ظہیر خان آفس آیا تو بھی اسکا دل نہیں لگ رہا تھا۔ کیوں مجھے برا لگ رہا ہے میں سوچ ہی کیوں رہا ہوں؟؟؟
وہ جو چاہے مرضی کرے اب وہ میری سیکرٹری تو نہیں رہی نہ۔
مگر پھر بھی وہ بھلا نہیں پا رہا تھا۔ ایسا کیوں ہو رہا تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
آخر تین دن تک سوچوں کے تسلسل سے تھک ہار کر اس نے واپس کام میں دھیان لگایا۔
مس زارا مجھے ونٹرکلیکشن کے ڈیزائن چیک کروائیں۔ ہمیں پھر وہ ڈیزائنز ارتضی خان کو بھیجنے بھی ہیں۔
اوکے سر میں ابھی کہتی ہوں۔
سر وہ۔۔۔۔۔ زارا (ظہیر کی نیو سیکرٹری) پریشان سی اندر آئ۔
سر وہ ڈیزائن مل نہیں رہے ہیں۔
کیا مطلب ہے آپکا مل نہیں رہے ہیں؟؟؟؟
ظہیر خان غصے سے بولا۔
آپکو اندازہ بھی ہے وہ کتنے اپورٹنٹ تھے۔
سر مجھے لگتا ہے شاید مس عائشہ ساتھ لے گئ ہیں۔
کیونکہ انھی کے پاس تو تھے وہ ڈیزائنز۔ اور پھر ہو سکتا ہے یہ سب ان نے اسلیے کیا ہو کیونکہ آپ نے انہیں فائر کر دیا۔
مس زاراآپ جائیے اور مجھے وہ ڈیزائنز ہر صورت چاہیے۔
ظہیر تاؤ کھاتا بولا ایک تو پہلے ہی وہ عائشہ کے جانے سے اپ سیٹ تھا۔
مگر فلحال وہ یہ بات ماننے سے انکاری تھا۔
تنگ آ کر وہ باہر نکل آیا۔ پریشانی ہی پریشانی تھی۔
ارتضی خان کے ساتھ اسکی بہت بڑی ڈیل تھی۔
اگر ڈیزائن نہیں ملتے تو دونوں کو ہی بہت بڑا نقصان جھیلنا پڑتا۔
وہ قریب بنے ریسٹورنٹ میں آگیا۔
تبھی اس نے عائشہ کو آفان ملک کے ساتھ کچھ بات کرتے دیکھا۔
آفان ملک شوبز کی دنیا کا بدترین دھبہ تھا۔ لوگوں کو دھوکہ دے کر اپنا فائدہ کرنا اسکا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
آفس سے ڈیزائن چوری ہونا اور پھر عائشہ کا آفان ملک سے ملنا۔ اسکا ذہن کڑیاں ملا رہا تھا۔
اور جو نتیجہ اس کے سامنے آرہا تھا وہ کچھ اچھا نہیں تھا۔
اسکا غصہ عروج پہ تھا سو وہ بنا سوچے سمجے باہر نکل آیا۔
پٹھان تھا غصے میں سوچنا سمجھنا چھوڑ دیا تھا اس نے۔
فوراً عاٸشہ کے سر پر جا پہنچا۔
چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔
عاٸشہ جو پہلے ہی آفان ملک کی دھمکی سن کر الجھ گٸ تھی اب ظہیر خان کے اس ری ایکشن پر بوکھلا گٸ۔
اسکی بوکھلاہٹ کا ظہیر خان نے کچھ اور ہی مطلب سمجھا تھا۔
گاڑی میں دھکیل کر وہ اب ریش ڈراٸیونگ کر رہا تھا۔
ہوا کیا ہے کیا آپ کچھ بتانا پسند کریں گے۔
اپنا منہ بند رکھو ایسا نہ ہو میرا تم پہ ہاتھ اٹھ جاۓ۔
عاٸشہ اس کے بعد کچھ نہ بولی۔
اپنے آفس میں لا کر اس نے اسے جیسے صوفے پہ پٹخا تھا۔
ہوا کیا ہے بتاٸیں تو سہی۔
کیا میں بتانا پسند کروں سر۔۔۔۔ زارا کب وہاں آٸ اسے کچھ اندازہ نہ ہوا۔
زارا کو دیکھ کر ایک منظر چھم سے اسکی آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔
وہ آفان ملک کو جانتی تھی اور اسکی شہرت سے بھی واقف تھی۔
تین چار بار وہ زارا کو آفان ملک کے ساتھ دیکھ چکی تھی۔
عاٸشہ بزنس کے بارے میں جانتی تھی مگر وہ بزنس کے داٶ پیچ سے نابلد تھی۔
مگر آج آفان ملک کی دھمکی کے بعد اسے ساری بات سمجھ آ گٸ تھی۔
آفان ملک ظہیر خان اور ارتضیٰ خان دونوں کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا۔
اور ان دونوں کی ایک ہی چیز مشترک تھی اور وہ تھی عاٸشہ خان۔
**********************
مس عاٸشہ آپ نے خان انڈسٹری کے ونٹر کلیکشن کے ڈیزاٸن چراۓ ہیں اور وہ آپ کسی اور کو بیچ چکی ہیں۔
ویسے پیسوں کے لیے کوٸ اتنا بھی گر سکتا ہے مجھے اندازہ نہیں تھا۔
لسن مس ایکس واٸ زی۔۔۔۔۔۔
عاٸشہ اسے کچھ کہنے والی تھی کہ ظہیر خان بول پڑا۔
مس عاٸشہ خان لاٸف میں کبھی بھی میرے سامنے آنے سے گریز کیجیے گا۔ آپ کو میں نے بہت الگ سمجھا تھا مگر چند روپوں کے لیے آپ اتنا گر جاٸیں گی میں نے سوچا نہ تھا۔
رہنے دیجیے سر یہ جو مڈل کلاس سے ہوتے ہیں نہ لوگ انکی سوچ اور انکے ایمان چند روپوں پہ بک جاتے ہیں۔
زارا طنز سے بولی۔
اور عاٸشہ کے پیروں تلے سے جیسے زمین کھسک گٸ تھی۔
اسے ظہیر خان سے ایسی بے اعتباری کی امید نہیں تھی۔ عاٸشہ ان سازشوں سے نابلد تھی ظہیر تو سب سے واقف تھا نہ۔ کیا وہ اتنے عرصے میں عاٸشہ کو جان نہ پایا تھا۔
اسے دکھ ہوا تھا مگر وہ پی گٸ۔
اور وہاں سے ہمیشہ کے لیے نکل آٸ۔
***********************************
لالی اسے میرا اعتبار نہیں تھا۔ کیا میری محنت کا یہ صلہ تھا۔
وہ روۓ جا رہی تھی۔
بس میری لاڈو روتے نہیں۔ جو سچے ہوتے ہیں وقت انکا گواہ بن جاتا ہے۔
تم دیکھنا ایک دن جب اسے احساس ہو گا تو وہ خود آۓ گا تم سے معافی مانگنے کے لیے۔
مگر لالی میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں۔ وہ بچوں کے انداز میں بولی۔ سدرہ اس کے انداز پہ مسکرا دی تھی۔
وہ پیاری سی لڑکی اس دنیا کی محسوس ہی نہ ہوتی تھی۔ اتنا سب ہونے کے بعد بھی وہ ظہیر خان سے بدگمان نہیں ہوٸ تھی وہ بس ناراض تھی اس سے۔
اگر وہ اسے منانے آتا تو یقیناً اس نے جھٹ سے مان جان تھا۔
مگر وقت مہلت دیتا تب نہ۔
*************************
لالی۔۔۔۔۔لالی آپ آج اتنی پیاری لگ رہی ہیں اتنی پیاری کہ بس بہت پیاری لگ رہی ہیں۔
عاٸشہ تو سدرہ کو مایوں کے جوڑے میں دیکھ کر اس پہ دل و جان سے فدا ہو گٸ تھی۔
ہاۓ چڑیل کیسی ہو؟؟؟؟؟
اسفی لالہ آپ۔۔۔۔ آپ کب آۓ؟؟؟؟
بس کچھ دیر پہلے۔
کچھ شرم کر لیں لالہ آپ آپکی بہن کی شادی ہے اور بجاۓ اس کے کہ آپ جلدی آتے کچھ کام وام کرتے اب آ رہے ہیں۔
آتو گیا ہوں نہ اور ویسے بھی آج مایوں ہے شادی نہیں۔
اچھا خانی بیگم کہاں ہیں آپکی اور میرا پیارا راج دلارا کدھر ہے۔
نیچے ہے تم جاٶ میں تمہاری لالی کو لے کر آتا ہوں۔
اور ہاں ایک بات اور اپنی لالی کے ساتھ بیٹھنا تا کہ لوگ تم سے ڈر کر میری بہن کو کم دیکھیں اور اسے نظر نہ لگے۔
لالہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔
اچھا اچھا جاٶ۔
ہونہہ بہت برے ہیں آپ۔۔۔
پاگل لڑکی۔
عاٸشہ نیچے چلی گٸ۔ اسفند یار کی بیوی عاٸشہ کی کافی بنتی تھی اور پھر وہ اس گھر کی پہلی بہو تھی تو عاٸشہ بس کے آگے پیچھے ہی گھومتی تھی۔
ارے میرا پیارا ٹیڈی بٸیر ادھر آٶ میرے پاس۔
بھابھی یہ تو بالکل اسفی لالہ جیسا ہو گیا ہے۔
ہاں نہ بالکل ہینڈسم سا۔ اسفند سدرہ کو لے آیا اور اب عاٸشہ کو ستا رہا تھا۔
ایک ہی خاندان ہونے کے سبب سبھی فنکشنز کمباٸن رکھے گۓ تھے۔ مگر سدرہ کا پردہ کرا کر۔
سکندر بہت کوشش کر رہا تھا کہ ایک جھلک دکھ جاۓ مگر عاٸشہ خوب سالی کا رول ادا کر رہی تھی۔
گڑیا تم میری بہن تھی شاید۔ تنگ آ کر وہ بولا۔
ہاں مگر ابھی میں صرف لالی کی بہن ہوں بس۔۔۔۔
اچھا بچوووو بعد میں تم میری منتیں کرنا میں تمہیں بالکل تمہاری لالی سے ملنے نہیں دوں گا۔
تاروں کا چمکتا گہنا ہو
پھولوں کی مہکتی وادی ہو
اس گھر میں خوشحالی آۓ
جس گھر میں تمہاری شادی ہو
عاٸشہ پرفارم کر رہی تھی۔ وہ خوش تھی بہت خوش۔۔۔۔۔
***************************
چلو لڑکیو جلدی کرو بعد میں پھر تم لوگوں کی تیاریاں ختم نہیں ہوتیں۔
آج سدرہ کی مہندی تھی۔
اور اسفند نے انہیں پارلر لے جانا تھا۔
لالہ اب چلیں بھی کتنا لیٹ کرواتے ہیں آپ۔ عاٸشہ مزے سے سارا الزام اس پہ ڈالتی گاڑی میں بیٹھ گٸ۔
کیسے جھیلتے ہو اس بلا کو تم لوگ بھٸ ہمت ہے تمہاری۔
اچھا اب چلیں باتیں مت کریں۔ عاٸشہ منہ بنا کر بولی۔
سدرہ کہاں ہے تم اکیلے ہی باہر آگٸ ہو۔۔۔
وہ لالی آرہی ہیں آپ یہ چادر انہیں دے کر آٸیں۔
تم خود کیوں نہیں جاتی۔
جب جینٹل مین ساتھ ہوں تو لیڈیز کام نہیں کرتیں۔
اوہ اچھا تمہاری ایسی کی تیسی۔
مگر اسے کیا اثر ہوتا۔
ہوو ہوو سدرہ کا دیکھتے ہی عاٸشہ نے ہونٹ گول کر کے سیٹی بجاٸ۔
ہاۓ لالی اگر میں لڑکا ہوتی تو پھر میں دیکھتی آپ کو کیسے سکندر لالہ اپنی دلہن بناتے۔
تم سدھرنا مت بیٹھو اب۔۔۔۔
سدرہ کو اس نے فرنٹ پر بٹھایا اور خود پیچھے آ گٸ۔
چلیں۔
نہیں میں سوچ رہی ہوں صبح تک ویٹ کر لیتے ہیں۔
چڑیل میں تمہیں یہیں اتار جاٶں گا۔
اوکے اوکے چلیں اب۔۔۔۔
اب یہاں کیوں روک دی گاڑی۔۔۔۔
اسفند پھولوں والی شاپ کے پاس رکا۔
گجرے نہیں لینے کیا؟؟؟؟
واٶ لالہ شادی کر کے آپکو ساری چیزوں کا کتنے اچھے سے پتا چل گیا ہے نہ۔
منہ بند کرو اور چلو۔
نہ بالکل نہیں دلہن کو اکیلے چھوڑ کر نہیں جاتے۔
اچھا میری ماں بیٹھی رہو ادھر ہی۔
اسفند سڑک کنارے گاڑی کھڑی کر کے سامنے دکان میں چلا گیا۔
ویسے لالی آپ گھومنے کہاں جاٸیں گی؟؟؟؟
کیوں تم نے ساتھ جانا ہے کیا؟؟؟
کوٸ نٸیں میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔
یہ لو لڑکیو گجرے اور تمہاری چاکلیٹس۔۔۔۔
ہاۓ لالہ آپ کتنے اچھے ہیں۔
نہ نہ بہنا اب اسکے بدلے میں تم اپنا منہ بالکل بند رکھو گی بالکل مطلب بالکل۔۔۔
لالہ۔۔۔۔
مطلب تم چاہتی ہو میں تم سے لے لوں۔
اچھا نہ اوکے۔
**********************
سدرہ کی شادی بخیریت ختم ہو گٸ تھی۔ وہ شادی کے بعد ورلڈ ٹور پہ گۓ تھے۔
اسفند بھی واپس چلا گیا تھا اب ایک عاٸشہ ہی تھی جو بری طرح بوریت کا شکار تھی۔
ابھی وہ دن سے سکندر کے گھر پر تھی چچا اور چچی کا دل بہلا رہا تھا اسکی وجہ سے۔
آج وہ دو دن بعد گھر واپس آٸ تھی۔
بھابھی گھر کتنا سونا ہو گیا ہے نہ بالکل خالی خالی بچوں کی وجہ سے کتنی رونق لگی رہتی ہےگھر میں۔
ہاں یہ تو ہے آپ اسفند کو واپس بلا لیں۔
مام مام اوہ ماٸ ڈٸیرسٹ مام ام بیک۔
مام کدھر ہیں آپ؟؟؟؟ عاٸشہ آتے ہی شروع ہو گٸ تھی۔
اوہ مام آپ یہاں ہیں۔۔۔۔ السلام علیکم پھپھو۔
عاٸشہ دھپ کر کے صوفے پہ بیٹھ گٸ۔
وعلیکم السلام۔۔۔۔۔
مام ماٸ سویٹ ہارٹ میں نے آپکو بہت مِس کیا۔ اور پتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاٸشہ شروع ہو گٸ تھی اب اس نے دو دن کی ساری باتیں بتا کر ہی چپ ہونا تھا۔
آج تو پھپھو بھی پیار سے اسے سن رہی تھیں۔
سدرہ کے جانے کے بعد وہ بولاٸ بولاٸ پھرتی تھیں۔ تنہاٸ سے گھبرا کر وہ یہاں آٸ تھیں۔
اور اب عاٸشہ کا بولنا ان کو بھا رہا تھا اس چڑیا کی چہچہاہٹ سے ہی گھر میں رونق تھی۔
آج انہیں عاٸشہ پہ خوب پیار آرہا تھا۔
سچ میں وقت آپ کی قدر کروا ہی دیتا ہے۔
*******************************
عاٸشہ اب بور نہیں ہوتی تھی اس نے اپنی دلچسپی کا سامان ڈھونڈ لیا تھا۔
عاٸشہ کی خواہش پہ وہ سب ارتضیٰ ہاوس رہ رہے تھے۔
سب کے مل بیٹھنے سے بوریت اور تنہاٸ ختم ہو گٸ تھی۔ اور عاٸشہ ہر ایک سے محبتیں سمیٹ رہی تھی۔ سب کو خوش دیکھ کر ارتضیٰ خان کی کدورت بھی دور ہو رہی تھی مگر وہی انا بیچ میں آ رہی تھی۔ اتنے سال بیٹی سے بےزاری برتی تھی اب انہیں پیار جتانا مشکل لگ رہا تھا۔
ہم نفرت تو بڑھ چڑھ کر دکھاتے ہیں محبتوں کے معاملے میں سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔
*******************************
ہاں ہاں مام میں پہنچ رہی ہوں بس تھوڑی دیر میں۔۔۔۔۔۔
میرا بچہہہہ۔۔۔۔۔۔
عاٸشہ کی نظر اٹھی تو چھوٹا سا بچہ بالکل گاڑی کے سامنے تھا۔
تبھی ارتضیٰ خان کی نظر بھی اس پر پڑی تھی۔
وہ میٹنگ کے لیے آۓ تھے اب واپس جا رہے تھے۔
عاٸشہہہہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔
عاٸشہ گاڑی کے سامنے سے بچے کو ہٹا لے گٸ تھی۔
بچے کو تو بچا لیا تھا مگر اسے چوٹ لگ گٸ تھی۔
میرا بچہ۔۔۔۔ وہ عورت روتے ہوۓ آٸ تھی۔ اور بچے کو لپٹا لیا تھا۔ آآپ ٹھیک ہیں؟؟؟؟ جی میں ٹھیک ہوں بچے کو دیکھیں اور اپنے بچے سنبھال کے رکھا کریں۔
عاٸشہ۔ میرا بیٹا آپ کو ٹھیک ہو نہ۔ ارتضیٰ خان نے اسے سینے سے لگا لیا تھا۔ ان کے آنسو اس پہ گر رہے تھے۔
اتنے عرصے بعد باپ کا لمس پا کر وہ خود بھی رو پڑی تھی۔
اور لوگ اس شاندار سے شخص کو دیکھ رہے تھے جو اپنی بیٹی کو کھو دینے کے خوف سے اس قدر رو رہے تھے۔
میں ٹھیک ہوں ڈیڈ۔۔۔۔۔ عاٸشہ خود کو سنبھالتے ہوۓ بولی۔
چلو آجاٶ ڈاکٹر کے پاس چلیں۔
میں ٹھیک ہوں ڈیڈ۔۔۔۔
بالکل نہیں چلو میرے ساتھ۔
اور اس کا چیک اپ ہونے تک وہ اس کے پاس رہے تھے۔
چیک اپ کے بعد وہ اسے اپنے ساتھ قریب بنے پارک میں لے گۓ تھے۔
سمجھ نہیں آتا کیا کہوں۔ آپ پہ اتنی ذیادتیاں کر چکا ہوں کہ۔۔۔۔
نہیں ڈیڈ بالکل نہیں ماں باپ معافیاں نہیں مانگتے مجھے میرے ڈیڈ مل گۓ مجھے دنیا کی ہر خوشی مل گٸ ہے۔
آج میں ڈر گیا تھا بیٹا مجھے لگا تھا کہ اگر آج آپکو کچھ ہو گیا تو میں تو خالی ہاتھ رہ جاٶں گا۔
آج اندازہ ہو رہا ہے میری دولت میری جاٸیداد میرا کل سرمایہ یہ پراپرٹی نہیں بلکہ میری بیٹی ہے۔
اور بیٹا مجھے آپ پہ فخر ہے آپ نے خود کو خطرے میں ڈال دیا مگر بچے کو بچا لیا۔ آٸ ایم پراٶڈ آف یو۔
اور عاٸشہ کو جیسے خوشیوں کی سند مل گٸ تھی۔
*****************************
سب گھر والے ارتضیٰ خان کے ساتھ عاٸشہ کو دیکھ کر حیران ہوۓ تھے۔ اور بے حد خوش بھی۔
انکا گھرانا مکمل ہو گیا تھا۔
ارتضیٰ خان جو محبت اب تک اسے نہیں دے پاۓ تھے اب وہ ساری محبتیں اس پہ نچھاور کر رہے تھے۔
بس بیٹا میں تو تھک گیا ہوں اب اور نہیں بھاگ سکتا۔۔۔۔۔۔ ارتضیٰ جان بیٹھتے ہوۓ بولے۔
اوہو ڈیڈ کم آن بس ایک راٶنڈ اور لگاتے ہیں۔
بالکل نہیں میں تھک گیا ہوں آپ لگا کر آٶ پھر گھر چلتے ہیں اوکے۔
عاٸشہ واپس آٸ تو وہ گھر آگۓ۔
**************************
سکندر نے اپنے والدین کو اپنے پاس اٹلی بلا لیا تھا جبکہ سدرہ کے والدین اسفند یار کے پاس واشنگٹن چلے گۓ تھے۔
زندگی اپنی ڈگر پر چل پڑی تھی۔
ایک مہینہ ہو چکا تھا اور اس پورے مہینے میں عاٸشہ کا ظہیر سے سامنا نہیں ہوا تھا۔
ظہیر نے نیو ڈیزاٸنز بنوا لیے تھے۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ اصل مجرم کی تاک میں تھا۔
جتنا وہ عاٸشہ کو جانتا تھا وہ بے ضرر سی تھی۔ دھوکے بازی چالاکی اس کی فطرت نہیں تھی۔
اور جلد ہی اسے زارا کی اصلیت پتا چل گٸ تھی۔
وہ ظہیر خان پہ ڈورے ڈالنے لگی تھی۔ اسکا دل آ گیا تھا ظہیر پہ۔
اس کی توجہ پانے کے لیے وہ عجیب و غریب حرکتیں کرتی رہتیں۔ اور ظہیر خان کو اس سے الجھن ہونے لگتی۔
ایسے میں عاٸشہ کی یاد اسے بے طرح آتی تھی۔
عاٸشہ اسے زِچ ضرور کرتی تھی مگر کم از کم ایسی بے ہودہ حرکتیں نہیں کرتی تھی۔
اسے مردوں کو رجھانے والی عورتیں سخت نا پسند تھیں۔
یونہی ایک دن زارا اپنا فون ظہیر کے کیبن میں چھوڑ گٸ تھی۔
اسکا ارادہ تھا کہ وہ بھولنے کا بہانہ کر دے گی۔
مگر واۓ ری قسمت اس کے جاتے ہی زارا کا فون بج اٹھا۔
ظہیر نے ناگواری سے اسکا فون دیکھا۔
وہ اسے کال کر بلنے والا تھا کہ اسکی سکرین پہ اسکی نظر پڑی۔ جہاں آفان ملک کا نام جگمگا رہا تھا۔
کچھ سوچتے ہوۓ اس نے کال پک کر لی۔
ہیلو زارا ڈارلنگ کام ہوا یا نہیں اور بے بی مجھے یس ہی چاہیے مجھے یہ سوٸیزرلینڈ والا ٹینڈر چاہیے ہر حال میں یہ کسی بھی صورت خان انڈسٹری کو نہیں ملنا چاہیے۔
تم یہ ٹینڈر بھول جاٶ آفان ملک۔ ظہیر غصے سے بولا۔
ککک کون بول رہا ہے۔
ظہیر خان۔۔۔۔۔
اس نے فون بند کر دیا سامنے ہی زارا کھڑی تھی جانتی تھی بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔
تبھی وہ سے بھاگنے کی کی مگر ظہیر کے گارڈز نے اسے جا لیا۔
اب آفان ملک اور زارا دھوکہ دہی کے کیس میں جیل میں تھے۔
***************************
ارتضیٰ خان نے گھر پہ پارٹی آرگناٸز کی تھی۔ وہ کچھ اناٶنسمنٹ کرنا چاہتے تھے۔
ظہیر خان بھی انواٸٹڈ تھا۔
خضرا یہ ظہیر خان ہیں۔ خان انڈسٹری کے ایم ڈی اور ہمارے ففٹی پرسنٹ کے پارٹنر بھی ہیں۔
اینڈ مسٹر ظہیر شی از ماٸ واٸف۔۔۔۔۔۔
ہیلو ناٸس ٹو میٹ یو۔
ظہیر کو ان کا چہرہ جانا پہچانا لگا تھا مگر اس نے ذیادہ غور نہ کیا تھا۔
ساری لاٸٹس آف ہو کر اب صرف اسپاٹ لاٸٹ آن تھی جہاں ارتضیٰ خان کھڑے تھے۔
گڈ ایوننگ لیڈیز اینڈ جینٹل مینز۔۔۔۔۔
آج یہ پارٹی ارتضیٰ گروپ آف کمپنیز کی نیو ایم ڈی کی خوشی میں دی گٸ ہے۔
ماٸ لَونگ ڈاٹر عاٸشہ خان وِل بی دا ایم ڈی آف ارتضیٰ گروپ آف کمپنیز۔۔۔۔
تالیوں کا شور اٹھا تھا اور اسی شور میں سہج سہج کر چلتی عاٸشہ کو دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا۔
عاٸشہ ارتضیٰ خان کی بیٹی تھی۔ وہ ارتضیٰ خان جو اسکا آٸیڈیل تھے۔
عاٸشہ اب سٹیج پر ان کے ساتھ کھڑی تھی۔ اسکے ساتھ ہی خضرا تھیں۔
اب اسے اندازہ ہوا تھا کہ انکی شکل اتنی جانی پہچانی کیوں تھی۔
عاٸشہ بیٹا یہ ظہیر خان۔۔۔۔
ویل آپ دونوں تو ایک دوسرے کو جانتے ہی ہیں۔
ہیلو ماٸ سیلف عاٸشہ خان ڈاٹر آف ارتضیٰ خان۔۔۔۔۔۔۔
پروفیشنل لہجے میں وہ بولی تھی۔
چہرے پہ مسکراہٹ جو اسکا خاصہ تھی۔
اسے ظہیر خان کی حالت دیکھ کر خوب مزہ آرہا تھا۔
****************************
اگلے دن وہاس کے آفس میں تھا۔
ویلکم مسٹر خان۔۔۔۔
تو یہ ہے آپکی حقیقت۔۔۔۔ وہ طنزاً بولا۔
بتا دو ان اہلِ خاص کو
راہوں میں کوٸ پڑا نہیں ہوتا
اوہ تو میڈم طنز کرنا سیکھ گٸ ہیں۔
بالکل۔۔۔۔
وہ کیا ہے نہ کچھ لوگوں سے سیکھا بہت کچھ ہے۔۔۔۔
ویل آپ کے لیے کافی آرڈر کروں۔
نو تھیکنس میں صرف اپنی سیکرٹری کے ہاتھوں کی کافی پیتا ہوں۔
ہونہہہ شوخا کہیں کا کہہ تو ایسے رہا ہے جیسے بیوی کا کہہ رہا ہو۔۔۔۔۔
وہ کیا ہے نہ مس عاٸشہ آپکی کافی سے میں ہلاک نہیں ہونا چاہتا۔۔۔۔
اتنے دن بعد اسے دیکھا تھا۔ اسکا دل پرسکون ہوا تھا۔ اسلیے اب اسے ستا رہا تھا۔
ام سوری۔۔۔۔۔
واااٹ؟؟؟؟؟؟
آٸ سیڈ ام سوری میں نے آپ کے ساتھ بہت غلط کیا۔
تو میں یہ سمجھوں کہ ظہیر خان عاٸشہ خان کو اسلیے سوری کر رہے کیونکہ اب عاٸشہ انکے سٹیٹس کی ہو گٸ ہے۔ ورنہ اگر انکی نظر میں عاٸشہ مڈل کلاس ہی ہوتی تو کبھی سوری نہ کرتے۔
نہیں عاٸشہ کا سٹیٹس جو بھی ہو وہ رہے گی عاٸشہ ہی۔ ظہیر خان کی سیکرٹری۔۔۔۔۔
وہ اسے خوب تپانے کے موڈ میں تھا۔
آپ مجھے فاٸر چکے۔۔۔۔
چھ مہینے ابھی بھی پورے نہیں ہوۓ۔
مگر میں خود ریزاٸن کر چکی۔
مگر میں نے ایکسیپٹ نہیں کیا۔
عاٸشہ خان کوٸ کٹھ پتلی نہیں ہے جو آپ کے اشاروں پہ آپکی مرضی سے چلے گی۔
جانتا ہوں عاٸشہ تو جھلی پاگل بے وقوف سی ہے جو اپنی مرضی کرتی ہے۔
آپ۔۔۔۔۔
بہت اچھا ہوں۔۔۔۔ شکریہ۔۔
یوں لگ رہا تھا جیسے عاٸشہ کی روح ظہیر خان میں گھس گٸ ہو۔
ویسے ایک بات بتاٸیں مس عاٸشہ۔۔۔۔
اتنی بڑی کرسی پہ بیٹھ کر کیا آپ کے پاٶں ٹیبل تک پہنچ جاتے ہیں۔۔۔۔۔
اور عاٸشہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گٸ۔
پرسوں ہمیں سوٸیزر لینڈ کے لیے نکلنا ہے امپورٹنٹ میٹنگ ہے۔
وہ کہہ کے چل دیا۔
جبکہ عادتاً عاٸشہ پاٶں اوپر کر کے بیٹھ گٸ۔ مگر واقعی ہی وہ ٹیبل پہ پاٶں نہ رکھ سکی۔
اف کیا مصیبت ہے۔
*****************************
ڈیڈ میرا جانا ضروری ہے کیا؟؟؟؟
اتنا ضروری تو نہیں ہے مگر دونوں کمپنیز کے اونر ہوں تو اچھا امپریشن پڑے گا تو آپ جاٶ۔
اوکے ڈیڈ۔۔۔۔
مس عاٸشہ اب تو اپنی عادتیں بدل دیں آخر وہ دن کب آۓ گا جب آپ ٹاٸم پہ پہنچیں گی۔
کبھی بھی نہیں۔ ڈھٹاٸ سے کہتی وہ چل دی۔
البتہ ٹرالی وہیں چھوڑ دی۔
یہ جینٹل مین آپکا سامان بالکل نہیں اٹھانے والا۔
ویسے بھی میں دو دو ٹرالی نہیں گھسیٹنے والا۔
اوکے فاٸن۔۔۔۔
عاٸشہ واپس آٸ اور اپنی ٹرالی کا سامان اٹھا کر ظہیر کی ٹرالی میں ڈال دیا۔
جلدی چلیں دیر ہو رہی ہے۔
عاٸشہہہہہ۔۔۔ ظہیر دانت پیس کر رہ گیا۔
اٸیر پورٹ پر ان کو ریسیو کرنے کچھ ڈیلیگیٹرز آۓ تھے۔
ہیلو جونس۔۔۔۔ ایک آدمی اپنا تعارف کرواتے ہوۓ بولا۔
ظہیر خان۔۔۔۔ ظہیر نے بھی تعارف کی رسم نبھاٸ۔
اینڈ شی از عاٸشہ خان ماٸ سیکرٹری۔
ہیلو میڈم۔۔۔
عاٸشہ کا منہ کھل گیا جبکہ ظہیر اپنی مسکراہٹ چھپانے لگا۔
میں آپکی سیکرٹری نہیں ہوں۔
ہاں مگر جو لوگ پاکستان گۓ تھے انکو تو یہی پتا ہے نہ اور پھر وہ جب تمہیں انواٸیٹ کر کے گۓ تھے تب بھی تم میری سیکرٹری ہی تھی۔
مگر اب تو نہیں ہوں نہ۔
ہاں تو کیا فرق پڑتا ہے؟؟؟؟
اور عاٸشہ منہ پھلا کر بیٹھ گٸ تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...