صبح جب اس کی آنکھ
کھلی تو صوفے پر سونے کی وجہ سے اس کا پورا جسم اکڑا ہوا تھا ۔
بہت مشکل کے بعد ہمت کر کہ وہ بیٹھی اور چارو طرف دیکھا تو کمرے میں ازلان موجود نھیں تھا۔
اسے سمجھ نھیں آ رہا تھا کہ کیا کرے اتنے میں دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے سامنے دیکھا تو ازلان آفس کے لیئے مکمل تیار کمرے میں داخل ہوا ۔
نایاب اٹھی اور فریش ہونے کے لیئے واش روم کی جانب بڑھ گئ۔
نایاب جب باہر آئ تو ازلان فون پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا۔
نایاب چپ چاپ ڈریسر کے سامنے جا کر بال بنانے لگ گئ۔
ہاں میری جان ٹھیک ہے۔آفس کے بعد میں تمھیں پک کر لوں گا اور پھر ہم لنچ کرنے چلیں گے۔بول تو رہا ہوں کے کل تھوڑا مصروف تھا اس لیے نھیں مل سکا۔
چلو پھر مل کر بات کریں گے۔
ازلان نے فون بند کر کہ نایاب کو دیکھا جس نے آنکھوں میں آئ نمی چھپانے کے لیئے چہرہ نیچے جھکایا ہوا تھا
۔۔۔۔۔ہنہ
ازلان کمرے سے باہر چلا گیا اور نایاب کے آنسوؤں میں روانی آگئ
********************¬**********
السلام وعلیکم آنٹی۔۔۔۔۔۔
نایاب نے نیچے آ کر سامنے صوفے پر بیٹھیں زاہرہ بیگم کو سلام کیا جنھوں نے اسے نظر انداز کر کے واپس نظریں اخبار پر جمادیں۔
انکی کی اس حرکت پر نایاب کو دکھ ہوا لیکن وہ چپ چاپ انکے سامنے بیٹھ گئ۔
ابھی تک چاچو لوگ نھیں آئے؟
نایاب نے دل میں مچلتا سوال پوچھا۔
“کیونکہ اسے امید تھی کہ وہ لوگ ناشتہ لے کر ضرور آئیں گے”۔
فون آیا تھا بھابھی کا پوچھ رہیں تھیں کہ کب تک آئیں لیکن میں نے منع کردیا کہ کیا ہم اب اسے ناشتہ بھی نھیں دیں گے کیا۔
زاہرہ بیگم روکھے سے انداز میں کہتیں کھڑی ہو گئیں۔
ان کی بات سن کر نایاب کو مایوسی ہوئی تھی۔
اچھا سنو اگر تمھیں بھوک لگے تو سامنے کچن ہے جا کر ناشتہ بنا لینا اپنے لیئے۔
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
نایاب نے کل سے کچھ نھیں کھایا تھا اسی لیئے اسے کافی بھوک لگ رہی تھی تو وہ کچن میں اپنے لیئے ناشتہ بنانے چلی گئ ۔
اسے پہلے ہی پتا تھا کہ اس گھر میں اسے نئ نویلی دلہن سمجھ کر کوئ نخرے نھیں اٹھائے گا۔
********************¬********
ابے یار کہاں ہے تو؟میں کب سے تیرا انتظار کر رہا ہو اور تو ہے آکے ہی نھیں دے رہا۔
سعد نے غصے سے فون پر کہا۔
کیا کہا دو منٹ میں آرہا ہو ۔ابے کمینے میں پچھلے آدھے گھنٹے سے تیرا یہ قومی جھوٹ سن رہا ہوں۔
میں سامنے ریسٹورنٹ میں تیرا انتظار کر رہا ہوں جلدی پہنچ۔
سعد غصے بڑبڑاتا ہوا ریسٹورنٹ کی جانب چل رہا تھا کہ کسی سے زور دار ٹکر کی وجہ سے وہ نیچے گرتے گرتے بچا۔
لیکن مقابل کو وہ زمین بوس کر چکا تھا۔
او سوری وہ میری غلطی کی وجہ سے آپ گر گئ۔
سعد معزرت خواہ انداز میں بولتا ہوا سامنے گری ہوئ لڑکی کی جانب بڑھا۔
اندھے ہو کیا دکھتا نھیں یا پھر یہ بٹن جیسی آنکھیں ادھار پر دی ہوئ ہیں۔
اسنے غصے میں کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
استغفار۔۔۔
اپنی خوبصورت آنکھوں کے لیئے بٹن لفظ سن کر سعد نے کہا۔
او ییلو میڈم میں ایک تو آپ کو سوری بول رہا ہوں اور آپ ہیں کی الٹا مجھے ہی ڈانٹ رہی ہیں۔
سعد نے بھی غصہ کرنے کی ناکام کوشش کی کیونکہ سامنے کھڑی لڑکی شکل سے اتنی خوبصورت اور معصوم تھی کہ اس پر غصہ ہو ہی نھیں رہا تھا(بقول سعد کے )
سوری مائے فٹ آئندہ راستے سے چلتے ہوئے اپنی ان بٹن جیسی آنکھوں کا استعمال لازمی کر لینا ۔
یہ کہہ کر وہ لڑکی بغیر سعد کو بولنے کا موقع دیئے وہاں سے چلی گئ۔
خوبصورت چڑیل۔۔۔
سعد نے دل میں اسے اس لقب سے نوازہ اور
سامنے دیکها تو نوفل اپنی مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
کیا ہے؟
سعد نے غصے سے پوچھا۔
قسم سے یار میں نے کچھ نہیں دیکھا۔
نوفل نے شرارت سے ایک آنکھ دبائ۔
دفع ہو۔
سعد کہتا آگے کی جانب بڑه گیا۔
اچها یار مزاق کر رہا تها۔
وہ بهی اس کے پیچهے بهاگا۔
********************¬*************
نایاب بیڈ پر بیٹهی سوچو میں گم تھی۔
کیا سے کیا ہو گیا تها اس کے ساتھ۔ یہ سب تو اس نے اپنے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
کل کا ازلان کا رویہ یاد کر کے اسے دکھ ہو رہا تها۔
“اب جو بهی ہے وہ میرے شوہر ہیں ۔میں اپنی محبت اور محنت سے یقینن ان کے دل میں جگہ بنا لو گی”
نایاب یہ سوچ کر اٹهی اور الماری سے ازلان کے کپڑے نکال کر رکهے کیونکہ اس کے آنے کا وقت ہو گیا تها۔
وہ واپس بیڈ پر بیٹهی ہی تهی کہ ازلان کمرے میں داخل ہوا۔
پانی لائو آپ کے لیئے۔
نایاب نے اس کے پاس آکر پوچها۔
ازلان اس کی بات کا جواب دیئے بغیر کپڑے لے کر واشروم میں چلا گیا۔
پیچهے نایاب لب کاٹتی اسکا بیگ جگہ پر رکهنے لگی۔
وہ میں پوچھ رہی تهی کہ۔۔۔۔۔۔۔
ازلان کو باہر آتا دیکھ نایاب نے دوبارہ کہا لیکن اسکا فون بجنے پر چپ ہو گئ۔
ہاں ڈارلنگ میں بس تهوڑی دیر میں آرہا ہوں۔ہاں ہاں میری جان بس تهوڑا سا انتظار کر لو۔
یہ کہہ کر ازلان نے فون بند کیا اور ایک طنزیہ نظر نایاب کے وجود پر ڈال کر چلا گیا۔
ازلان کے جاتے ہی نایاب زمین پر بیٹھی چلی گئ۔وہ ابھی بھی بے یقین نظروں سے دراوازے کی جانب دیکهہ رہی تهی جہاں سے ابهی وہ گیا تها۔
اس پتا ہی نہیں چلا کہ کب آنسوں اس کی آنکهوں سے نکل کر بے مول ہونے لگے۔
“نھیں میں اتنی آسانی سے اپنے شوہر کو کسی اور کا نھیں ہونے دوں گی۔ نکاح کے دو بول میں بہت طاقت ہوتی ہے اور مجھے یقین ہے ایک دن انھیں بھی میری قدر ہو جائے گی ۔”
آنسوں صاف کرکے نایاب نے اپنے آپ سے کہا ۔
وہ ایسی ہی تو تھی ۔اپنے سے جڑے رشتوں کو بچانے کی خاطر اپنا آپ بھول جانے والی۔
********************¬*******
یار پلیز پریشان نھیں ہو ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایک گھنٹے تک تمھیں تمھارے گھر چھوڑ دوں گا۔ میں نے جب سے امی کو بتایا ہے وہ تم سے ملنے کے لیئے بے چین ہیں۔
راحیل نے کہا۔
لیکن راحیل ۔۔۔۔۔۔
نور نے کہنا چایا۔
لیکن ویکن کچھ نھیں جب تم میری امی سے ملو گی نا تمھارا واپس جانے کا بالکل دل نھیں کرے گا۔وہ ہیں ہی اتنی اچھی۔
ٹھیک ہے لیکن صرف آدھا گھنٹہ۔
نور نے گھورتے ہوئے کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئ۔
جو حکم آپکا۔
راحیل نے سر خم کیا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔
تھوڑی دیر بعد گاڑی ایک فلیٹ کے آگے رکی۔
چلو۔۔۔۔۔۔
نور ابھی بھی کش مکش میں کھڑی تھی جب راحیل اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔
کہاں ہیں آنٹی۔
نور نے پوچھا ۔
وہ شاید کچن میں ہیں تم بیٹھو میں انھیں بلا کر آتا ہوں۔
راحیل نے نور کو صوفے پر بٹھایا اور کچن کی جانب بڑھ گیا۔
ہاں یار میں لے آیا ہوں اسے۔کیا کہا تھا کہ تیرا بھائی کوئ کچا کھلاڑی نہیں ہے۔چلو تم لوگ جلدی سے پھنچو ۔ہاں ہاں میں نے اسے باہر بٹھایا ہوا ہے۔ابے بھت خوصورت پیس ہے ۔ہاں ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔
راحیل بولتا ہوا جیسے ہی پیچھے مڑا تو نور بے یقین نظروں سے اسے ہے دیکھ رہی تھی۔
********************¬********
نور میری بات سنو۔۔۔۔۔
دور رہو مجھ سے۔
راحیل نے نور کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تو نور نے اسے دھکا دے کر پیچھے کیا۔
مجھے نھیں پتا تھا راحیل کے تم اتنے گھٹیا بھی ہو سکتے ہو۔مجھے غصہ آ رہا ہے اپنے پر جو میں تمھاری باتوں پر یقین کر کے تمھارے ساتھ آگئ۔
نور کہہ کر دروازے کی جانب بڑھی لیکن راحیل نے اسے پیچھے زمین پر دھاکہ دیا اور نور منہ کے بل زمین پر گر گئی۔
تمھیں کیا لگا میں تمھیں اتنی آسانی سے جانے دوں گا۔
راحیل نے نور کے بالوں کو دبوچتے ہوئے کہا۔
پلیز مجھے جانے دو۔
نور نے روتے ہوئے بال چھڑانے کی کوشش کی۔
اتنی محنت کے بعد لایا ہوں اور اتنی آسانی سے جانے دوں گا واہ کیا بات کہی تم نے۔
راحیل نے کہا اور اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے کی جانب لیجانے لگا۔
نور روتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی اور پھر اسنے راحیل کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔
جاہل لڑکی۔۔۔۔
اس سے پہلے راحیل کا ہاتھ نور کے منہ پر نشان چھوڑتا کسی نے اس کا ہاتھ ہوا میں ہی روک دیا اور ایک زور دار مکہ اس کے منہ پر مارا۔
********************¬********
حد ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔
ازلان جو آفس جانے کے لیئے الماری سے اپنی شرٹ نکال رہا تھا اسنے الماری کا پٹ زور سے بند کرتے ہوئے کہا۔
کیا ہوا؟
نایاب ابھی ازلان کا ناشتہ لے کر کمرے میں آئ تھی تو ازلان کو غصہ میں دیکھ اس نے پوچھا۔
جو شرٹ میں نے آج پہن کر جانی تھی وہ تو استری ہی نھیں ہے۔
ازلان نے سفید رنگ کی شرٹ بیڈ پر پھینکتے ہوئے کہا۔
آپ ناشتہ کریں یہ میں جلدی سے استری کر دیتی ہوں۔
ازلان نے کچھ نا کہا اور چپ چاپ ناشتہ کرنے کےلیئے بیٹھ گیا۔
نایاب نے ایک نظر اسے دیکھا اور شرٹ استری کرنے لگی۔
“مجھے یقین ہے ازلان میں آپ کے دل میں جگہ بنا لوں گی”۔
نایاب نے موبائل میں مصروف ازلان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا اور ہلکا سا مسکرادی۔
********************¬*******
ابے کون ہے تو۔
نور جس نے تھپڑ کے ڈر کی وجہ سے اپنی آنکھیں بند کر لیں تھی راحیل کی آواز سن کر آنکھیں کھولیں تو سامنے ارسلان کو دیکھ حیران رہ گئ جس نے راحیل کا ھاتھ پکڑا ہوا تھا۔
ارسلان نے خونخوار نظروں سے نور کو گھورا اور راحیل کو مارنے لگ گیا۔
نور کو اب ارسلان سے ڈر لگ رہا تھا جو راحیل کو بری طرح پیٹ رہا تھا۔
راحیل جب ارسلان کی مار سے بےہوش ہوگیا تو وہ اسے چھوڑ کر نور کی طرف بڑھا جو ڈر سے کانپ رہی تھی۔
ارسلان میری بات۔۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسلان کے پڑنے والے تھپڑ سے نور کے الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے اور وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے بے یقین نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
یقین کرو نور مجھے نھیں پتا تھا کہ تم اس حد تک گر جاؤ گی ۔کم از کم اپنے باپ کی ہی عزت کا خیال کر لیتی۔حیرت ہو رہی ہے مجھے خود پر جو میں نے کبھی تم جیسی لڑکی سے محبت کی تھی جسے اپنی عزت کی بالکل پرواہ نھیں ہے۔
میں نیچے گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں اپنا حلیہ درست کر کے جلدی آؤ۔
ارسلان نے ایک نفرت بھری نظر نور پر ڈالی اور چلا گیا ۔
نور وہی بیٹھ کر با آواز رونے لگی۔
********************¬*******
ارسلان اپنی گاڑی میں بیٹھا اپنے کسی دوست کا انتظار کر رہا تھا جب اسے سامنے نور کسی لڑکے سے بات کرتی ہوئ نظر آئ۔یہ دیکھ کر ارسلان کا خون خول اٹھا۔
وہ لڑکا اسے کسی بات کے لیئے شاید منا رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے نور اس کے ساتھ کار میں بیٹھ کر چلی گئ۔
ارسلان نے اپنے دوست کو کال کر کے نا ملنے کا بہانا کیا اور اپنی گاڑی بھی اس گاڑی کے پیچھے لگا دی جس میں ابھی تھوڑی دیر پہلے نور بیٹھی تھی۔
تھوڑی دیر بعد گاڑی ایک بلڈنگ کے سامنے رکی ۔ارسلان نے بھی اپنی گاڑی ان سے فاصلے پر روکی۔
نور کو اس لڑکے کے ساتھ فلیٹ میں جاتا دیکھ ارسلان کا بس نھیں چل رہا تھا کہ وہ اس کا قتل کر دے۔
ارسالان کو بلڈنگ میں کمرہ ڈھونڈنے میں تھوڑی دیر لگ گئ اور جب وہ مطلوبہ کمرے میں پہنچا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا غصے سے برا حال ہو گیا۔
ٹھکک۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی کا دروازہ بند ہونے کی آواز پر ارسلان سوچوں سے باہر آیا اور سامنے دیکھا تو نور ڈری سہمی بیٹھی ہوئ آنسوں روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
نور کو دیکھ ارسالان کو وہ سب واپس یاد آیا تو اس نے غصے میں اپنا ہاتھ اسٹیرنگ پر مارا جس سے نور ڈر کر کار کے دروازے کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئ۔
ارسالان نے بغیر کچھ کہے فل اسپیڈ میں گاڑی چلا دی۔
********************¬*******
بریانی بنانے کے بعد نایاب سلاد بنانے لگی۔
اس نے آج ازلان کی پسند کا کھانا بنانے کا سوچا تھا اسی لیئے وہ ازلان کی من پسند بریانی بنا رہی تھی۔
اس نے بہت دل سے بنائ تھی اور اسے یقین تھا کہ ازلان کو یہ ضرور پسند آئے گی۔
کیا کر رہی ہو؟
زاہرہ بیگم نے کچن میں آکر پوچھا۔
پھوپھو میں بریانی بنا رہی تھی۔
نایاب نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
تمھیں کیا لگتا ہے اس جیسی فضول حرکتیں کر کے تم میرے بیٹے کو قابو کر لو گی اور مجھ سے چھین لو گی۔
زاہرہ بیگم نے نخووت سے کہا۔
نھیں پھوپھو میں نے ایسا کبھی نھیں سوچا۔
نایاب کو ان کا انداز برا لگا تھا۔
رہنے دو بی بی مجھے نھیں پتا کیا تمھارا۔ پہلے ماں باپ کو کھا گئ اور اب میرے بیٹے کے پیچھے پڑ گئ ہے ۔ماں باپ مر گئے لیکن تجھ منحوس کو چھوڑ گئے ارے تو بھی مر جاتی نا ۔
زاہرہ بیگم بولتی ہوئ کچن سے چلی گئ۔
نایاب اپنی ہاتھ کی پشت سے اپنی آنکھوں میں آئے آنسوں صاف کرنے لگی۔
********************¬*******
نور کے آنسوں کسی صورت رکنے کا نام نھیں لے رہے تھے۔
اسکا دم گھٹ رہا تھا اسے لگ رہا تھا کہ اس کا دل پھٹ جائے گا۔
ارسلان اسے گھر کے آگے اتار کر بغیر کچھ کہے چلا گیا تھا اور وہ سر درد کا کہہ کر فورا اپنے کمرے میں آگئ تھی اور جب سے روئے جا رہی تھی۔
اگر ارسلان نا آتا تو۔۔۔۔۔۔
یہ سوچ کر ہی اسکی روح کانپ رہی تھی۔
جن آنکھوں میں اس نے ہمیشہ اپنے لیئے محبت دیکھی تھی آج ان میں بے انتہا نفرت دیکھ کر اسے اذیت پہنچی تھی۔
“نور ہم مسلمان لڑکیاں ہیں اور میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ ایک مسلم لڑکی کو کبھی اتنا سستا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئ بھی اسے خرید سکے۔”
“مجھے یقین ہے کہ میری نور میرا مان کبھی نھیں توڑے گی۔”
توڑ دیا آپکی نور نے آپکا مان توڑ دیا۔آپکی نور اچھی نھیں ہے آپی آپکی نور بھت بری ہے۔
نایاب کے کہے گئے الفاظ یاد کر کے نور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
یا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔
آج دوپہر کا واقع سوچ سوچ کر نور کا دماغ پھٹا جا رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد جب آنسوؤں میں کمی آئ تو وہ اٹھ کر نماز پڑھنے چلی گئ کیونکہ سکون تو صرف نماز میں ہی ہے ۔
********************¬*******
نایاب جب سے بیٹھی ازلان کے آنے کا انتظار کر رہی تھی ۔
گھڑی رات کے دو بجنے کا پتا دے رہی تھی۔
نیند آنے کے باوجود وہ جاگ رہی تھی ۔ازلان کے انتظار میں اس نے ابھی تک خود بھی کھانا نھیں کھایا تھا۔
کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز پر نایاب نے جب دیکھا تو ازلان کسی سے فون پر بات کرت ہوئے اندر آ رہا تھا۔
ہاں میری جان ۔جی جی میں پہنچ گیا ہوں۔ چلو ٹھیک ہے اپنا خیال رکھنا۔
ازلان کی باتیں سن کر نایاب کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا
ازلان بغیر نایاب کی طرف دیکھے فریش ہونے چلا گیا۔
کھانا لاؤ آپ کے لیئے۔
ازلان جب واپس آیا تو نایاب نے پوچھا۔
کھا کر آیا ہوں۔
انداز بھت روکھا تھا۔
آپکے انتظار میں، میں نے بھی کھانا نھیں کھایا تھا ۔سوچا تھا آپکے ساتھ کھاؤ گی۔
ازلان کے جواب پر نایاب افسردہ ہوئ تھی۔
تو کس نے کہا تھا میرا انتظار کرو۔
وہی بےرخا انداز۔
آج آپ اتنا لیٹ کیوں ہوگئے تھے؟
نایاب نے پھر ہمت کرکے بات کی۔
آخر کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ کیوں پیچھے پر گئ ہو اور کس حق سے تم یہ سب پوچھ رہی ہو۔
ازلان نے غصہ میں نایاب کا بازو دبوچتے ہوئے کہا۔
بیوی ہوں میں آپکی ۔
نایاب نے بازو چھڑواتے ہوئے کہا۔
ہاہاہا۔۔۔۔ ایسی بیوی جس کی میں شکل تک دیکھنا پسند نھیں کرتا اور سننا چاہتی ہو نا کہ میں کہاں تھا تو سنو میں اپنی گرل فرینڈ کے پاس تھا جس سے میں جلد شادی کرنے والا ہوں۔
الفاظ تھے یا دھماکا جو نایاب کے سر پر ہوا تھا۔
آ۔آپ جھوٹ بول رہے ہیں نا ۔کہہ دیں کے آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔
نایاب نے ازلان کا گریبان جھنجوڑتے ہوئے کہا۔
یہی سچ ہے۔
ازلان نے نایاب کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
پلیز ازلان ایسا مت کرو میرے ساتھ میں مر جاؤ گی۔
نایاب نے اپنی انا کو روندتے ہوئے کہا۔
میری طرف سے تم مرو یا جیو، آئ ڈونٹ کیئر اور خدا کے لیئے میری جان چھوڑ دو ۔تم سے شادی میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔
ازلان نے پاس پڑا گلدان دیوا میں مار دیا۔
ٹھیک ہے ازلان ۔۔۔۔۔ اب میرا ضمیر مجھے ملامت نھیں کرسکتا کہ میں نے اپنا رشتہ بچانے کی کوئ کوشش نھیں کی۔میں اب آپ سے کوئ شکوہ کوئ شکایت نھیں کروں گی ازلان سکندر۔
میں نے اپنا معاملہ اپنے رب پر چھوڑ دیا ہے بے شک وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔
نایاب کا لہجا بتا رہا تھا کہ وہ ضبط کی آخری انتہا پر ہے۔
ازلان نے کچھ نھیں کیا
اور چپ چاپ کمرے سے چلا گیا۔
میں اب ایسے انسان کے لئے بالکل نھیں رو گی۔
نایاب نے اپنے آنسوں بے دردی سے صاف کیئے ۔
********************¬*******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...