونقوں کی طرح اس کی۔ کاروائی دیکھ رہے تھے ۔
شایان نے آنکھیں کھل کر ان۔ کی۔ طرف دیکھ کر کہا ۔۔
” بڑی خبر لایا ہون ۔۔سنسی خیز ،۔۔۔”
"کیا ” سب یک زبان ہو کر بولے
"نکاح اگلے جمعہ کی جگہ اس جمعہ کو ہی ہے ۔۔ یعنی تین دن بعد ۔۔”
"نہیں ۔۔یار سچ بول ۔۔”زبان بولتے ہوۓ اپنا فون ڈھونڈنے لگا ۔
” میں سچ بول رہا ہون زمان بھائی آپ کو تو خوش ہونا چاہیے” شایان حیرانی سے بولا
"یار ۔۔ میں خوش ہون پر وہ” ان کی طرف دیکھ کے بولا
"پر کیا ”۔۔ ارباز نے اس کی طرف دیکھ کر کہا
"میری اپائنٹمنٹ تھی سیلون کی۔ اس ہفتے کو ۔۔ یار میں ایک۔ فون کر کے آتا ہوں ۔۔ ”
"یار سچ بول ۔۔تیری واقعے ہی اپائنٹمنٹ ہے ۔”۔زین نے حیرت سے کہا۔
"ہاں ۔۔کہا تو ہے سمجھ نہیں آ رہا ۔۔ ”
وہ اٹھ کر باہر چل دیا ۔۔
"ا وے! میری بھی کروا دو” ۔ زین یچھے بھا گا ۔۔
ان کی حرکتوں پر سب کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی
” ۔۔حد ہو گئی ہےویسے
یہ ٹریٹ تو خواب ہی رہے گی سارے پیسے تو ۔ یہ سیلون سے جن۔ بنے میں۔ خرچ کر دیں گے ۔۔
میں۔ بھی سیلون ۔۔مطلب گھر چلتا ہون۔ اب ۔۔” ارسل کہتا ہوا کھڑا ہو گیا ۔۔ اور گاڑی کی چابیان جیب سے نکل تا باہر نکل گیا
”یار کیا چھلانگ لگائی ہے ہیرو نے اپنی۔ گاڑی سے سیدھا گھر کی۔ اوپر کی منزل میں پہنچ گیا ۔”۔ارباز مووی دیکھتے بولا
”بھائی جان ۔۔ مووی دیکھیں تنقید نا کریں ۔۔” شہروز بولا
ارباز شہروز اور شایان مووی دیکھنے میں مصروف ہو گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔
زین ۔۔ اپنے کمرے کی طرف کسی کام۔ سے جا رہا تھا تو راستے میں عنایا آتی دکھائی ڈی
وہ یونہی فون پکڑ کر کھڑا ہو گیا ۔۔
عنایا پاس سے گزری تو زین کو دیکھ کر رک گئی ۔۔
"کیا ہوا جا کیوں نہیں رہیں تم ۔”۔۔ وہ اس سے مخاطب ہوا
” وہ –زین مجھے نا وہ ۔”۔ عنایا نے بولنے کی کوشش کی
”ہاں بولو ۔۔ کیا تم” زین بولا
” وہ میں نے تم سے معافی مانگنی تھی ۔۔
میں۔ نے اس بارے میں کافی سوچا ۔۔ تم ٹھیک ہی کہہ رہے تھے ۔۔ میری آنا اور غرور ہی اڑے آ رہا تھا ۔۔ ورنہ تم سے اچھا انتخاب کیا ہو گا ۔۔” اس نے تکریباً دو گھنٹےکی راٹی ہوئی بات اخر اس کو بتا ہی دی
"اچھا ۔۔انتخاب ۔۔۔ ہمممم” ۔۔ زین نے عنایا کے چہرے کو نظروں کے حصار میں لیا ۔۔
"میرا ۔۔مطلب ۔۔ ہے کے پھر مجھے جانا نہیں پڑے گا امی کے پاس ہی رہوں گی ۔۔ اور دعا ‘ ارباز بھائی یہ بھی تو مجھے پیارے ہیں ۔۔بس اس ہی لئے” ۔۔ اس نے شرارت سے بھری آنکھیں اٹھا ئیں ۔۔
زین کا دکھ بھرا چہرہ دیکھ کر وہ اس نے ہنسی کنٹرول کی اور سیڑھیوں سے . تیزی سے نیچے اترنے لگی
"پیارے ہیں اور میں "۔۔ زین نے پیچھے سے آواز دی
"پتا نہیں ۔۔” وہ کہتے ہوۓ نیچے بھا گ گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ . .
سمیہ بیگم گھر کے کاموں میں جتی ہوئیں تھیں کہ ملازم نے کسی کے انے کی اطلاع کی ۔
"بیگم صاحبہ کوئی صاحب جی ہیں بولتے ہیں زو ا لقرنین اور سمیہ صاحبہ سے ملنا ہیں ”
"تم نے بتایا نہیں کے صاحب ابھی نہیں آئے ”
"بتایا ہے پر وہ کہ رہیں ہیں کے انتظار کر لیں گے ”
"اچھا ۔۔ٹھیک ہے ۔ان کو ڈرائنگ روم میں بیٹھا دو میں آتی ہوں چائے وغیرہ بھی کے آؤ ”
وہ ملازم کو ھدایت دیتے ہوۓ اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔ہانیہ کے دو پٹہ جس پر موتی جھڑ نے میں مشغول تھیں وہ سائیڈ پر رکھا
ملازم جی اچھا کہہ کر چل دیا ۔
پتا نہیں کون صاحب ہے بابا کو فون کر کے پوچھتی ہوں
ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے فون کو اٹھا کر زوالقرنین صاحب کا نمبر ملایا دوسری بیل پر فون اٹھا لیا گیا ۔۔
"السلام عليكم! سمیہ بچے کوئی کام ہے میں ذرا میٹنگ میں ہوں ” "وعلیکم السلام بابا ۔۔ دراصل میں نے پوچھنا تھا کے آپ کے کوئی مہمان آنے والے تھے ”
"نہیں بچے کوئی مہمان تو نہیں انے والے تھے انہوں نے مطالع کیا
اچھا چلیں ٹھیک ہے پھر میں دیکھتی ہوں ”
"دھیان سے بچے ۔۔ میں جلدی آنے کی کوشش کرتا ہوں "‘ زوالقرنین صاحب نے جواب دیا
"کوئی بات نہیں میں۔۔ اوکے اللہ حافظ” ۔۔
سمیہ بیگم نے فون رکھتے ہی ڈرائنگ روم کا رخ کیا ۔۔
ڈرائنگ روم۔ میں داخل ہوے ہی ان کی نظر وہاں موجود شخصیت پر پڑی تو ان کے قدم وہاں رخ گے گویا سامنے کا منظر دیکھ وہ پتھر کی ہو گئیں ہوں ۔۔۔ان کو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نا آیا ۔۔کے سامنے صوفے پر برا جما ن ریاض صاحب تھے ان کے قدم لڑکھڑائے
ذرا یاد کر ،میرے ہم نفس
میرا دل جو تم پر نثار تھا
وہ ڈرا ڈرا سا جو پیار تھا
تیرے شوخ قدمو ں کی دھول تھی
تیرا بھی دل بے قرار تھا
ذرا یاد کر
میرا غم تو ہے غم مبتلا
میں جیا مگر میں جیا نہیں
تیرا غم ہے تیری ندامتیں
تو جیا ،مگرتو میرا نہیں
تیرا جرم ،جرمِ فرار تھا
تیرا بھی دل بے قرار تھا
ذرا یاد کر، میرے ہم نفس
ریاض صاحب کو دیکھا کر ان کا دل کسی نے مٹی میں لیا ۔۔وہ کچھ دیر یونہی کھڑی رہیں ۔۔۔ وہ پندرہ سال کس دکھ میں گزرے یہ وہی جانتیں تھیں ان کی آنکھوں سے بوند ں رواں ہو گئیں ۔
جسے رویا ہے ذرا ذرا
میری بے بسی کا فشار تھا
ذرایاد کر میرے۔۔۔ ہم نفس ۔۔۔۔
” آپ ۔”۔ ان کے منہ سے بس یہ الفاظ ہی ادا ہو سکے ۔۔ انہوں نے خود کو گرنے سے بچانے کے کے لئے دروازے کا سہارا لیا
"سمیہ ۔”۔ریاض صاحب جو گئیں دنوں سے خود کو اس موقع کے لئے تیار کر رہے تھے ۔پر سمیہ کو سامنے دیکھ ان کی اپنی ہمت جواب دے گئی
”آپ ۔۔ آپ کی ہمت کس طرح ہوئی اس گھر میں قدم رکھنے کی ۔۔۔ اوہ ۔۔تو اتنے سال اس بے بسی میں رکھ کے بھی آپ کا دل نہیں بھرا ۔ طلاق لینے آئے ہیں ۔۔ آپ سے کسی اچھی چیز کی امید کی ہی نہیں جا سکتی ۔۔ در بدر کر دیا مجھے اب بھی سکون نہیں ملا ”
ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتیں تھیں کے ریاض صاحب واپس بھی آ سکتے ہیں
"سمیہ بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو ۔۔۔میں ایسے کسی کام کے لئے نہیں آیا میں تو سچ بتانے کے لئے آیا ۔ جو گئیں سالوں سے بول . نہیں سکا ۔۔ تمھیں ہمیشہ مجھے تکلیف دے کے سکون ملتا” ہے ان کے دل پر ضرب پڑی
”سکون یہ اچھی کہی آپ نے ..جو آپ نے کیا اس کو کیا نام دوں میں ۔۔ پندرہ سال ریاض صاحب پندرہ سال میں نے اس گہری کھائی میں گزارہ ہے یہ میں ہی جانتی ہوں ۔آپ نے تو پکڑ کر مجھے دو منٹ میں پریا کر دیا ۔۔اب کس منہ سے آئے ہیں ”
سمیہ۔ بیگم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کے وہ کیا کریں
"تم۔ میری بات سن لو شاید تمیں پتا لگے کے میں کس منہ کے ساتھ آیا ہوں اور تم اب بھی میری بیوی ہو ۔۔ میں۔ نے تمھیں طل ۔۔۔ علیحد گی کبھی اختیار کرنے کا نہیں کہا ۔”۔ وہ ان کے بالوں میں آئی چاندی کی طرف دیکھتے بولے
"اب باتوں کا وقت گزر چکا ہے آپ برائے مہربانی یہاں سے تشریف لے جاییں یہ میری جان پر آسان ہو گا آپ کا "۔۔ انہوں نے دروازے کی طرف اشارہ کر کے کہا
"جب تک میں سچ نہیں بتا لیتا نہیں جا سکتا بہت ہو چکا ۔۔” سمیہ بیگم کو یں کی بات سن کے اور غصّہ آیا
"اچھا ہوتا میں آپ سے علحیدگی اختیار کر کے کسی اور سے شادی کر لیتی تو شاھد میری زندگی کو سکون تو میسر ہوتا” ۔۔سمیہ بیگم کے منہ میں غصے میں جو آیا بول گئیں
"سمیہ ۔۔۔۔” ریا ض کا ہاتھ ہوا میں ہی محلق رہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ . .