ضعیف معلم بشیر کے لکھے ہوئے مقالے پر جامعہ ایودھیا سے ایم۔ فل اردو کی ڈگری ملتے ہی تمھارے تیور بدل گئے۔ روپ بدلنے میں تم نے تو طوطے اور گرگٹ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ تم عادی دروغ گو، پیمان شکن، محسن کش اور عیار طوائف ہو تم نے جامعہ میں جھوٹا بیان حلفی کرایا کہ یہ مقالہ تم نے خود لکھا ہے۔ اس دنیا میں تم واحد امیدوار ہو جسے ڈگری ملنے سے بہت پہلے ہی ماہر تعلیم کی حیثیت سے منتخب کر لیا گیا۔ تمھارا میرٹ وہی ہے جسے لال کنور نے ملکۂ ہند بننے کے لیے پیشِ نظر رکھا تھا۔ اب تُو نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ضعیف معلم بشیر اور اس کی بیمار اہلیہ جنھیں تُو پہلے اپنے باپ اور ماں کے برابر درجہ دینے کی اداکاری کرتی تھی اب ان پر بے سروپا الزام لگاتی ہے۔ تمھارے سب جاننے والے یہی کہتے ہیں کہ مس بی جمالو اور نائکہ قفسی اب آسکر ایوارڈ اور اکیڈمی ایوارڈ کے لیے اپنا نام پیش کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں گی۔ تم تو زمین کا بوجھ ہو، لُوٹ مار کی یہ بازی تم ہی ہارو گی اور بہت جلد کوہِ ندا کی صدا سن کر ساتواں در کھول کر تم عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھارو گی۔ تمھارے قحبہ خانے، چنڈٖو خانے، عقوبت خانے اور مرکز مساج کے در و دیوار پر ذلت، تخریب، نحوست، بے غیرتی، بے حسی، بے شرمی اور بے حیائی کے کتبے آویزاں ہو چکے ہیں۔ فطرت کی تعزیریں تمھارے تعاقب میں ہیں تم تو مر کے بھی چین نہیں پاؤ گی۔ تمھاری کریہہ صورت پر نحوست برسے گی، تم کورونا وائرس کی زد میں آؤ گی اور تمھاری لاش گور و کفن کو ترسے گی۔‘‘
قفسی نہایت ڈھٹائی کے ساتھ بھیگی بلی کے مانند کھمبا نوچنے لگی اور اپنے لائق نفرت خاندانی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے غرائی: ’’ابھی میری نانی لال کنور کا ذکر ہوا گردش ایام کے نتیجے میں مغل بادشاہ جہاں دار شاہ (1661-1713) مختصر عرصے (27۔ فروری 1712 تا 11۔ فروری 1713) کے لیے بر صغیر کا حاکم بن بیٹھا۔ اس نے ہمارے خاندان کی ایک طوائف لال کنور کو امتیاز محل کا لقب دے کر ملکۂ ہند بنا یا۔ لال کنور اپنے اہل خاندان کے ساتھ جب قصر شاہی میں داخل ہوئی تو جہاں دار شاہ اس سے رازدارانہ لہجے میں جو باتیں کرتا رہا اس کا احوال خود لال کنور بتائے گی۔‘‘
لال کنور نے آگے بڑھ کر بتیس سالہ طوائف مس بی جمالو کو گلے لگا لیا اور کہا:
’’ابھی آصف خان نے میرے بارے میں کہا کہ ہندوستان کی ملکہ بننے کا میرا میرٹ یقیناً میرا بے مثال حسن ہی تھا۔ وہ یہ بھی تو بتائے کہ خود اُس کا میرٹ بھی تو اس کی بیٹی تھی جسے اس نے شہزادہ خرم کے حوالے کر دیا۔ مس بی جمالو! دنیا بھر کی طوائفوں کی اب تم ہی سر خیل ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم نے خرچی کی کمائی سے اس قدر زر و مال جمع کیا ہے کہ ماضی کے قحبہ خانوں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ تم نے تو ایک سو کے قریب ضعف بصارت کے شکار ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی آنکھوں میں دھُول جھونکی اور اُن کی بہو بننے کا جھانسہ دے کر ان کی زندگی بھر کی کمائی پر ہاتھ صاف کیا۔ کالا دھن کمانے والے بگڑے ہوئے عیاش امرا اور جاگیر داروں سے زر و مال ہتھیا کر تم نے اپنی تجوری بھرنے میں تم نے سفلگی کی تمام حدیں عبور کر لیں۔ اس دشتِ خار میں جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے ایک مطلق العنان بادشاہ کو اپنی زلفوں کی زنجیر میں اس طرح جکڑا کہ اُس نے مملکت کے سارے وسائل میرے قدموں میں نچھاور کر دئیے۔ تمھاری لوٹ مار سے لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پھر گئی اور ہر طرف تمھارے عشرت کدے بن گئے مگر میں نے قصر شاہی تک رسائی حاصل کی اور بادشاہ کو اپنا تابع فرماں بنا یا۔ اب تم میری داستانِ حرص و ہوس پر دھیان دو اور خود فیصلہ کرو کہ سادیت پسندی میں کون بازی لے گیا۔ شادی کے بعد میرے احمق اور عیاش شوہر مغل بادشاہ جہاں دار شاہ نے مجھ سے کہا:
’’اس وقت تم پورے ہند کے سیاہ وسفید کی مالک ہو۔ کوئی ایسی خواہش جو اب تک پُوری نہ ہو سکی ہو یا کوئی ایسی آرزو جس کی تکمیل کی تمنا تمھارے دل کو بے چین رکھتی ہو۔‘‘
’’ایک حسین منظر دیکھنے کی تڑپ میرے دل میں ہمیشہ رہی ہے‘‘ میں نے آہ بھر کر کہا ’’میں نے آج تک مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی کشتید ریا کی تلاطم خیز موجوں میں ڈُوبتی نہیں دیکھی۔‘‘
’’یہ بھی کوئی اتنی بڑی خواہش ہے جس کی تکمیل کی تمنا تمھیں بے قرار و مضطرب رکھتی ہے‘‘ جہاں دار شاہ نے ہنہناتے ہوئے کہا ’’میں اپنی جاہل، بے بس و لاچار اور مظلوم رعایا کی محض ایک کشتی نہیں بل کہ پُوری مملکت کا بیڑا غرق کر سکتا ہوں قومی مفادات کو پسِ پُشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ماضی کے تمام ادوار میں حکم رانوں کا وتیرہ رہا ہے۔ ہاہ ہاہ! میں بھی اپنے وقت کا نیرو ہوں روم جلتا ہے تو جلتا رہے مجھے تو ہر حال میں بانسری کی دھُن پر دیپک راگ ہی الاپنا ہے۔‘‘
’’پھر جلدی کرو آج شام ہونے سے پہلے مجھے دریا میں مسافروں سے بھری کشتی ڈُوبنے کا دل کش منظر دکھانے کا انتظام کیا جائے۔‘‘میری طرح سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا جہاں دار شاہ کی آنکھوں میں درندگی کی منحوس چمک پیدا ہو گئی اور وہ کہنے لگا:
’’میں اپنی باقی زندگی تو تمھارے نام کر ہی چکا ہوں اس لیے تمھارے ہر حکم کی تعمیل کی جائے گی کوئی اور خواہش ہو تو ابھی بتاؤ اب تو میری ہر خوشی تمھاری نا آسودہ خواہشات کی تکمیل میں پوشیدہ ہے۔ اس وقت تم ملکۂ ہند ہو اور پورا ہندوستان تمھاری مٹھی میں بند ہے۔ میرے دلِ و جگر کی محفل میں تو صرف لال کنور کے وجود سے شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ مشقِ ستم کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘
میں نے اپنے مخبوط الحواس جنسی جنونی شوہر کو گھونسہ کار کر کہا ’’یاد رکھو کشتی میں ہر عمر کے مسافروں کی بڑی تعداد سوار کرائی جائے اور ڈُوبنے والوں کو بچانے والا کوئی نہ ہو۔ میں آج شام کا کھانا دریا کی طوفانی لہروں میں ڈُوب کر مرنے والوں کی چیخ پُکار سن کر کھاؤں گی اور اپنے دِلِ حزیں کو بہلاؤں گی۔ میری کڑی کمان کے تیر جیسی چال دیکھ کر بادشاہ اور سب درباری سہم گئے۔ نشے کے عالم میں چلتے چلتے بادشاہ جب منھ کے بل گرا تو میرے پروردہ عیاش مسخرے اس نام نہاد بادشاہ پر جھپٹے اور ٹھڈے مار مار کر اس دائم الخمر جنسی جنونی حاکم کا بھرکس نکال دیا۔ وہاں موجود تسمہ کش، جاروب کش، بادہ کش اور ستم کش سفر رہنے والے محنت کش سب کے سب مضطرب، غرقاب غم، حواس باختہ اور نڈھال دکھائی دیتے تھے، مگر میں ایک گونہ بے خودی و انبساط محسوس کر رہی تھی۔ چلچلاتی دوپہر کا وقت تھا شاہِ بے خبر جہاں دار شاہ نے میری فرمائش کی تکمیل کی خاطر دریائے جمنا کے دوسرے کنارے ایک بے تکلف شاہی ضیافت کا انتظام کیا۔ آن کی آن میں شہر بھر کے ماہر باورچی، مشاق خانسامے اور بھٹیارے اپنا سامان لے کر دعوت کے مقام پر جا پہنچے۔ ان کہنہ مشق اور آزمودہ کار باورچیوں نے پیاز، لہسن، ادرک چھِیل کر کاٹے اور کِیل کانٹے سے لیس ہو کر تیرہ تال لگا کر تیرہ مصالحے تیار کرنے کا آغاز کر دیا۔ ادرک پیسنے والے مصالچیوں کو اس بات کا کوئی ادراک ہی نہ تھا کہ جن اجل گرفتہ لوگوں کو اس جان لیوا دعوت میں مدعو کیا گیا ہے وہ سب کے سب کوئی دم کے مہمان ہیں۔ پکوڑے، زردہ، پلاؤ، کوفتے، گوشت، روٹی اور کڑی کی بر وقت تیاری ان باورچیوں کی کڑی آزمائش بن گئی۔ اجل گرفتہ مہمانوں کی خاطر زردہ اور پلاؤ کی تیاری زور شور سے جاری تھی۔ زردے میں گُڑ ڈالا گیا اور پلاؤ میں اونٹ کا گوشت ڈالا گیا۔ یہ کھانا تو صرف رعایا کے لیے تھا جب کہ شاہی خاصے میں موسمی پھلوں اور خشک میووں کے علاوہ چِڑے، ہرن، تیتر، بٹیر، مچھلی مرغابی، جنگلی کبوتر اور مرغ کے مرغن کھانے شامل تھے۔ میری عزیز اور محرم راز سہیلی زہرہ کنجڑن اور اس کی ہم پیشہ، ہم مشرب وہم جولی طوائفیں بن سنور کر میرے اور بادشاہ کے ساتھ ہی ایک شاہی کشتی میں سوار ہو کر دعوت کے مقام پر پہنچ گئیں۔ کئی لٹھ بردار محافظ، تیر انداز اور سازندے پہلے ہی ایک اور کشتی میں یہاں پہنچ چکے تھے۔ شہر بھر کے ٹھگ، اُٹھائی گیرے، اجرتی بد معاش، منشیات کے عادی، جرائم پیشہ ننگ انسانیت درندے، ڈُوم، ڈھاری، بھانڈ، بھڑوے، مسخرے، تلنگے، وضیع، لچے، شہدے، رجلے، خجلے، بھگتے اور کلاونت بھی بڑی تعداد میں شاہی دعوت پر وہاں اکٹھے ہو گئے۔ پریوں کا اکھاڑہ سج گیا تو جہاں دار شاہ نے راجا اندر کے روپ میں پریوں کے اکھاڑے کا چکر لگایا۔ وہ ہر طوائف سے ملتا، اس سے ہاتھ ملاتا اور خُوب ہنہناتا پھرتا تھا۔ اچانک ایک بہت بڑی کشتی دریائے جمنا میں نمو دار ہوئی جس میں شاہی طعام میں شامل ہونے والے مسافروں کی کثیر تعداد سوار تھی۔ اس کشتی میں امرا، غربا، بُوڑھے، جوان لڑکے، الہڑ مٹیاریں، بچے، عورتیں، مرد، بیمار اور خواجہ سرا سب شامل تھے۔ دریا کی طوفانی موجوں پر بہتی ہوئی یہ کشتی جب دریا کے درمیان پہنچی تو میرے شوہر جہاں دار شاہ نے ہاتھ کو زمین کی طرف کیا اور ملاحوں کو چلّا کر یہ حکم دیا:
’’کشتی کو دریا کی منجدھار میں لے جا کر غرقاب کر دو۔‘‘
ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی اسلوب کی منفرد شاعری
ڈاکٹر مقصود جعفری کہتے ہیں "میں نے کہا کہ زاغ و زغن پھر سے آ گئے کہنے لگے یہ طرزِ...