(Last Updated On: )
بجھ کر بھی شعلہ دام ہوا میں اسیر ہے
قائم ابھی فضا میں دھوئیں کی لکیر ہے
گزرا ہوں اس کے حد سے تو کچھ مانگ لوں مگر
کشکول بے طلب ہے، صدا بے فقیر ہے
میں ڈر گیا ہوں ایک نظر جس کو دیکھ کر
کس سے کہوں وہ میرا ہی عکسِ ضمیر ہے
دل پر لگی ہے سب کے کوئی مہر برف کی
ظاہر میں گرم جوشیِ دستِ سفیر ہے
مجھ کو سمجھنا ہے تو سہارے نہ ڈھونڈ زیب
میرا کلام آپ ہی اپنی نظیر ہے
٭
زیب غوری کی غزلوں میں کلاسیکی لہجے میں نئی فکر کی رمق ملتی ہے۔ ان کی زبان میں شستگی اور اندازِ بیان میں صناعی ہے۔ ان کا رویہ ایک گوشہ نشین قلندر کا ہے جو بے نیازانہ عالمِ رنگ و بوئے فتنہ و فساد سے متاثر ہے۔ یہ رویّہ سرِّی شاعری کا ایک پہلو ہے اور یہ شاعری وجدان کے خزینے سے مستفید ہے ظاہر و باطن کا اختلاف نہ کوئی نیا موضوع ہے نہ اس کا Sophistication ممکن ہے۔ حیاتِ انسانی کی بے معنویت نہ کوئی عظیم دریافت ہے نہ اس کا ذکر مفید، بے نیازی کا اظہار نہ کوئی قابلِ تحسین عمل ہے۔ اس کی تکرار کس کام کی۔ لیکن زیب غوری ان موضوعات کو اس خوب صورتی سے برتتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر لَے سے ایک نیا نغمہ پھوٹ رہا ہو۔ ان کے انداز میں بجھا بجھا پن ہے۔ یہ بجھا بجھا پن اقصائے روز و شب کے خلاف ایک نحیف سا مظلومیت کا اظہار ہے۔
زیب غوری کی غزلوں میں سے میں نے ایک غزل منتخب کر کے آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کی پیمائش کریں ’’پس منظر‘‘ کی تعمیر میں جن عناصر کا حصہ ہے اس کو بھی دیکھ لیں۔ احمد آباد کے فسادات کے زیرِ اثر زیب غوری کی شعری علامتوں میں آتش زدگی کی جھلک اور انسانی بربریت سے نفرت کے نقوش نمایاں طور پر آ گئے ہیں۔ ٹوٹتی ہوئی اقدار اور بدلتے ہوئے حاکمانہ معیار سے وہ بیزار ہیں۔ انسان پر دائم اثر ماضی کی خاموش گزاری اور انسانوں میں غیر حقیقی دکھاوا اور احساسات میں Staleness ان کے شعری وجدان کے اہم ابعاد ہیں۔
اگر تجزیاتی نگاہ سے مطالعہ کیا جائے تو انھوں نے صحیح معنوں میں اظہارِ ذات کی کوشش کی ہے۔ اس کے باوجود نکیلے پن اور اعتراف انگیزی کی ان کے کلام میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ جسے وہ اپنی لفظیات سے پُر کرتے ہیں۔ آئیے ہم اس غزل کی طرف چلیں۔
بجھ کر بھی شعلہ دامِ ہوا کا اسیر ہے
قائم ابھی فضا میں دھوئیں کی لکیر ہے
اس کی دو توجیہات ہو سکتی ہیں۔
(الف): شعلہ استعارہ ہے نفس کا اور دھوئیں کی لکیر استعارہ ہے حسرت کا یعنی ’’جذبہ بجھ چکا ہے۔ لیکن ابھی تک انسان کی سانس سے اس کا تعلق ہے اور اس لیے فضا میں یعنی زندگی میں حسرت کا احساس باقی ہے۔‘‘ گویا جذبہ شکست کے بعد مرتا نہیں بلکہ شخص کی رگ و پے میں اس کی بازگشت جذب ہو جاتی ہے۔ جو حسرت و یاس کی طرح اس کے ساتھ ساتھ ہے اور غالباً شاعر ایک ایسی ہی کیفیت سے گزر رہا ہے۔
(ب): شعلے سے مراد ہے انسان۔ دامِ ہوا استعارہ ہے کاروبارِ زندگی کا، دھوئیں کی لکیر استعارہ ہے رسومات و روایات کا۔ یعنی ’’انسان میں گرچہ تاب و توانائی باقی نہیں ہے پھر بھی زندگی کے کاروبار میں الجھا ہوا ہے۔ گو کہ فضا یعنی حالات ابھی روایات و رسومات میں الجھے ہوئے ہیں۔
گزرا ہوں اس کے در سے تو کچھ مانگ لوں مگر
کشکول بے طلب ہے، صدا بے فقیر ہے
بے تعلقی کی عکاسی کے لیے یہ شعر عمدہ ہے۔ اس میں کچھ احترامِ انا کا پہلو ہے اور کچھ اپنی ناتوانی کا کم زور اظہار بھی۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ منعم کے یا محبوب کے در سے گزرا ہے۔ (یعنی اکثر گزرا ہے) اور اس حالت میں گزرا ہے کہ کچھ مانگ لے۔ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ہمیشہ اس کا کشکول بے طلب سا ہے اس نے صدائے مدعا بھی بلند کی تو اس لہجے میں فقر اور حاجت مندی کا شائبہ نہیں۔ یہاں پر ’’احساسِ انا‘‘ کی جھلک بھی ہے۔ اس شعر میں حسبِ ذیل نکات قابلِ غور ہیں۔
(الف) در سے گزرنے کا جاری عمل۔
(ب) کشکول کی موجودگی۔ لیکن بے طلبی۔
(ج) صدا کا وجود۔ لیکن طرزِ سائل کی کمی۔
اس سے نتائج بھی نکل سکتے ہیں کہ:
(الف) شاعر میں سائل مزاجی نہیں اور اس کا احساسِ انا اسے کمزوری کے اظہار سے روکتا ہے۔
(ب) شاعر ایک عام انسان ہے جو جدید شہر کا باشندہ ہے۔
میں ڈر گیا ہوں ایک نظر جس کو دیکھ کر
کس سے کہوں وہ میرا ہی عکسِ ضمیر ہے
اس شعر کے یہ ٹکڑے غور کے قابل ہیں۔ ’’ایک نظر دیکھ کر ڈرنا‘‘، ’’عکسِ ضمیر‘‘، ’’کس سے کہوں‘‘۔
شاعر کہتا ہے کہ وہ ایک نظر دیکھ کر جس بات سے خوف زدہ ہو گیا، وہ بات فی الحقیقت اس کے ضمیر کا عکس ہے اور وہ حیران ہے کہ اس بات کی اطلاع کسے دے۔
دل پر لگی ہے سب کے کوئی مہر برف کی
ظاہر میں گرم جوشی دستِ سفیر ہے
یہ ظاہر و باطن کا فتنہ ہے، گرم جوشی دستِ سفیر ایک خوب صورت جدید تلمیح ہے یہ بات اکثر دیکھی گئی ہے کہ دشمن ترین ممالک کے سفرا بھی جب ملتے ہیں تو رسماً مصنوعی طور پر بے انتہا گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہیں۔ یہی حال ہمارا بھی ہے کہ ہمارے دل سرد مہری سے پُر ہیں۔ ان میں کسی قسم کی جذباتی حرارت نہیں لیکن ظاہراً ہم گرم جوشی سے دوست داری کے قائل ہیں۔
مجھ کو سمجھنا ہے تو سہارے نہ ڈھونڈ زیبؔ
میرا کلام آپ ہی اپنی نظیر ہے
زیب اگر میرا کلام سمجھنا ہے تو دوسرے شاعروں کے کلام کی مثالیں نہ استعمال کر، نہ ہی اسے نظیروں کے سہارے سمجھ کہ اپنی مثال آپ ہے۔
قصۂ مختصر یہ غزل ایک خاص لہجے کی ممتاز جدید غزل ہے۔
٭٭٭