زہرہ کی حالت ہیری سے مخفی نہ تھی وہ بھرپور انجواۓ کر رہا تھا۔ بمشکل خود پہ قابو پا کر زہرہ اب منورہ کی کامیابی کو سیلیبریٹ کر رہی تھی۔ اور جیسے ہی سیلیبریشن ختم ہوٸ وہ باہر نکل گٸ اور شہباز سے گھوڑا لیے اسے تیز تیز دوڑانے لگی وہ اپنے دل کا سارا غبار نکال کر اب بیٹھی سوچ رہی تھی۔
ایسے تو نہیں چل سکتا مجھے اس ہیری پورٹر کو تو سبق سکھانا ہی ہو گا۔ کچھ ایسا کرنا ہو گا کہ یہ واپس چاٸنہ بھاگ جاۓ اور کبھی ادھر آنے کا سوچے بھی نہ۔
زہرہ ایک عزم لے کر اٹھی اور پیدل ہی چل پڑی۔ مغرب کی اذانوں کے ساتھ اسکی واپسی ہوٸ تو ماٸدہ بیگم بھری بیٹھی تھیں۔
تمہیں زہرہ میں کتنی بار سمجھاوں آخر یہ شہر نہیں ہے یہاں تو مرد بھی اذانوں سے پہلے لوٹ آتے ہیں اور تم ۔۔۔تم آخر کس مٹی کی بنی ہو؟؟؟؟؟
ماٸدہ بیگم کچھ اور بھی کہتیں کہ اس سے پہلے زہرہ بول پڑی پلیز مما اس وقت نہیں پھر کبھی سہی ابھی میرا بالکل موڈ نہیں۔
زہرہ خود تو کہتی یہ جا وہ جا جبکہ ماٸدہ بیگم کو تو گویا آگ ہی لگ گٸ۔ ہیری ہنسی ضبط کرتا اپنے کمرے میں آ گیا۔ اور دل کھول کر ہنسنے لگا۔
کچھ بھی تھا مگر زہرہ ایک دلچسپ لڑکی تھی اسکی حرکتوں کو ہیری بہت انجواۓ کرتا تھا۔ وہ جو لڑکیوں سے کوسوں دور بھاگتا تھا اب اس لڑکی کو چڑا کر بھڑکا کر لطف اندوز ہوتا تھا۔
******************************
ہیری ویڈیو کال پر بات کر رہا تھا آج اسکا ارادہ تھا کہ وہ اب مام ڈیڈ کو بتا دے کہ وہ کہاں رہ رہا ہے۔ ہیری ہارون صاحب کو پہلے ہی بتا دیتا ندا بیگم کی اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ بتا نہ سکا تھا۔ ندا بیگم ڈپریشن کی مریضہ تھیں۔ ماضی کے واقعات سے وہ پوری طرح ٹھیک نہ ہوٸیں تھیں۔ اور اب ہیری کے پاکستان جانے کے بعد سے وہ مسلسل سوچوں کا شکار تھیں۔ ہر وقت ماضی کو یاد کرتی رہتیں۔ جس کی وجہ سے انہیں ہاسپٹلاٸز ہونا پڑا۔
اور آخرکار آج ہیری نے ان کی بات خضر صاحب سے کروانے کا سوچا۔ ہارون صاحب کو ساری بات بتا کر اب وہ انکی خضر صاحب سے بات کروا رہا تھا۔ اتنے عرصے کے بعد ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد دونوں ہی رو پڑے تھے۔ کون کہتا ہے مرد نہیں روتے۔ وہ بھی اپنوں کے آگے ضبط ہار جاتے ہیں۔ اور اب خضر صاحب ندا بیگم سے بات کر رہے تھے۔ بھاٸ کو دیکھ کر ندا بیگم کی ساری ناراضی دور ہو گٸ تھی۔ دونوں بہن بھاٸ کافی دیر تک ایک دوسرے کے دل کا بوجھ ہلکا کرتے رہے۔
ہیری بیٹا میرے پاس آج الفاظ نہیں ہیں کہ جن میں آپکا شکریہ ادا کر سکوں ۔ آپ نے آج میری بہن ہی نہیں لوٹاٸ مجھے میری دنیا لوٹا دی ہے۔ میرے دل جو کسک تھی آج وہ ختم ہو گٸ ہے۔ خضر صاحب ہیری کے بے حد شکرگزار ہو رہے تھے۔ اور زہرہ جو بابا کو بلانے کے ارادے سے آٸ تھی وہیں سے لوٹ گٸ۔
ہمم خیر یہ ہیری پورٹر اتنا بھی برا نہیں ہے۔ جاٶ مسٹر ہیری اپنے بابا کی خوشی کے لیے زہرہ نے تم کو معاف کیا۔ تم بھی کیا یاد کرو گے کہ کس سخی سے پالا پڑا ہے۔
****************************
زندگی اپنے معمول پر آگٸ تھی۔ بہار ہر سو چھاٸ ہوٸ تھی۔ اور وادیِ کشمیر اپنے سحر میں ہر کسی کو جکڑ رہی تھی۔ زہرہ ناشتے کی ٹیبل پر آٸ اور جلدی جلدی ناشتہ کرنے لگی۔ ہیری منہ بنا کر اسے جلدی جلدی کھاتا دیکھ رہا تھا۔ کہ ہیری اور منورہ دونوں کے لبوں سے نکلا۔۔۔۔۔۔ مینرز
ان دونوں کو ہی اس طرح کھانے سے چڑ تھی۔ جبکہ زہرہ کا منہ کی طرف جاتا ہاتھ ایک لمحے کے لیے رکا مگر کندھے اچکاتے وہ دوبارہ شروع ہو چکی تھی۔
یونہی تو اسکو نہیں کہتے تھے۔۔۔۔۔۔ ڈھیٹ زہرہ۔
بیٹا اتنی جلدی کس بات کی ہے آرام سے کھاٶ۔
اور بابا ان کو بتاٸیں کہ اس طرح کھانا کتنا اَن ہیلتھی ہے۔ منورہ نے اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔
آج بابا مجھے بہت جلدی ہے بالکل بھی ٹاٸم نہیں میں لیٹ ہو گٸ ہوں۔
کیوں مس زہرہ آج آپکو کونسی میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے وزیراعظم صاحب کے ساتھ جس کے لیے آپکو دیر ہو رہی ہے۔
معاملہ زہرہ کی عزت افزاٸ کا ہو اور ماٸدہ خاموش رہیں ایسا کیسے ممکن تھا۔ یہ زہرہ کا خیال تھا۔
بابا آج میرا کامپیٹیشن ہے آپ دعا کرنا کہ میں جیت جاٶں۔
اللہ آپکو کامیاب کرۓ مگر کامپیٹیشن کس چیز کا ہے۔
پتنگ بازی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لو اب یہی کسر رہ گٸ تھی کوٸ ضرورت نہیں جانے کی۔ اب دی زہرہ خضر پتنگ اڑاٸیں گی آوارہ لڑکوں کی طرح اور ہماری ناک کٹواٸیں گی۔
ہیری کو بھی تو دیکھو کتنا سلجھا ہوا بچہ ہے۔ ماٸدہ بیگم کی تان آجکل ہیری پہ آکر ہی ٹوٹتی۔
اور آپ میڈم زہرہ آوارہ لڑکوں والی کوٸ حرکتیں نہ چھوڑنا۔
تو ڈٸیریسٹ مما جانی اپنے سلجھے ہوۓ بچے سے پوچھنا وہ آپکو بتاۓ گا کہ یہ آوارہ لڑکوں کا کھیل چاٸنہ کا قومی کھیل ہے۔ یقیناً آپکے ہونہار سپوت کو بھی آتا ہو گا۔
نہیں مجھے تو کبھی فرصت ہی نہیں ملی پڑھاٸ کے علاوہ باسکٹ بال اور فٹبال ہی کھیلا صرف۔ ہیری نے معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوۓ جھوٹوں کو بھی مات دے دی۔
اچھی بات ہے پھر مما آپ مجھے پھر کبھی باتیں سنا لینا میں بسنت نہیں چھوڑ سکتی۔
زہرہ تو کہتے ہی یہ جا وہ جا ہو گٸ۔
جبکہ ہیری کو بھی دیکھنے کا تجسس ہوا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔
اف نجانے کیوں یہ زہرہ اتنی نافرمان بچی ہے کوٸ ایک بات اگر مانتی ہوتی تو کم از کم آج ممانی شاید مجھے خود ہی کہہ دیتیں کہ جاٶ بیٹا ہیری بسنت تم بھی انجواۓ کرو۔ اپنے نمبر بنانے کے چکر میں میں نے اپنے ہی پاٶں پہ کلہاڑی مار دی۔
ہیری تاسف سے سوچتا رہ گیا۔ پھر لیپ ٹاپ نکال کر مشن کے بارے میں بریفنگ دینے لگا۔
***********************************
قریباً آدھے گھنٹے بعد منورہ دبے پاٶں اسکے کمرے میں آٸ۔
ہیری برو آپ بزی ہیں کیا؟؟؟؟
نہ۔۔۔۔نہیں کچھ کام تھا کیا؟؟؟؟
وہ میں اپیا کا کامپیٹیشن دیکھنے جا رہی تھی آپ چلیں گے کیا؟؟
مگر منورہ آپ زہرہ کے ساتھ کیوں نہیں گٸیں؟؟
کیونکہ اپیا نے منع کیا تھا اور ویسے بھی اپیا کے جتنے بھی کامپیٹیشن ہوتے ہیں میں ان میں اپیا کے جانے کے بعد ہی جاتی ہوں۔ کیونکہ اپیا نے کہا تھا ایسے مما جانے نہیں دیں گی۔
تو آپ ایسے کیوں جا رہی۔ کیونکہ میں مس نہیں کرنا چاہتی اب چلیں۔
اوکے میں ممانی کو کہتا ہوں کہ میں آپکو بازار لے کر جا رہا ہوں۔ ہیری کی تو من کی مراد بر آٸ تھی۔
ماٸدہ بیگم کو بتانے کے بعد وہ دونوں گھر سے نکل آۓ تھے۔
منورہ ہم لیٹ ہو گۓ تو۔۔۔۔۔۔
نہیں ہوں گے اپیا کو پتا ہے کہ میں نے آنا ہے۔
اور ہیری حیران تھا زہرہ اگر تنگ کرتی تھی تو وہ محبت کروانا بھی جانتی تھی۔
جب وہ پہنچے تو زہرہ ابھی پتنگ سلیکٹ کر رہی تھی۔
اپیا۔۔۔۔۔۔
منو میں کب سے انتظار کر رہی تھی اتنا لیٹ کیوں ہوٸ تم زہرہ بولتے بولتے مڑی تو ہیری کو دیکھ کر چپ ہو گٸ۔
خیر کامپیٹیشن سٹارٹ ہوا وہ پتنگ اڑانے والی واحد لڑکی تھی۔ اسکے ساتھ ارباز تھا جبکہ دوسری طرف گاٶں کے ہی لڑکے تھے۔
منورہ خوب زہرہ کو چٸیر اپ کر رہی تھی اسکی فرینڈز بھی تھیں اور بھی بہت سے مختلف عمروں کے لوگ جمع تھے۔
ایک دوسرے پر جملے کستے نعرے لگاتے یہ کھیل اب جنگ کا روپ اختیار کر گیا تھا۔
دوسری طرف کے لڑکے کسی صورت بھی زہرہ کو ہرانا چاہتے تھے یہ بات اب انکی مردانگی پر آگٸ تھی۔ وہی خواہ مخواہ کا مردانگی کا غرور عورت کو خود سے کمتر سمجھنا۔
تین راٶنڈ تھے جن میں سے دو راٶنڈ وہ ایک ایک کر کے جیت چکے تھے۔ زہرہ کے ہاتھ ڈور کی وجہ سے لہو لہان ہو چکے تھے۔ مگر وہ ہار ماننے کو تیار نہ تھی وہ بہتے خون کی پرواہ کیے بغیر پتنگ اڑا رہی تھی۔
اور ہیری اسکے ہاتھوں سے بہتا خون دیکھ کر حیران تھا کہ کوٸ اس قدر بھی جنونی ہو سکتا ہے جیت کے لیے۔
تیسرا راٶنڈ ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ بارش شروع ہو گٸ اور کھیل ختم کرنا پڑا یہ زہرہ کے لیے اچھا ہی ہوا کیونکہ ارباز اتنا تجربہ کار نہ تھا کہ زہرہ کا ساتھ دے پاتا۔ بارش کی وجہ سے کامپیٹیشن تین دن بعد رکھا گیا۔
اور وہ لڑکے زہرہ پر فقرے کستے وہاں چلے گۓ۔
زہرہ آ کر بیٹھی تو منورہ اسکے ہاتھ دیکھ کر رو پڑی۔ اپیا خون بہہ رہا ہے۔
کم آن منو کچھ بھی نہیں ہوتا میں ٹھیک ہوں۔
جی جی پرنسس آپ کی اپیا بہت بہادر ہیں یہ ذرا سی چوٹیں ان پر اثر نہیں کرتیں۔ اور اب بہت ہو گیا چلو اب گھر۔
آپ لوگ جاٶ میں آتی ہوں۔
کوٸ ضرورت نہیں تم ہمارے ساتھ چل رہی ہو وہ بھی ابھی۔ ہیری نے رعب سے کہا تو وہ ساتھ چل دی۔ ہیری نے پہلے اس کے زخم صاف کرواۓ پھر دواٸ لگواٸ۔
گھر آۓ تو اس سے پہلے ماٸدہ بیگم کی نظر پڑتی زہرہ اپنے کمرے میں چلی گٸ اسے ان لڑکوں پہ بے تحاشہ غصہ آ رہا تھا جو اتنے گندے فقرے اس پر اچھال کر گۓ تھے۔
************************************
ماٸدہ بیگم کا ارادہ اسکی کلاس لینے کا تھا مگر ہیری نے نرمی سے منع کر دیا کہ وہ بات کرۓ گا۔
تین دن بعد کامیٹیشن کا دن آگیا اور ارباز بازو پہ چوٹ لگوا کر بیٹھا تھا۔ پوچھنے پر پتا چلا وہ لڑکے اسکو دھکا دے کر گۓ تھے جس کی وجہ سے اس کا بازو زخمی ہو گیا تھا۔
زہرہ کو ان سے گھن آٸ تھی جنہوں نے جیتنے کے لیے چھوٹے سے بچے کو تکلیف پہنچاٸ تھی۔ زہرہ کا بس نہیں چل رہا تھا وہ ان لڑکوں کا قتل کر ڈالے مگر اسے ان کو منہ توڑ جواب دینا تھا۔ ہرا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر پریشانی یہ تھی کہ زہرہ کا ساتھ کون دے گا۔ اسکے زخم اب اتنے بھی ٹھیک نہ ہوۓ تھے۔ خیر جیسے تیسے اس نے پتنگ اڑایا مگر ذیادہ دیر نہ ٹک سکی اور پتنگ کٹوا دی۔ بو کاٹا کا شور پورے باغ اسٹیڈیم میں مچ گیا۔
اپیا ہار جاٸیں گی۔ منورہ کا رونا بند ہی نہ ہو رہا تھا۔ شششش رونا نہیں اپنی اپیا کو چٸیر اپ کرو۔ ہیری اسے دلاسہ دیتے ہوۓ بولا۔ آج وہ خود دونوں کو ساتھ لے کر آیا تھا۔
دوسرا راٶنڈ شروع ہوا وہ لڑکے مسلسل زہرہ پر فقرے کس رہے تھے غصے میں زہرہ نے بھی زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوۓ اپنا پورا دم لگایا اور اور اور پتنگ کٹ چکی تھی بو کاٹا کا شور اٹھا مگر زہرہ کی پتنگ اب تک ہوا میں تھی۔
زہرہ دوسرا راٶنڈ جیت گٸ تھی۔ مگر اس کے ہاتھ بری طرح زخمی ہو گۓ تھے۔ ڈور نے اسکے ہاتھوں پر کٹ لگا دیے تھے۔
تیسرا اور فاٸنل راٶنڈ شروع ہوا دونوں اپنی پوری کوششوں میں لگے ہوۓ تھے مگر زہرہ کٹ لگنے کی وجہ سے اڑا نہیں پارہی تھی۔ کٹ لڑکوں کے ہاتھوں میں بھی لگے تھے۔ مگر وہ دو تھے باری باری اڑا رہے تھے۔ زہرہ کی پتنگ ہاتھ سے چھوٹنے کو تھی وہ ہار رہی تھی اس احساس نے اسکے ہاتھوں سے جان نکال دی تھی کہ اچانک ڈور کسی نے پکڑ لی اور بو کاٹا کا شور اٹھا۔
اسے لگا وہ ہار گٸ ہے وہ رو دینے کو تھی کہ کوٸ اسکے پاس بیٹھ کر بولا۔
کانگریٹس دی گریٹ زہرہ خضر یو ڈِڈ اٹ۔ زہرہ نے چہرہ اوپر اٹھا کر دیکھا تو ہیری اسکے پاس بیٹھا تھا۔ اس نے زہرہ کو جتا دیا تھا اسکے ملک کا قومی کھیل تھا وہ کیسے نہ اس میں ماہر ہوتا۔ اور زہرہ کو تو پہلے یقین ہی نہ آیا مگر منو کے آکر خوشی سے لپٹنے پہ وہ ہوش کی دنیا میں آٸ۔ ماٸ اپیا از گریٹ۔ آٸ ایم پراٶڈ آف یو اپیا۔
دوسری طرف وہ لڑکے چیٹنگ کا شور ڈال رہے تھے جب ہیری جا کر بولا۔
میں زہرہ خضر کا پارٹنر ہوں اور پارٹنر ہیلپ کروا سکتے ہیں ویسے ہی جیسے تم لوگ کر رہے تھے۔ شاید تم لوگ یہ بات ہضم نہیں کر پا رہے ہو کہ ایک لڑکی نے تم لوگوں کو ہرا دیا ہے۔ ہضم کر لو ورنہ معدہ خراب ہو جاۓ گا۔ ہیری انکے بند کرواتا اب زہرہ کے پاس آیا تھا۔ چلو بینڈیج کروا لو ورنہ تمہارے ساتھ ساتھ ممانی مجھے بھی گیٹ آٶٹ کر دیں گی۔
بینڈیج کروا کر وہ لوگ گھر آۓ تو زہرہ کچھ دیر بعد باہر چلی گٸ۔ شام کو ہیری کچھ کام سے نکلا تو دیکھا زہرہ ارباز کے ساتھ بیٹھی اسے پڑھا رہی تھی۔
باجییییی اب بس کرو ام تھک گیا ہے اور ہمارا بازو بھی درد کر رہا ہے۔ ارباز مسکینیت طاری کرتا بولا۔
اچھی طرح پتا ہیں مجھے تمہارے ڈرامے ۔ اچھا باجییی ابی ام کو جانے دو کل ام ذیادہ پڑھے گا۔
اوکے جاٶ۔
زہرہ کو چونکہ خود بھی تھوڑا درد تھا تو اس نے اسے بھیج دیا۔
تو تم اتنی بھی بری نہیں ہو جتنا میں سمجھتا تھا۔ ہیری ارباز کی جگہ پہ بیٹھتے ہوۓ بولا۔
تم نے ٹھیک کہا میں اس سے ذیادہ بری ہوں۔
اوہ اچھا ہاں میں بھی کیسے بھول گیا کہ آپ دی زہرہ خضر ہیں آپ ہماری سوچ کے برعکس ہی چلتی۔
بالکل تم کو کوٸ شک ہے۔۔۔۔؟؟؟ مگر تم نے میری ہیلپ کیوں کی؟؟؟
کب؟؟؟؟ آج۔۔۔۔۔
کیونکہ تم ہار مان رہی تھی اور میں نہیں چاہتا تھا کہ زہرہ خضر کو کوٸ ہراۓ۔ زہرہ خضر کو بس ایک ہی انسان ہرا سکتا ہے اور وہ حیدر ہارون۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...