زہرہ خضر کو بس ایک ہی انسان ہرا سکتا ہے اور وہ ہے حیدر ہارون۔۔۔۔۔۔
زہرہ جو اسکی پہلی بات پر اسے اچھا سمجھنے لگی تھی اگلی بات پر اچھل ہی پڑی۔ وہ کمینہ تھا اور اس نے کمینہ نے رہنا تھا۔
زہرہ کا حلق تک کڑوا ہو گیا وہ وہاں سے اٹھ کر جانے لگی کہ ہیری بول پڑا۔
اچھا اب ناراض تو مت ہو میں سوچ رہا تھا جب سے میں یہاں آیا ہوں ہماری لڑاٸ ہی ہو رہی ہے تو کیوں نہ ہم فرینڈز بن جاٸیں۔ اب تم مشرقی لڑکیوں کی طرح یہ مت کہنا کہ تم لڑکوں سے دوستی نہیں کرتی کیوں کہ میں دیکھ چکا ہوں کہ تمہاری لڑکیوں کے بجائے لڑکوں سے ذیادہ بنتی ہے۔
تو تم کو ایسا کیوں لگا کہ میں ایسا کچھ بھی کہوں گی۔ جبکہ حقیقت تو تم کو بھی پتا ہے۔
اچھا تو پھر فرینڈز۔۔۔۔۔۔ ہیری مسکراتے ہوۓ بولا۔
تم کو ایسا بھی کیوں لگا کہ میں تم سے فرینڈ شپ کروں گی۔ زہرہ کے دوست محدود ہیں کیونکہ زہرہ نبھانا جانتی ہے۔ واہ کیا انداز تھا۔۔۔۔زہرہ خود کو دل ہی دل میں داد دے رہی تھی اس ڈاٸیلاگ بازی پہ۔
ہیری امپریس ہوا تھا یا نہیں مگر وہ چپ ضرور ہو گیا تھا۔
ہونہہ آیا بڑا جانتی ہوں میں اس غدار کو مجھ سے دوستی کر کے پھر مما کو میری شکایتیں لگایا کرۓ گا۔ مگر شاید اسکو یہ نہیں پتا زہرہ اس سے ذیادہ سمجھدار ہے۔
وہ خود ہی اپنی تعریفیں کر کے خود کو ہی داد دیے جا رہی تھی۔ شام کا اندھیرا پھیلا تو وہ گھر کی طرف چل دیے۔ خضر صاحب اسلام آباد گۓ ہوۓ تھے اور آج ہی واپس آۓ تھے۔ زہرہ کے ہاتھ کے زخم دیکھ کر اب اسے ڈانٹ رہے تھے۔
بیٹا اگر آپکو آذادی دی گٸ ہے تو اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ کچھ بھی کریں جب ہماری فیملی میں ایسا کوٸ نہیں ہمارے سوشل سرکل میں بھی نہیں تو کس پر چلی گٸ ہیں آپ کون سکھا رہا ہے آپکو یہ سب؟؟؟؟؟؟
اگر کچھ ہو جاتا تو پھر ہر بار آپ کچھ ایسا کرتی ہیں کہ پھر خود کو چوٹ پہنچا دیتی ہیں۔ زہرہ جو سر جھکاۓ کھڑی اپنی عزت افزاٸ سن رہی تھی بول پڑی۔
مگر بابا آپکی بیٹی بہادر ہے نہ وہ اتنی سی چوٹوں سے گھبراتی نہیں ہے۔
اور اسکی بات سن آج خضر صاحب کو احساس ہوا کہ کیوں ماٸدہ بیگم اتنا کُڑھتی ہیں۔ زہرہ پہ اثر ہی نہیں ہوتا ڈانٹ کا وہ سچ میں ڈھیٹ تھی۔۔۔۔۔۔۔
**********************************
ایک ہفتہ ہو گیا تھا خضر صاحب نے زہرہ سے بات چیت بالکل بند کی ہوٸ تھی۔ اور اب زہرہ کا صبر جواب دے گیا تھا وہ ہر حال میں اپنے جان سے پیارے بابا جان کو منا لینا چاہتی تھی۔
اوکے تو اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں مان جاٶں تو پھر ایک شرط ہے۔۔۔۔۔
کیسی شرط مجھے منظور ہے بس آپ یہ مت کہنا کہ زہرہ اپنی ایکٹیویٹیز چھوڑ دو۔
وہ شرط ماننے کے ساتھ اپنی شرط بھی رکھ چکی تھی۔
ارے نہیں میں ایسا کچھ نہیں کہہ رہا بس میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ ہیری کو آۓ کتنا ٹاٸم ہو گیا ہے اور وہ اب تک کہیں گھومنے پھرنے نہیں گیا اور چونکہ منورہ کے پیپرز سٹارٹ ہونے والے تو یہ ذمہ داری آپکی ہے کہ آپ ہیری کو اپنا شہرہ گھوماٸیں گی۔
کیا زہرہ کو تو جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو اس ہیری پورٹر کو اب میں گھوماٶں گی۔ مگر بابا وہ روز ہی تو باہر نکل جاتا ہے تو اب تک تو اس نے سارا ایریا دیکھ لیا ہو گا۔
اوکے اگر آپ کو نہیں منظور تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں بابا میں دکھا دوں گی اس کو آپ فکر نہ کریں۔ زہرہ کچھ سوچ چکی تھی یقیناً۔
گڈ تو پھر کل سے شروع ہو جاٸیں۔
یہ ایک طرح سے زہرہ کے لیے سزا تھی تو دوسری طرف ہیری کے لیے فَیور تھا کیونکہ وہ اس شہر کے بارے میں ذیادہ نہیں جانتا تھا اب گھومنے پھرنے کے بہانے وہ مزید انفارمیشن لے سکتا تھا۔
وہ جلد از جلد یہاں سے واپس جانا چاہتا تھا اسی لیے مجبوراً اسے خضر صاحب کو انوالو کرنا پڑا اور انہوں نے اسکا حل زہرہ کی صورت نکالا تھا۔
ایک تو وہ واقف تھی سارے ایریے سے دوسرا وہ جلد گھل مل جاتی تھی مقامی لوگوں سے۔
مگر زہرہ کو بالکل پسند نہ تھا کہ وہ ساتھ میں کسی کو لیے لیے پھرۓ اسے چڑ تھی اس سے اور اس انسان سے بھی۔
زہرہ شام کو مارکیٹ چلی گٸ اور رات کو اب وہ کھانے کے بعد اس کے کمرے میں موجود تھی۔ ڈھیر سارے پیپرز کے ساتھ۔۔۔۔۔
کیا ہوا؟؟؟؟؟
ہیری حیران ہوا تھا کیونکہ یہ پہلی دفعہ تھا کہ زہرہ نے اسکے کمرے میں قدم رکھا تھا۔
یہ ساری چیزیں اچھی طرح دیکھ لو اور رٹ لو ساتھ میں ساری انفارمیشن بھی لکھی ہوٸ ہے۔ وہ سارے پیپرز اسکے سامنے ڈھیر کر کے جا چکی تھی۔
یہ لڑکی پاگل ہے کیا؟؟؟؟ اسکے جانے کے بعد ہیری سوچ رہا تھا اور پیپرز دیکھ کر اسکے پاگل پن پہ سند لگا چکا تھا۔
سیریسلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا اور اب وہ قہقے لگا رہا تھا۔
زہرہ اسے نقشے اور اہم مقامات کی تصویریں انفارمیشن کے ساتھ تھما کے گٸ تھی۔ ہمم مطلب اب دی زہرہ خضر کو اپنے طریقے سے ہینڈل کرنا پڑے گا۔
وہ اب تک ہنس رہا تھا زہرہ کی اس حرکت پر۔
*************************************
تیسرے دن خضر صاحب ہیری سے پوچھ رہے تھے۔
تو ہیری بیٹا پھر کہاں کہاں تک گھوم لیے؟؟؟؟
جی سارا یاد کر لیا۔ اب موقع ملا تھا تو ہیری نے حساب برابر کرنے کا سوچا۔
یاد کر لیا مطلب تم گھومنے گۓ تھے یا یاد کرنے گۓ تھے۔ خضر صاحب حیران تھے جبکہ باہر جاتی زہرہ ٹھٹھک کر رک گٸ تھی۔
اس نے کیسے سوچ لیا تھا کہ یہ منحوس انسان شکایت نہیں لگاۓ گا۔ اب تو زہرہ کی شامت آنی تھی۔
وہ جتنی گالیاں دے سکتی تھی تھی اس نے ہیری کو دل ہی دل میں دے ڈالی تھی۔
وہ ماموں میں کہہ رہا تھا کہ اگر گھومانے پھرانے والی دی گریٹ زہرہ خضر ہوں تو پھر تو بندہ آرام سے پوری دنیا چند ہی دنوں میں نہ صرف گھوم سکتا ہے بلکہ حفظ بھی کر سکتا ہے۔
کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔۔۔۔۔ زہرہ بیٹا ادھر آنا یہ ہیری کیا کہہ رہا ہے ہمممم آپ نے گھومایا نہیں اس کو۔
جی بابا وہ میں ۔۔۔۔۔ زہرہ سے بات نہ بن پارہی تھی کہ ہیری اسکی بات کاٹتے ہوۓ بولا۔
وہ ماموں زہرہ مجھے ساری انفارمیشن اور میپس لا کر دے چکی ہے۔ تو میں نے یاد کر لیے۔ ہیری زہرہ کی حالت سے لطف اٹھاتے ہوۓ بولا۔
اور خضر صاحب اس بات پر سر پکڑ کر بیٹھ گۓ تھے۔
کچھ لوگ کبھی نہیں سدھر سکتے اور نہ انہیں سدھرنا ہوتا ہے۔ اور زہرہ خضر اس بات کا عملی نمونہ تھی۔
************************************
آخر کار خضر صاحب سے ڈانٹ کھانے کے بعد زہرہ اب ہیری کو گھما پھرا رہی تھی۔ آج اسے اسکے ساتھ سر کھپاتے چوتھا دن تھا۔ ان چار دنوں میں وہ اسے آدھی سے ذیادہ جگہیں گھما چکی تھی۔ لسڈنہ، بیر پانی چٸیر لفٹ، بنجوسہ جھیل سبھی جگہیں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں۔ اور ہیری یہ ماننے پر مجبور ہو گیا تھا کہ اگر اس وادی کو جنت کا ٹکڑا کہتے ہیں تو سچ میں یہ جگہ واقعی ہی یہ حق رکھتی ہے۔ ہر جگہ ایک سے بڑھ کر ایک تھی۔ اتنی خوبصورتی شاید ہی کہیں اور ہو جتنی اس چھوٹے سے شہر میں تھی۔
لسڈنہ چونکہ بارڈر کے قریب ترین جگہ ہے سو ہیری نے پھر سے وہاں جانے کی خواہش کی تھی اور وہاں کے بارے میں ہر طرح کی معلومات اس نے زہرہ سے سوال پوچھ پوچھ کر حاصل کی تھیں۔ خضر صاحب کی وجہ سے وہ بارڈر کے نزدیک چلے گۓ تھے۔
آج تھوڑا سا امن ہے ورنہ یہاں اکثر ہی حالات خراب رہتے ہیں۔ اور اس کے آس پاس کے گاٶں میں خون بہتا ہی رہتا ہے جنازے اٹھتے ہی رہتے ہیں۔
زہرہ دکھی ہو گٸ تھی مگر پھر اپنے روپ میں واپس آگٸ تھی۔ چلو اب چلتے ہیں تم تو ایسے بی ہیو کر رہے ہو جیسے جاسوسی کرنے آۓ ہو۔ ہیری کو فوجیوں سے بات کرتے دیکھ زہرہ چڑ کر بولی تھی۔
اوکے چلو اور آج ہی تم مجھے کھرلہ عباسیاں ، قادرآباد اور چھتر وغیرہ دکھاٶ گی۔
کیاااااااا تمہارا دماغ ٹھیک ہے یہ تینوں جگہیں ایک دوسرے سے بہت دور دور ہیں۔ زہرہ تو اس وقت کو کوس رہی جب اس نے ہیری کو سارے نقشے لا کر دیے تھے اور اس منحوس انسان نے سارے رٹ بھی لیے تھے۔
ابھی پرسوں وہ اسے بیر پانی لے کر گٸ تھی باغ کی ٹاپ ہل پر چٸیر لفٹ پہ بٹھا کے اس نے اسے سارا ایریا دکھایا تھا۔
اور کل صبح وہ فجر کے ٹاٸم بنجوسہ کے لیے نکلے تھے ۔ وہاں جھیل کنارے بیٹھی زہرہ اسے اپنا خواب ہے لگ رہی تھی۔ جب سے وہ پاکستان آیا تھا اس خواب کا سلسلہ رک گیا تھا اور اب زہرہ کو دیکھ کر اسے دوبارہ یاد آیا تھا۔ مگر وہ سر جھٹکتا اس تک آیا اٹھ بھی جاٶ بہت نکمی ہو تم ہمیں آج ہی سارا بنجوسہ دیکھنا ہے صرف جھیل نہیں دیکھنی۔
اچھا آٶ ہم بوٹنگ کرتے ہیں۔ زہرہ خوش ہوتے ہوۓ بولی۔
بالکل نہیں چلو اب۔۔۔۔ ہیری اسے زبردستی اٹھاتے ہوۓ بولا۔
آخر تمہیں جلدی کس بات کی ہے ہاں کہیں تو ٹک جاٶ یہ ایک دن میں دیکھنے والی جگہ تو بالکل نہیں ہے۔ مگر ہیری نے اسکی ایک نہ سنی۔ آدھی رات کو وہ واپس آۓ تھے اور اگلی صبح ہیری اسے پھر سے لسڈنہ لے آیا تھا۔
مجھے اب کہیں نہیں جانا تم میرا آٶٹنگ سے بالکل ہی دل اچاٹ کر دو گے۔
ہاں تو حرج ہی کیا ہے۔ ہیری اسے چڑاتے ہوۓ بولا۔
بس اب میں کہیں بھی نہیں جاٶں گی اور تمہارے ساتھ تو کبھی بھی نہیں۔
اچھا ناراض مت ہو کل ہم ریسٹ کریں گے اور پرسوں تولی پیر جاٸیں گے اوکے۔
ہیری اس پہ احسان کرتے ہوۓ بولا۔ اگلے دن وہ اپنے آفیسرز کے ساتھ میٹنگ میں مصروف رہا چاٸنہ سے دس رکنی ٹیم آٸ ہوٸ تھی۔ جسکی وجہ سے ہیری نے زہرہ کو ریسٹ کا کہہ دیا۔
*********************************
ہیری میٹنگ اٹینڈ کر کے آیا تو بہت خوش تھا اسکا کام واقعی قابلِ تعریف تھا۔ اسکے ہیڈ وانگ لی نے اسے سراہا تھا اور ہیری کو تو جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گٸ تھی۔ وانگ لی بہت کم کسی کی تعریف کرتے تھے۔ تو ہیری کا نہال ہونا بنتا تھا۔
کل ہم تولی پیر جا رہے ہیں۔ زہرہ ٹی وی دیکھ رہی تھی جب ہیری اس سے ریموٹ لیتے ہوۓ بولا۔
اور کھولتی ہوٸ وہاں سے اٹھ گٸ جانتی تھی کہ اسے جانا ہی پڑے گا ورنہ یہ منحوس انسان بابا کو شکایت لگانے سے چوکتا نہ تھا۔
فجر کی نماز کے بعد زہرہ باہر چہل قدمی کر رہی تھی کہ ہیری آتا ہوا دکھاٸ دیا وہ ابھی مسجد سے ہو کر آیا تھا۔
کیوں چڑیلوں کی طرح یہاں گھوم رہی ہو جانا نہیں ہے کیا۔
اور زہرہ جو صبح صبح ہی اسکے منہ لگ چکی تھی منہ بنا کے رہ گٸ۔
جا رہی تھی بس ۔ زہرہ پیر پٹختی اندر آگٸ۔
ایک تو یہ بس ہر جگہ نازل ہو جاتا ہے کیا مجال ہے کہ مجھے سکون سے رہنے دے دے۔ چَول کہیں کا۔
زہرہ تیار ہو کر آٸ تو وہ نکل پڑے۔
آٹھ بجے وہ تولی پیر تھے۔ اور اب یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔ صبح اپنی اپنی دلکشی ہر سو پھیلا رہی تھی۔
اف کتنی پکچرز لو گی تم تھکتی نہیں ہو کیا۔
بالکل بھی نہیں اور تم کو جیلس ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے سمجھے۔
جیلس اور تم سے خدا کو مانو اتنی خوش فہمی بھی اچھی نہیں۔
تو تم کو کیا مسٸلہ ہے۔
مجھے تو کچھ بھی نہیں۔ آٶ گھڑ سواری کرتے ہیں۔ ہیری گھوڑوں کو دیکھتے ہوۓ بولا۔
ایک بات جو اسے اب تک پتا نہ چلی تھی وہ زہرہ کی خوبیاں تھیں اسکے کارنامے جانتا تھا وہ صرف سو اسے لگا کہ زہرہ کو گھڑ سواری نہیں آتی اسلٸیے جان بوجھ کر اسے آفر کی۔
زہرہ نے دیکھا تو ایک گھوڑے والا چلا آرہا تھا جس کے ساتھ دو گھوڑے تھے۔ سفید اور نہایت خوبصورت گھوڑے۔
زہرہ کو سفید گھوڑے دکھ کر مایوسی ہوٸ اس لیے رخ موڑ کر بولی۔
مجھے نہیں بیٹھنا تم کو بیٹھنا ہے تو بیٹھ جاٶ۔
کیوں تمہیں ڈر لگ رہا ہے فکر نہ کرو تم میرے ساتھ بیٹھ جانا۔ ہیری مذاق اڑاتا ہوا بولا۔
زہرہ نے اسکے انداز پر دھیان نہیں دیا اسلیے آرام سے بولی۔
مجھے یہ گھوڑے نہیں پسند۔
تمہیں گھوڑے نہیں پسند۔۔۔۔۔۔ جبکہ لڑکیاں تو چاہتی یہی ہیں کہ کوٸ شہزادہ سفید گھوڑا پر ان کے لیے آۓ۔ ہیری حیران ہوتا ہوا بولا۔
تمہیں کس نے کہا مجھے گھوڑے نہیں پسند۔۔۔ مجھے گھوڑے پسند ہیں مگر کالے گھوڑے۔ میں چاہتی ہو کوٸ کالا کلوٹا سا شہزادہ کالے گھوڑے پر میرے لیے آۓ۔ اور مجھی دووووووور کہیں لے جاۓ۔
شہزادہ اور کالا کلوٹا؟؟؟؟؟ ہیری کو تو صدمہ ہی لگ گیا تھا اسکی بات پر۔
ہاں تو کیا کالا کلوٹا انسان شہزادہ نہیں ہو سکتا کیا اسکا دل نہیں چاہتا ہو گا کہ کوٸ حسین سی پری اسکا انتظار کر رہی ہو۔ انداز سراسر چڑانے والا تھا۔
پری اور تم؟؟؟؟؟
ہاہاہا اچھا جوک تھا۔
خیر آٶ میں تمہیں گھڑ سواری سکھاٶں ایسا نہ ہو جب تمہارا شہزادہ تمہیں گھوڑے پر بٹھاۓ تو تم گری پڑی اپنی ہڈی تڑوا بیٹھی ہو۔
ہیری اسے نیچا دکھانے میں کوٸ کسر نہیں چھوڑ رہا تھا وہ اسے اس دن کا طعنہ دے رہا تھا جب زہرہ کو پیر پہ چوٹ لگی تھی۔ ہیری چونکہ اصل کہانی سے ناواقف تھا اسی لیے اسے چڑا رہا تھا۔
مجھے تمہاری ہیلپ کی ضرورت نہیں۔ زہرہ غصے سے آگے بڑھی۔ گھوڑے والے نے مدد کی پیشکش کی مگر اس نے انکار کر دیا اور گھوڑے پہ سوار ہو گٸ۔
اب وہ اسے دوڑاۓ جا رہی تھی تیز تیز اور ہیری۔۔۔ ہیری تو منہ کھولے اسے دیکھ رہا تھا جو ماہرانہ انداز میں گھوڑا دوڑا رہی تھی۔