ظفراللہ محمود(جرمنی)
الجھنوں میں اس طرح اپنی انا سلجھا کے رکھ
قربتوں کو فاصلوں کی آنچ میں سُلگا کے رکھ
چھوڑ جاؤں گا، نہیں اطوار گر بدلے ترے
اپنی ضد کو چھوڑ،اپنے دل کو بھی سمجھا کے رکھ
پھر بنا تصویر ایسی جس میں ہو خنجر گڑا
خون کے قطرے گرے ہوں،اُس پہ دل تڑپا کے رکھ
دیکھ وہ بچھڑا تو بچھڑے گا نہیں پھر عارضی
مان اُس کی بات، اُس کے دل کو نہ الجھا کے رکھ
فیصلے کا وقت ہے اور فیصلہ ہونے کو ہے
یا سدا کا غیر کر لے،یا اسے اپنا کے رکھ
حیرتوں میں گم نہیں ہوں ،جانتا ہوں میں ظفرؔ
ٹوٹ کر اُس پر برس اور پھر کبھی ترسا کے رکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کے دل کو اپنے دل سے یارو ہم نے چیر کیا
پھر جو منظر سامنے اُبھرا اُس کو بھی تصویر کیا
شام ڈھلی اور رات گری،پھر چاند نے بھی دلگیر کیا
جاتے جاتے سورج نے بھی کیا منظر تحریر کیا
ایک نئی بستی تھی جس کو ہم نے تھا تعمیر کیا
پھر اُس بستی کے حاکم نے ہم کو ہی رہگیر کیا
ایک تجھے پانے کی خاطر ہم نے کیا کیا جتن کیے
ہار کے اپنا سب کچھ ہم نے تجھ کو ہے تسخیر کیا
ہم تو جانیں دکھ ہوتے ہیں اور تو جانے خوشیوں کو
عمر کی ایک کتاب یارا کیا کیا ہے تحریر کیا
روشن چہرہ،کالی آنکھیں اور گھنیرے بال ظفرؔ
اور خدا ہی جانے اُس نے کیا کیا ہے جاگیر کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے عشق سے پچھتا رہے ہیں
لے اب تو جان سے ہی جا رہے ہیں
بھرے ساگر سروں پر لا رہے ہیں
گھنے بادل کہاں سے آ رہے ہیں
کرے ہے جو سواگت بے رُخی سے
بڑے اُس کو بڑا سمجھا رہے ہیں
جھڑے جو بول تھے اُس کے لبوں سے
وہ اب نغموں میں ڈھلتے جا رہے ہیں
بدل دے بے یقینی کو یقیں میں
کہ اب تو لوگ بھی گھبرا رہے ہیں
کسی طوفان کا ہیں پیش خیمہ
چمن سے پنچھی اُڑتے جا رہے ہیں
گھنیری شام کو لوٹیں گے تھک کر
پرندے جو گھروں سے جا رہے ہیں
تمنا ہم سے ملنے کی رہے گی
ظفرؔ محفل سے ہم اب جا رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھڑے ہیں بیچ بازارِ محبت
لگا بولی کہ ہم بکنے لگے ہیں
ترے آنے کا امکاں ہو گیا ہے
ترے آثار سے دِکھنے لگے ہیں
کہانی جو رُلائے گی سبھی کو
اُسی کا وقت ہے، لکھنے لگے ہیں
پرندے سوچ کی ٹہنی پہ لوٹے
شجر کے زخم سب سلنے لگے ہیں
تمہارے خواب میں آنے سے بستر
خود اپنے آپ ہی بچھنے لگے ہیں
بچا خود کو کسی بھی انتہا سے
اُٹھانے سر، کئی فتنے لگے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرکے میرے دل میں برپا درد کا اک ہنگام
شہر میں اتری اب کے ایک انوکھے دُکھ کی شام
تیرے نام کی مالا جپتے گزری عمر تمام
لیکن ٹیڑھی قسمت میں ہی نہیں تھا سیدھا کام
تیری یاد میں کھلنے والے سارے تازہ پھول
شہر کے چوک میں رکھ آئے ہیں تیرے یہ بدنام
سوچ کا بھاری پتھر پھینکا دل دریا کے بیچ
جس نے موجوں میں برپا کر ڈالا اک کہرام
دل کے در کو کھول ہی دے گا آخر اک دن تُو
آن بسیں گے ہم ہی اس میں ، ہم ہیں جو ناکام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے سر کی ہر جنبش پر جھٹکا بھی تو سہتا ہوں
میں جو تیری لٹ میں ہر دم الجھا الجھا رہتا ہوں
بیٹا! عشق’’سمندروں ڈونگا‘‘ اس سے جان بچا
دیکھ خیال کیا کر اس کا میں جو تم سے کہتا ہوں
رہتا ہوں میں اس کے دل میں اک دھڑکن سی بن کر
اور میں آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے بھی بہتا ہوں
ٹوٹ پھوٹ تو ہوتی ہی رہتی ہے اندرو اندری
اپنے بدن کے اندر جانے کتنی بار میں ڈھہتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندی ہو کر سمندر پی رہے ہو
بڑی ہی سادگی سے جی رہے ہو
سنا کر مسئلے اپنے ہمی کو
ہمارے ہونٹ بھی تم سی رہے ہو
ارادہ کر رہے ہوتوڑنے کا
وہی دل جس میں اب تک جی رہے ہو
توجہ گو ہماری چار سو تھی
خیالوں میں تمہی باقی رہے ہو
اب اپنی موج میں رہنے لگا ہے
وہ دل جس میں کبھی تم بھی رہے ہو
بدلتے وقت میں کیوں چھوڑتے ہو
اُنہیں جن کے کبھی ساتھی رہے ہو
محبت میں بڑی شدت کی نفرت
اسی اظہار کے حامی رہے ہو
ظفرؔ کیوں لڑکھڑانے لگ گئے ہو
بڑے کم ظرف ہو،ساقی رہے ہو؟