”زبور حرم” اردو زبان کے معروف نعت گو شاعر اقبال عظیم کا نعتیہ کلیات ہے۔ جسے نعت ریسرچ سنٹر کراچی نے شائع کیا۔ زبور حرم کے مطالعے سے ہمیں اقبال عظیم کی شاعری میں حمدیہ اور نعتیہ ہر دو طرح کی تلمیحات ملتی ہیں۔ تلمیح کیا ہے؟ اس کا استعمال کس طرح کیا جاتا ہے اور اقبال عظیم نے اپنے نعتیہ کلام میں کون کون سی تلمیحات کا استعمال کیا ہے اس پر بحث کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اقبال عظیم کا مختصر تعارف پیش کیا جائے۔
آپ کا نام سید اقبال احمد جب کہ قلمی نام اقبال عظیم ہے اور والد کا نام سید مقبول عظیم عرش ہے۔ اقبال عظیم کی پیدائش ۸ جولائی ۱۹۱۳ء کو میرٹھ بھارت میں ہوئی۔لکھنو یونی ورسٹی سے بی اے اور آگرہ یونی ورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ہندی اور بنگلہ کے اعلاامتحانات پاس کیے۔ ساڑھے گیارہ سال یو۔پی کے سرکاری مدارس میں معلمی کی۔ جولائی۱۹۵۰ء میں مشرقی پاکستان آئے اور تقریبا بیس سال سرکاری ڈگری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے کام کیا۔ اپریل ۱۹۷۰ء میں بینائی زائل ہونے کے سبب اپنے پیاروں کے پاس کراچی آگئے۔ اقبال عظیم کی وفات۲۲ ستمبر۲۰۰۰ء کو کراچی، پاکستان میں ہوئی۔تلمیح عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ”کلام میں کسی قصہ کی طرف اشارہ کرنے ” کے ہیں۔
اسی طرح عابد علی عابد تلمیح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”یہ دراصل تلمیح ہے جو لوگ اسے تملیح کہتے ہیں وہ مناسب نہیں ہے اس کی صورت یہ ہے کہ شاعراپنے کلام میں کسی مشہور مسئلے یا قصے یا اصطلاح وغیرہ کی طرف اشارہ کرے اور جب تک یہ اشارہ توضیح کا رنگ اختیار نہ کرے۔”
ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی تصنیف”تنقیدی اصطلاحات”میں علم بدیع کی روشنی میں درج ذیل تعریف پیش کی ہے۔ ” علم بدیع کی اصطلاح میں تلمیح اس شاعرانہ حربے کو کہتے ہیں جس کے تحت کہنے والا یا لکھنے والا اپنے کلام یا تحریر میں کم سے کم الفاظ میں کسی قصے، آیت، حدیث، شخصیت،یا مشہور واقعے کی طرف اشارہ کرے۔”
درج بالا تعریفات کے پیش نظر تلمیح کی تعریف یہی نظر آتی ہے کہ اس سے مراد نظم و نثر میں کسی تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ جس سے قاری کو زیر نظر شعری یا نثری متن کے پس منظر سے آگاہی حاصل ہو جاتی ہے اور وہ شاعر یا ادیب کے مقصد بیان تک بہ خوبی رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ اقبال عظیم ایک معروف نعت گو شاعر ہیں ان کے نعتیہ کلیات زبورحرم میں حمدیہ نظمیں بھی ملتی ہیں جن میں انھوں نے اللہ تعالی کی تعریف و توصیف، حمد و ثنا اور شان ربوبیت بیان کی ہے۔
اس کا کوئی ثانی نہ مشابہ نہ مقابل
وہ سب سے جدا سب سے جدا سب سے جدا ہے
یہاں اقبال عظیم نے گویا سورت اخلاص کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اللہ تعالی کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ اللہ تعالی وحد ہ لا شریک ہے، کوئی اس کا ہم پلہ نہیں نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ اس کو کسی نے پیدا کیا وہ بے نیاز ہے۔
وہ خالق کونین بھی،وہ رازق جہاں بھی
وہ ربِ عُلی، ربِ عُلی، ربِ عُلی ہے
وہ حاتم دوراں ہو کہ قارونِ زمانہ
اللہ کی سرکار میں صرف ایک گدا ہے
اس شعر میں اقبال عظیم نے عرب کے معروف سخی حاتم طائی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے ایک مال دار شخص قارون کی طرف اشارہ کیا ہے جس نے اپنے مال سے زکات دینے سے انکار کر دیا تھا اور حضرت موسی کی بددعا سے وہ زیرِ زمیں دھنستا چلا گیا تھا۔
ہر منزل دشوار کو کرتا ہے وہ آساں
وہ قادر مطلق ہے وہی عقدہ کشا ہے
یہاں اقبال عظیم نے قادر مطلق کی تلمیح لا کر اس قرآنی آیت ”اِنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِ شَیٍ قَدِیر” کہ بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے کی طرف اشارہ کیا ہے اور دوسرے یہ بھی بتلایا کہ اللہ ہی ہر مشکل کو آسان کرنے والا ہے جس کے لیے انھوں نے ”عقدہ کشا” کی تلمیح استعمال کی۔ اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے ساتھ ساتھ اقبال عظیم نے نبی کریمؐ سے بھی اپنے عشق کا اظہار کیا اور انھوں نے نبی پاکؐ کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف گوشوں کو اپنا موضوع نعت بنایا اور مختلف معجزات کا بھی ذکر کیا ہے۔
لوگ ازاں ہیں کہ وہ حد یقیں تک پہنچے
یعنی اربابِ خرد ماہ مبیں تک پہنچے
لیکن اس دورِ کرامات سے صدیوں پہلے
میر ے آقاؐ کے قدم عرشِ بریں تک پہنچے
درج بالا شعر میں شاعر اقبال عظیم نے دراصل واقعہ معراج کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ بھی بیان کیا کہ آج کل سائنسی ترقی کی بنا پرانسان نے چاند پر قدم رکھ لیا ہے اور اپنی کھلی آنکھوں سے قدرت الہی کا مشاہدہ کر کے حدِ یقین تک پہنچا یہ تو آج کی بات ہے لیکن میرے آقا تو بہت پہلے عرش بریں کی معراج کو تشریف لے گئے تھے جس کا ذکر اللہ نے قرآن میں فرمایا:
ترجمہ: پاکی ہے اُسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک
وہاں سے غیر بھی پیاسے کبھی نہیں آتے
وہ شہرِساقیِ کوثر ہے کربلا تو نہیں
بس ایک ہادی برحق ہے راہ کعبہ میں
قدم قدم پہ وہاں اتنے رہنما تو نہیں
ان دو اشعار میں اقبال عظیم نے تین تلمیحات بیان کی ہیں ایک ساقیِ کوثر، اللہ نے جنت میں اہلِ ایمان کے لیے کوثرو تسینم کی نہریں رکھی ہیں جن کے ساقی ہمارے پیارے آقا حضورؐ ہوں گے۔ قرآن پاک میں سورت الکوثر میں ارشاد ربانی ہے :
ہم نے آپؐ کو کوثرعطا فرمائی۔
”کربلا” کی تلمیح سے واقعہ کربلا کی طرف اشارہ ملتا ہے جب یزیدی لشکر نے امام حسینؓ اور ان کے اہل بیت پر پانی بند کر دیا تھا۔ تیسری تلمیح ” ہادی برحق” سے حضورؐ کی طرف اشارہ فرمایا:
ولی،مجیب وروف ورحیم و حق و کریم
صفات خالقِ کونین ہیں صفات اُن کی
اقبال عظیم کی نعتیہ شاعری کا یہ خوب صورت شعر ہے جس میں انھوں کے صنعتِ تنسیق الصفات استعمال کی اور اللہ تعالی اور اس کے رسولؐ کی ایسی صفات کا تذکرہ کیا جو دونوں ذوات میں مشترک ہیں اور انھوں نے صنعتِ تنسیق الصفات کے ساتھ ساتھ ان سے تلمیح کا کام بھی لیا۔
اُن کے دم ہی سے کونین روشن
کہ ان کی ہر نظر نُورالہدی ہے
شب طیبہ بھی ہے صبحِ درخشاں
کہ میرِ شہر خودشمس الضحی ہے
آمد سرکارِ دو عالمؐ سے قبل اس دنیا میں کفرو شرک تھا دنیا جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی اللہ تعالی نے حضورؐ کو نورِ ہدایت بنا کر بھیجا تو لوگوں کو ایمان کی روشنی نصیب ہوئی یہ برکاتِ وجودِ مصطفیؐ ہی ہیں کہ اب دنیا میں ایمان کی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو میرِ شہر یعنی حضورِؐ خود ہی تو شمس الضحی ہیں۔
قرآنِ پاک کی سورت الشمس میں والشمس وضحھا کے الفاظ ملتے ہیں جن سے مراد سورج اور اُس کی روشنی ہیں اقبال عظیم نے اپنے اس شعر میں شمس الضحی کی تلمیح استعمال کر کے حضور کی ذات مبارکہ مراد لی ہے۔
خطابِ رحمت عالم ہے وہ خطابِ جلیل
بہ جز حضورؐ جو زیبا نہیں کسی کے لیے
اس شعر میں اقبال عظیم نے قرآنی آیت کی طرف اشارہ کیا ہے اللہ تعالی نے حضورؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور رحمتِ عالم کی یہ شان اور یہ خطاب جلیل صرف حضورؐ کو ہی زیبا ہے اور پھر اقبال عظیم نے حضورؐ کے رحمتِ عالم اور رحمتِ کونین کی توجیہ بھی بیان کی کہ انھیں رحمت عالم اور رحمت کونین کیوں کہا جاتا ہے۔
؎ اُن کو کیوں رحمت کونین کہا جاتا ہے
طائف و مکہ کی تاریخ اُٹھا کر دیکھو
؎ جو دوا بھی ہیں،جوشفا بھی ہیں، جوشفیع روزِجزا بھی ہیں
جنھیں جان لطف وعطاکہو،جہنیں عین جودوسخا کہو
اس شعر میں ہمیں متعدد تلمیحات ملتی ہیں حضورؐ کی ذاتِ مبارکہ بیمارانِ عشق یعنی عشق کے مریض جن سے مراد عاشق بھی ہیں کے لیے دوا اور شفا ہیں دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ مرضِ عصیاں کا شکار ہیں انھیں ذاتِ حضورؐ سے راہ ہدایت ملی اور حضورؐ بروز قیامت اپنے گناہ گار اُمتیوں کی شفاعت بھی فرمائیں گے اور وہ جان لطف و عطا اور عین جودو سخا ہیں کہ اپنے چاہنے والوں کو جھولیاں بھر بھر کے عطا کرتے ہیں کہ اُن جیسا کائنات میں کوئی سخاوت کرنے والا نہیں۔
؎ خاتم الانبیا رسول اللہ
نائب الکبریا رسول اللہ
رب کونین کی صدا رسول اللہ
حرف کن کی بنا رسول اللہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ جب میں کسی چیز کے کرنے کا ارادہ کرتا ہوں تو اس سے کہتا ہوں کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ حضورؐ کی ذات مبارکہ کو تمام مخلوقات سے پہلے تخلیق فرمایا گیا گویا جب اللہ تعالی نے کائنات کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو ”کن” ارشاد فرمایا اوراس ”کن” کے نتیجے میں سب سے پہلے حضورؐ کی تخلیق ہوئی پھر باقی کائنات بنی اور سلسلہ نبوت کا آغاز ہوا حضورؐ سب سے پہلے خلق فرمائے گئے مگر دنیا میں آپؐ کو خاتم الانبیا یعنی تمام انبیا کے بعد بھیجا گیاحضورؐ نائب الکبریا ہیں ان اشعار میں اِسی جانب اشارہ ہے۔ حضورؐ تمام ہادیوں یعنی ہدایت دینے والے مراد انبیا کے سردار و سرخیل ہیں۔
وہی سردار جملہ ہادیاں ہے
وہی سرخیل کل پیغمبراں ہے
٭٭٭