گرم سے گرم تر ہو رہا ہے جہاں
بھاگ کر کوئی جائے تو جائے کہاں
ہر طرف گاڑیاں ہیں رواں اور دواں
زد میں آلودگی کی ہیں پیر و جواں
شہر میں اس قدر ہے مکدر فضا
ہر طرف جیسے چھایا ہوا ہو دھواں
گاؤں کی زندگی تھی بہت خوشنما
اب وہاں بھی ہیں آلودگی کے نشاں
آج کل سطح ’اوزون‘ خطرے میں ہے
ہیں یہ انسان کی کارفرمائیاں
کوئی محفوظ آلودگی سے نہیں
نت نئی جس سے لاحق ہیں بیماریاں
ہے ’سنامی‘ کہیں اور کہیں زلزلہ
فتنہ پرور ہیں موسم کی تبدیلیاں
زہر آلود ہیں کھاد، پانی، ہوا
موسم گل میں چھائی ہے فصل خزاں
زندگی میں نہیں آج کوئی رمق
ہیں جوانوں کے چہرے پہ بھی جھریاں
راہ پر ہم ترقی کی ہیں گام زن
جس کا ثمرہ ہیں ذہنی پریشانیاں
کوئی آسودہ خاطر نہیں آج کل
عصرِ حاضر میں بے کیف ہیں جسم و جاں
جسم و جاں کے تحفظ سے قطع نظر
ہیں ’کلوننگ‘ میں مصروف سائنسداں
جن کی ریشہ دوانی سے نالاں ہیں سب
دوسروں پر اٹھاتے ہیں وہ انگلیاں
پہلے کر لیں وہ بہتر نظام زمیں
چاند پر پھر بسائیں گے آبادیاں
روح کو جس سے حاصل ہو آسودگی
ہم کو درکار ہیں ایسی رعنائیاں
جو ہیں حساس ان کی دعا ہے یہی
ختم آلودگی کا ہو نام و نشاں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...