زادو لُدھڑ کب چُپ رہ سکتا تھا، وہ ہنہناتے ہوئے بولا ’’محمود تو شیر تھا جب کہ رابن ہُڈ محض ایک گیدڑ ثابت ہوا۔ رابن ہُڈ نے محبت میں خود کو تماشا بنا دیا۔ ایاز سراپا ایثار اور وفا کا پیکر تھا لیکن لٹل جان ایک عطائی حسینہ کی سازش کی بُو پا کر بھی اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی رابن ہُڈ کو آخری وقت تنہا چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘
آج سے چھے سو سال قبل پُوری دنیا میں خوف اور دہشت پھیلانے والا یہ ڈاکو نا مرادانہ زیست کرنے کے بعد انتہائی پُر اسرار حالات میں اپنے چچا کی بیٹی میڈ مارین کے حسد، انتقام اور نفرت کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا۔ سٹیج پر پہنچ کر رابن ہُڈ نے اپنی کمان سے تیر چلایا جو سیدھا مقررہ نشان میں پیوست ہو گیا۔ اب اس نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا:
’’آہ ! میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ تیر اندازی! میں نے زندگی بھر گلشنِ ہستی میں کومل کلیوں کو مسلا، تتلیوں کے پروں کو نوچا، اُچھلتی ہرنیوں کو زندگی بھر کے لیے اپاہج کر دیا، میرے مسلط کردہ جبر کی فضا میں بے شمار طائران خوش نوا اپنے آشیانوں میں دم توڑ گئے، سرمایہ داروں کی تجوری سے بے تحاشا زر و مال لُوٹا اور بے رحمانہ لُوٹ مار کا زیادہ تر مالِ غنیمت میرے پالتو خارش زدہ سگانِ آوارہ اور آستین کے سانپ لے اُڑے۔ لُوٹ مار کا معمولی حصہ جو غریبوں کو دیا وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ میرے سبز قدموں سے اس عالمِ آب و گِل میں جو تباہی پھیلی اس کے بارے میں اکثر لوگ واہی تباہی بکتے ہیں۔ کارِ جہاں بہت دراز ہے آبلہ پا راہی تو گزر جاتے ہیں لیکن خارش زدہ سگانِ راہ کو نہ تو کسی قصاب کی دکان کے تھڑے کے نیچے سے کھانے کو چھیچڑے ملتے ہیں اور نہ ہی کسی گھاٹ پہ اُنھیں کوئی ہڈی ڈالتا ہے۔ میں نے ذلت، رسوائی اور جگ ہنسائی کو ہمیشہ اپنے لیے زادِ راہ سمجھا ہے۔ مرگِ نا گہانی نے زندگی بھر میرا تعاقب کیا لیکن میں بال بال بچتا رہا اور کوئی میرا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ معاشرتی زندگی کے تضادات بھی عجب گُل کھلاتے ہیں، جو لوگ فارغ البال تھے انھوں نے سدا مجھے اپنی راہ کا کانٹا سمجھا لیکن ستم کشِ سفر رہنے والے فاقہ کش، محنت کش اور جفا کش جب مل کر بیٹھتے تو حقے کے کش لگا کر میرے لیے اچھے خیالات اور عمدہ تمناؤں کا بر ملا اظہار کرتے اور اس بات پر خوش ہوتے کہ میری دہشت سے امیروں کی نیندیں حرام ہو چُکی ہیں۔ میں نے اذیت، عقوبت، دغا، جفا اور سزا کی جو طرز اختراع کی اُسے ہر دور کے ڈاکوؤں نے طرزِ ادا قرار دیا۔ میں نے پُر تعیش محلات، عقوبت خانوں، چنڈو خانوں اور قحبہ خانوں کو کھنڈرات میں بدل کر وہاں ہر قسم کے حشرات کی افزائش نسل کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا۔ ان کھنڈرات میں طیورِ آوارہ کو آشیاں بندی کے مواقع میسر آئے اور کرگس، بُوم، چمگادڑ، چُغد اور زاغ و زغن کی نسل ڈائنو سار کی طرح مٹنے سے بچ گئی۔ اس میں کیا شک ہے کہ لُوٹنے والا اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خزانے کے مُوذی سانپ ک اسر کُچلتا ہے اس لیے اُسے لُوٹے ہوئے خزانے سے اپنے سُندر سپنے سجانے کا پورا حق ہے۔ کئی نکٹے لوٹے اور لُٹیرے جب میری دہشت کو دیکھتے تو ان کی چھاتی پر سانپ لوٹنے لگتا۔ ماضی کی طرف لوٹ کر دیکھتا ہوں تو یہ حقیقت کھُل کر سامنے آتی ہے کہ میں نے دنیا کو جی بھر کر لُوٹا لیکن میں مکافات اعمال سے بچ نہ سکا اور آخر کار دنیا نے مجھے لُوٹ لیا۔ جب میں جوان تھا تو میرے تمام کینہ پرور مخالف اور اپنی آگ میں ہمہ وقت جلنے والے حاسد اور سازشی عناصر چُوہے بن کر اپنے اپنے بِلوں میں جا گھُسے۔ وقت کی اس سفلگی کو کیا نام دیا جائے کہ یہ تیزی سے گزرتے ہوئے سیلِ رواں کے مانند سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ کتابِ زیست سے شباب کا باب ختم ہوتے ہی وقت کی یہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن منادی سنائی دیتی ہے کہ شجرِ حیات سے تمھاری خشک اور بے برگ و بار ٹہنی جسے سمے کی دیمک کھا چُکی ہے، اب ٹوٹنے کو ہے اور اب تمھارا دور اپنے اختتام کو آ پہنچا۔ وہ دن دور نہیں جب تمھارے شام و سحر کے سب سفینے غرقاب ہو جائیں گے۔ تم کوئی دم کے مہمان ہو اس کے بعد تم اپنی باری بھر کر زینۂ ہستی اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھارو گے۔ میں نے جوانی میں پُوری قوت، ہیبت اور دہشت سے کِشتِ دہقاں، تخت و تاج اور لوگوں کی عزت و ناموس کو لُوٹا اور قتل و غارت میں کُشتوں پُشتے لگا دئیے۔ میری شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ مشقِ ستم سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں۔ وقت پر لگا کر اُڑ گیا اور جب میں عالمِ پیری میں نحیف و ناتواں ہو گیا تو سب فصلی بٹیرے، چُوری کھانے والے ابن الوقت، مفاد پرست، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے اور اپنا اُلّو سیدھا کرنے والے مجنوں اس طرح غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ یا منشیات کے عادی ننگِ انسانیت درندے کی جیب سے چرس، افیون اور ہینگ۔ سمے کے سم کے ثمر کی زہر ناکی کا تریاق تلاش کرنے کی خاطر میں نے بہت سی ہینگ اور پھٹکڑی لگائی، کئی کُشتے کھائے لیکن بیتی جوانی تو مستانی ہوتی ہے وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتی اور اس کی دائمی مفارقت نوشتۂ تقدیر بن جاتی ہے۔ جوانی جب چلی جاتی ہے تو بُڑھاپا آتا ہے جو کبھی چھوڑ کر نہیں جاتا اور قبر تک ساتھ نبھاتا ہے۔ رخشِ حیات اور لمحات رواں کی مثال بھی دریا کی ٹھاٹیں مارتی ہوئی موجوں کے پانی کے بہاؤ کی سی ہے۔ وقت جب گزر جائے اور پانی جب بہہ جائے تو کوئی بھی شخص کسی صورت میں پُلوں سے بہہ جانے والے آبِ رواں کے لمس اور بیتی گھڑیوں کے حظ سے دوبارہ فیض یاب نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’ارے او جاہل ڈاکو اور سفاک قاتل! تم رواقیت کے داعی بن کر کیا فلسفہ بگھار رہے ہو؟زندگی اور موت کے ناقابلِ فہم راز جو بڑے بڑے سُگھڑ اور سیانے نہ سمجھ سکے اور نہ ہی سمجھا سکے، اُن کی وضاحت ایک ڈاکو کیسے کر سکتا ہے۔‘‘ گھونسہ ویرانی نے اپنے منہہ سے بہنے والا جھاگ اپنی آستین سے صاف کرتے ہوئے کہا ’’تمھیں یہاں اس لیے بلایا گیا ہے کہ تم اپنی زندگی کے حالات سے ہمیں آگاہ کرو۔ تم اپنی محبت کی داستان سناؤ اور اپنے انجام کے متعلق سب حقائق سے حاضرین کو آگاہ کرو۔ ادھر تم ہو کہ ہوا میں گرہ لگا کر زندگی، موت اور خرد کی گتھیاں سلجھانے کی سعیِ رائگاں میں اپنی سی ہانکے چلے جا رہے ہو۔ سیدھی طرح بات کرو ورنہ کُوڑے کے ڈھیر پر لیٹ کر جمائیاں لینے والے اور ذوق سلیم سے محروم تمھارے سب پرستاروں نے اپنے ہاتھوں میں کفش اور تازیانہ اُٹھا رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گندے انڈے، سڑے ہوئے ٹماٹر، باسی کدو، بد بو دار بینگن بھی بڑی تعداد میں اکٹھے کر لیے گئے ہیں۔ ان بدنام لوگوں نے تارے گِن کر رات گزاری ہے۔ وہ تمھاری ایسی درگت بنائیں گے کہ تمھیں صرف چھٹی کا دودھ ہی نہیں نانی بھی یاد آ جائے گی اور تم کسی طاقت ور دوربین کے بغیر دِن میں تارے دیکھ سکو گے۔‘‘
’’اگر تم نے حُسن و رومان کی وادی میں اپنی سیاحت اور گُل عذاروں کے روگ میں بیت جانے والے مہ و سال کا احوال بیان نہ کیا تو تمھیں اس نشست میں راکھ افشانیِ گفتار اور ہذیان گوئی کے صلے کے طور پر جو لفافہ ملنے والا ہے وہ روک لیا جائے گا۔‘‘ کرموں لکڑ ہارا بولا ’’جو بھی یہاں آتا ہے ہمیں اُلّو سمجھ کر بے پر کی اُڑانے لگتا ہے۔ اب تو چور محل کے مکین خلیل خان کے فاختائیں اُڑانے کی دِن بیت چُکے ہیں، اب وہ چمگادڑیں، چھپکلیاں، کاکروچ، چھچھوندر، اژدہا اور سانپ تلے کے بچھو مارنے کے دھندے میں مصروف ہے۔ لوڈ شیڈنگ سے پہلے تم اپنی زندگی کے افسانے کی ناخواندہ سطور پر روشنی ڈالو ورنہ تم یہاں سے خالی ہاتھ اپنے دائمی مسکن ہاویہ کی جانب سدھارو گے۔‘‘
’’اب جگر، تِلّی، گُردے، دِل اور پھیپڑے سنبھال کر بیٹھو۔‘‘ رابن ہُڈ نے اپنی تلوار میان سے نکالی اور اسے ہوا میں لہراتے ہوئے حلق سے اپنی سُوکھی زبان نکال کر بُڑبُڑایا ’’لوگ مجھے خطا کار، سیاہ کار اور زیاں کار سمجھتے تھے لیکن میں جب شعلہ بار ہوتا تھا تُرکانِ خطائی بھی اپنی انجمن آرائی بھُول کر انجن آرائی شروع کر دیتے تھے۔ قسمت سے ہارے ہوئے لکڑ ہارے اکثر ان کے عناں گیر رہتے اور ان کے انجن اور آرے پر درختوں کے بڑے بڑے تنے گدھا گاڑی پر لاد کر لاتے۔ قاتل آرے ان ساونتوں کے جِسم کو چیر کر رکھ دیتے۔ سب مزدور قہوے کے ساتھ نان خطائی کھاتے جس کا پُورا بِل چھپر ہوٹل کا مالک پھتو کنجڑا فی الفور اًن کے کھاتے میں لکھ لیتا۔ چھپر ہوٹل کے کھابے ڈکارنے کے بعد ان جہلا کی بے سر و پا لاف زنی کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ میں زندگی بھر محبت میں ہوس اور منافقت سے نفرت کرتا رہا۔ ہوس پر مبنی جنسی جنون اور محبت میں جو فرق ہے وہ بے کمال بھی جانتے ہیں اور بے درد بھی ان سے بے خبر نہیں۔ جو فروش گندم نما، بگلا بھگت اور جنسی جنونی بھڑووں نے محبت کو بھی دنیا داری میں بدل دیا ہے۔ اپنے چچا کی بیٹی میڈمارین کو میں نے بچپن ہی سے جانچ پرکھ رکھا تھا۔ ہم دونوں یک جان دو قالب تھے اور اس کی زندگی کا کوئی گوشہ مجھ سے پوشیدہ نہ تھا۔ جب نو سو چوہے کھا کر یہ گُربہ دریائے ٹیمز میں نہا کر راہبہ کا سوانگ رچا نے کے بعد کریکلی ایبی کی پائرس بن بیٹھی تو ہر شخص یہی کہتا تھا کہ کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہوتے۔ عیاری، مکاری اور ہوس سے لتھڑا اس کا یہ نیا رُوپ تو دیکھنے والوں کے لیے فریبِ نظر اور سرابوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگرچہ یہ پائرس بچپن ہی سے مجھ سے محبت کا اظہار کرتی رہی لیکن اپنی حق گوئی اور بے باکی کی وجہ سے میں پائرس کے دِل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ اس کے دِل میں مسلسل میرے لیے شدید نفرت اور عداوت پروان چڑھتی رہی۔ پھر یہ سانحہ ہوا کہ پائرس نے علاج معالجے میں مہارت حاصل کی اور کئی لوگوں کو اس کے علاج سے فائدہ ہوا۔ وقت کا یہ حسین ستم کبھی نہیں بھُولتا کہ بُڑھاپے میں تنہائیوں کے زہر کے تریاق کے لیے میں نے نو عمر لٹل جان سے پیمانِ وفا باندھا میں اس حسین نوجوان پر جان چھڑکتا تھا اور وہ بھی ہر وقت میری محبت کا دم بھرتا تھا۔ ہم ایک پل بھی ایک دوسرے سے جُدا نہ ہوتے تھے۔ یہ عہدِ وفا استوار کرنے کے بعد میں اس سنگت کو گردشِ لیل و نہار کا علاج سمجھنے لگا۔ تقدیر ہر لحظہ اور ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے۔ میری سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں نا معلوم کس حاسد کی چشمِ بد نے محبت کے اس پیمان کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لٹل جان تو فربہ اور توانا ہوتا چلا گیا لیکن میری نقاہت بڑھنے لگی اور میں روز بہ روز کم زور ہوتا چلا گیا۔ میں نے علاج کے لیے پائرس کے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے معتمد ساتھی لٹل جان سے کہا کہ وہ مجھے پائرس کے پاس کریکلی ایبی لے جائے۔ اب میرا حلق خشک ہو گیا ہے اور آتشِ سیّال کی طلب نے مجھے نڈھال کر دیا ہے۔ اس کے بعد کی میری زندگی کی کہانی لٹل جان کی زبانی سنیں جو تم سب کے لیے چشم بہ راہ بھی ہے اور تمام حالات کا چشم دید گواہ بھی ہے۔‘‘
لٹل جان بہ ظاہربسنت خان خواجہ سرا کی نسل سے معلوم ہوتا تھا۔ اس نے اپنی جسمانی آرائش پر خاصی توجہ دی تھی اور اپنے لمبے بال سنوار رکھے تھے۔ چہرے پر غازہ لگا تھا اور آنکھیں کاجل سے بھری تھیں۔ وہ ناز و ادا سے کمر مٹکاتا، گردن گھماتا اور رقصِ بسمل کے انداز میں آگے بڑھا اور بولا ’’یہ بات زبان زد عام تھی کہ قتل و غارت، دہشت گردی، حرص، ہوس، عشقِ بُتاں اور جنسی جنون نے رابن ہُڈ کو غمِ دوراں کی بھینٹ چڑھا دیا اور گردِش حالات سے ہزیمت کھا کر وہ بسترسے لگ گیا۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ ڈاکو جس کے ستم سہہ کر کئی مظلوم جہاں سے اُٹھ گئے، اب وہ اپنے بستر سے نہیں اُٹھ سکتا تھا۔ میں نے کمرِ ہمت ازار بند سے باندھ لی، نیم جاں رابن ہڈ کو اپنے گھوڑے پر بٹھایا اور مضبوطی سے اسے تھام کر گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا کریکلی ایبی کی طرف روانہ ہوا۔ میری ننھی سی جان پر کئی عذاب تھے رابن ہُڈ علیل، جان کنی کے عالم میں مریض کا عرصۂ زیست قلیل، مسافت طویل، دشوار گزار راہوں میں نہ بدرقہ نہ کفیل، ہر مقام پر اغیار دخیل، راہ میں حائل خطرات کی رودِ نِیل اور کسی طرف سے بھی اعانت کی کوئی سبیل نہ پا کر رابن ہُڈ کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کی جھیل کو دیکھ کر مجھے لنکن کی زنبیل یاد آ گئی۔ ہمارا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ گیا لیکن اس انتہائی کٹھن اور بے حد تکلیف دِہ سفر میں رابن ہڈ کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔ کرسمس سے چند روز قبل خون منجمد کرنے والی سردی سے ٹھٹھرتا ہوا بیماری اور کم زوری سے جاں بہ لب رابن ہُڈ کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر میں پائرس کے پاس پہنچا۔ پائرس نے جب رابن ہُڈ کو اس حال میں دیکھا تو اس کے چہرے پر اطمینان اور مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ پائرس نے مجھے باہر بھیج دیا اور تنہائی میں رابن ہُڈ کا طبی معائنہ کرنے کے بعد اس کی ورید میں نشتر کے ذریعے گہرے زخم یا فسد کا قصد کیا۔ اس پائرس کا عجب مزاج تھا، مریض کے جسم سے خون کا اخراج ہی اس پائرس کا طریقۂ علاج تھا۔‘‘
’’رابن ہُڈ پر اس کے بعد جو صدمے گزرے بندہ نواز آپ ان کی حقیقت کے بارے میں کیا جانیں؟‘‘ رابن ہُڈ نے روتے ہوئے آہ بھر کر کہا۔
لٹل جان کے جانے کے بعد عجیب و غریب واقعات سامنے آئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہوا میں زہر گھُلا ہے اور پانیوں سے آگ کے شعلے بلند رہے ہیں۔ شامِ الم ڈھل رہی تھی اور درد کی تُند و تیز ہوا پیہم چل رہی تھی۔ پائرس نے میری ورید کاٹ کر میرا خون نکالا اور پھر زخم کی جگہ پر پٹی باندھی۔ اس وقت پائرس کا دیرینہ آشنا ریڈ راجر بھی وہاں آ پہنچا۔ وہ دونوں مسکراتے ہوئے بغل گیر ہو کر آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے، جب کہ میں دِل گیر ہو کر نیم باز آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس کے بعد پائرس کمرے کا دروازہ باہر سے بند کر کے اپنے آشنا کے ساتھ نا معلوم منزل کی جانب روانہ ہو گئی۔ کم زوری اور بخار کے باعث جلد ہی مجھ پر غنودگی طاری ہو گئی۔ جب میری آنکھ کھُلی تو یہ دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمیں نکل گئی کہ پائرس نے دانستہ غلط جگہ پر پٹی باندھی تھی اور میری ورید سے مسلسل بہنے والے خون سے کمرے کا پورا فرش خون آلود ہو گیا تھا۔ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے بعد
میں نے لٹل جان کو مدد کے لیے بُلایا۔ جب لٹل جان آیا تو میرا وجود تو گھٹ کر ایک سایہ بن چُکا تھا اور میں کوئی دم کا مہمان تھا۔‘‘
’’جب میں پہنچا تو بہت دیر ہو چُکی تھی اور پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چُکا تھا۔‘‘ لٹل جان نے بسورتے ہوئے کہا ’’بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے رابن ہُڈ کے کمرے میں موت کے سائے منڈلا رہے تھے۔ رابن ہُڈ اور میں نے پائرس اور اس کے آشنا کی سازش کا مکمل احوال سمجھ لیا تھا۔ میں نے پائرس سے انتقام لینے کی بات کی تو رابن ہُڈ نے سختی سے مجھے منع کیا اور اسے مشیت ایزدی سمجھ کر قبول کرنے پر اصرار کیا۔ رابن ہُڈ کی یہ بات میرے دِل میں اُتر گئی کہ اس حسین پائرس نے چاندی کی گردن میں سونے کی گانی پہن رکھی ہے جو تمھیں چین کی نیند نہیں سونے دے گی۔ وہ اپنی چشمِ غزال سے جو کاری تیر چلاتی ہے اس کا نشانہ کبھی خطا نہیں جاتا اور نشانہ بننے والے کو اپنی زندگی بھاری لگتی ہے۔ وہ ترکاری بھی کاٹے تو من مانی کرتی ہے اور اس کے سامنے بات پر زبان کٹتی ہے۔ ترکش میں موجود تمھارے سارے تیر بھی ایسی گینڈے کی سی کھال رکھنے والی چڑیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس کے ساتھ ہی رابن ہڈ نے یہ بھی کہا کہ ذاتی انتقام کی آگ میں جل کر کسی حسین و جمیل عورت کی جان لینا مردانگی کی توہین ہے۔ پری چہرہ حسیناؤں کا حسن و جمال ہی ان کی کل کائنات ہے، اسے اُجاڑنا بڑی بے دردی ہے۔ میری التجا پر رابن ہُڈ نے کمان سنبھالی اور باہر کھُلی فضا میں تیر چلایا اور کہا کہ اسے قضا کا تیر سمجھو جو ہمیشہ مقررہ وقت پر صحیح نشانے پر جا لگتا ہے۔ جس جگہ یہ تیر گرے مجھے اُسی جگہ دفن کر دینا۔ آہ! رابن ہُڈ نے اپنی قبر کی جگہ کا تعین بھی خود کر دیا تھا۔ میں نے اُس کی آخری خواہش کے مطابق اُس کے چلائے ہوئے تِیر کے گرنے کے مقام پر ایک گہری قبر کھود کر مٹی میں عذاب و عتاب رکھ دیا۔‘‘
رابن ہُڈ نے نظامت پر مامور مسخرے سے لفافہ چھینا اور کُوڑے کے ڈھیر کی جانب چل دیا۔ اس کے بعد چیتھڑوں میں ملبوس ایک خستہ تن نوجوان نمو دار ہوا۔ جب وہ لنگڑاتا، لڑکھڑاتا، تڑپتا اور تلملاتا ہوا سٹیج کی جانب بڑھ رہا تھا تو تماشائیوں کا شور گھٹ رہا تھا۔ اس نو جوان کی آنکھوں سے حسرت و یاس ٹپک رہی تھی اور گردن ایک طرف ڈھلک گئی تھی اور کندھے کے ساتھ بانسری لٹک رہی تھی۔ وہ مسلسل ہانپ رہا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حلق میں اس کی سانس اٹک رہی تھی اور وہ شدید گرمی کے باوجود کانپ رہا تھا۔ جوان اپنی ٹانگ پر لگے زخم کی وجہ سے شدید کرب میں مبتلا تھا۔ ٹانگ کے اس زخم پر بوسیدہ کپڑے کی پٹی بندھی تھی۔ پنڈلی کے زخم سے مسلسل خون رسنے کی وجہ سے پنڈلی پر بندھی خون آلود پٹی پر بے شمار پر مکھیاں بھِنک رہی تھی اس لیے پٹی کا رنگ مگسی دکھائی دیتا تھا۔ نو جوان جس طرف سے گزرتا، خون کے قطرے زمین پر گرتے اور نشانِ راہ چھوڑتے جاتے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ نو جوان کس بیماری میں مبتلا ہے جس کے باعث اسے چلنے میں دشواری ہے۔ اس فربہ، تنو مند اور رومانی مزاج کے نو جوان نے کئی بار اکڑ کر چلنے کی کوشش کی لیکن گردشِ حالات کے ہاتھوں ٹانگ پر لگنے والے زخم نے اسے بُری طرح جکڑ رکھا تھا۔ اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہ تھی لیکن آنکھیں حیرت، حسرت، رنج، ندامت اور کرب سے لبریز تھیں۔ اس کے جسم پر گرد و غبار سے اٹے ہوئے بوسیدہ لباس کے چیتھڑے دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ کوئی سادھو ہے جس نے تپسیا کی خاطر بن باس اختیار کیے رکھا۔ اس کے لمبے اور گھنے سیاہ بال، بڑی بڑی مونچھیں اور سڈول جسم اس کی شان دل ربائی کا مظہر تھا لیکن اس کے سر پر پڑی لُٹی محفلوں کی دھُول یہ ثابت کر رہی تھی کہ یہ نوجوان حسن و رومان رومان اور جنس و جنون کے دشت پُر خار کا آبلہ پا مسافر ہے۔ طویل عرصہ تک روز افزوں مصائب کا سامنا کرتا رہا اس لیے پائمال، خوار و زبوں اور بے حد ملُول ہے۔ اس کے ہاتھوں اور پیروں پر میل کچیل کی پِپڑیاں جمی تھیں۔ اس نے ایک ہاتھ میں مچھلیاں پکڑنے کے کانٹے اور لمبی ڈور تھام رکھی تھی جب کہ دوسرے ہاتھ میں اس نے صراحیِ مے پکڑ رکھی تھی۔ جب کبھی پیاس محسوس کرتا صراحی کا ڈھکن کھول کر مے کے دو گھونٹ اپنے حلق میں اُنڈیل کر اک گونہ مُسرت، راحت اور بے خودی سے سر شار ہو جاتا۔ اس نو جوان کی ہئیت کذائی دیکھ کر سب لوگ قہقہے لگانے لگے۔ اچانک ایک نوجوان حسینہ نمو دار ہوئی اور نو جوان کے قریب پہنچ کر گہری سوچوں میں کھو گئی۔ خزاں رسیدہ نو جوان بے تابانہ انداز میں حسینہ کی طرف بڑھا لیکن وہ بے حجابانہ پیچھے ہٹ گئی۔ نوجوان بڑی چاہت کے ساتھ میل ملاپ کی غرض سے اس حسینہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا مگر وہ بڑی بے رخی سے اس کا مَیل سے چیکٹ ہاتھ جس سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے، اُسے نفرت اور بیزاری سے جھٹک رہی تھی۔ حسینہ کی یہ بے رُخی نوجوان کے دِل میں بُری طرح کھٹک رہی تھی۔ اس حسینہ کے دائیں ہاتھ میں مٹی کا ایک بڑا گھڑا تھا جسے دیکھ کر کُوڑے کے ڈھیر پر براجمان چِکنے گھڑے اش اش کر اُٹھے۔ حسینہ نے گھڑے کو چُوما اور درد بھری آواز میں فریاد کی:
مینوں پار لنگا دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کر دی
ترجمہ: اے گھڑے مجھے دریا کے پار پہنچا دے میں تیری منتیں کرتی ہوں
سب نے پہچان لیا کہ یہ پنجاب (گجرات)کی لوک داستان کے دو کردار ہیں۔ مہ جبیں حسینہ کا نام سوہنی ہے اور اس کے ساتھ جو خستہ حال نوجوان اپنے تغیرِ حال پر آنسو بہا کر کفِ افسوس مل رہا ہے وہ اس کا عاشق مہینوال ہے۔ رنگو رذیل نے جب سوہنی کو مہینوال کے قریب کھڑے دیکھا تو اس کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگا۔ یہ راز سب پر کھُل گیا کہ رنگو رذیل کی اہلیہ ثباتی نے اپنے قحبہ خانے کی خرچی کی صورت میں جو زر و مال کمایا وہ اس نا ہنجار نے مختلف حیلوں بہانوں سے اس رذیل جسم فروش طوائف سے ہتھیا لیا۔ اس کے بعد ظلو اور کنزی سے رنگ رلیاں منانا اس متفنی کا معمول بن گیا۔ اس راز کے کھلتے ہی رنگو رذیل کو قحبہ خانے سے ایسے نکالا گیا جیسے باسی کڑھی سے پھپھوندی نکالی جاتی ہے۔ یہ بہت بے آبرو ہو کر قحبہ خانے سے نکلا اور پھر نگار خانے اور جوا خانے کی راہ لی لیکن اسے ہر جگہ سے دھتکار دیا گیا۔ اس ننگ انسانیت درندے کے قبیح کردار اور بد اعمالیوں کا راز کھُلتے ہی اس پر خوشیوں اور راحتوں کا ہر دروازہ بند ہو گیا۔ بہرام ٹھگ کے پڑ پوتے رمنو ٹھگ کے راز داں گھسیٹا بیابانی نے رنگو رذیل کے مکر کا پردہ فاش ہونے کے بعد اس کے حالِ زبوں کا نقشہ اس طرح پیش کیا ہے:
وہ راز کیا کھُلا کہ بُرا اُس کا رنگ تھا
ہر اِک ستم ظریف کے ہاتھوں میں سنگ تھا
جہاں بھی دو چاہنے والے یک جان دو قالب ہو کر گلے ملتے ہیں، رنگو رذیل رنج و کرب سے بے حال ہو جاتا ہے۔ وہ رمنو ٹھگ کے پاس پہنچ جاتا اور مے گلفام سے سیراب ہوتا تھا۔ جب سے اس کی داشتاؤں تفوسی، مسبی اور شباہت نے اس ہوس پرست پر تین حرف بھیج کر اپنے دیرینہ آشنا کے ساتھ نئے سرے سے پیمان وفا باندھا ہے اس کی نا اُمیدی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ آہ بھر کر یہ بات بر ملا کہتا پھرتا ہے کہ اس کے دردِ فرقت کا علاج تو اب فرشتۂ اجل ہی کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی کالے دھن کی جائداد اور قحبہ خانے کی آمدنی کی ضبطی نے اس بھڑوے کو خبطی بنا دیا ہے۔ وہ بے لگام ہو گیا اور سوہنی کی آمد پر اپنی غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے بولا:
اسی تذلیل تمنا کے لیے پہنچی ہے
سب اِسے کینۂ پستی میں اُترتے دیکھیں
مہینوال کی حالتِ زار دیکھ کر سب لوگ محوِ حیرت رہ گئے۔ محبت اور چاہت کا یہ الم ناک انجام کُوڑے کے ڈھیر پر بیٹھے مسخروں کے لیے وجہِ اضطراب بن گیا۔ وہ سب محبت کی اس کہانی کے درد ناک انجام کے اسباب جاننے کے لیے بے چین تھے۔ مہینوال اگرچہ صدموں سے نڈھال دکھائی دیتا تھا لیکن سوہنی کی قربت نے اس کے اندر ایک ولولۂ تازہ پیدا کر دیا۔ وہ سوہنی کی طرف سے روا رکھی جانے والی حقارتوں اور اس کے لبوں سے نکلنے والی گالیوں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا۔ مہینوال نے ایک نگاہ سوہنی کے سراپا پر ڈالی اور پھر ہجوم کے تجسس کو دیکھتے ہوئے بولا:
سبھی کو اپنے ستم کا حساب میں دوں گا
سوال جتنے کرو گے جواب میں دوں گا
ایک طرف سے آواز آئی ’’کیا سبب تھا کہ سوہنی کو مچھلی کے کباب کھلانے کے بجائے تم نے اپنی ٹانگ کا گوشت کاٹ کر اُسے بھُون کر کھلایا۔ نہ تم ماہی گیر ہو اور نہ ہی کباب بھُوننا تمھارا پیشہ تھا۔ تم نے سوہنی کی بھوک مٹانے کے لیے یہ مشکل طریقہ کیوں چُنا؟ تمھاری اس حرکت کے پیچھے تمھاری جنسی بھُوک چھُپی تھی۔‘‘
’’تم نے سچ کہا ہے مچھلیاں پکڑنا اور کباب بھُوننا میرا پیشہ نہیں۔‘‘ مہینوال بولا ’’چاہت میں دنیا داری کا کوئی تصور ہی نہیں۔ محبوب کو منانے کے لیے ہر طریقہ درست ہے۔ کسی نے یہ بات خوب کہی ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز سمجھنا چاہیے۔ سوہنی کی بستی سے نکالے جانے کے بعد میں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور بستی کے سامنے دریائے چناب کے دوسرے کنارے پر ایک کٹیا میں زندگی کے دِن پورے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس عالمِ یاس و ہراس میں چاروں جانب سناٹا تھا۔ میرے لیے تو یہ کٹیا موت کی کال کوٹھڑی تھی جہاں دن کو تاریک را توں کے ما نند گھٹا ٹوپ اندھیرا رہتا تھا۔ جان لیوا تنہائیوں اور جگ ہنسائیوں سے عاجز آ کر میں قبر میں پاؤں لٹکائے میں بیتے دنوں کی یادوں میں کھو جاتا اور یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتا کہ کبھی تو خاکِ راہ اور کُوڑے کے ڈھیر کے حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ کیا عجب کبھی قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے اور سوہنی کو اس کٹیا کا خیال آ جائے۔ اب تو میری زندگی اسی موہوم اُمید کے سہارے گزر رہی تھی۔ اپنی بد اعمالیوں سے خانماں برباد ہونے کے بعد اچھے دنوں کے انتظار کرنا بھی سائے کے تعاقب کی طرح خود فریبی کی ایک صورت ہے۔ دسمبر کی آخری تاریخ تھی، آدھی رات کا وقت تھا اور نئے سال کی آمد میں چند لمحے باقی تھے۔ آسمان پر نیا چاند چڑھ چُکا تھا اسی لمحے میں نے اپنی عفونت زدہ کُٹیا میں ایک نیا گُل کھلتے دیکھا۔ مجھے اس ان ہونی کا یقین نہیں آ رہا تھا، میں نے اپنی چٹکی لی اور آنکھیں مل کر اور آنکھ بھر کر دیکھا تو میری تنگ و تاریک کٹیا میں رنگ، خوشبو اور روشنی کا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔ سوہنی میرے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ ہجر و فراق کی اذیت اور تنہائی کی عقوبت برداشت کرنے کے بعد وصل کی راحت سے دل باغ باغ ہو گیا۔ میں نے دریا سے کُنڈی کے ذریعے جو مچھلی دو پہر کے وقت پکڑی تھی اس کے کباب بھُون کر سوہنی کو کھلائے۔ اس نے گھڑے پر تیر کر دریا عبور کیا تھا جو اس کی جرأت اور جذبوں کی شدت اور حدت کی دلیل ہے۔‘‘
جولائی 5 یوم سیاہ اور یوم وفات مسعود اشعر، مسعود اشعر اور سید فخرالدین بلے داستان رفاقت
(مسعود اشعر ولادت 10 فروری 1930ء – وفات 5 جولائی 2021ء) داستان گو : ظفر معین بلے جعفری ہمارے والد...