ان کا لہجہ ہمیشہ جیسا تھا پہلے تو اسے لگتا تھا سب امیاں ایسی ہی بات کرتی ہیں مگر آج یہی لہجہ بہت تکلیف دہ لگا۔ بہت اجنبیت بھرا،وہ کچھ بول ہی نہیں سکی۔
“اب کچھ بتاو گی بھی کہ ماں یونہی کھڑی بکتی رہے”
” امی وہ گل بانو نے اسکول چھوڑ دیا ہے اس کی شادی ہوگئی ہے”
نا چاہتے ہوئے بھی اس کے آنسو بہنے لگے۔
” تو اس میں رونے کی کیا بات ہے اچھی بات ہے بچی وقت سے اپنے گھر کی ہوگئی۔”
امی اس کے جذبات سے بے پروا اپنی کہتی رہیں۔
“اچھا بس اٹھو منہ ہاتھ دھو کپڑے بدل کے کھانا کھاو۔ عجیب بچے ہیں آج کل کے اتنے نازک مزاج کہ ذرا ذرا سی بات پہ آنسو بہنے کو تیار رہتے ہیں۔”
امی بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے اٹھی اور الماری سے کپڑےنکال کے غسل خانے میں بدلنے کے لیئے کمرے سے نکلی تو آوازوں سے اندازہ ہوا کہ امی دادی کو اسی بارے میں بتا رہی ہیں۔ امی نے پتا نہیں کیا کہا تھا جس کے جواب میں دادی کی بات زیادہ واضح سنائی دی۔
” ارے ہاں بڑا ظلم ہوا ہے بچی کے ساتھ وہ تو اب پیٹ سے ہے نا” آخری بات انہوں نے آواز دبا کے کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی خاصی بلند تھی۔
وہ ٹھٹھک کے رک گئی
“انہیں پہلے سے معلوم تھا؟ اور یہ بھی معلوم ہے؟”
دل شکستگی کا جو احساس اب ہوا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
“انہیں پتا ہے کہ گل بانو میری بچپن کی سہیلی ہے اور کتنی گہری دوستی ہے یہ کم از کم مجھے اس کی شادی کا تو بتا سکتی تھیں۔ ان کی اخلاقیات ہماری دوستی سے بھی زیادہ اہم ہیں۔” پہلی بار اس کے دل میں باغیانہ خیالات ابھرنے لگے۔
“کیسی ماں ہیں یہ انہیں میرے جذبات کا ذرا سا احساس نہیں” وہ بہت مایوس سی ہوگئی ورنہ پہلے خود ہی امی اور دادی کے حق میں خود کو دلیلیں دے دیتی تھی مگر آج ان کے رویئے کے لیئے کوئی دلیل نہیں مل رہی تھی۔ اسے یہ خود ساختہ اخلاقیات بہت تکلیف دے رہی تھی۔
وہ بہت مایوس سی ہوگئی تھی۔ رات جب تکیہ لے کر لیٹی تو بھی بس یہی سوچیں تھیں نا ارمغان کا خیال چڑا سکا نا اسلم کا خیال چہرے پہ مسکراہٹ لا سکا۔
آج اسے سب کچھ بہت عجیب لگ رہا تھا جیسے آج وہ کسی الگ دنیا سے اس دنیا میں آئی ہو جیسے اصل زندگی وہ نا ہو جو وہ اب تک سمجھتی رہی تھی۔ اسے ہمیشہ ان مخصوص قسم کی باتوں سے دور رکھا گیا مگر اسی کے سامنے کئی بار امی اور دادی بہت کھلے تبصرے بھی کرتیں اور ڈانٹ اسے پڑتی کہ وہ یہ سب باتیں کیوں سن رہی ہے جبکہ اسے اندازہ بھی نہیں ہوپاتا کہ وہ لوگ کب کوئی ممنوعہ موضوع شروع کردیں گی ۔ اسکول میں بائیو کا ایک چیپٹر حذف کروادیا گیا تھا جو بعد میں ان دوستوں نے چھپ کے پڑھا تھا۔ اسے تب بھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ اگر یہ غلط باتیں ہیں تو درسی کتاب میں کیوں ہیں اور اگر کام کی باتیں ہیں تو حذف کیوں کی گئیں۔ کسی استاد کی مدد کے بغیر وہ ٹاپک کچھ زیادہ سمجھ نہیں آیا تھا مگر جتنا سمجھ آیا اس میں اسے کوئی نامناسب بات نہیں لگی تھی۔ مگر وہ کسی سے پوچھ نہیں سکی تھی ہاں ان دوستوں نے آپس میں تھوڑا بات چیت کی مگر گل بانو اور بسمہ خود ہی کافی شرمندہ سی تھیں جبکہ فائزہ کا کہنا تھا کہ اس کی امی کالج میں زولوجی پڑھاتی ہیں وہ چاہیں تو ان سے یہ ٹاپک سمجھ سکتی ہیں۔ مگر گل بانو نے منع کردیا کہ جس چیز کو بڑوں نے منع کیا ہے کچھ سوچ کے ہی کیا ہوگا۔ اس وقت بسمہ کو گل بانو کی بات صحیح لگی تھی۔ مگر آج جو کچھ ہوا اس نے اسے نئے سرے سے جھنجھوڑ دیا تھا۔ ہم سے یہ سب چھپایا جاتا ہے کیونکہ ہم بچیاں ہیں مگر گل بانو یہ سب سہہ کر آئی ہے جبکہ وہ بھی ہماری جتنی ہی بچی ہے اور امی کے لیئے یہ سب کوئی عجیب بات نہیں تھی بلکہ کوئی بہت خوشی کی بات تھی۔ ایک کے بعد ایک سوچ ایسے آرہی تھی جیسے کمپیوٹر میں وائرس آگیا ہو۔
“مگر انہیں پتا کیسے چلا۔”
سوچتے سوچتے اس کا دماغ یہاں آکر اٹک گیا۔ وہ ممکنہ رابطے سوچنے لگی گل بانو کا گھر تو اس کے گھر سے کافی دور تھا اس کی اپنی برادری کے محلے میں پھر اسے یاد آیا ہاں اسماء آپی کی دیورانی کا میکہ اسی محلے کے قریب ہے اور ان کی ایک بہن میلاد پڑھنے قریبی محلوں میں جاتی ہیں پہلے بھی ایک دفعہ اسماء آپی نے گل بانو کے کسی ذات برادری کے جھگڑے کا امی کو بتایا تھا جو اس کی ساس کو دیورانی کی والدہ نے بتایا کیونکہ ان کی بیٹی میلاد میں سن کر آئی تھیں۔ اسے تب بھی حیرت ہوئی تھی کہ کسی دوسرے کے ذاتی معاملات کیا اتنے اہم ہوتے ہیں کہ بغیر کسی وجہ بس بات برائے بات ایک دوسرے کو بتائے جائیں؟ اسے یقین ہوگیا کہ اسی ذریعے سے گل بانو کی شادی اور پریگنینسی کی خبر بھی یہاں پہنچی ہوگی۔ وہ تفصیل جاننا چاہتی تھی مگر اسے پتا تھا کہ امی یا دادی اسے کچھ نہیں بتائیں گی۔ اس کا دماغ بار بار فائزہ کی بات پہ جارہا تھا
” تو پاگل ہے کیا! زبردستی کی شادی رومینٹک ہوتی ہے کیا؟”
صبح آنکھ کھلی تو سر میں شدید درد تھا اور جسم بالکل بے جان محسوس ہورہا تھا بستر سے نکل کر غسل خانے تک جانا مشکل لگ رہا تھا چکراتے ہوئے سر پہ ہاتھ رکھا تو اندازہ ہوا اس کا جسم بخار سےجل رہا تھا۔
اسکول جانے کی ہمت تو کیا ہوتی جب بستر سے اٹھنا ہی مشکل لگ رہا تھا۔ سب سے پہلا خیال یہ آیا کہ اب تو امی کو پتا چل جائے گا کہ وہ واقعی پریشان ہے اور شاید وہ اپنے سخت رویئے پہ شرمندہ ہوں۔ اس نے تھوڑا سر گھما کے دیکھا دادی حسب معمول فجر کی نماز کے بعد تسبیح پڑھتے پڑھتے سوگئیں تھی۔ وہ اس کے اسکول جانے کے وقت عموما سو رہی ہوتی تھیں سب کے جانے کے بعد امی اپنے اور ان کے لیئے چائے نکالتیں تب ٹھیک سے جاگتی تھیں۔ وہ انتظار کرنے لگی کہ امی کو کب احساس ہو کہ وہ اسکول کے لیئے تیار ہونے نہیں اٹھی اسد ویسے تو ایک ہی اسکول جاتا تھا مگر اسے بھی پتا نہیں چلتا کہ بسمہ کب اسکول گئی کب نہیں جب سے اسے لگنے لگا تھا کہ وہ بڑا ہوگیا ہے اسے بسمہ کے ساتھ اسکول جانے میں شرمندگی ہوتی تھی۔ وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ بائک پہ اسکول چلا جاتا تھا۔ وہ بلا وجہ ہی انتظار کرتی رہی کہ امی کب پریشان ہوکے اسے دیکھنے آئیں بخار اتنا تیز تھا کہ وہ آدھی سوئی جاگی سے کیفیت میں یہ بھی بھول گئی کہ آج اتوار تھا۔ کافی دیر بعد امی اپنی اور دادی کے چائے لے کر کمرے میں آئیں تو ان کی نظر بسمہ پہ پڑی جو اس وقت غنودگی میں تھی دیکھتے ہی اندازہ ہورہا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس کا چہرہ تپتا ہوا محسوس ہورہا تھا اور خشک ہونٹ نیم وا تھے جس سے وہ گہرے سانس لے رہی تھی۔امی نے چائے کی کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر پہلے دادی کو ہلایا۔
“اماں دیکھیں تو بسمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی”
دادی ہڑبڑا کے اٹھیں “ہیں کیا ہوا رات تو بھلی چنگی سوئی تھی کل اسکول میں کوئی الا بلا کھا لی ہو گی یہ ملعون اسکول والے بھی پیسے کمانے کے لالچ میں سڑی بسی چیزیں بچوں کو کھلا دیتے ہیں۔”
“بسمہ !بسمہ اٹھو بیٹا ” امی نے اس کا بازو ہلایا تو اس نے بہ مشکل آنکھیں کھولیں۔
“اٹھو گڑیا! تھوڑا ناشتہ کرو تو دوا کھلاوں دیکھو کتنا تیز بخار ہورہا ہے”
امی نے کلی کروا کے چائے ڈبل روٹی دی مگر اس سے وہ بھی نہیں کھائی گئی وہ دوا کھا کے دوبارہ لیٹ گئی۔ اس کی آنکھ دوبارہ کھلی جب امی نے اٹھایا کہ فائزہ کا فون آیا ہے اسے اندازہ ہوا کہ وہ چار پانچ گھنٹے سو لی تھی۔ چہرہ اور جسم پسینے سے بھیگ رہا تھا البتہ سر میں ابھی بھی درد ہورہا تھا۔ دادی معمول کے مطابق باہر لاونج میں بیٹھی تھیں۔ امی موبائل پکڑا کر دوبارہ باہر کام کرنے کے لیئے چلی گئیں۔
اس نے نقاہت بھری آواز میں کہا “ہیلو! آگئیں اسکول سے؟ ” دوسری طرف سے فائزہ کی حیرت بھری آواز آئی۔
“کیاہوگیا ؟ بخار دماغ پہ چڑھ گیا ہے کیا؟ اتوار ہے آج ۔آج بھی بھیج دے مجھے اسکول رحم کر یار تھوڑا۔ اچھا سن میں نے کال اسلیئے کی تھی کہ فزکس کا کل والا ٹاپک پوچھنا تھا میری لاسٹ کی کچھ لائنز رہ گئی تھیں ابھی آنٹی نے بتایا کہ تجھے بخار ہورہا ہے۔ کیا ہوگیا گرمی لگ گئی کیا؟”
فائزہ کافی نارمل لگ رہی تھی جیسے کل والی بات بھول گئی ہو یا اسے پروا نا ہو۔
“پتا نہیں یار ابھی ڈاکٹر کو تو نہیں دکھایا بس امی نے دو پیناڈول کھلا دی تھیں۔ اب تو کم لگ رہا ہے بخار۔ مگر یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ تھوڑا رکی “فائزہ یار میں رات دیر تک گل بانو کے بارے میں سوچتی رہی تمہیں پتا ہے امی اور دادی کو پہلے سے اس کی شادی کا پتا تھا اور پریگنینسی کا بھی۔”
“ہاں یار میں بھی کل یہی سوچ رہی تھی امی کو بتایا تو انہیں بھی افسوس ہوا, امی بتا رہی تھیں کہ اس عمر میں تو شادی کروانا جرم ہے۔ سچی پہلے پتا ہوتا تو اس کے بڈھے ہسبینڈ کو پولیس سےپکڑوا دیتی۔ تجھے پتا ہے میں اتنا روئی امی کے سامنے۔ شکر ہے بسمہ یار میرے امی پاپا ایسے نہیں ہیں وہ کبھی میری شادی پڑھائی ختم ہونے سے پہلے نہیں کریں گے۔”
اور بسمہ کو چند لمحوں میں احساس ہوگیا کہ اس کا اصل صدمہ اور خوف کیا تھا۔ دوسری طرف فائزہ اپنی بات کیے جارہی تھی۔
“ہاں یہ تو بتا تو کہہ رہی تھی کہ آنٹی والوں کو پتا تھا تونے پوچھا نہیں کہ انہیں کس نے بتایا۔اس بار بھی سیماء آپی کی دیورانی والوں سے پتا چلا کیا؟”
” ہاں مجھے بھی یہی لگ رہا ہے۔تجھے پتا تو ہے کہ امی مجھے ایسی باتیں نہیں بتاتیں۔”
“شادی کا بتانے میں تو کچھ ایسا نہیں جو چھپایا جائے مجھے لگ رہا ہے مسئلہ کچھ اور ہے۔ دیکھ نا شادی پہلے سے طے ہوتی تو بانو ہمیں خود ہی بتا دیتی یہ اتنی جلدی میں اور چپکے سے شادی کچھ سمجھ نہیں آرہا مجھے بہت مسئلہ لگ رہا ہے۔مجھے لگ رہا ہے اسے خود بھی نہیں پتا تھا۔ ایسا کرتے ہیں شام میں امی کے ساتھ چکر لگاتی ہوں تیری طبیعت دیکھنے کا کہہ کر۔ باتوں میں امی کو تو بتا ہی دیں گی وہ لوگ۔”
فون بند کرتے ہی بسمہ شام کا انتظار کرنے لگی۔ بخار تو اتر گیا تھا مگر ابھی بھی نقاہت اور کمزوری کافی ہورہی تھی۔ کچھ کھایا پیا ہی نہیں جارہا تھا
امی دو بار ڈبل روٹی دودھ کے ساتھ کھلانے کی کوشش کر چکی تھیں اور ساتھ ہی جھنجھلا بھی رہی تھیں۔ دادی کی بڑبڑاہٹ بھی ساتھ جاری تھی۔ “لو یہ آج کل کے بچے ذرا دم نہیں ہے۔ ان کی عمر میں ہم تو پیٹ سے ہو کر بھی سب کام کرتے تھے۔ فجر ہوتے ہی ساس مرحومہ بستر سے کھڑا کر دیتیں کہ شریف گھرانوں کی بہوئیں دن چڑھے تک کمروں میں نہیں رہتیں۔ اب حالی ہو بیماری ہو مرحومہ دوبارہ کمرے میں نہیں جانے دیتی تھیں ایسے نخرے ہمارے اٹھائے گئے ہوتے تو پل گئے تھے بچے۔”
وہ دادی کی باتیں سن سن کر کڑھتی رہی وہ اپنی ساس کے رویئے کا سگی ماں سے مقابلہ کر رہی تھیں ۔ اسے امید ہوئی شاید امی اس کی حمایت میں بولیں گی۔ صبح سے لہجہ بھی تھوڑا نرم ہی تھا۔
امی برتن اٹھا کر جانے لگیں دادی بھی پیچھے پیچھے نکلیں
“بہو تم نے لاڈ پیار کر کے نازک بنا دیا ہے چلو لڑکے تو ہوتے ہیں نخرے والے، نہ انہیں پرائے گھر جانا ہے مگر لڑکی ذات کا تو بڑا خیال رکھنا پڑتا ہے پرائے گھر میں کون سے اماں باوا ہونگے جو ایسے نخرے سہیں”
” اماں آپ خود دیکھ رہی ہیں میں کیا کروں آج کل کی اولاد ہی بے حس ہوگئی ہے تو کیا کیا جائے۔ خود دیکھ رہی ہے کہ ماں صبح سے رات تک کام میں لگی ہوتی ہے ایسے میں بیماری کے نخرے بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ اور ہم خود بیمار ہو جائیں تو کوئی پانی کو بھی نہیں پوچھتا بس ہر ایک کو اسکول آفس سے آکر سب تیار چاہیئے جیسے ماں تو انسان ہی نہیں۔ ”
اسے دکھ اور شرمندگی کے احساس نے ایک ساتھ گھیر لیا۔ اسے شدید رونا آیا “کیا وہ جان بوجھ کے بیمار ہوئی ہے؟”
وہ اپنا دھیان ہٹانے کے لیئے فائزہ اور اس کی امی کے آنے کا سوچنے لگی وہ آئیں تو گل بانو کے معاملے کی تفصیل پتا چلے۔ اب اسے خود بھی لگ رہا تھا کہ کچھ زیادہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔
شام میں تقریبا 6 بجے کے بعد فائزہ اپنی امی (نفیس آنٹی جنہیں محلے میں میڈم نفیس کے نام سے پکارا جاتا تھا) کے ساتھ آئی۔ نفیس آنٹی اس کے لیئے جوس اور پھل بھی لے کر آئی تھیں۔
وہ نکل کر باہر لاونج میں آئی تو آنٹی نے آگے بڑھ کر غیر محسوس انداز میں اسےسہارا دیا۔
“ارے واہ بسمہ بیٹا آپ تو بہت بہادر ہیں میں تو بیمار پڑ جاوں تو بستر کی جان نہیں چھوڑتی”
یہ جملہ اگر اس کے سامنے کسی اور کو کہا جاتا تو وہ نفیس آنٹی کی بچکانہ بات پہ دل میں بہت ہنستی مگر اس وقت اسے یہ سن کر کتنا اچھا لگا یہ وہی جان سکتی تھی۔ ایسا لگا ساری کمزوری صرف رویوں کی تھی جو ذراسی شفقت ملنے پہ گم ہوگئی۔ اسے واقعی لگا کہ اس نے کوئی بہادری کا کام کیا ہے جو ٹارزن اور ہرکولیس بھی نا کر پائے ہوں۔
وہ اور فائزہ وہیں قریب کے صوفے پہ بیٹھ گئیں۔
“اور بھئی اسٹرونگ گرل (مضبوط لڑکی) اتوار کی بجائے پیر کو بخار چڑھانا تھا نا، چھٹی کرنے کا مزا بھی آتا۔” ان کی بات پہ بسمہ بے ساختہ مسکرا دی۔
“ارے بخار وخار کیا ہونا ہے بس دوست کی اچانک شادی کو دل سے لگا لیا ہے۔ آخر کو بچپن کا ساتھ ہے ہماری بچی ویسے بھی محبت کرنے والی بچی ہے اپنے پرائے کی تکلیف پہ پریشان ہوجاتی ہے۔”
یہ دادی تھیں۔
“کاش دادی یہ بات آپ نے مجھ سے کہی ہوتی۔ آپ کو نہیں پتا کہ اتنا سا خیال اور توجہ کتنی ہمت دیتا ہے۔” وہ صرف سوچ کے رہ گئی۔ پتا نہیں امی اور دادی کی اصل سوچ کیا ہے ابھی والی یا پہلے والی۔
“ویسے بھابھی بچاری بچی کے ساتھ ظلم بھی بہت ہوا ہے ” توقع کے مطابق امی بغیر کسی محنت کے تفصیل بتانے کے لیئے ریڈی تھیں۔ حسب عادت انہوں نے نفیس آنٹی کو بھابھی کہا جبکہ فائزہ آنٹی کی سب سے بڑی بیٹی تھی اور آنٹی بھی ینگ ہی لگتی تھیں۔ مگر امی کے بقول ان کی شادی جلدی ہوگئی اسی لیئے بچے بڑے ورنہ تو وہ ابھی جوان ہیں۔ اور نفیس آنٹی سے کافی چھوٹی بھی۔ بلکہ امی تو محلے کی عموما شادی شدہ خواتین کو بھابھی کہتی تھیں بھلے ان کے بچے اسد سے چھوٹے ہی کیوں نا ہوں۔ ہاں کچھ خواتین جواب میں امی کو خالہ کہہ کر حساب چکا دیتی تھیں
بسمہ کل سے اپنے دماغ میں ابل ابل کر آنے والی سوچوں سے پریشان تھی۔ آج بھی امی کے بھابھی کہنے پہ پتا نہیں کہاں تک چلا گیا اس نے سر جھٹک کر امی کی بات پہ دھیان دیا۔
“ہمیں تو پچھلے مہینے سیما نے بتایا سچ اتنا دکھ ہوا کیسی چھوٹی سی بچی کے ساتھ ایسا ظلم کردیا۔ اس کی دیورانی کی بہن جاتی ہے نا میلاد پڑھنے اسی سے پتا چلی سب تفصیل۔”
“تو اتنی جلدی میں شادی کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی کچھ مہینے انتظار کر لیتے بچی میٹرک تو پورا کر لیتی۔ ایسے بیچ میں پڑھائی چھڑوائی”
“ارے بھائی کے کرتوت بھگت رہی ہے بچاری، سیما بتا رہی تھی گل بانو کے بھائی نے گاوں کی دوسری برادری کی لڑکی سے بھاگ کر شادی کر لی ہے بلکہ خدا جانے کی بھی ہے یا۔۔۔۔۔۔ بھئی انہیں شریعت کا کیا پتا کلمہ بھی آ جائے تو بڑی بات ہے۔ خیر اب وہ دونوں تو روپوش ہیں جرگے نے عوض میں پانچ لاکھ جرمانہ اور گل بانو کا نکاح لڑکی کے چاچا سے کرنے کا فیصلہ دیا۔ مجھے تو سوچ سوچ کے ایسا ترس آتا ہے بچی پہ ایسی پیاری سلجھی ہوئی بچی نمازروزے کی پابند بس بھابھی کیسے گنوار لوگ ہوتے ہیں یہ گاوں والے بھی۔ ”
امی کے لہجے میں درد ہی درد تھا جو کل کہیں بھی محسوس نہیں ہوا۔ کل تک ان کے لیئے شادی ٹھیک تھی۔
اب دادی نے تفصیل کا چارج سنبھالا ” بس نا پوچھو مجھے تو بتاتے شرم آ رہی ہے تین دن بچی اسپتال رہ کر آئی ایسا حال کیا ظالم نے پہلی رات”
بسمہ کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا اس کا شدت سے دل چاہا کہ اس کا مطلب وہ نا ہو جو اسے لگ رہا ہے مگر نفیس آنٹی کی بات نے اس کے شک پہ یقین کی مہر لگا دی۔
“خالا یہی مسئلہ ہے ہمارا، ہم قانون کو صرف تب مانتے ہیں جب اپنا مفاد ہو ورنہ سب کو پتا ہے کہ کم عمری کی شادی جرم بھی ہے اور خطرناک بھی۔ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی بچیوں کو مرنے کے لیئے بھیج دیتے ہیں ورنہ اس عمر میں بچی کا جسم بہت نازک ہوتا ہے ازدواجی تعلقات اور حمل کے لیئے۔”
نفیس بیٹا برا نہیں ماننا ہم اپنی بچیوں کے سامنے ایسی باتیں نہیں کرتے۔ تبھی ہماری بچیاں ابھی تک اتنی معصوم ہیں۔ زمانے کی ہوا تک نہیں لگنے دیتے ہم انہیں۔”
دادی کو ایکدم اخلاقیات یاد آگئیں۔
معافی چاہتی ہوں خالہ۔ مگر واقعی افسوس بہت ہوا اس کا حال سن کر۔ چلیں بسمہ بیٹا آپ آرام کریں ہم چلتے ہیں۔ فائزہ بیٹا بسمہ کو اس کے روم تک چھوڑ آو بچی بیٹھے بیٹھےتھک گئی ہوگی۔”
آنٹی کہتے ہوئے کھڑی ہوگئیں۔ دادی نے بے مروتی کا مزید مظاہرہ کیااور اپنا پاندان کھول کے بلاوجہ اس میں مگن ہوگئیں۔
بسمہ شرمندہ سی فائزہ کے ساتھ روم میں آگئی۔
“فائزہ سوری یار دادی بس جو منہ میں آتا ہے بول دیتی ہیں تم میری طرف سے آنٹی سے معذرت کرلینا۔”
“کوئی بات نہیں یار ہمیں پتا ہے ان کی عادت کا دوسرا امی کیونکہ روز یہ موضوع کالج میں پڑھائی ہیں تو انہیں یہ اتنا عجیب نہیں لگتا جتنا عموما خواتین کو لگتا ہے امی کے بقول ایسی باتوں میں ذومعنی اصطلاحات بات کو زیادہ نامناسب بنا دیتی ہیں۔ “فائزہ ہلکے سے ہنسی۔ ” چل بس تو آرام کر کل اسکول میں ملتے ہیں ”
بسمہ بستر پہ بیٹھی اسے جاتا دیکھتی رہی پھر تھکن زدہ انداز میں لیٹ گئی۔ وہ سوچنے لگی آنٹی نے ایسی کونسی ناموزوں بات کردی جو دادی نے نہیں کی تھی صرف الفاظ کا ہی تو فرق تھا بات تو ایک ہی تھی نا۔ بس مختلف بات تو یہ تھی کہ بچیوں کی کم عمری میں شادی نہیں کرنی چاہیئے تو کیا یہ بات دادی کے لیئے غیر اخلاقی تھی؟؟؟ اور اگر گل بانو اسی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوئی تھی تو مطلب آنٹی کا موقف ٹھیک تھا۔ مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے یہ تو بہت نازک اور رومانوی رشتہ ہے دادی نے یا تو کسی اور حوالے سے کہا ہوگا جسے آنٹی نے یہ معنی پہنا دیئے۔ وہ تو زولوجی کی ٹیچر ہیں انہیں ٹھیک سے نہیں پتا کیا۔ پھر اسے یونہی خیال آیا کہ دادی کو تو ویسے بھی نفیس آنٹی پسند نہیں تھیں۔
***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...