جانی یہ لے چھوڑ بلال میرا دل نہیں آج پینے کو وہ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے بولا وہ اس وقت ایک کلب میں دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا -کیوں یار کیا ہوا ہے کچھ نہیں یار کچھ سوچ رہا ہوں –
کیا سوچ رہے ہو ؟
یار یونیورسٹی والی بات بتائی تھی ناں تجھے یاد ہے ” ہاں یار “
میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن مما تو مان گئی ہے لیکن پاپا نہیں مان رہے ہیں -وہ کیوں یار
“یار کہتے ہیں یہ آوارہ گردی چھوڑ دو میرا بزنس سنھبال لو پھر میں خود تمہارا رشتہ لے کر جاؤں ورنہ میں کسی لڑکی کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتا “
یار تو جانتا ہے یہ سب کچھ تو میں چھوڑ نہیں سکتا نہ ہی بزنس کا مجھے شوق ہے -یار میری بات مانو تو کچھ عرصہ یہ سب کچھ چھوڑ دو بزنس بھی جانا شروع کر دو تمہارے پاپا بھی خوش ہو جائیں گے اور شادی بھی ہو جائے گی اور اس کے بعد تمہارا مقصد پورا ہو جائے گا بےشک پھر تم بزنس چھوڑ دینا جو کرتے رہنا تمہارے پاپا کچھ نہیں کر سکیں گئے وہ مسکراتے ہوئے بولا –
“ہاں بلال یار تو ٹھیک کہہ رہا ہے مجھے یہ خیال کیوں نہیں آیا میں تو سوچ کر پاگل ہو رہا تھا کیا کرؤں “
چل یار اب چلتا ہوں میں ورنہ پاپا کا لیکچر سننے کو مل جائے گا پھر بات ہوتی ہے -وہ کار کی چابی اٹھاتے ہوئے بولا -چل ٹھیک ہے یار تو جا پھر –
***************
پاپا مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے میں ایگزامز کے بعد آفس بھی جوائن کر لوں گا اور آپ بھی میری بات اب مان جائیں اس لڑکی کے گھر کب جارہے ہیں وہ اس وقت لان میں اپنے پاپا کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا -پہلے ایگزامز تو دو آفس تو جوائن کر لو پھر ہم بھی چلے جائیں گے –
*************
آفندی ہاؤس کو آج رنگ برنگی لائٹس سے سجایا گیا تھا کیوں کہ آج زوہیب آفندی کی شادی تھی فوزیہ رخصت ہو کر آفندی ہاؤس آ چکی تھی ایمان آج وائٹ ڈریس میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی بھائی روکیں ابھی ہم نے آپ دونوں کو گھر میں داخل نہیں ہونے دینا کیوں بھئی زوہیب مسکراتے ہوئے بولا –
ہاں زوہیب ایمان ٹھیک کہہ رہی ہے ایمان آنے دو دروازے پر کھڑا کیوں کیا ہے امی جان بس ایک منٹ چلیں بھائی بیس ہزار دیں اور جائیں ہاں زوہیب ایمان ٹھیک کہہ رہی ہے وقاص تم بھی ان دونوں کے ساتھ مل گئے ہو وہ ناراض سے لہجے میں بولا -ہاں یار اس میں مجھے بھی تو ملنے ہیں وہ مسکراتے ہوئے بولا -ایمان بیٹا دلہن بیچاری کو بھی کھڑا کیا ہوا ہے آنے دو دونوں کو -بابا پیسے دیں اور جائیں میں نے کب روکا ہے -زوہیب یار اب دے بھی دو -یہ لو ایمان بس بھائی یہ کیا صرف دس ہزار اور دس ہزار کون دے گا ابھی یہی ہیں اور بعد میں دے دوں گا ٹھیک ہے بھائی میں اب تو آپ کو چھوڑ رہی ہوں لیکن کل کو لوں گئی ضرور آپ آجائیں اب وہ راستہ چھوڑتے ہوئے بولی-
********************
ایمان آج زوہیب کی شادی کے بعد یونیورسٹی آئی تھی -فائزہ اور ایمان باتیں کرتی ہوئی جارہی تھیں -ویسے ایمان سب زوہیب بھائی اور فوزیہ بھابی کی کتنی تعریف کر رہے تھے -ہاں فائزہ ماشاءاللہ سے دونوں بہت پیارے جو لگ رہے تھے -ایمان یار اگلے مہینے سے ہمارے ایگزامز بھی شروع ہو رہے ہیں میری تو اتنی تیاری بھی نہیں ہے -فائزہ بھئی مجھے تو کوئی ٹیشن نہیں ہے اللہ کا شکر ہے میری تو تیاری ہے -تم بھی کچھ سیل فون کو ریسٹ دے دو ابھی تو کافی وقت ہے -ہاں یار تم ٹھیک کہہ رہی ہو –
سکندر کا آج آخری پیپر تھا وہ دے کر اکنامکس ڈیپارٹمنٹ سے گزار رہا تھا کہ اس کی نظر ایمان اور فائزہ پر پڑی کچھ سوچ کر وہ ان کے پاس چلا آیا وہ وائٹ شرٹ بلیک ٹائی اور بلیک جینز میں ملبوس تھا -السلام علیکم کیسی ہیں آپ دونوں –
جی ٹھیک ہیں آپ بتائیں فائزہ بولی
اف فائزہ کی بچی کو بولنے کی ہر کسی سے کتنی جلدی ہوتی ہے –
سکندر آپ کو ایک بات سمجھ نہیں آتی وہ نرم لہجے میں بولی اس بار مجھے آپ کا اس طرح ہم سے بات کرنا اچھا نہیں لگتا ہے میں پہلے بھی آپ کو بتا چکی ہوں –
جی مجھے صرف آج آپ سے ایک بات کرنی ہے –
جی جلدی کجیئے –
میری بات کا یقین کجیئے میں آپ سے سچ میں محبت کرتا ہوں آپ کو کوئی فریب دینے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں آپ یقین کریں وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا –
لیکن میں آپ سے نہیں کرتی جہاں تک یقین کی بات ہے تو آپ مجھے سے محبت کرتے ہیں تو آج کے بعد میرے راستے میں آنے کی کوشش مت کرنا اور نہ ہی بات کرنے کی تو میں یقین کر لوں گئی آپ کو مجھے سے محبت ہے وہ اس کو دیکھتے ہوئے بولی –
ٹھیک ہے مجھے آپ کی یہ بات منظور ہے آج سے میں صرف آپ کو دعاؤں میں مانگوں گا اور مجھے یقین ہے ایک دن آپ نے میری زندگی میں ہی آنا ہے -یہ آپ کی خوش فہمی ہے سمجھے آپ وہ غصے سے بولی -نہیں میری خوش فہمی نہیں مجھے اپنے اللہ پر یقین ہے وہ مسکراتے ہوئے بولا اور وہاں سے چلا گیا –
عجیب پاگل شخص ہے یہ سکندر شاہ یار ایمان پاگل نہیں سچ میں تم سے محبت کرتا ہے بس فائزہ تم تو خاموش ہو جاؤ-
***************
صاحب جی کچھ لوگ آپ سے ملنے آئے ہیں “ٹھیک ہے اندر لے آؤ ان کو “
السلام علیکم یوسف صاحب
جی وعلیکم السلام ! بیٹھیں آپ لوگ
جی شکریہ –
ہم نے آپ کو پہچانا نہیں
جی کیوں کہ ہم پہلی بار مل رہے ہیں میں جاوید اسلم ہوں یہ میری بیگم سائرہ ہیں –
آپ وہی جاوید صاحب تو نہیں آپ کا بزنس میں کافی نام سنا ہے
جی بالکل میں وہی ہوں آپ نے ٹھیک پہچانا وہ مسکراتے ہوئے بولے
میرے خیال میں آپ یوسف آفندی ہیں آپ کا بزنس میں بھی کافی نام ہے
جی بس یہ سب تو اللہ کا کرم ہے
آپ سے مل کر خوش ہوئی یوسف صاحب -جی ہمیں بھی آپ سے مل کر خوش ہوئی -وہ خوش دلی سے مسکراتے ہوئے بولے –
سکینہ مہمانوں کے چائے لے کر آؤ-
جی بیگم صاحبہ !
جاوید صاحب کیا میں پوچھ سکتا ہوں آج آپ کس سلسلے میں تشریف لائے ہیں-
جی بالکل ہم اپنے بیٹے جنید کے لیے آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں –
جاوید بھائی ہم نے ابھی تو اپنی بیٹی کے بارے میں ایسا کچھ نہیں سوچا ابھی تو وہ تعلیم حاصل کر رہی ہے
جی بالکل جاوید صاحب ایسا ہم نے ابھی نہیں سوچا –
ہم صرف ابھی تو رشتے کی بات کرنے آئے ہیں رشتہ تو اب ہو سکتا ہے بے شک جب آپ کی بیٹی کی تعلیم مکمل ہو جائے تو شادی پھر کر دیں گے سائرہ بیگم سمجھتے ہوئے بولیں –
جی ایسے فیصلے جلدی بازی میں نہیں کیے جا سکتے اور ہمارے لیے بیٹی کی مرضی بھی ضرور ہے ہماری اکلوتی اولاد ہے ہم اسے ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتے ہیں -اس لیے ہم آپ کو ابھی تو کوئی جواب نہیں دے سکتے –
آپ تکلف نہ کجیئے کچھ لیں آپ نے تو صرف چائے پی ہے جی تکلف کی کوئی بات ہم لے رہے ہیں وہ مسکراتے ہوئے بولے –
جی یوسف صاحب آپ کی بات بھی بالکل ٹھیک ہے بچوں کی مرضی بھی ضرور ہے ہمیں کوئی جلدی نہیں آپ لوگ اس بارے میں سوچ لیں –
جی بالکل ہم لوگ آپ کو سوچ کر بتا دے گئے –
ٹھیک ہے یوسف صاحب آپ لوگ اب ہمیں اجازت دیں -وہ کلائی میں موجود قیمتی گھڑی کو دیکھتے ہوئے بولے –
لنچ کر کے چلے جائیے گا آپ لوگ
بہن جی پھر کبھی سی اب ایک ضروری کام سے جانا ہے مجھے وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولے –
ٹھیک ہے پھر جیسے آپ لوگوں کی مرضی خداحافظ –
جی خداحافظ –
******************
اس وقت سب آفندی ہاؤس میں ڈائننگ ٹیبل پر لنچ کرنے میں مصروف تھے -یوسف یہ کچھ دیر پہلے آپ لوگوں سے کون لوگ ملنے آئے ہوئے تھے -حیات آفندی بولے –
بھائی وہ جاوید اسلم تھے جن کا بزنس میں بھی کافی نام ہے
اچھا وہ آئے تھے -جی بھائی صاحب
لیکن ان کو کیا کام تھا ؟
وہ اپنے بیٹے کے لیے ایمان کا رشتہ لے کر آئے تھے
اچھا حیرت ہے ویسے –
جی بھائی حیرت تو مجھے بھی ہوئی ہے-ایمان تو خود اپنے رشتے کی بات سن کر حیرت میں مطلع ہو گی –
پھر آپ لوگوں نے کیا جواب دیا –
بھائی صاحب ہم نے تو کہا ہے سوچ کر بتائیں گئے ویسے بھائی صاحب لوگ تو اچھے لگ رہے تھے-ایمان کی ماں پروین بیگم بولیں –
بابا میں نے کوئی شادی نہیں کرنی ابھی تو میں پڑھ رہی ہوں -ایمان غصے سے بولی -اس کی بات سن کر سب کے چہروں پر مسکراہٹ چھا گئی –
ایمان بیٹا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم کون سا تمہاری شادی ابھی کر رہے ہیں بھئی میں جانتا ہوں ابھی تو میری بیٹی پڑھ رہی ہے –
یہ تو ویسے ایک بات ہوئی ہے میں بھائی صاحب کو بتا رہا تھا -اور میں نے پہلے کچھ آپ کی مرضی کے بغیر کیا ہے جو آج کرؤں گا وہ سمجھتے ہوئے بولے –
ایمان بیٹی تمہارے بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں چلو شاباش اب کھانا کھا لو-
****************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...