“””””زہرا کو برائیڈل روم میں بیٹھا دیا گیا اسکی امی صدقہ دے رہی تھی تبی شور مچا کے برات آ گی….. وہ با ہر چلی گی…..
ہمیں بھی چلنا چائیے ……نوال نے باقی دونو ں کو کہا ۔۔۔۔۔۔
نہیں میں زہرا کے پاس رہوں گی سحرش نے جانے سے منع کر دیا ۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔اوکے ہمیں پتا ہے تم کیوں چھپ رہی ہو ۔۔۔۔سبین کہتی باہر نکل گئی ۔۔۔۔
نوال اور سبین استقبال کے لیے کھڑی ہو گئ ۔۔۔
ہادی آج کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اور دوسری طرف رضا اور حسن بھی کسی سے کم نہیں تھے ۔۔۔۔
ہادی کے اک طرف رضا تو دوسری طرف حسن کھڑا تھا ۔۔۔رضا نوال کو دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔۔لیکن سبین اسکے پیچھے چھپ گئی ۔۔۔۔
نوال کو اُ س نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ سامنے سے ہٹ گئی ۔۔۔رضا کی نظر اس پر پڑی یوں لگا کہ بوسوں کے پیاسے کی پیاس ختم ہوئی ہو ۔۔۔۔۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔رضا نے اس کے پاس آکے آہستہ سے کہا۔۔۔۔
سبین شرم کے مارے آنکھیں نہ اٹھا سکی ۔۔۔۔
“”””””نکاح کی اجازت لینے مولوی صاحب کے ساتھ سعد اور زہرا کے ابو تھے ۔۔۔۔۔۔زہرا کے اقرار کے بعد پلٹتے ہوئے سعد نے سحرش کے ہاتھ میں اسکے دیے گجرے دیکھے ۔۔مسکراتا ہوا بار نکل گیا ۔۔۔۔۔
حسن اپنے کل والے رویے کی معافی مانگنا چاہتا تھا ۔۔۔۔لیکن اک تو نوال کو وہ اب تک دیکھ نہیں پایا تھا ۔۔دوسرا عاشی اسکے گرد منڈلا رہی تھی ۔۔۔۔
تبی رضا کے پاس کھڑی نوال نظر آئی وہ تو نظر ہٹانا ہی بھول گیا ۔۔۔۔۔۔
نوال لگ بھی جو اتنی پیاری تھی ۔وہ اس کی طرف کھنچا چلا گیا ۔۔۔۔
رضا ان سے میرا تعارف نہیں کرواو گے ۔۔کون ہے یہ ۔۔دیکھی دیکھی لگ رہی ہے ۔۔۔حسن نے شرارت سے کہا ۔۔۔۔۔
اسی وقت اک فوٹوگرافر انکے پاس آیا ۔۔۔۔نوال جو غصے سے حسن کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔حسن نوال کی طرف ۔۔اسنے اہنے کیم میں یہ منظر قید کر لیا ۔۔۔۔
بیوٹی فل کپل ۔۔۔۔۔کومنٹ پاس کرتا آگے بڑ گیا ۔۔۔۔
عاشی حسن کو ڈھونڈتی ادھر آئی ۔۔۔۔
آپ یہاں ہے میں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔چلے میرے ساتھ ۔۔عاشی حسن کا ہاتھ پکڑ کے ساتھ لے گئی ۔۔۔۔
میں کیوں اس کے بارے میں سوچنے لگ گئی جبکہ وہ کسی اور میں انٹرسٹڈ ہے ۔۔نوال نے خود پے افسوس کیا ۔۔
………..
زہرا کو اسٹیج پر ہادی کے ساتھ بیٹھا دیا گیا ۔۔۔
ہادی کی نظر مسلسل اس کے چہرے پر تھی ۔۔۔۔
وہ تھوڑا اس کے قریب ہوا ۔۔زہرا جانتی تھی وہ اپنی شاعری جھاڑے گا ۔۔۔۔
“میری ہر خوشی ہر بات تیری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
“””””سانسوں میں چھپی یہ حیات تیری ہے ۔۔۔۔””
“””””””””دو پل بھی نہیں رہ سکتے تیرے بن ۔۔۔۔
“””””””ڈھڑکنوں کی ڈھڑکتی ہر آواز تیری ہے ۔۔۔۔۔
اپنے مجاجی خدا کا اقرار محبت سن کے زاہرا کے بے اختیار مسکرا دی ۔۔۔۔۔۔۔..
نوال دودھ پلائی کی رسم کے لیے جانے لگی تھی لیکن عاشی نے اُ سے روک لیا ۔۔۔۔۔نوال چپ ہو گئی وہ کوئی لڑائی نہیں چاہتی تھی ۔۔آرام سے سٹیج سے نیچے آگئی ۔۔
سحرش جو فوزیہ بیگم کے ساتھ تھی اسکے پاس آگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبین اسکے پاس جانے لگی ۔۔رضا نے ہاتھ پکڑ کے روک لیا ۔۔۔
میری ماں میری رہی ہی نہیں ۔۔۔سعد نے سحرش کو اپنی ماں کے ساتھ دیکھ کے کہا۔۔۔۔
تمہیں کیوں اتنی جیلسی ہو رہی ہے ۔۔خود کب میرے پاس ہوتے ہو ۔۔اب میری بیٹی میرے پاس ہے تو تمہیے میری یاد آگئی ۔۔۔۔۔۔
ہم ماں بیٹی میں پوٹ ڈالنے کی کوشش نہ کرو ۔۔۔۔۔فوزیہ بیگم نے سعد کو گھورتے کہا ۔۔۔
میری دعا ہے کہ آپ لوگوں کا پیار سلامت رہے ۔۔سعد نے سحرش کو پیار بھری نظر سے دیکھا ۔۔۔۔۔
رخصتی کا شور اٹھا ۔۔سعد پاس بیٹھی نوال کو کچھ کہتا ہوا چلا گیا ۔۔۔۔۔
زہرا کو ڈھیر ساری دعاوٴں میں قرآن کے سایے میں رخصت کیا گیا ۔۔۔۔
زہرا کو حسن کی پھولوں سے سجی کار میں بیٹھایا گیا ۔۔ہادی پہلے ہی بیٹھ چکا تھا ۔۔۔۔۔زہرا کے ساتھ سبین تھی
حسن نے نوال کو بولنا چاہ ۔۔لیکن عاشی آکے بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔
حسن کا بس نہیں چل رہا تھا ۔۔عاشی کو گاڑی سے اٹھا کر باہر پھنیک دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حسن غصے میں گاڑی اڑا کے لے گیا
ہادی کس قدر اسکے رویے سے خائف ہوا ۔۔۔۔
نوال سحرش کو لے کر سعد کی کار کے پاس آگئی ۔۔سعدطنے اس سے منت کی تھی کہ سحرش کو اسکے ساتھ جانے دے ۔۔۔۔۔۔۔۔نوال نے رضا کو اشارے سے پیچھے بیٹھنے کا کہا ۔۔۔۔۔خود بھی اسکے ساتھ بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔سحرش نے بہت کہا کہ وہ پیچھے ہی بیٹھے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن نوال نے نہیں بیٹھنے دیا ۔۔۔۔
سعد نے کار ساڑٹ کر دی سآتھ سونگ بھی پلے کر دیا ۔۔۔۔
“””””””””تیرے سنگ یارا
“””””””””””خوش رنگ بہارا
“”””””””””تو رات دیوانی
“”””””””””””میں زرد ستارہ
“””””””””””او کوم خدارا ہے
“””””””””””تجھے مجھ سے ملایا ہے ۔۔۔
“””””””””””تجھ پے مر کے ہی تو
“””””””””مجھے جینا آیا ہے
نوال کی دبی دبی ہنسی کی وجہ سے سحرش خجل ہو کے رہ گئی ۔۔۔۔۔وہ سعد کے سونگ پلے کرنے کی وجہ اچھے سے جانتی تھی ۔۔۔۔۔سونگ سعد کے جزبات کی عکاسی کر رہا تھا ۔۔۔جو وہ سحرش کے لیے رکھتا تھا
گھر آتے ہی سحرش سب سے پہلے اتر کر بھاگ گئی ۔۔۔
سعد بھائی بچی نروس ہو گئی ۔۔۔۔۔نوال نے سعد کو کہا ۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔سعد بیٹا کافی محنت کرنی ہو گی ۔۔بچی ڈرتی ہے تم سے رضا نے کہا ۔۔
زہرا کو بہت ساری رسمو ں کے بعد ہادی کے روم میں لایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
زہرا ہادی بھائی کے آنے سے پہلے میں تمہارا میک اپ ٹھیک کر دیتی ہوں ۔۔۔۔۔نوال نے زہرا کو کہا کیونکہ رونے کی وجہ سے میک اپ کافی خراب ہو گیا تھا ۔۔۔۔
نوال کو کسی نے باہر بلا لیا ۔۔۔۔وہ سبین کو ٹھیک کرنے کا کہ کر چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔سحرش پاس ہی گم سم سی بیٹھی تھی ۔۔سعد کی بے تابیاں اِ سے پریشان کر رہی تھی
بھا۔۔۔۔۔نوال کچن میں پانی پینے آئی تھی تبی حسن نے پیچھے سے آکر ڈرایا ۔۔نوال کے ہاتھ سے گلاس نیچے گر کر ٹوٹ گیا ۔۔۔۔
آج دل کے بہت قریب لگ رہی ہو ۔۔۔حقیت میں ہماری جوڑی شاندار لگے گی ۔۔۔۔۔
حسن نے اسکے کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔۔۔۔……….نوال کا دل بہت زور سےدھڑکا ۔جیسے پسلیاں توڑ کے ابھی باہر آ جائے گا ۔۔۔۔
وہ اتنا کہ کے نکل گیا ۔۔۔۔
نوال تو اسی لمحے کے زیرے اثر پتا نہیں کب تک رہتی ۔۔۔اگر اسے سحرش نے نہ پکارا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔
نوال تم ٹھیک ہو نہ ۔۔سحرش نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔نوال نے خود کو ریلکس کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔
یار تم ادھر تھی ۔۔۔۔۔اُ دھر ہادی بھائی کی موج ہو گئی ۔۔وہ کہ رہے تھے نوال ہوتی تو آسانی سے اندر نہ آنے دیتی ۔۔۔۔جب تک جیب خالی نہ کروا دیتی ۔۔۔۔۔۔
ہم دونوں اُ نہیں کیا روکتی ۔۔ہمیں پتا تب چلا جب وہ روم میں اگے ۔۔۔۔اور ساتھ سعد بھی تھا ۔۔۔۔۔۔میرے تو اسے دیکھ کے حواس کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں ۔۔۔۔سحرش نے بچارگی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
اچھا یار ہم ہادی بھائی کو پہلے کافی تنگ کر چکی ہے ۔۔آج بخش دیا کیا یاد کرے گے ۔۔۔۔۔۔ہم بھی چل کے سوتی ہے اور سبین کو بھی آواز دے دو ۔آجائے ۔۔۔…..
“””””فوزیہ بیگم آپکو کوئی بات کرنی ہے کیا ہم سے ریاض صاھب نے فوزیہ بیگم کی طرف دیکھ کے کہا ۔۔۔۔۔۔۔
جی وہ میں چاہتی ہوں کے اب ہمیں بھی سعد کی شادی کر دینی چائیے کوئی رونق ہمارے گھر میں بھی ہو فوزیہ بیگم نے شوہر کی طرف دیکھتے کہا
یہ تو بہت اچھی سوچ ہے کل ہادی کے ولیمے مین شہر بھر کے لوگ ہونگے ۔۔۔ ادھر سے کوئی دیکھ لیجے گا ریاض نے مشورہ دیتے کہا
ریاض میں لڑکی پسند کر چکی ھوں فوزیہ نے ہچکچاتے ہوے کہا سحرش انے بہت اچھی لگی تھی سعد کے چہر ے سے وہ اسکے لیے پسندگی کے رنگ دیکھ چکی تھی لیکن ریاض صاھب کو منانا مشکل لگ رہا تھا …….
یہ تو اچھی بات کون ہے وہ کس کی بیٹی فیملی بیک گراؤنڈ کیا ریاض صاھب نے تفشیش شروع کر دی
زہرا کی دوست……. اچھا خاندان ہے ۔۔ کافی سلجھی ہوئی …. سکول ٹیچر ہے ۔۔۔۔
واٹ !!!!!! سکول ٹیچر فوزیہ بیگم اپکا دما غ تو ٹھیک ہے نا. … آپ نے سوچا بھی کیسے میں دو ٹکے کی اسکول ٹیچر کو بہو بناؤ گا
آپکو میرے نو نہا ر بزنس ٹیکوں بیٹے کے لیے وہ ہی پسند ائی اور
پلیز سعد کو اپنی اس گھٹیا سوچ سے دور رکھے گا ….
ورنہ وہ بنا سوچے سمجھے اپکا ہمیتی بن کھڑا ہو گا میں ہر گز اسی لڑکی کو اپنی بہو نہیں بناوں گا یہ بات آپ ذھن نشیں کر لیں اب سو جا ے سارے موڈ کا بیڑا گرق کر دیا وہ سختی سے کہتے کروٹ بدل گے
*******************
“””نوال سارا سامان پیک کر لو ہم ہال سے ہی واپس ہوسٹل چلی جانے گی ..
اتنے دنوں سے ادھر اب اچھا نہیں لگتا اور روکنا سحرش آج اپنی عادت کے بر عکس جلدی جاگ گئی تھی ………………
تمہے ادھر روکنے سے نہیں بلکے سعد بھائی سے بھاگ رہی ہو نوال نے شرارت سے کہا …………..
آج تو الٹی گنگا بہہ نکلی سبین نے بھی لقمہ دیا ….
بھا ڑ میں جاؤ تم لوگ….. سحرش کہتی باہر نکل گئی ۔۔۔۔
باقی دونوں اس کے بدلے ہوے مذاج پے ہنستی چلی گئی…
**:*******
“”””””سعد بیٹا مجھے آپ سے بات کرنی ہے. …. ناشتے کی ٹیبل پے ہی ریاض صاھب نے کہا
جی ابو سعد نے تابعداری سے کہا…….
بیٹا ہادی کی شادی ہو گئی اب ہم تمہاری بھی کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔تم آج بیگ صاھب کی بیٹی سے مل لینا مجھے تو کافی اچھی لگی تمہیں بھی پسندآئے گی
“””””ریاض صاھب بیٹے سے تو پوچھے ۔۔۔۔۔۔کوئی پسند تو نہیں فوزیہ بیگم نے دبی دبی آواز میں کہا
فوزیہ بیگم اگر آپ میرے بیٹے کو اپنا حمیتی بنانا چاہتی ہے اس دو ٹکے کی لڑکی کے لیے تو میں ایسا ہر گز نہیں نہیں ہونے دوں گا …
وہ غصے سے کہتے اٹھ گے سعد نا سمجھی میں ما ں کی طرف دیکھنے لگا……
فوزیہ بیگم نے ساری بات سعد کو بتا دی اور اٹھ روم میں چلی گئی….. اسی وقت سعد کی نظر کھڑکی کے پار کھڑی نوال اور سحرش پر پڑی وہ بھاگ کر با ہر لا ن میں آیا ……
کیوں کے ڈائننگ روم کی اک کھڑکی لا ن میں کھولتی تھی سعد کو یقین تھا کے وہ انکی باتیں سن چکی …..
تبی وہ انکی طرف فورن آیا نوال سحرش کو لے کے ہٹنا چاہ رہی تھی لیکن سعد نے سحرش کا ہاتھ پکڑ کے روک لیا تم لوگ ادھر کیوں ائی …….
نوال سے پوچھا……
وہ ہادی بھائی نے بولا. ……..آپکو کالز بھی لیکن آپ پک نہیں کر رہے تھے تو ناشتے کے لیے بولنے چلی ائی اک سے اچھا ہوا آ کے حقیقت تو پتہ چل گئی بہت افسوس ہوا انکل کی سوچ جان کے نوال نے غصے سے کہا
نوال میں جو بات کرتا ھوں وہ پورا بھی کرتا. ..چاہے مجھے اپنی جان پے کیوں نا کھیلنا پڑے یہ تو ہے ہی میرے دل کی اولین خوائش اینڈ پلیز نوال مجھے سحرش کے ساتھ دو منٹ اکیلے میں بات کرنے دو میں تمہاری منت کرتا ھوں سعد نے کہا
نوال اوکے کہتی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سحرش بابا نے جو کچھ کہا وہ انکی سوچ……… لیکن میں شادی کروں گا تو صرف تم سے…………….. اس کے لیے چاہے مجھے کس حد تک جانا پڑے پلیز تم میرا اعتبار کرو جو انہوں نے کہا بھول جاؤ میری خاطر مجھے بس تمہارا ساتھ چائیے دو گی ساتھ میرا سعد نے مان بھرے لہجے میں کہا
سحرش نے اقرار میں سر ہلا دیا سعد نے اسکی پیشانی پر اپنے پیار کی مو رح ثابت کرتے ہاتھ چھوڑ دیا اور ہا ں اگر ولیمے میں اگنور کروں تمھ تو پرشان مت ہونا میں ابھی بابا کی نظروں میں نہیں لانا چاہتا وہ جانے کے لیے موڑی تھی تو سعد نے کہا………………
********
*********
*********
*******
ولیمے پے زہرا نے ڈارک اینڈ لائٹ بلیو کلر کے حسین کومبنشن کا فراک پہنا تھا ما ہر بیو ٹیشن کے ہاتھوں کے کمال نے چار چاند لگا دیے تھے ہادی کے پیار کا رنگ اس پے ٹوٹ کے آیا تھا
“””””””سحرش کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا………. نوال یہ اتنا چہک کیوں رہی ہے زہرا نے سحرش کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔ نوال نے ہنستے ہوے سعد کے اقرار کے بارے میں بتا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میری بیوی کو کیا پٹیآ ں پڑھا رہی ھو ہادی جس کی نظر بار بار اسٹیج کی طرف اٹھ رہی تھی بس نہیں چل رہا تھا کے وہ زہرا کے پاس جا کے بیٹھ جاۓ لیکن اسکے پاس اسکا گینگ بیٹھا تو بیچارہ جانے سے ہچکچا رہا تھا لیکن نوال کو مسلسل زہرا کے ساتھ ساتھ باتیں کرتے دیکھ کر اس سے رہا نا گیا تو اسٹیج پے آ ہی گیا
آپکی بیوی بننے سے پہلے ہماری دوست اور ویسے آپکو ہمارا شکریہ ادا کرنا چائیے کے کل رات آپکو بنا تنگ کئے روم میں جانے دیا نوال نے رات کو تنگ نا کرنے والی بات کا حوالہ دیا ہاہاہا اس کے لیے میں آپ کا دل سے شکر گزر ھوں ہادی نے مودبآ نہ انداز سے کہا
یار یہ حسن اور عا شی کا کیا چکر چل رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پوری شادی میں حسن اور وہ اک ساتھ رہے کوئی نہ کوئی بات تو ضرورہے رضا نےان دونوں کی طرف دیکھتے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بھی کوئی گڑ بڑ لگتی ہے مل کے کے پوچھے گے ۔۔۔۔۔ ہادی نے جواب دیا۔۔۔۔۔۔
انکی باتیں سن کر نوال کا چہرہ دو ھوا ں دو ھوا ں ھو گیا اسے کل رات والی بات یاد ائی پھر خیال آیا کیا پتہ اسنے ویسے ہی کہا ھو مجھے نہیں سوچنا چاہے اس بارے میں اب ہمیں چلنا چائیے نوال نے دل کیا کفیت چھپاتے ہوے زہرا سے اجازت چائ زہرا نے روکنا چاہ لیکن اسنے معذرت کر لی رضا ان تینوں کو انے کا کھ کے نکل گیا…….
کیوں کے رضا اُ نے چھورنے جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اک آخری نظر حسن پے ڈالتی نوال ہال سے با ہر نکل ائی وہ حسن سے سخت بد گما ن ھو چکی تھی کار کے پاس سعد بھی انے سی اوف کرنے آیا تھا ………
اپنا خیال رکھنا میری امانت سمجھ کے سعد نے اہستہ سے سحرش سے کہا …..
رضا نے پہلے دونوں کو ہوسٹل چھوڑا پھر سبین کو اسکے گھر چھو ڑنے گیا سبین میں جلد ہی امی کو تمہارے گھر بھجوں گا اور پلیز میں کال کروں تو ریسو کر لینا مجھے نوال کو کنفرنس کا نہ کہنا پڑے آئ لو یو سبین کا ہاتھ لبوں سے لگا کے چھوڑ دیا….