اس کے امتحانات قریب تھے۔ اپنی سلپ لینے وہ ابا کے ساتھ مطلوبہ کالج گئی تھی مگر چونکہ ابھی رش بہت تھا سو اکرم اسے وہیں چھوڑ کر کام سے باہر چلے گئے تھے۔ وہ یوں ہی یہاں وہاں دیکھنے میں مگن تھی جب ہاتھ میں پکڑا نوکیا کا چھوٹا سا موبائل فون جو ابا نے کچھ دن پہلے ہی دلوایا تھا چنگھاڑ اٹھا ۔ انجان نمبر تھا سو اس نے نہ اٹھانا ہی مناسب سمجھا۔کچھ دیر میں ہی اس کا وہی چھٹکو سا موبائل زور سے وائیبریٹ بھی ہوا ۔ اس نے دیکھا ایک میسج موصول ہوا تھا۔ اس نے نکالا اور دیکھا۔
“باہر آؤ بے وفا لڑکی۔ میں سڑ رہی ہوں سردیوں کی دھوپ میں بھائی کے ساتھ” لب مسکراہٹ میں ڈھلے اور جھکا ہوا سر ادھر ادھر گھمایا۔ اس نے دیکھا وہاں لمبی لائن لگی تھی سو وہاں سے جا کر اپنی باری گنوانے والی بات تھی۔ نیا نیا میسج ٹائپ کرنا سیکھا تھا سواب میسج ٹائپ کرنے میں دیر بھی لگنی تھی اور دقت بھی ہونی تھی۔ سو کال کرنا ہی مناسب سمجھا۔ دوسری جانب سے فوراً کال اٹھائی گئی تھی۔
“کہاں ہو؟ ” منال چھوٹتے ہی بولی۔
“یہاں اتنی لمبی لائن کے درمیان میں پھنسی کھڑی ہوں ۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو” بات کا اندازہ ہونے کے باوجود اس نے کہا۔
“لو جی۔۔ بھائی کا اصل میں دماغ خراب ہے۔ مجھے وہاں کالج سے چھٹی کروا کر لایا ہے کہ محترمہ کو دیکھنا ہے ایک بار بس ساتھ آجاؤ” وہ چڑ کر بولی۔
“واقعی دماغ خراب ہے یہ مجھے اچھی طرح علم ہے۔ اب اپنے بھائی سے کہو تمہیں واپس چھور دیں کیونکہ اگر آج یہاں سے نکلتی ہوں تو جانےکب باری آئے ۔ کل بھی اتوار ہے میں کب آؤں گی پھر؟” وہ رونے کو ہوئی۔
“اللہ خیر تے بیڑے پار۔۔ بھائی گھور رہا ہے مجھے ۔ تم بتاؤ اس کی مانوں یا تمہاری؟”
“منال انہیں کہو ہدایت پکڑیں۔ میں نہیں آ سکتی باہر۔ اور تم بھی کتنی پاگل ہو۔ بول دیتیں کہ نہیں آؤ گی ساتھ۔ تم نے بھی وہی رانی والے کام شروع کر دئیے ناں۔ ” وہ اسے ڈپٹتے ہوئے بولی۔
“میں نے کیا کیا۔ مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کچھ۔ کہتے ایک ضروری کام ہے تمہیں ساتھ چلنا ہے بس چپ چاپ بیٹھ جاؤ۔ اوپر سے لائے بھی بائیک پر ہیں اتنی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اب یہاں آ کر بتایا ہے کہ تم آئی ہوئی ہو” منال شاید دوسری طرف سے کمیل کو گھوریوں سے نواز رہی تھی۔
“ابھی تم سردی کی ‘دھوپ’ میں ‘سڑ’ رہی تھیں۔ ابھی تمہیں ‘ ٹھنڈی’ ہوا بھی لگی۔ ایک تو تم بہن بھائی بھی ایک بات پر قائم نہیں رہتے۔ ان سے کہو، بہت پہلے انہوں نے کہا تھا کہ اگر تم کہو تو دیکھوں گا بھی نہیں۔ اب اس بات پر قائم رہیں۔ میں ہر وقت یہی کام نہیں کر سکتی۔ ہر دوسرے دن خود دیکھ لیتے ہیں غنویٰ آپی کے بہانے ۔ اب یہاں تک آنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور یہاں میں اتنی لڑکیوں کے درمیان کھڑی ہو کر یہ بات کہہ رہی ہوں۔ یہ سوچیں وہ کہ میں کتنی شرمندگی محسوس کر ہی ہوں۔ابا مجھے جس کام کے لیے لائے ہیں وہی کام کروں گی میں۔ اگر انہوں نے سوچا ہے کہ تمہاری وجہ سے میں باہر آجاؤں گی تو بہت ہی غلط سوچا ہے۔ مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے کہ کمیل زمان بھی ایک عام مرد ہی نکلا۔” اس نے اپنی سنا کر ٹھک سے فون بند کردیا تھا ۔ آنسو چھلکنے کو بے قرار ہوئے تھے۔ ‘بھلا کیا ضرورت تھی یہاں تک آنے کی۔ گھر میں کتنے ہی چکر لگا آتی ہوں تب بھی تو دیکھ ہی لیتے ہیں۔ اب کیا ضرورت تھی ۔ کب تک یہ سب چلے گا۔ مجھے اتنا ارزاں کیوں سمجھ لیا ہے۔ لڑکی ہوں تو کیا کچھ بھی کریں گے اب۔ ‘
چادر کو سر پر ٹھیک کرتے ہوئے عبادت نے سسکی روکی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آوے کوئی اوس حویلی ، چُونا گاچی پھیرے
جس دیاں کندھاں، دے نال لَمکن، گز گز لمے جالے
وہ وہیل چئیر کو دھکیلتی باہر لان میں لے جا رہی تھی۔ وہیل چئیر پر بیٹھے وجود کی زبان پر کوئی لفظ ہی تھا نہ چئیر گھسیٹتے ہوئے وجود کے ذہن کی سلیٹ پر۔دونوں طرف گہری خاموشی تھی اور یہی خاموشی اسے کاٹ رہی تھی۔ آج کل تو ویسے بھی اس حویلی پر اسی خاموشی کا راج تھا۔ یوں تھا گویا سب کو اندر سے گھن چاٹ رہی ہو۔ سب اندر ہی اندر گھل رہے تھے۔ کسی کو کسی دوسرے کی خبر نہ تھی کہ وہ کتنے گہرے دکھ میں ہے۔ ایسے میں اسے لگتا کہ اس حویلی کو پہلے والی رونق ایک ہی ہستی دے سکتی ہے جو روتوں کو بھی ڈانٹ کر سمجھا کر ہنسا دیتی تھی۔
زہرہ بی۔۔۔
وہ انہیں لیے لان تک آئی اور سامنے بیٹھ کر ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھا۔
“اب بس بھی کریں زہرہ بی۔۔ کتنے عرصے سے دیکھ رہی ہوں کہ آپ بالکل ہی چپ سی ہو کر رہ گئی ہیں۔ دیکھیں ذرا ہر بندہ ہی اپنی اپنی جگہ اداس ہے” ان کی طرف دیکھتی ہوئی وہ بولی۔ ان کا چہرہ اس کی جانب تھا اور پشت تیز دھوپ پھینکتے سورج کی طرف ۔ غنویٰ ان کی طرف دیکھ رہی تھی اور ان کے چہرے کے ارد گرد سے نکلتی شعاعیں اس کا چہرہ روشن کر رہی تھیں۔ زہرہ بی نے دیکھا کہ وہ کملا گئی ہے۔
“میں بانو قدسیہ کو بہت پڑھا کرتی تھی۔ بہت ہی پیارا لکھتی ہیں وہ۔ الفاظ ایسے سینچ سینچ کر قرطاس پر بچھاتی ہیں کہ صفحہ سج جاتا ہے۔”بولتے ہوئے دقت ہوتی تھی مگر وہ اس وقت بول رہی تھیں۔
“انہوں ے ایک جگہ کہا تھا کہ ‘ چیخ و پکار انسان کے وقار میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ لوگوں کو اپنی خاموشی سے خوفزدہ کرنا سیکھو۔’ بس اسی چکر میں تھی میں بھی۔” وہ مسکائیں جبکہ غنویٰ کے چہرے پر بکھرنے والی مسکراہٹ انمول تھی۔
“اب بہت خوفزدہ ہو لیا ہم نے۔ کیا ارادہ ہے آگے کا” وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔
“لو اب کیا کرنا ہے۔ اب تو میرا پڑ پوترا (پڑ پوتا) آنےوالا ہے اب اسی سے کھیلوں گی دن رات ۔ اسے میں سجاول جیسا بے وقوف نہیں بننے دوں گی” انہوں نے نظریں سامنے درختوں پر جمائیں ۔
“آپ کو کیسے یقین ہے کہ پوتا ہی ہوگا” غنویٰ اٹھی اور ان کی کرسی گھسیٹتی آگے لے جانے لگی۔
“یہ تو یوں ہی کہا ہے۔ میرے لیے تو بیٹی بھی بیٹے جیسی ہی ہے۔ میں نے تو یہ جو تمہارے بھائی ہیں نا جو بہت سنجیدہ ہو گئے ہیں ۔ یہ شیطان بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور فجر جیسی چرچڑی لڑکی بھی پالی ہوئی ہے۔ سب میرے ہی ہاتھوں میں تو بڑے ہوئے ہیں” وہ آض موڈ میں لگتی تھیں۔ ظاہر ہے آج بہت عرصے بعد انہیں اپنی سہیلی فارغ ملی تھی۔ بہت ہی دنوں بعد وہ ان کے ساتھ اکیلی تھی۔ احاطے کی طرف عورتیں آجا رہی تھیں اور پاس سے گزرتی ان کو سلام کہہ دیتی تھیں۔ زہرہ بی کی چادر سر پر ٹھیک کر کے وہ انہیں احاطے ہی کی طرف لے گئی ۔ سامنے ہی انہیں ایک عورت نظر آئی جو فوراً سے کھڑی ہوئی تھی۔ زہرہ بی کی کرسی ایک طرف لگا کر اس نے رانی سے شال منگوائی۔
“کیسی ہو شکیلہ؟” زہرہ بی ہلکی سی آواز میں بولیں۔
“آپ کی دعائیں بے جی آپ سنائیں” وہ عورت ان کے ساتھ دائیں طرف والی چارپائی پر بیٹھی۔
“تمہیں پتہ ہے غنویٰ! یہ میری بہت ہی پرانی شاگرد ہے۔ اور واحد بندی ہے جو مجھے بے جی کہتی ہے تو برا نہیں لگتا” وہ ٹھہرتی ٹھہرتی سی بولیں۔مرض تو ٹھیک ہو رہا تھا مگر کمزوری دے گیا تھا کہ زیادہ بولنے سے اب سانس چڑ ھ جایا کرتا تھا۔
“اور یہ میری ماں کی جگہ ہیں۔ میں نے ماں کا منہ نہیں دیکھا اب تک بیٹی۔ یہ میری ماں ہیں۔ ہر ہر قدم پر رہنمائی کرتی رہی ہیں۔ یہ اجر کی بہن ہے بے جی؟” اس عورت نے کالی چادر میں قید غنویٰ کو دیکھا جس کا چہرہ مرجھایا ہوا لگتا تھا۔
“نہیں یہ جڑواں کی بہن ہے ۔ غنویٰ نام ہے۔ ” زہرہ بی کے لہجے میں پیار ہی پیار تھا۔
“ارے ماشااللہ ان کی بھی بہن ہے۔ میں سمجھی بیٹے ہی ہیں کشور بھابی کے” وہ حیران تھیں۔
“نہیں نہیں اللہ کا بڑا کرم ہے ۔ بیٹی سے بھی نوازا ہے اللہ نے اسے” زہرہ بی نے غنویٰ کے چہرے پر آنے والی بے چینی دیکھ کر فوراً نفی کی تھی۔
“تُو سنا کدا یاد آءی ماپے پنڈ دی؟
(تم سناؤ کیسے یاد آئی میکے کی؟)
“میں تو آپ کا حال پوچھنے آئی تھی بے جی۔ مجھے چاچی شریفاں نے بتایا کہ بیمار ہیں میں تب سے بس یہی سوچ رہی تھی آض جاؤں کل جاؤں ۔ بس کام ہی دنیا کے ختم نہیں ہوتے۔چھ ماہ بعد چکر لگا ہے دیکھ لیں۔ اب کیسی طبیعت رہتی ہے؟” وہ ان سے حال احوال کر رہی تھیں جب رانی نے شال لا کر غنویٰ کو پکڑائی ۔ اس نے شال کھول کر زہرہ بی کی ٹانگوں پر پھیلا دی۔ عورتیں پاس سے گزرتی آکر بیٹھ رہی تھیں۔
“اللہ کا بڑا کرم ہے شکیلہ! تم سب کی دعائیں ہیں۔ ”
“بے جی میں نے سنا ہے سجاول پتر کا بھی کوئی ایسکیڈنٹ ہوا ہے” وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے ہوئے سوال کررہی تھیں ۔ غنویٰ نے ان ‘ایسکیڈنٹ’ کہنے پر لب دانتوں تلے دبائے۔
“ہاں بس کیا کریں آزمائش بھی ہم انسانوں پر بھی آتی ہے۔ بس دعا کرو ہم اس آزمائش میں سرخرو رہیں۔” زہرہ بی رنجیدہ سی ہو گئیں تو غنویٰ نے عورت کو اشارہ کیا ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی بھی ایسی بات ان کے سامنے آئے جو ان کو دکھی کرے۔ پہلے ہی بہت عرصہ وہ زندگی کے خالی پن میں گزار آئی تھیں۔ چھ ماہ کوئی کم عرصہ تو نہیں ہوا کرتا بیماری برداشت کرنے کے لیے۔
“بے جی کوئی محفلِ نعت ہی کروا لیتے ۔ بڑا دل کر رہا ہے وہی دن واپس آجائیں۔ بہت ہی اچھی نعت خواں لڑکیاں بلایا کرتی تھیں آپ۔ ایک بار ہو سکے تو میرے گاؤں میں ہوتے ہوئے ہی کروا لیں۔ پھر اللہ جانے کب آنا ہو” اس عورت نے منت بھرے لہجے میں زہرہ بی کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
“ہاں کل قدسیہ بھی کہہ رہی تھی۔ میں کہتی ہوں تیرے بھائیوں سے کہ انتظام کریں کچھ۔ ” زہرہ بی مسکرائیں۔
“اس بار کسے بلائیں گی پھر آپ؟” وہ عورت جیسے کھل اٹھی تھی۔ دوسری عورتوں کی توجہ بھی اب اسی طرف تھی۔
“اس بار۔۔۔ دیکھو کسی بلاتے ہیں ۔ ابھی کیا کہوں۔ اس بار تو انتظام بہویں ہی کریں گی نعت خواں لڑکیوں کا۔ تم لوگوں کی نظر میں ہو تو بتانا مجھے۔ ” وہ اب باقی خواتین کی طرف بھی متوجہ ہوئی۔ کسی کا حال احوال دریافت کرنے لگیں تو کسی کی دکھ بھری داستان سن کر حوصلہ دینے لگیں۔ غنویٰ وہی بیٹھی سب کی باتیں سن رہی تھی اور زہرہ بی کے انداز کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
یہی مقام تو چاہتی تھی وہ۔ خود اپنی تکالیف بھلا کر دوسروں کے غموں کا مداوا بننا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ارے بھائی کیا بتاؤں کیسا اعلیٰ فنکشن تھا۔ یوں سب کچھ ارینج کیا گیا تھا جیسے کبھی خراب ہو گا ہی نہیں۔ اور یقین کریں مینجمنٹ نے خراب ہونے بھی نہیں دیا” وہ لاؤنج میں صوفہ کم بیڈ جو کہ اب اسی کے لیے سیٹ کیا گیا تھا پر لیٹا تھا ۔اورکمیل اس کے پاس اس کا دھیان بٹانے کو بیٹھا تھا۔ وہ جو اب سوچوں میں ہی گم رہتا تھا یا سلیپنگ پلز کا استعمال کرنے لگا تھا ، گھر کے سب افراد کو نئے ہی دکھ میں مبتلا کر رہا تھا۔اسی وجہ سے ہر وقت کوئی نہ کوئی اس کے پاس موجود رہتا تھا۔ کمیل بھی آج اپنے یونیورسٹی کےفنکشن سے واپس آکر اسے ساری داستان سنا رہا تھا۔کمیل کا یونیورسٹی میں تیسرا سال تھا۔ بہت جلد ہی وہ بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے والا تھا ۔ اسی وجہ سے آمنہ بیگم ہر وقت کچھ نہ کچھ پڑھ کر ا س پر لگاتار پھونکتی رہتی تھیں کہ باقی لڑکے اپنی جگہ بہت ہی پیارے سہی، لیکن کمیل کی بھوری شہد رنگ سی آنکھوں کی چمک بہت مسحور کن تھی۔ وہ جب ان چمکتی آنکھوں سے مقابل کو دیکھتا تھا تو دل پگھل پگھل جاتا تھا۔ اور اب تو آمنہ بیگم کا وہ جواں سال بیٹا اپنے عروج پر پہنچنے والا تھا۔
“اب بھائی کہے گا کہ مینج کرنے والا یہ خود تھا ۔ اسی لیے کچھ خراب نہیں ہوا وہاں” منال بھی پاپ کارن کا باؤل لیے ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
“ارے تمہیں کیسے پتہ؟” کمیل نے حیران ہونے کی ایکٹنگ کی۔
“دیکھ لیں ۔ اگر آپ اتنی اچھی مینجمنٹ کر سکتے ہیں تو آپ کی بہن آپ کی چھچھوری حرکتوں سے آپ کی شوخی بھی جج کر سکتی ہے” وہ کندھے اچکا کر ناز سے بولی تو سجاول جو بہت سنجیدہ سا ان کی باتیں سن رہا تھا مسکرا دیا۔
“بس بکواس کرنا جب بھی کرنا۔ منہ دیکھو چھپکلی کہیں کی” کمیل اچھا خاصہ تپ گیا تھا۔
“بھیا منع کرلیں امی کے لاڈلے کو ورنہ میں یہ باؤل انڈیل دو نگی اس پر” وہ بھی فوراً فارم میں آئی تھی۔
“اس سے پہلے کہ تم میرے بھائی کے سامنے اپنے بھائی کا قتل کرو میں بتادوں کہ میں بھی ایک مزید گواہ بننے جا رہی ہوں اس سرِ عام گناہ کی” فجر اور نمل بھی آکر ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھیں۔
“اور میں بھی بتا دوں کہ چاہے تم میری سگی والی بہن ہو پر جوان اپنے ہوتے سوتوں کے لیے ہماری جاسوسی کرتی ہو ناں ۔ معاف نہیں کروں گی کبھی تمہیں میں ۔” نمل کا پنا دکھڑا تھا کہ اس کے دن رات کی ایک ایک بات حبل تک پہنچتی تھی۔ جانے یہ میسنی کب میسج کر دیتی تھی اسے۔ ویسے تو کبھی سامنے موبائل پکڑے نظر نہیں آئی۔ سب یونہی مسکرا کر ایک دوسرے کا تبصرہ انجوائے کرر ہے تھے۔
“نمل بات سنو!” غنویٰ جو زہرہ بی کو ابھی کمرے میں لٹا کر آئی تھی ۔ وہاں سے گزری تو کسی کام کے تحت نمل کو آواز دی۔
“آئی” نمل کہہ کر بھی بیٹھی رہی جبکہ سجاول اس طرف دیکھ کر بھی نظریں نہ تو جھکا ہی سکا ۔ نہ ہٹا ہی سکا۔پھر گہرا سانس لے کر خود کو کمپوز کیا اور واپس ان سب کی طرف نگاہیں کی۔
یہ دکھ نہیں کہ اندھیروں سے صلح کی ہم نے
ملال یہ ہے کہ اب صبح کی طلب بھی نہیں
“آج کل غنویٰ آپی کتنی عجیب ہو رہی ہیں نا۔ چپ چپ ہی رہتی ہیں اب تو ” منال نے پاپ کارن منہ میں ڈالتے ہوئے کہا تو سجاول آنکھیں اس کی طرف مور کر دیکھنے لگا۔
“اچھا کرتی ہیں۔ لڑکیاں فالتو بولتی ہوئی اچھی بھی نہیں لگتیں” کمیل نے فوراً غنویٰ کی طرف داری کی تھی۔
“ظاہر ہے خود کو وہ جو پسند ہے جو یا تو بولتی ہی نہیں اور اگر بولتی ہے تو دن میں تارے دکھاتی ہے۔ ہنہ!!” کمیل اشارے کرتا رہ گیا مگر مجال ہے منال نے ذرا سا بھی دھیان دیا ہو۔ جبل اور حبل تو اس سب قصے سے واقف تھے مگر اس وقت وہاں موجود ایک بھی فرد ایسا نہ تھا جو اس بات پر حیران نہ ہوا تھا۔ نمل، فجر اور سجاول کے لیے یہ بات نئی ہی تھی اور وہ سب اب کمیل کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ کچن میں کھڑی غنویٰ ، جو کہ ہر بات غور سے سن رہی تھی وہ بھی حیران تھی۔
“یہ کیا ماجرا ہے کمیل زمان؟” فجر حیران تھی جبکہ نمل اسے گھور رہی تھی۔ کمیل چپکا سا بیٹھا رہ گیا تھا۔
“یہ کہیں عبادت کی بات تو نہیں کر رہی تم ؟” نمل نے ابرو اچکا کر منال کی طرف دیکھا۔
“میں نے تو بائے دا وے بات کر دی یار ۔ آپ لوگ تو سیریس ہی ہو گئی ہیں” منال سے اب بات نہ سنبھالی جاتی تھی۔
“یہ بہت بڑی فسادن ہے نمل۔۔ سب کی باتیں اسی طرح لیک کرتی ہے یہ بد تمیز عورت۔” فجر بھی اب اس جاسوس کو گھور رہی تھی۔ جبکہ سجاول ‘پسندیدگی’ کا سن کر جہاں پریشان ہوا تھا کہ اپنی غلطی سامنے نظر آرہی تھی، وہیں عبادت کاسن کر مسکرا دیا۔ ‘ وہ گھر جوڑنے والی لڑکی ہے’ دل پر سکون ہوا۔ صرف سجاول زمان کا ہی نہیں۔ غنویٰ صغیر احمد کا بھی۔
“تم اس فسادن کو چھوڑو۔ پہلے اس میسنے سے پوچھو ۔ یہ اس نمونی کو بتایا ہے۔ ہمیں بھی بتا دیا ہوتا۔ ہم نے کلاشنکوف رکھی ہوئی ہے کیا اپنی جیبوں میں؟” نمل واقعی غصے میں تھی۔ منال کو اپنی شامت سامنے نظر آئی کہ اب تو وہ ڈانٹ کھا رہا تھا مگر بعد میں اسے اچھے سے سیٹ کرنے والا تھا۔
“آپی یہ بات نہیں ہے۔ ہم چاروں بچپن سے اکٹھے کھیلتے رہے ہیں اس لیے ان کو پتہ ہے۔ میں نے خود نہیں بتایا تھا کسی کو بھی” وہ منمنایا۔
“چاروں مطلب؟؟؟؟” نمل چیخی۔ سجاول نے یوں منہ بنایا گویا برا لگا ہو۔
“اس کا اسپیکر آہستہ کرواؤ فجر” اس نے فجر کی طرف دیکھ کر کہا۔
“اوئے بے ہودہ عورت!!! شرم کر۔ میرا بیمار بھائی سامنے ہے۔ اس کا ہی خیال کر لے۔ ” فجر نے ایک دم سے چیخ کر اٹھتی نمل کو دوبارہ بٹھایا۔
“سوری بھیا! ہاں اب بتاؤ چاروں مطلب؟” اس نے سجاول کو دیکھا پھر سر جھکائے بیٹھے کمیل کو دیکھا۔
“بدھو! چاروں کون کون تھے ؟ یہ ہمارا شوشابھائی، یہ ہماری جاسوس، یہ باندری رانی اور وہ میسنی عبادت” کمیل کو اس ساری بات میں ‘میسنی عبادت’ پر ہی اعتراض ہوا تھا ۔ وہ اپنی جگہ پہلو بدل کر رہ گیا۔البتہ فجر یہ نام دینے پر بہت خوش دکھائی پڑتی تھی۔
“بس کرو یار کیوں ان بے چاروں پر پل رہی ہو تم لوگ؟” سجاول چڑ کر بولا۔
“کیا برا ہے عبادت میں؟” نمل اور فجر کو گھورتا ہوا وہ بولا۔ لہجے اور انداز میں پہلے والی سختی نہ تھی البتہ غصہ لازمی جھلک رہا تھا۔
“نہیں برا تو کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ہم برائی بیان کر رہے ہیں۔ بس ا ن چاروں کے اتنی بڑی بات اتنے سال سنبھال کر رکھنے پر حیران ہیں”فجر گڑبڑا کر بولی۔نمل کو ہمیشہ کی طرح چپ لگی تھی۔
“اور تم نہیں بولیں اب؟” سجاول نے نمل کو گھوراتو وہ اچھل پڑی۔
“بھیا دیکھیں نا ابھی عبادت ، منال اور رانی کی عمر ایسی باتوں کی نہیں ہے۔ چلو کمیل کا تو مانتے ہیں کہ بڑا سیانا ہو گیا ہے مگر یہ تینوں کن کاموں میں ہیں۔ دوسرا مجھے یہ غصہ آیا کہ عبادت کو اتنا سلجھا ہوا سمجھتی تھی میں۔ اس نے بھی۔۔۔”
“عبادت نے کچھ نہیں کیا آپی۔ یہ آپ کا ‘بڑا سیانا’ بھائی ہی اسے دیکھنے بھی جاتا ہے اور اکثر تو بلا بھی لیتا ہے۔ آپ کو اچھی طرح پتہ ہے عبادت کتنی شرموں والی ہے” منال نے فوراً سے نمل کی بات کاٹی تھی۔ اسے عبادت کے خلاف ایک حرف بھی پسند نہیں تھا۔نمل اور سجاول اسے غور سے دیکھنے لگے جبکہ فجر دلچسپی سے کبھی اسے دیکھتی کبھی سر جھکائے بیٹھے کمیل کو۔
“باقی باتیں ایک طرف۔ یہ ‘بلا بھی لیتا ہے’ سے کیا مراد ہے تمہارا؟” نمل ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
“اوہ میں بھول گئی تھی۔ میں ایک ایسی قوم سے مخاطب ہوں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ‘ اس خاندان کو ہر لفظ کے ہر حرف کا مطلب سمجھانا پڑتاہے’ ۔ ” منال بڑے مزے سے طنز مارتی ہوئی پھر سے پاپ کارن چوہے کی طرح کترنے لگی۔ نمل سجاول کی طرف دیکھنے لگی تو سجاول ـــ جو بہت تکلیف میں کبھی یہاں کو نظریں گھماتا تھا کبھی وہاں کوکہ وہ سب ارد گرد بیٹھے تھے اور وہ لیٹ کر ان کی باتیں سن رہا تھا ـــ بول ہی پڑا۔
“منال کم ٹو دی پوائنٹ ” وہ سختی سے بولا تو منال بھی سیدھی ہوئی۔
“بھیا بات یہ ہے کہ۔۔۔” اس نے بات کرتے ہوئے کنکھیوں سے کمیل کو دیکھا جو اس کی بات سمجھ چکا تھا اور اب گردن جھکائے مگر تھوڑی سی موڑے اسے گھور رہا تھا۔ ‘آج تو موت پکّی’ منال نے تھوک نگلا۔
“کہ؟” سجاول پھر سے بولا۔
“کل عبادت اپنے رول نمبر سلپ لینے چاچا کے ساتھ کالج گئی ہوئی تھی۔ سائنس کالج ہے نا ں۔ وہاں۔۔ یہ جناب بھی مجھے میرے کالج سے پک کر کے وہاں اتنی دور لے کر گئے کہ میں اسے دیکھنا ہے بات کرنا چاہ رہا ہوں۔ اوپر سے ایک تو اتنی ٹھنڈی ہوا میں مجھے اڑاتے ہوئے لے کر گئے ۔ اس سے بھی اوپر کی بات کہ عبادت نے مجھے اچھا خاصا ڈانٹ بھی دیا اور ناراض بھی ہو گئی ان کی وجہ سے۔ اب ان کو دیکھتے ہی پگھل جانا اس نے۔ اصل تو مجھے منانا پڑنا ناں اسے” وہ آنکھیں بند کیے ایک ہی سانس میں سب بول گئی۔ بات کے دوران ایک آدھ بار ایک آنکھ کھول کر کمیل پر بھی ڈال دیتی۔
“کتنی غلط بات ہے یہ کمیل” غنویٰ جانے وہاں کب آ کر کھڑی ہوئی تھی۔ سبھی اپنی جگہ چونکے۔
“ٹھیک ہے مانتی ہوں کہ تم اسے پسند کرتے ہو” وہ کمیل کی دائیں طرف آکر بیٹھ گئی جہاں سجاول کی نظر اس تک نہ پہنچ پاتی۔اس نے کمیل کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
“اچھا نہیں ۔ پسند نہیں کرتے۔ محبت والا معاملہ ہے۔” وہ مسکرائی تو کمیل نے یوں سر جھکایا جیسے کنواری لڑکی اپنے رشتے کی بات پر جھکاتی ہے۔نمل اور فجر نے بھی مسکراہٹ دبائی۔ جبکہ منال بہت مزے سے پاپ کارن چبا رہی تھی کہ اب تو کمیل کو ‘انسلٹ سیشن’ شروع ہوا تھا۔
“میں کوئی بہت لمبا چوڑا لیکچر نہیں دینے والی۔ بس اتنا کہنا تھا کہ اگر محبت والا معاملہ ہے تو کمیل زمان! روز روز کا دیکھنا اور بات کرنا وہ چارم ختم کر دے گا جو ابھی محسوس کرتے ہو۔ ” غنویٰ معمول کے انداز میں اس کی دائیں طرف بیٹھی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے نرم نگاہوں سے اسے دیکھتی ایک ہی فقرے میں اسے اصل مقصد کہہ ڈالا تھا۔
“لڑکی کو اپنی محبت سے زیادہ اپنی عزتِ نفس عزیز ہوتی ہے۔ جتنا اس کی عزتِ نفس کا خیال رکھو گے اتنا ہی وہ تمہاری عزت کرے گی۔اور پھر ایسی عورت جسے اپنی خود داری کا بھی خیال ہو تو ایسی عورت سے خوبصورت قسم کی محبت ہو جایا کرتی ہے۔ مگر پھر ایسی عورت کی عزتِ نفس ہی نہیں بلکہ خودداری بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ “وہ بول رہی تھی اور باقی سب دم سادھے اسے سن رہے تھے ۔
“عبادت بھی ایسی ہی لڑکی ہے جس کو اپنی عزتِ نفس کے ساتھ خودداری بھی عزیز ہے۔ مجھے لینے آتے ہو تب بھی اکثر وہ ہی دروازہ کھولتی ہے۔ اسے دیکھ تو لیتے ہو۔ پھر وہاں جانے کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی۔ اگر وہ عزتِ نفس کی حامل ہے تو تم بھی ضبطِ نفس سے کام لیا کرو ۔ محبت تو ویسے بھی ضبطِ نفس ہی کا نام ہے۔ ” غنویٰ نے منال کے باؤل سے پاپ کارن لے کر کمیل کی ہتھیلی کھول کر اس پر رکھے۔نمل مسکرا دی۔ اس گھر کے ہر فرد کی عادت تھی کہ بات سمجھاتے یا کرتے وقت کچھ نہ کچھ کھانے کی چیز لازمی سامع کے سامنے رکھتے تھے۔ اور غنویٰ میں بھی یہ عادت سرایت کر چکی تھی۔
“اب تم پوچھو گے یہ ضبطِ نفس کیا ہے” کمیل نے ہتھیلی میں رکھے پاپ کارنز کی طرف دیکھا اور پھر ہلکا سا سر ہلا دیا۔
“‘ضبط’ ایک اسم ہے۔ عربی زبان سے ماخذ ہے۔ اس کے آخر میں کسرۂ اضافت، عربی ہی سے ماخذ لفظ ‘ نفس’ لگا دیں تو مرکب بنتا ہے ‘ضبط، نفس’۔۔” وہ بولی تو سب الجھی نظروں اور منہ کے عجیب زاویوں سے اسے دیکھنے لگے۔ اس کی شہد رنگ آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں۔ کمیل خفیف سا مسکرا دیا۔
“اردو گرائمر پڑھا کرتے تھے کبھی ۔ تب کی یہ تعریف یاد کی ہوئی تھی۔ سوچا یہ بھی سنا ہی دوں ۔ خیر۔۔ خود کو اس بات کا عادی بنا لینا کہ ہماری خواہشات ہم پر حکمرانی نہ کر پائیں۔ خواہشات کا قبضہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہو اور ہمارا ان پر قابو ہو۔” وہ منال کا فرش کو چھوتا دوپٹہ اٹھا کر اسکی جھولی میں رکھتے ہوئے بولی۔
” جیسے اگر سونے کو جی چاہے تو خود کو مزید مشقت ابھارو۔ کہو نہیں ابھی ایک گھنٹہ مزید کام کروں گا۔ اب یہاں میں موبائل فون پر کام کرنے کی بات نہیں کر رہی یہ بات بھی ذہن میں رکھو” سنجیدہ بات کرتے ہوئے اس نے مزاح کا رخ بھی دیا تا کہ بات اس کے ذہن میں جگہ بنا لے۔ سجاول جو بہت غور سے آنکھیں بند کیے اس کی بات سن رہا تھا، دل کیا ایک بار ایک جھلک دیکھ لے ۔ مگر نہ۔۔۔ غنویٰ صغیر احمد، جبل زمان کے سمجھانے کے باوجود بھی اتنی مضبوط ہرگز نہیں ہوئی تھی کہ سجاول زمان کا ‘سامنا’ کر سکتی۔اس کے لیے یہی بہت تھا کہ سجاول زمان کی موجودگی میں وہ ان سب کے درمیان بیٹھی تھی۔
“اپنی خواہشات کو شکست دو۔خود پر جبر کرو۔ کہ نہیں یہ غلط ہے میرے لیے ۔ میں نہیں یہ کام کروں گا۔ میں نظریں جھکائے رکھوں گا۔ خواہشات تو ہوتی ہی منہ زور ہیں۔ ان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالو۔اپنے رب کو اپنا مطمع ء نظر بنا لو۔ اور خود کو اس کے سپرد کر دو۔ اگر تم خود کو مضبوط نہیں بناؤ گے تو یہی خواہشات تم پر حاوی ہو جائیں گی۔ یوں کسی کمزور لمحے میں تمہیں ان کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے گا۔ اور یہی ہماری شکست ہے۔ شکستِ فاش۔۔۔جس کو ہم انگلش میں ‘چیک میٹ’ کہتے ہیں ۔ “اس نے فجر کو اٹھ کر کچن کی طرف جانے کا اشارہ دیا۔ اور فجر زمان ایسی ہڈی ہرگز نہیں رکھتی تھی کہ ‘کام’ کے معاملے میں فوراً بات مان بھی لیتی۔اس نے تو پھر اشارہ ہی دیا تھا۔ غنویٰ افسوس میں سر جھٹک کر رہ گئی۔
” خود کو مجبور کرنے کی طاقت رکھو۔ یہ نہیں کہ خواہشات تمہیں مجبور کریں۔ اور پھر محبت تو دور رہنے سے اور بڑھتی ہے۔ اس کی کشش ہے ہی دوری میں۔ہاں ایک وقت آتا ہے جب بے چینی بھی جگہ بناتی ہے اور محبت آنسو بھی دیتی ہے۔ مگر محبت کا ہر آنسو معتبر ہوتا ہے۔ضبط کرنا سیکھو زمان خاندان!!” وہ مسکراتی ہوئی سب کی طرف نظر ڈالتی ہوئی کہہ رہی تھی ۔ اور جس کو سنانا مقصود تھا وہ بھی اس بات کو ذہن میں محفوظ کر رہا تھا۔
“اب میری بات سمجھ چکے ہو تو ایک اچھا سا کام کرنا۔ اب نہیں مگر جب کبھی سامنا ہو۔ اس سے معافی ضرور طلب کر لینا۔ محبوب کےسامنے اپنی غلطی کا اعتراف بھی سرخرو کر دیا کرتا ہے۔ سمجھ رہے ہو نا؟” غنویٰ نے اٹھتے ہوئے اس کےاچھے خاصۓ بنے ہئیر اسٹائل کو بگاڑا۔
“یار آپی یہ غلط بات ہے۔ اتنی مشکل سے بال سیٹ کیے تھے میں نے” وہ فوراً سے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے انہیں ٹھیک کرنے لگا تو باقی سب مسکرا دئیے جبکہ سجاول پاس سے گزرتے گہرے نیلے آنچل کو دیکھتا رہ گیا۔ وہ جیسے ہولے سے آئی تھی ویسے ہی نکل بھی گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...