انا فیصلہ کرچکی تھی کہ وہ رستم کو، اس رشتے کو خود ایک اور موقع دے گی۔۔۔۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ وہ گزرا ہوئے کل کو بدل نہیں سکتی تھی مگر وہ آنے والا کل تو سنوار سکتی تھی۔۔۔۔۔۔ رستم نے جو گناہ کیے وہ اسکا ماضی تھا مگر اب وہ اسکے ساتھ ایک بہترین مستقبل گزارنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے ساتھ ہوئی ہر زیادتی بھولنے کو تیار تھی شرط یہ کہ ایک روشن اور خوبصورت مستقبل انکا منتظر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ انا کی پریگنینسی کو تین ماہ ہوچکے تھے۔۔۔۔۔۔ رستم اسے کال کرتا مگر اس نے ابھی تک یہ بات رستم کو نہیں بتائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رستم کو سامنے سے یہ بات بتانا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسکے چہرے کے تاثرات دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔ رستم کے تاثرات کا سوچ کر ہی وہ مسکرا دی تھی۔۔۔۔۔۔ انا نے خوش رہنا سیکھ لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ خوشیوں پر اسکا بھی تو حق تھا۔۔۔۔۔ انا آج چیک اپ کروانے ہاسپٹل آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ آج اسے جنس کے بارے میں پتا چلنا تھا
’’مسز شیخ!!‘‘ اسے کیبن میں بلایا گیا
’’اٹس آ گرل مسز شیخ‘‘ ڈاکٹر مسکرا کر بولی تو انا بھی مسکرا دی
’’آپ کی فیملی تو کمپلیٹ ہوگئی مسز شیخ۔۔۔۔۔۔ پہلے بیٹا اور اب بیٹی‘‘ ڈاکٹر ہنسی تو انا بھی ہنس دی۔۔۔۔۔۔ وہ خوشی خوشی رپورٹس لیے باہر نکلی۔۔۔۔۔۔۔ اس بات سے بےخبر کہ کسی کی زیرک نگاہوں نے دور تک اسکا پیچھا کیا تھا۔۔۔۔۔
غازان یہاں مسز نثار انصاری کا ویکلی چیک اپ کروانے آیا تھا جب اسے انا کو وہاں دیکھ ٹھٹھکا۔۔۔۔۔۔ انا جس کیبن سے باہر نکلی تھی اسکا نام پڑھ کر غازان چونکا
وہ مسز نثار کو اسنکے ڈاکٹر کے پاس چھوڑ کر خود انا کی ڈاکٹر کے پاس گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور باتوں باتوں میں انہیں بتایا کہ وہ رستم کا دوست ہے
’’ویسے بھابھی کی کنڈیشن کیسی ہے؟ آئی مین وہ کافی ویک فیل کررہی تھی پہلے‘‘ غازان ڈاکٹر سے بولا
’’جی مسز شیخ اب بلکل ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ وہ آئی تھی آج چیک اپ کے لیے‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا
’’اچھا کب؟‘‘ غازان انجان بنا
’’ارے ابھی پانچ منٹ پہلے ہی نکلی ہے وہ‘‘
’’اچھاااا میں نے دیکھا نہیں‘‘ غازان نے اچھا پر زور دیا
’’ویسے وہ کس لیے آئی تھی مینز کے کوئی مسئلہ تو نہیں؟‘‘ غازان لہجے میں فکر سموئے بولا
’’ارے نہیں نہیں وہ تو جاننا چاہتی تھی کہ بیٹا ہے یا بیٹٰی‘‘ ڈاکٹر نے غازان کے لیے چائے منگوائی
’’اچھا تو پھر کیا ہے؟ اس بار تو میں پرنسز کا چاچو بننا چاہتا ہوں‘‘ غازان ہنستے ہوئے بولا تو ڈاکٹر بھی ہنس دی
’’پھرتو آپ لکی ہے مسٹر غازان کیونکہ مسز شیخ کی اس بار بیٹی ہے‘‘ ڈاکٹر خوشدلی سے بولی
’’اچھاااا سچ میں؟‘‘ وہ لہجے میں حیرت سموئے بولا
’’جی بلکل!!‘‘
’’ویسے آپ بھابھی کو مت بتائیے گا میں آپ سے ملا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیا ہے نا انہیں پسند نہیں اور پھر رستم۔۔۔۔‘‘
’’ارے اسکی آپ فکر مت کرے نہیں بتاتی مگر آپ کی بھابھی آکے دوست کو کب بتائے گی؟‘‘ ڈاکٹر اسکی بات کاٹتی ہنس کر بولی
’’مطلب؟‘‘ غازان حیران ہوا
’’ارے میرا مطلب کے مسز شیخ مسٹر شیخ کو اپنی پریگنینسی کے بارے میں کب بتائے گی؟ مطلب کے کوئی ارادہ بھی ہے یا نہیں؟‘‘ ڈاکٹر پھر سے ہنسی
وہ ڈاکٹر غازان، رستم ، وجدان اور کاشان ان سب کی فیملیز کو اچھے سے جانتی تھی۔۔۔۔۔۔ اسی لیے انہوں نے غازان سے یہ بات شئیر کی مگر وہ کیا کر چکی تھی انہیں خود بھی آئیڈیا نہیں تھا
’’ارے وہ تو بھابھی سرپرائز دینا چاہتی ہے نا۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی رستم واپس آئے گا بھابھی بتادے گی اسے‘‘ غازان بھی ہنس کر بولا
’’اچھا چلے میں مام کے ساتھ آیا تھا تو سوچا سلام دعا ہی کرلو اب چلتا ہوں‘‘ غازان سلام کرتا وہاں سے باہر آگیا
’’رستم تمہیں تو ایسا سرپرائز ملے گا نا کہ یاد رکھو گے‘‘ غازان شیطانی مسکراہٹ مسکراتا وہاں سے چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا زارون کو سلا کر کچن میں اپنے لیے چائے بنا رہی تھی جب اسے بیل کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔۔۔ چائے پکتے چھوڑ کر وہ باہر گئی اور دروازہ کھولا جب اسے غازان سامنے کھڑا نظر آیا جس کے ہاتھ میں پھولوں کا ایک بوکے تھا
’’السلام علیکم بھابھی!!‘‘ شرافت کا مظاہرہ کرتے اسنے بوکے انا کو تھمایا
’’وعلیکم السلام بھائی۔۔۔۔۔ آئیے اندر آئیے‘‘ انا نے اسے راستہ دیا
غازان کے ہاتھوں میں دو تین ٹوائز کا ایک بیگ تھا
’’وہ بھابھی زارون کہا ہے؟‘‘
’’وہ تو سویا ہوا ہے‘‘ انا نے جواب دیا
’’اوہ اچھا!! چلے میں آج آیا تھا اس سے ملنے یہ کھلونے لایا تھا اسکے لیے‘‘ غازان فورا بیگ آگے کیا
’’مگر بھائی اسکی کیا ضرورت تھی؟‘‘ انا جھجھک کر بیگ پکڑتے بولی
’’ارے ضرورت کیسی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا زارون سویا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ چلے پھر میں چلتا ہوں‘‘ غازان جواب دیکر مڑا جب انا نے اسے پکارا
’’ارے بھائی اب آئے ہے تو چائے پی کر جائیے گا۔۔۔۔۔۔ آپ بیٹھے میں ابھی لائی‘‘ انا کو اچھا نہیں لگا غازان کا یوں جانا
’’ارے نہیں بھابھی پھر کبھی ۔۔۔۔۔۔ ابھی چلتا ہوں‘‘ غازان مسکراہٹ دباتے بولا
’’ارے ایسے کیسے اب آپ آئے تو چائے پی کر جائیے گا‘‘ انا نے زور دیا تو غازان بیٹھ گیا
تھوڑی دیر میں انا چائے کے ساتھ کچھ سنیکس لیکر لاؤنج میں داخل ہوئی۔۔۔۔۔۔ غازان ادھر ادھر نظریں دوڑا رہا تھا جب انا نے چائے کے ساتھ باقی کے لوازمات سجائے
’’ارے بھابھی ان سب کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ غازان بولا
’’ارے اتنا بھی کچھ نہیں ہے آپ لے تو سہی‘‘ انا نے جواب دیا
’’بھابھی ایکسٹرا پلیٹ ملے گی؟‘‘ غازان کی عادت تھی کہ وہ ہر شے تھوڑی تھوڑی پلیٹ میں ڈال کر اپنے لیے علیحدہ سے ایک پوری پلیٹ بناتا تھا
’’جی شیور!!‘‘ انا مسکرا کر اپنی جگہ سے اٹھی اور کچن میں داخل ہوئی
غازان کو یہی موقع ملا اور اس نے جیب سے نیند کی گولی نکال کر انا کی چائے میں ڈال دی اور خود پرسکون سا ہوکر بیٹھ گیا
انا نے پلیٹ غازان کے سامنے رکھی اور خود چائے میں چینی ڈالے اسے مکس کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ غازان کی ساری توجہ انا کے کپ کی جانب تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ انا کے اسے دیکھنے پر وہ مسکرایا اور چائے کا کپ لبوں سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میڈیسن آہستہ آہستی کام کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ تقریبا آدھے گھنٹے بعد غازان جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو انا بھی کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔۔ انا جو غازان کو دروازے تک چھوڑنے جارہی تھی اسے ایک دم زور سے چکر آیا اور اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی غازان نے اسے تھام لیا
’’بھابھی آپ ٹھیک ہے؟‘‘ غازان مصنوئی فکر مندی سے بولا
’’ہاں بس ہلکا سا چکر آگیا تھا۔۔۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے مجھے نیند آرہی ہے‘‘ غازان کو جھٹکتے انا زارون کے کمرے کی جانب بڑھی جب اسے ایک بار پھر سے چکر آیا
’’بھابھی۔۔۔۔۔۔ بھابھی رکے میں آپ کو لیجاتا ہوں‘‘ انا غازان کی باہوں میں جھول رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ غازان کو پیچھے کرسکے۔۔۔۔۔۔ غازان انا کو ایک بیڈروم میں لایا اور اسے بیڈ پر لٹادیا۔۔۔۔ یوں کے وہ اسکے اوپر پوری طرح جھکا ہوا تھا
انا کو لٹا کر وہ پیچھے ہٹا اور اسے دیکھ کر مسکرادیا
’’تھینکیو انا۔۔۔۔۔ تم نے بہت مدد کی رستم سے میرا بدلا لینے میں‘‘ انا کے گال کو ہولے سے چھوتا وہ کمرے سے باہر نکلا جہاں سامنے ہی رستم کا گارڈ کھڑا تھا
’’کام ہوگیا؟‘‘ غازان نے اس سے پوچھا
’’جی صاحب ہوگیا یہ لیجیے‘‘ اس نے موبائل غازان کی جانب بڑھائی جس میں اسکی اور انا کی ڈفرینٹ اینگل سے تصویریں لی گئی تھی
’’ہمم۔۔۔۔۔ بہت خوب‘‘ غازان خوش ہوا
’’وہ صاحب جی پیسے؟‘‘ گارڈ للچائی نظروں سے بولا
’’یہ لو۔۔۔۔۔ ابھی آدھے۔۔۔۔۔۔ باقی کے آدھے پورا کام ہوجانے کے بعد‘‘ غازان نے اسے انگلی اٹھائے تنبیہ کی
’’جی صاحب جی جیسا آپ کہے‘‘ فورا نوٹوں کی گدی اس کے ہاتھ سے پکڑ کر وہ گارڈ بولا تو غازان شیطانی مسکراہٹ مسکراتے دروازہ عبور کرگیا۔۔۔۔ جبکہ انا اس بات سے بےخبر تھی کہ اس پر کتنی بڑی قیامت ٹوٹنے والی ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رستم کو سنگاپور آئے تین ماہ ہوگئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ہر دن ہر لمحہ انا کو یاد کیا تھا مگر یہاں کے مسائل نے اسے الجھا کر رکھ دیا تھا جو سلجھ نہیں رہے تھے۔۔۔۔۔ ان معاملہ بہت حد تک سیٹ ہوا تھا تو وہ واپ جارہا تھا اپنی بیوی۔۔۔۔۔ اپنی انا کے پاس ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی پرنسز۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی وہ مسکرا دیا
رستم جو اپنا لیپ ٹاپ بند کرنے جارہا تھا اچانک اسے ایک ای۔میل موصول ہوئی رستم نے اسے کھولا تو اس میں اٹیچڈ فائل میں موجود تصویریں دیکھ کر اسے اپنے نیچے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔۔ اسکی بیوی کسی اور کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔ نا صرف اتنا بلکہ وہ اسکا دوست تھا۔۔۔۔۔ ساتھ ہی ایک اور ای۔میل موصول ہوئی جس میں انا کی پریگنینسی کی روپورٹ تھی۔۔۔۔ وہ ٹو منتھس پریگنینٹ تھی۔۔۔۔۔
’’انا!!! وجدان!!!‘‘ ایک آنسو رستم کی آنکھ سے ٹوٹ کر داڑھی میں جذب ہوگیا
اسکا دوست اور اسکی بیوی اسکے پیٹھ پیچھے۔۔۔۔۔۔ یہی نہیں اور بھی بہت سی تصاویر تھی ان دونوں کی۔۔۔۔۔۔۔ رستم کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جگہ اب سرد مہری چھا گئی تھی اور ہونٹوں جامد
’’تم دونوں کو اسکی سزا ضرور ملے گی۔۔‘‘ اسکا لہجہ سنگین حد تک سخت تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا آج صبح سے ہی تیاریوں میں مگن تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ رستم آج واپس آرہا تھا۔۔۔۔۔۔ اسنے تمام انتظامات اپنی نگرانی میں کروائے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ آج وہ دل سے رستم کے لیے تیار ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ ڈیپ ریڈ کلر کا فراک پہنے ساتھ ہی ریڈ لپسٹک لگائے وہ کب سے دروازے پر کھڑی اسکی منتظر تھی۔۔۔۔۔۔ جب رستم کی گاڑی اندر داخل ہوئی
رستم گاڑی سے نکلا ہی تھا کہ انا فورا بھاگ کر اسکے پاس پہنچی
’’السلام علیکم!!‘‘ انا مسکراتی بولی تو ایک پل کو رستم کی نگاہیں اسکے چہرے سے پلٹنا بھول گئی۔۔۔۔۔۔۔ آج وہ بہت زیادہ حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنی جتنی اسے کبھی پہلے نہیں لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔ رستم نے فورا آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تو انا شرما دی۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جیسے ہی رستم کو اسکی بےوفائی یاد آئی تو اسنے اپنی گرفت انا پر سخت کردی۔۔۔۔۔۔ جس پر انا کراہ اٹھی
’’آہ۔۔۔۔۔۔ رستم!!‘‘ انا کی سسکی سنتے وہ زرا سا پیچھے ہٹا
’’کیسی ہوں؟‘‘ رستم نے دل پر پتھر رکھ کر سوال کیا۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اسکا چہرہ بتارہا تھا کہ وہ کتنی خوش ہے
’’میں ٹھیک۔۔۔۔۔۔ اور آپ؟‘‘
’’میں؟ معلوم نہیں‘‘ رستم کھوئے لہجے میں بولا
’’مطلب؟‘‘ انا کو کچھ سمجھ نہیں آیا
’’مطلب تمہیں بہت مس کیا‘‘
’’میں نے بھی‘‘ انا دل میں بولی
وہ دونوں ساتھ ساتھ اندر داخل ہوئے تھے جب بہادر خان بھی ان کے پیچھے داخل ہوا
رستم کی نظر سامنے صوفہ پر ٹی۔وی دیکھتے زارون پر گئی۔۔
’’زارون!!‘‘ رستم نے پہلی بار اسے یوں محبت سے پکارا تھا
’’پاپا!!‘‘ زارون فورا بھاگ کر رستم سے لپٹ گیا
حالانکہ زارون رستم سے اٹیچ نہیں تھا مبگر اب انا چاہتی تھی کہ وہ رستم سے اٹیچ ہوں اسی لیے اس نے زارون کو تلقین کی تھی کے رستم کے آتے ہی وہ اسکے پاس جائے اور اس سے ملے۔۔۔۔۔ جس پر زارون نے اچھے بچوں کی طرح سر اثبات میں ہلادیا تھا
’’مائی بوائے‘‘ رستم نے اسے گلے لگایا تو انا مسکراہ دی۔۔۔۔۔۔۔ کاش وہ چار سال پہلے ایسی کوشش کرلیتی تو اب تک شائد حالات مختلف ہوتے
’’آپ فریش ہوکر آجائے کھانا تیار ہے‘‘ انا بولی تو رستم سر ہلا کر کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔ فلحال وہ انا کو نہیں دیکھنا چاہتا تھا
وہ منہ تھپتھپاتا باہر نکلا تو سامنے کا منظر دیکھ کر آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔۔۔۔ وجدان اور انا کسی بات پر ہنس رہے تھے جب وجدان نے انا کے کان میں کچھ کہاں تو انا نے ہنس کر اسکے کندھے پر ہاتھ مارا۔۔۔۔۔۔ رستم ضبط کی کڑی منزل پر تھا۔۔۔۔۔۔ وہ ڈائنگ ہال میں آیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔۔۔ وجدان کو اسنے اگنور کیا
’’رستم کیسے ہوں؟‘‘ اسکے سامنے والی سیٹ سنبھالتے وجدان نے پوچھا
’’ٹھیک‘‘ رستم نے سنجیدہ جواب دیا اور کھانا نکالا
زرقہ، انا اور وجدان سب کو اسکا لہجہ عجیب لگا مگر یہ سمجھتے کہ شائد وہ تھک گیا ہے وہ تینوں چپ رہے۔۔۔۔۔۔ زرقہ اور وجدان شام میں ہی گھر چلے گئے تھے اور زارون سو چکا تھا۔۔۔۔ انا اس وقت اپنے اور رستم کے لیے کافی بنا رہی تھی جو خود ٹیرس پر موجود سیگڑت پی رہا تھا
’’کافی!!‘‘ انا اسکے پاس آئی اور کافی ٹیبل پر رکھی
وہ دونوں کچھ دیر خاموشی سے کافی پیتے رہے۔۔۔۔۔۔ خالی مگ واپس رکھ کر انا رستم کی جانب مڑی
’’وہ رستم!!! وہ مجھے کچھ کہنا ہے آپ سے‘‘ انا انگلیاں مڑورتے بولی
’’ہمم کہوں‘‘ رستم آسمان کو دیکھتے بولا
’’او ہو میری طرف دیکھے نا‘‘ انا اسکا رخ اپنی جانب کیا
’’وہ میں۔۔۔۔۔۔ وہ۔‘‘ انا کو بہت شرم آرہی تھی
’’وہ میں مم۔۔۔۔۔آپ پاپا بننے والے ہے رستم۔۔۔۔ آئی ایک پریگنینٹ‘‘ کہتے ہی انا اسکے ساتھ لپٹ گئی اور شرما کر اسکے سینے میں منہ چھپا لیا۔۔۔۔۔۔ جبکہ رستم کی آنکھوں سے دو موتی جھلک کر انا کے بالوں میں جذب ہوگئے
’’کچھ کہے گے نہیں؟‘‘ انا نے سینے میں منہ دیے پوچھا
’’وہ۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔ایم ہیپی۔۔۔۔۔۔ سو مچ‘‘ رستم خود پر قابو پاتے بولا تو انا مسکرا دی۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ رستم کو وہ بیتے پل یاد آنے لگے جب اسکی ماں اسکے باپ کے لیے تڑپتی تھی جبکہ اسکا باپ اپنی راتیں غیر عورتوں کے ساتھ گزارتا تھا
تو کیا اسے بھی اسکی ماں کی طرح ایک بے وفا ہمسفر ملا تھا۔۔۔۔۔ وہ نجانے کس دنیا میں پہنچ گیا تھا جب انا نے اسے ہلایا
’’رستم آپ ٹھیک تو ہے نا؟‘‘ انا نے فکرمندی سے پوچھا
’’ہ۔۔۔ہاں ٹھیک ہوں‘‘
’’کیا ہوا ہے رستم کافی پریشان لگ رہے ہے آپ۔۔۔۔۔۔ اور آج تو آپ نے مجھے پرنسز بھی نہیں کہاں؟‘‘ گویا ایک شکوہ کیا گیا تھا
’’ایسا کچھ نہیں ہے پرنسز!!‘‘ رستم نے سر نفی میں ہلایا اور اسکے ماتھے پر بوسہ دیا
’’تم جاؤ سو جاؤ مجھے کچھ کام ہے آفس کا تھوڑی دیر میں آتا ہوں‘‘ اسکا گال سہلاتے وہ بولا تو انا خالی مگ اٹھائے نیچے چلی گئی جب رستم نے ایک سرد سانس خارج کی اور دوبارہ آسمان کو تکنے لگا
رستم کمرے میں جانے کی بجائے گیسٹ روم میں چلا گیا تھا اور ساری کاروائی سوچنے لگا
’’کیا انا اور وجدان واقعی میں۔۔۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا وہ ایسی نہیں ہے،۔۔۔ میری پرنسز ایسی نہیں ہے اور وجی تو میرا سب سے اچھا دوست ہے‘‘ رستم خود سے بولا
’’تو کیا تم اس بےوفا کو معاف کردوں گے؟‘‘ اسکے اندر سے آواز ابھری
’’کوئی غلط فہمی۔۔۔۔۔‘‘
’’کیسی غلط فہمی؟ وہ تمہاری بیوی اور تمہارا دوست۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ تصویریں جھوٹی تھی؟ اور پھر تمہارے دوست اور تمہاری بیوی کے درمیانکے تعلقات۔۔۔۔۔۔ آج دیکھا نہیں تم نے‘‘ اس آواز نے ورغلایا
’’وہ تو انا میری بیوی ہے نا؟‘‘ رستم نے جواز پیش کیا
’’تو کیا دوست کی بیوی سے اتنا قریب کوئی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کبھی انا کو تمہاری بیوی نہیں مانا۔۔۔۔۔ اگر مانتا تو اسے بھابھی بولتا۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے باقی دوستوں کی طرح۔۔۔۔۔ مگر اس نے تو کبھی تمہاری بیوی کو بھابھی نہیں مانا‘‘ تصوری رستم نے رستم کو بھڑکایا
’’مگر کیا؟ ٹھیک ہے مت کہوں اسے کچھ۔۔۔۔۔۔ پال لینا اپنے بیوی کی کوکھ میں پلتے اس ناجائز وجود کو اپنا بچہ مان کر۔۔۔۔ تمہاری قسمت تو تمہاری ماں سے بھی زیادہ بری نکلی رستم شیخ‘‘ وہ آواز اس پر ہنسی
’’تو میں کیا کروں؟‘‘ رستم سر ہاتھوں میں دیے چلایا
’’اس بچے کو ختم کردوں رستم۔۔۔۔۔۔ مار دوں اسے۔۔۔۔۔۔۔ اور انا کو ایسی عبرتناک سزا دینا کہ وہ مرنے کے بعد بھی یاد رکھے‘‘ وہ سر آواز رستم کے کان میں غرائی تو رستم کی آنکھیں لہولہان ہوگئی
’’یہ تم نے اچھا نہیں کیا انا!!‘‘ واز شیشے پر مارتے رستم دھاڑا
اور تھوڑی ہی دور اپنے کمرے میں انا آج پہلی بار سکون کی نیند سوئی تھی کیونکہ اب سب کچھ ٹھیک ہونے جارہا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر وقت کا کس کو علم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح انا کی آنکھ کھلی تو یہ جان کر اسے افسوس ہوا کہ رستم پہلے ہی آفس جاچکا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اسے برا لگا۔۔۔۔۔۔۔ مگر جب اسے رستم کی جانب سے میسج ملا تو دل باغ باغ ہوگیا
رستم نے اسے شام تک تیار رہنے کو کہاں تھا کیونکہ وہ اسے ڈنر پر لیجارہا تھا جبکہ زارون کو زرقہ کی جانب بھیجنے کا کہاں تھا رستم نے
رستم کی فرمائش پر انا نے زارون کو زرقہ کے گھر بھیج دیا تھا جبکہ خود وہ دل لگا کر تیار ہونے لگ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ سفید کلیوں والا فراک پہنے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہونٹوں پر لال لپسٹک اور لائنر لگائے وہ تیار تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ بالوں کو اس نے ڈیڈ سٹریٹ کیا ہوا تھا اور اب بس انتظار تھا تو رستم کا۔۔۔۔۔۔۔ جبھی اسے کار کا ہارن سنائی دیا ۔۔۔۔۔۔ وہ بھاگتی ہوئی باہر نکلی جب رستم نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے فرنٹ سیٹ کا دروازہ اس کے لیے کھولا تو انا فورا اندر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔ گاڑی منزل کی طرف رواں دواں تھی جبکہ کار میں چھائی گہری خاموشی۔۔۔۔۔۔۔ رستم گاہے بگاہے انا پر ایک نظر ڈالتا جس کو محسوس کرتے انا مسکرا دیتی۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں اب سی۔ویو پر پہنچ گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ جب رستم اسے ایک قدرے سنسان جگہ لے آیا تھا
’’رستم۔۔۔یہ ہم یہاں؟‘‘ انا کو ڈر لگ رہا تھا۔۔۔۔۔جب رستم نے چٹکی بجائی اور ساری جگہ روشنی میں نہاگئی۔۔۔۔۔۔ انا نے حیرت اور خوشی سے اس جگہ کو دیکھا جسے فیری ٹیل لک دی گئی تھی
’’ہیپی برتھڈے پرنسز‘‘ اسکے پیچھے سے گلے لگائے رستم بولا تو انا مسکرا دی
’’آپ کو یاد تھا؟‘‘ انا نے حیرت سے پوچھا
’’یہ بھی کوئی بھولنے والا دن تھا؟‘‘ رستم بولا اور ساتھ ہی انا کا ہاتھ تھامے اسے ٹیبل کی جانب لایا جہاں پرنسز کیک سجا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ رستم نے اسکا ہاتھ تھاما اور انا کے ہاتھ سے کیک کاٹا۔۔۔۔۔ انا ابھی تک وہ سب دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
’’کیسا لگا سرپرائز؟‘‘ رستم نے آنچ دیتے لہجے میں پوچھا
’’بہت خوبصورت‘‘ انا ساری جگہ پر نظر گھمائے بولی
’’ابھی ایک اور سرپرائز بھی باقی ہے‘‘ رستم کا لہجہ سپاٹ تھا جسے انا نوٹ نہیں کرسکی
’’کیا؟‘‘ انا نے شوق اور حیرت سے پوچھا
’’وقت آنے پر پتہ چل جائے گا‘‘ رستم نے جواب دیا اور اسے ٹیبل پر بٹھایا۔۔۔۔۔۔۔ اور اسے جوس سروو کیا
’’انا آس پاس کے نظاروں میں گم جوس پینے لگی
’’رستم اسکا ٹیسٹ تھوڑا عجیب سا ہے‘‘ انا نے برا سا منہ بنایا
’’پرنسز ڈرامے مت کروں فورا پیو تمہاری صحت کے لیے اچھا ہے‘‘ رستم مصنوعی روعب جمائے بولا تو انا برے منہ بناتی وہ پی گئی
تھوڑی ہی دیر میں کھانے سے فارغ ہوکر وہ دونوں ننگے پاؤں ریت پر چل رہے تھے۔۔۔ جب رستم اچانک انا کے سامنے رکا اور اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلایا ۔۔۔۔۔۔ انا نے آبرو اچکائے اسے دیکھا اور پھر اسکے ہاتھ میں اپنا ہاتھ تھمادیا۔۔۔۔۔ رستم کے دوبارہ چٹکی بجانے میں ہلکا ہلکا میوزیک بجنے لگا جبکہ رستم انا کو ساتھ لیے ڈانس کرنے لگا۔۔۔۔۔ انا نے بھی رستم کے شانے پر اپنا سر ٹکا دیا۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر گزری تھی جب انا کو اپنے پیٹ میں تکلیف محسوس ہوئی جسے انا نے اگنور کردیا۔۔۔۔۔۔ مگر تکلیف بڑھنے لگی تو انا چلا اٹھی اور رستم کو کس کر پکڑ لیا
’’رستمم۔۔۔۔۔ رستم۔۔۔آہ!!‘‘ وہ زور سے چلائی جبکہ رستم نے اسے کسی اچھوت کی طرح خود سے پرے دھکیلا جس پر انا مٹی پر جاگری۔۔۔۔۔ تکلیف شدت اختیار کرچکی اور بہت جلد آس پاس کی زمین سرخ ہونے لگی۔۔۔۔۔۔۔ رستم بنا کسی تاثر کے اسے دیکھتا رہا
انا نے اسکی جانب بڑھنا چاہا تو رستم نے قدم پیچھے کو لیے۔۔۔۔۔
’’رستم!!!” پیٹ پر ہاتھ رکھے اس نے حیرانگی سے اسے دیکھا جو آنکھوں میں نفرت اور سب کچھ راکھ کردینے کا جنوں لیے کھڑا تھا
’’رستم۔۔۔۔۔مم۔۔میرا بچہ” ایک ہچکی اسکے منہ سے نکلی۔۔۔۔۔اسکا سفید کلیوں والا فراک لال ہوچکا تھا۔۔۔۔اسکے جسم کا نچلا حصہ خون سے بھر چکا تھا۔۔۔۔۔پیٹ میں درد کی لہر دوڑ اٹھی تھی۔۔۔۔اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے اسنے دھندلی آنکھیں لیے اس ستم گر کو دیکھا جو سرد نگاہوں سے اسکے بےجان ہوتے وجود کو دیکھ رہا تھا
’’رستم۔۔۔۔مم۔۔میرا بچہ۔۔۔ہمارا بچہ ۔۔۔۔۔ببب۔۔۔۔بچالو اسے” اسکے پیروں میں گری وہ تڑپ رہی تھی۔۔۔۔سسک رہی تھی مگر وہ تو مانوں پتھر ہوچکا تھا۔۔۔۔
’’تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا پرنسس” اسکے خون میں بھیگتے وجود کو دیکھ کر وہ بولا
’’ہہہ۔۔ہمارا بچہ رستم۔۔۔۔مر۔۔۔مر جائے گا” وہ سسکی
’’میں بھی یہی چاہتا ہوں۔۔۔۔تمہارے پیٹ میں پلتا یہ ناجائز وجود ختم ہوجائے۔۔۔۔۔بہت محبت ہے نا تمہیں اس بچے سے ۔۔۔۔۔ختم کردیا میں نے اسے” سرد لہجہ اسکے ہوش اڑانے کو کافی تھا۔۔۔۔۔مگر وہ کچھ نہیں کرسکی اور دھیرے دھیرے موت کی وادی کی جانب چل دی
’’مم۔۔میں۔۔۔۔۔میرا بچہ۔۔۔۔۔مرجائے گے” وہ نیند میں جانے سے پہلے بڑبڑائی
’’نہیں پرنسس میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔تم محبت ہوں میری۔۔۔۔۔مگر تمہیں سزا ضرور ملے گی۔۔۔۔۔مجھے دھوکا دینے کی۔۔۔میرے پیار کو ٹھکڑانے کی۔۔۔۔میری دسترس میں ہوتے ہوئے کسی اور کی سیج سجانے کی۔۔۔۔تمہیں سزا ضرور ملے گی” اسکا وجود باہوں میں بھرے ماتھا محبت سے چومتے اسنے کسی قیمتی شے کی طرح اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیا اور گاڑی کی جانب چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوسپٹل لیجانے تک انا کی حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ نرسز نے انا کو فورا سٹریچر پر لٹایا جبکہ وہ حیرت سے رستم کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ایک وقت تھا جب اس انسان نے اپنی بیوی کی خاطر پورے ہسپتال کو ہلا کر رکھ دیا اور آج اسکے چہرے پر کوئی ڈر، کوئی خوف نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ڈاکٹر میری بیوی کو کیا ہوا ہے؟‘‘ رستم نے نارمل لہجے میں پوچھا
’’پہلے آپ مجھے یہ بتائیے مسٹر شیخ جب بچہ چاہیے ہی نہیں ہوتا تو اسے دنیا میں کیوں لاتے ہوں؟‘‘ ڈاکٹر اس پر برسی
’’مطلب میں سمجھا نہیں؟‘‘ رستم نے انجانب بننے کی فل اداکاری کی
’’مسٹر شیخ آپکی وائف نے کوکھ میں ہی بچہ ختم کرنے کی میڈیسن لی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کتنی خطرناک ہوتی ہے‘‘ ڈاکٹر چلائی تو رستم نے سرد سانس خارج کی
’’میری وائف تو بچ جائے گی نا ڈاکٹر؟‘‘ رستم نے آرام سے پوچھا
’’اللہ بہتے کرے گا‘‘ ڈاکٹر نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا
’’ڈاکٹر!!‘‘ رستم نے اسے پکارا
’’جی؟‘‘ ڈاکٹر نے مڑ کر پوچھا
’’مجھے اس بچے کے ساتھ اپنا ڈی۔این۔اے ٹیسٹ کروانا ہے‘‘ رستم بولا تو ڈاکٹر کی آنکھیں پھیل گئیں وہ رستم کی بات کا مطلب بخوبی سمجھ رہی تھی
’’جی ٹھیک‘‘ ہلکی آواز میں جواب دیتی وہ وہاں سے چلی گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا کو تو بچا لیا گیا تھا مگر اسکا بچہ نہیں بچ سکا۔۔۔۔۔ رستم نے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ انا ابھی تک انڈر ابزرویشن تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ دوسری جانب ایک قیامت رستم کی منتظر تھی
’’مسٹر شیخ ڈی۔این۔اے رپورٹ آچکی ہے‘‘ ڈاکٹر سانس خارج کیے بولی
’’اچھا اور رپورٹ کیا کہتی ہے؟‘‘ رستم ہلکا سا مسکرایا
’’ڈی۔این۔اے میچ کرتا ہے ۔۔۔۔ وہ آپ کا ہی بےبی تھا‘‘ ڈاکٹر کے جواب پر رستم کی آنکھیں پھیل گئی۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ رستم دھاڑا تو ڈاکٹر نے رپورٹ اسکے سامنے رکھ دی
’’آپ چیک کرلیجے اور اگر باقی ہوسپٹلز سے کنفرم کروانا چاہتے ہے تو نو پرابلم‘‘ رستم نے تیزی سے رپورٹ اٹھائی۔۔۔۔۔۔۔ اسے یقین نہیں آیا اپنی آنکھوں پر
’’مم۔۔۔میری وائف۔۔۔۔۔۔ میری وائف کتنے منتھ۔۔۔۔‘‘ رستم سے آگے بولا نہیں گیا
’’تھری منتھس!!‘‘ ڈاکٹر اسکی بات سمجھتے بولی جبکہ رستم کا وہاں بیٹھنا محال ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہارے ہوئے جواری کی چال چلتا وہ ڈاکٹر کے کیبن سے باہر نکلتا ہسپتال سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا کردیا اس نے؟ خود اپنے ہاتھوں سے اپنا گھر برباد کردیا۔۔۔۔۔۔۔ اپنے بچے کو مار دیا۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بیوی کو۔۔۔۔۔۔ اپنی محبت کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔۔۔۔۔۔۔ آج رستم شیخ نے بےبسی کی اصل انتہا کو محسوس کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سب کچھ کھو چکا تھا۔۔۔۔۔۔ سب کچھ
ہاتھ میں رپورٹ لیے رستم خاموش سا ہسپتال سے باہر نکلا اور اسے آس پاس کا کوئی ہوش نہیں تھا۔۔۔۔۔ وہ یونہی اپنے خیالوں میں قدم اٹھا رہا تھا جب وہ گاڑی سے ٹکڑایا
’’رستم!!!‘‘ زرقہ اور وجدان جنہیں بہادر خان نے کال کر انا کے بارے میں بتایا تھا تو وہ دونوں اس سے ملنے آئے تھے۔۔۔۔۔ ان کے ساتھ ہی بیک سیٹ زارون بھی تھا
رستم بے دھیانی میں چلتا وجدان کی کار کے ساتھ ٹکڑا گیا
’’رستم۔۔۔۔۔۔رستم کیا ہوا ہے؟‘‘ وجدان نے اسے ہلایا
’’میں نے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سب کچھ ختم کردیا وجی۔۔۔۔۔۔ سب کچھ‘‘ آج کتنے سالوں بعد اسنے وجدان کو وجی پکارا تھا
’’رستم ہوا کیا ہے؟‘‘ اسکی یہ حالت وجدان کو تکلیف دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ مگر رستم کچھ نہیں بولا اور اسکے گلے لگ گیا
’’زرقہ تم زارون کو لیکر جاؤ میں اور رستم ابھی آتے ہیں‘‘ وجدان نے اسے کہاں تو وہ سرہلاتی زارون کو گود میں اٹھائے اندر بڑھ گئی
’’پاپا کو کیا ہوا؟‘‘ زارون نے ہلکی آواز میں پوچھا
’’کچھ نہیں میری جان‘‘ زرقہ اسکے بال سہلاتے بولی جبکہ زارون اس سے مزید لپٹ گیا۔۔۔۔۔۔ اسے نیند آرہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...