ماضی کی یادوں سے نکلا تو احساس ہوا وہ کتنا کچھ غلط کر چکا تھا ۔ اسوہ کا کہاں کہاں قصور تھا ، ایک دم سب واضح ہونے لگا تھا۔ مگر اب بھی اس کی انتہا درجے کی نفرت اس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ عالی کے واقعے سے پہلے بھی وہ بے حد متنفر رہتی تھی۔ اس سے بعد میںجو کچھ بھی وہ کرتی یا کہتی رہی تھی وہ تو اس کا رد عمل تھا۔ انصاف سے ہر پہلو پر غور کیا تو احساس ہوا وہ کہیں بھی غلط نہیںتھی۔
کالی گہری رات ہر طرف چھائی ہوئی تھی ۔ کھانا کھانے کے بعد وہ کمرے آ گیا تھا ۔ اسوہ کتنا وقت گزرنے کے بعد کمرے میں نہیں آئی تھی۔ وہ یونہی منتظر رہا۔ نجانے کب آنکھ لگی تھی۔ اپنی طرف سے تو وہ اسوہ کا انتظار کر رہا تھا ۔ یونہی اس کی آنکھ کھلی تو کچھ دیر خالی الذہنی کی کیفیت میں لیٹا رہا۔ آنکھیں جب دیکھنے کے قابل ہوئیں تو وہ چونکا۔ اپنے وجود سے مس کرتا دوسرا وجود بلا شبہ اسوہ کا تھا۔ اس کا بازو سالک کے سینے پر تھا ۔ اس نے ہاتھ ہٹانا چاہا مگر ہٹا نہ پایا۔ کانچ کی چوڑیوں سے سجا خوبصورت سفید بازو ہلکی مدھم روشنی میں بہت بھلا لگ رہا تھا ۔ اس کا سر اس کے کندھے سے چھو رہا تھا ۔ وہ چونکہ اسے سوچتے سوچتے ہی سویا تھا اب اسے یوں اپنے اس قدر قریب دیکھ کر دل ایک دم مطمئن ہونے لگا تھا۔ اس کے وجود کا لمس سالک کے اندر ایک نئی زندگی دوڑا رہا تھا۔ وہ گہری نیند میں غرق تھی۔ سالک نے اپنا دایاں بازو اس کی کمر کے گرد لپیٹ دیا تھا ۔ اپنی کیفیت اپنے جذبات بہت بھلے لگ رہے تھے۔
میں جانتا ہوں میری غلطی ناقابل معافی ہے۔ مگر میں تمہارا اعتماد جیتے کی کوشش ضرور کروں گا تم جو میری زندگی ہو، بھلا تم سے جدا ہو کر میں جی سکتا ہوں۔ کبھی نہیں۔ اسی لئے تو نیو یارک چھوڑ دیا کہ کہیں تم مجھے میرا وعدہ یاد نہ دلا دو۔ ملکوں ملکوں گھوما ہوں، برسوں خاک چھانی ہے، صرف اور صرف تمہارے لئے۔‘‘ اس کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھتے وہ عجیب کیفیت میں غرق تھا ۔ کمرے کی تنہائی ، اپنے رشتے کا استحقاق ، سحر انگیز ماحول اور اپنی گزشتہ غلطیاں سب اسے اپنے حصار میں مقید کر رہی تھیں۔
’’ایم سوری ، رئیلی سوری ۔‘‘ بہت نرمی سے اس نے اسے خود سے مزید قریب کر لیا تھا ۔ یوں کہ دونوں کے دل ایک ساتھ دھڑکنے لگے تھے۔
وہ اسوہ سے کھل کر ہر مسئلے پر بات کرنا چاہتا تھا ، وہ اب اپنے رشتے کو ایک واضح شکل دینا چاہتا تھا ۔ اسوہ کی زندگی میں کوئی نہیں تھا یہ خیال اس کی روح تک کو سر شار کر جا تا تھا۔ وہ کتنا ہلکا پھلکا ہو گیا تھا وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ اس نے اسوہ سے کوئی وعدہ بھی کیا ہے۔ دوسری طرف اسوہ شاید سب سمجھ رہی تھی۔ اس سے بچنے لگی تھی۔ کنی کترانے لگی تھی۔ کچھ کہنے کا کبھی موقع ہی نہیں دیتی تھی ۔رات کو بھی دیر سے جب وہ سو جاتا تھا تو کمرے میں آتی تھی۔ جب اٹھتا تھا تو اس کے ساتھ سو رہی ہوتی تھی۔
اس دن وہ کچن میں مصروف تھی ، شومئی قسمت کہ کوئی ملازم بھی موجود نہیں تھا۔ وہ پانی پینے آیا تھاجب وہ اسے کچن کے دروازے پر دیکھ کر ٹھٹکی تھی۔ پھر نظر انداز کر کے اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
’’ایک گلاس پانی مل جائے گا۔‘‘ اسے متوجہ نہ دیکھ کر کہا تو وہ فریج بند کر کے چولہے کے پاس جا کھڑی ہوئی جیسے سنا ہی نہ ہو۔
’’اسوہ ……‘‘ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ اس نے تیزی سے ایک طرف پڑا گلاس اٹھا کر پانی بھر کر اسے لا پکڑایا ۔ سالک نے گلاس تھاما تو وہ واپس چولہے کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
’’مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔ پلیز کچھ دیر کے لئے کمرے میں چلو۔‘‘ اس نے اپنا مدعا بیان کیا تھا۔
’’مگر مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ۔ میرا وقت ضائع مت کریں۔ جائیںآپ یہاں سے۔‘‘ تلخی سے جواب ملا تھا جیسے وہ بمشکل خود کو برداشت کر رہی ہو۔
’’اسوہ ……رئیلی سوری……میں ……‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا تو وہ خونخوار انداز لئے پلٹی۔
’’نہیں سالک صاحب بس ، ایک لفظ بھی نہیں۔ آپ کی یہ سوری میری ذات پر اچھالا گیا کیچڑ نہیں دھو سکے گی۔ آپ کی ندامت مجھے با کردار ثابت نہیں کر سکے گی۔ میں نے ہر الزام سہ لیا ۔ تمغے کی طرح اپنے سینے پر سجا لیا۔ اس لئے نہیں کہ کسی آج کے دن کے لئے کہ آپ صرف سوری کے چند الفاظ سے میری ذات خرید لیں ۔ آپ نے جو دیکھا نہ وہ جو جھوٹ تھا ، نہ عالی سے محبت میری جھوٹ تھی۔
ہاںاگر کچھ جھوٹ تھا تو ہمارے درمیان یہ تعلق ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میرے دل میں ، اور میری زندگی میں آپ کے لئے قطعی گنجائش نہیں ہے تو پلیز میرا ضبط مزید مت آزمائیں۔ برسوں ترسی ہوں اب کہیں جا کر زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھ پائی ہوں ۔ اب یوں میری راہ مت کھوٹی کریں۔ اپنے والدین کی نظروں سے ایک دفعہ گری ہوں دوبارہ اٹھ نہیں سکی۔ اب کیا چاہتے ہیں، جان لینے کے درپے ہیں کیا؟‘‘
وہ رو پڑی تھی۔ یہاں آنے کے بعد وہ پہلی دفعہ اس کے سامنے یوں ضبط کھوئی تھی۔ اس کا دکھ بہت بڑا تھا ۔ وہ چپ سادھ گیا۔ سالک کو اپنی زیادتیاں بہت بڑی لگیں۔
’’آئی ہیٹ یو……رئیلی آئی ہیٹ یو…….میں جانتی تھی کہ آپ مجھے نا پسند کرتے ہیں، میں یہ بھی جانتی تھی کہ آپ کی پسند میں نہیں کوئی اور ہے۔آپ نے بی بی جان سے میرے نکاح کرنے پر بہت اعتراض کیا ۔ مجھے نہ جانے کیا کیا کہتے رہے…….میں واقعی بہت پاگل تھی ۔ زندگی میں آپ کے علاوہ کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیا تھا۔میں تو صرف آپ کے قریب رہنا چاہتی تھی۔ کسی نہ کسی بہانے اسی لئے چھوٹی موٹی حرکتیں کر جاتی تھی مجھے نہیں معلوم تھا اس کی اتنی بڑی سزا دیں گے۔ مجھے تو صرف یہ غصہ تھا کہ مجھے برا بھلا کہتے ہیں اور خود کسی اور لڑکی کو پسند کرتے ہیں۔ اسی لئے آپ کو چڑانے لگی تھی۔ تاکہ یہ جو زبردستی کا تعلق قائم ہوا ہے یہ ختم ہو جائے۔ آپ کے قریب جب بھی آنا چاہا آپ نے بری طرح دھتکار دیا۔ پتھر بنے رہے۔ اب آپ کی نفرت میں سہ نہیں سکتی تھی اس لئے ضد کر کے لاہور چلی گئی۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ آپ کی نفرت اتنی گہری ہے، مجھے یوں ذلیل و رسوا کرے گی، کبھی لاہور نہ جاتی۔ میں جو پاگلوں کی طرح آپ کو صرف پوجتی تھی، شدید نفرت کرنے لگی۔ میرا اعتماد ، میرے ماں باپ ، ان کی محبت سب کچھ مجھ سے چھین لیا۔ وہ عالی جس کا نام میری رسوائی کا سبب بن گیا وہ تو مجھے صرف بھائیوں کی طرح عزیز تھا۔ وہ مجھے بہن کا مان دیتا تھا، پھر میں اس کی محبت اور خلوص کو کیسے نظر انداز کر دیتی۔ اور یہی میری غلطی تھی ۔ اور آپ نے اسی غلطی سے فائدہ اٹھایا۔ اتنی زیادہ نفرت کرتے تھے تو کہا ہوتا ، میں خود اپنا کوئی بندوبست کر لیتی مگر یوں رسوا نہ کرتے……‘‘ وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر شدت سے رو رہی تھی ۔ وہ نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھی، سالک کو تو اپنے بدن سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اتنی بد گمانیاں ، اس نے کب نفرت کی تھی بس چند اعتراضات تھے اور وہ ان اعتراضات کو ان رخ پر لے گی اتنا کچھ سوچ لے گی۔ اتنی نفرت ، وہ ششدر تھا ۔ اس نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ وہ یوں سوچے گی، وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
’’اسوہ…..‘‘ وہ آگے بڑھا تو اسوہ پیچھے ہٹ گئی، سر نفی میں ہلا گئی۔
’’نہیں سالک …….! آپ نے صرف اپنی نفرت کا اظہار کیا تھا مگر مجھ سے سب کچھ چھین لیا۔ وہ محبت جو بچپن سے اپنے دل میں سینچتی چلی آئی تھی آپ کی نفرت اسے کھا گئی۔ میرا بس نہیں چلتا تھا کہ میں کیا کر ڈالتی۔ ان دنوں صرف ایک ہی ضد تھی کہ مجھے طلاق لینی ہے۔ پھر آپ بھی مان گئے۔ دل میں ایک خوش فہمی تھی کہ شاید آپ سختی سے رد کر دیں اس تقاضے کو مگر……‘‘ چپ ہو گئی۔ سالک نے اسے کندھوں سے تھام لیا …….لرزتا وجود اور لرزنے لگا۔ اس نے خود میں بھینچ لیا۔
’’اسوہ……‘‘ سالک کے لب کپکپائے تھے صرف۔
’’آپ چلے گئے۔ میں لمحہ لمحہ مری، ہر ایک کی نظر میں میں مجرم تھی۔ میں گنہگار تھی۔ بابا جانی نے کبھی بلایا نہیں۔ امی جان نے کبھی پاس بٹھا کر کوئی بات نہیں کی۔ اگر بی بی جان نہ ہوتیں تو یہ آٹھ سال مجھے مار دیتے۔ جینے کی خواہش تو جیسے پہلے ہی ختم ہو چکی تھی۔ آپ کا یوں گمنام ہو جانا مزید حوصلے پست کر گیا۔ میری جو ضد تھی کہ صرف طلاق لینی ہے ، وہ جیسے کہیں مٹ گئی تھی ۔ چند ماہ سے ایک خیال ، مسلسل آ رہا تھا کہ شاید آپ میری طرف سے کسی پیش رفت کے منتظر ہوں۔ بی بی جان کا ہارٹ اٹیک تو صرف بہانہ تھا ، میں ضبط نہ کر سکی۔ ادھورے ایڈریس پر خط لکھ دیا۔ کیا لکھتی ہمارے درمیان کچھ تھا ہی نہیں۔ بی بی جان کی طرف سے پریشان کرنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔ بس وہی بھولا بسرا وعدہ یاد آ گیا ۔ یہی سوچ کہ اگر آپ کی نفرت اتنی ہی گہری ہے تو میری نفرت کو انجام تک پہنچانے کے لئے تو ضرور آئیں گے۔ اللہ سے دعائیں مانگی تھیں۔ اور آپ آ گئے مگر میری ذات کا سارا حوصلہ آپ کو دیکھتے ہی جیسے کہیںکھو گیا تھا۔ لمحوں میں دل اس خوف میں مبتلا ہو گیا کہ آپ اب مجھے طلاق دے دیں گے۔ میں یقین دلاتی ہوں میں آپ کی زندگی میں کبھی مداخلت نہیں کروں گی۔ مگر خدارا مجھے اپنے والدین کی نظروں میں اب رسوا نہ کریں۔ مجھے میری زندگی جینے دیں ، برسوں حوصلہ کیا ہے پھر زندہ ہوئی ہوں۔ اب میرے رہے سہے بھروسے کی عمارت مسمار مت کریں۔ مجھے طلاق نہیں چاہئے ۔ کبھی نہیں۔‘ ‘ سالک خود پشیمان ہو گیا۔ وہ برسوں چپ رہی تھی ، آج کھلی تھی ، طلاق کے خوف نے اسے بولنے پر مجبور کر دیا تھا وہ سب کچھ جو برسوں سے بلکہ بچپن سے دل کے نہاں خانوں میں چھپا ہوا تھا ۔ وہ ایک ایک کر کے کہتی گئی تھی۔ وہ کیا سوچتا رہا تھا اور کیا نکلاتھا۔
سالک کی وہ حالت تھی کہ بیان کرنا مشکل تھا ۔ وہ اس سے اتنی محبت کرتی تھی یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس قدر جذباتی تھی ، گزرے واقعات فراموش کر دینے والے نہ تھے ۔ اس کا کہا ایک ایک لفظ سچا معلوم ہو رہا تھا ۔ سالک کا دل مانتا جا رہا تھا ۔ نادم ہوتا جا رہا تھا۔
X X X
اسوہ پھپھو کے ہاں گئی ہوئی تھی ۔ ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا۔ اس کی غیر موجودگی سب کو کھٹک رہی تھی۔ سب ہی اسے مس کر رہے تھے اور وہ تھی کہ اپنے دل کا سارا غبار نکال کر سالک کو کچھ بھی کہنے کا موقع دئیے بغیر اگلے دن بی بی جان کے ساتھ پھو پو کے ہاں چلی گئی تھی ۔ بی بی جان تو دو دن رہ کر آ گئی تھیں مگر وہ وہیں رہ گئی تھی ۔ اس کی غیر موجودگی سب سے زیادہ سالک کو محسوس ہو رہی تھی۔ وہ جب سے آیا تھاوہ اس کا ہر کام خاموشی سے سر انجام دے رہی تھی۔ جب سے گئی تھی کمرے میں بے ترتیبی سی پھیلتی جا رہی تھی۔ کپڑوں سے لے کر کھانے تک بغیر اس کے کہے ہر چیز حاضر کر دیتی تھی ، خاموشی سے بس صرف اتنا جتا دیتی تھی کہ وہ بی بی یا چچی جان کے کہنے پر یہ سب کر رہی ہے مگر اب ہر بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی جا رہی تھی ۔ وہ جو الجھتا رہتا تھا۔ اسوہ تو اپنے دل کا غبار نکال کر منظر سے ہٹ گئی مگر اسے پشیمانی و پچھتاو ئوں کے گہرے سمندر میں دھکیلتی جا رہی تھی۔ اس کا ایک ایک آنسو ، ایک ایک لفظ ، انّی کی طرح دل میں چبھتا جا رہا تھا ۔ کسی پل قرار نہ تھا ۔ کسی پل چین نہ تھا۔ جو سوچا تھا وہ کیا نکلا تھا، اور جو سامنے آیا تھا وہ کبھی تصور بھی نہیںکیا تھا ۔ کب کبھی سوچا تھا کہ وہ بھی اس سے محبت کرتی ہو گی اور اب جب سب باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی تھیں تو دل تب بھی بے چین تھا ۔ بچپن سے لے کر اب تک کے سارے واقعات ایک ایک کر کے ازبر ہوتے گئے تھے۔
’’کیا بات ہے سالک ……؟ آج کل کچھ پریشان ہو ، کمرے سے نکلتے ہی نہیں۔‘‘ وہ بیٹھا نہ جانے کیا کیا سوچے جا رہا تھا جب بی بی جان کمرے میں داخل ہوئی تھیں ، ہر ُسو اندھیرا تھا۔ انہوں نے لائٹس آن کیں۔ وہ فوراً سیدھا ہوا۔ بی بی جان اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔
’’نہیں ……ویسے ہی …….کوئی کام تھا کیا؟‘‘ وہ مسکرایا تو وہ بغور دیکھنے لگیں۔
’’اسوہ ، اور تم میں کوئی بات ہوئی ہے۔‘‘ انہوں نے ایک دم پوچھا تھا وہ بوکھلا گیا۔
’’نہیں ……نظریں خود بخود پھیر گیا۔
’’میں نے فون کیا تھا۔ ڈرائیور کو بھی بھیجا ، وہ آ ہی نہیں رہی۔ آج پھر فون کیا تو کہہ رہی تھی دو تین ہفتے رہے گی۔‘ ‘ انہوں نے آگاہ کیا تو وہ دیکھے گیا۔
’’کیا بات ہے میرے بچے …..مجھے نہیں بتائو گے۔ تم دونوں مجھ سے چھپے ہوئے نہیں ہو ۔ اب کیا مسئلہ ہے ۔‘‘ وہ بڑی محبت سے توجہ سے لگاوٹ کا مظاہرہ کئے پوچھ رہی تھیں۔
’’نہیں بی بی جان ، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب تو جیسے سارے مسئلے حل ہو گئے ہیں۔‘‘ وہ بدقت تمام مسکرا دیا تھا مگر افسردہ تھا ۔ مسکراہٹ میںکوئی رنگ نہیں تھا۔
’’مجھ سے چھپا رہے ہو…..مجھ سے…….‘‘ انہوں نے جیسے اسے زِچ کر دیا تھا۔
’’کیا بتائوں بی بی جان ۔‘‘ نادم سا سر جھکا کر رہ گیا۔
’’وہی جواسوہ کے یہاں سے جانے کا سبب بنا ہے۔‘‘
’’قسم لے لیں بی بی میں نے اسے نہیں بھیجا، مجھے تو علم بھی نہیں تھا۔‘‘
’’یہی تو پوچھ رہی ہوں کیوں علم نہیں تھا۔ جبکہ تمہیں پتا ہونا چاہئے تھا۔‘‘ ان کا لہجہ اب سخت ہو گیا تھا ۔ باز پرس کرتا ہوا۔
’’بی بی جان ! اچھا ہوا ہے وہ منظر سے غائب ہے۔ اگر وہ یہیں رہتی تو شاید میں یکسوئی سے اپنی غلطیاں کبھی نہ اخذ کر پاتا۔‘‘ بی بی جان چپ رہیں ۔ پھر اس نے شروع سے لے کر آخر تک سب کہہ سنایا۔ بی بی جان کی بھی وہی کیفیت تھی جو اس کی ہوئی تھی۔ اسوہ کی زبانی سب سن کر ۔ وہ بھی شاکڈ تھیں۔
’’بہت برا کیا بچے ، بہت برا، وہ جذباتی تو شروع سے ہی تھی۔ اتنے بڑے الزام کو اپنے سر لے لیا۔ کبھی ایک لفظ نہ کہا۔ یہی ظاہر کرتی رہی کہ جیسے ……‘‘ وہ چپ ہو گئیں۔ آنسو ایک ایک کر کے بہنے لگے۔
’’بی بی جان میں خود میں حوصلہ نہیں پاتا کہ اس کی طرف قدم بڑھائوں ۔ میں بہت شرمندہ ہوں ۔ میری وجہ سے صرف میری وجہ سے وہ اپنے والدین کی نظروں میں گر گئی۔‘‘
اس نے بی بی جان کی گود میں سر رکھ لیا تھا۔ شروع سے ہی وہ اس کے ہر راز کی امین تھیں۔ اس کے ہر دکھ سکھ میں اس کے ساتھ رہی تھیں۔ اب بھی اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں۔
’’بس میرے بچے! کچھ غلطیاں انسان دانستہ کرتا ہے اور کچھ نادانستگی میں سر زد ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ غلطیاں نہ کرے تو اسے زندگی کی قدر نہ ہو۔ یہ آزمائشیں ، یہ غلطیاں اسے سبق سکھا تی ہیں۔ شرمندہ ہو کر کمرے میں بند ہونے سے کچھ نہیںہو گا۔ وہ سب کچھ کہہ کر اپنے دل کا غبار نکال چکی ہے تو بھی سب کچھ بھول کر قدم بڑھا ، جا کر اسے لے آئو وہ شاید تمہاری راہ دیکھ رہی ہو۔ میں نے کہا تھا نا وہ بہت اچھی ہے، تم نے دیکھ بھی لیا ہے۔ بس تم دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ چھوٹی چھوٹی بد گمانیوں کو اتنی جگہ دل میں دے لی کہ حقیقت کا اصل چہرہ کہیں چھپ گیا۔ تمہیں میں اکثرسمجھاتی تھی نا کہ سب جذبے چپ کی زبان سے عیاں نہیں ہوتے کبھی کبھی زبان سے بھی کام لینا پڑ جا تا ہے۔ اگر تم ہر بات دل میں رکھنے کے بجائے کبھی کبھار اسے اچھے انداز میں کچھ کہہ دیتے، ہنس کر بات کر لیتے تو بات اتنی نہ بڑھتی۔ پرانی قدریں بس قدریں رہ گئی ہیں۔ یہ نیا دور ہے، ہر انسان کے لئے دوسرے سے زیادہ اپنی ذات مقدم ہے تو بیٹا! انسان کو حالات کے مطابق ہی چلنا چاہئے نا۔‘‘
وہ خاموش رہا تھا ۔ یہ ملال تو اسے بھی تھا کہ کیا تھا وہ اپنی طبیعت اور مزاج کے برعکس کبھی ہنس کر، اپنی ذات سے نکل کر اس کی ذات کو بھی اہمیت دے لیتا۔ اسے دعویٰ تھا کہ نکاح سے لے کر رخصتی تک اس نے کبھی اسے چھو کر نہیں دیکھا ۔ یہ اتنی فخر کی بات تو نہیں تھی۔ بحیثیت شوہر وہ حق رکھتا تھا اور خاص طور پر لڑکیاں تو اس معاملے میں حساس ہوتی ہیں۔ نجانے اس کے دل میں کیا کیا جذبات تھے جو اس کی سرد مہری کی وجہ سے ہمیشہ دل کے اندر ہی قنوطیت کا شکار ہوتے گئے ہوں گے جبکہ اسوہ نے کہا تھا۔
’’نظر شناسی کی صلاحیت آپ میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ اپنی ذات کے گرد فصیلیں کھڑی کرتے کرتے بالکل ڈھے گئے ہیں۔ کبھی اپنی ذات سے نکل کر دیکھیں۔‘‘
اور واقعی اب اس نے اپنی ذات سے نکل کر دیکھا تو بہت سے راز کھل گئے تھے۔
’’اب کمرے میں بند ہو کر مت بیٹھو۔ باہر نکلو……اگر برا نہ مانو تو جا کر اسوہ کو لے آئو……. جب ہر معاملہ کلئیر ہو گیا ہے تو یہ منہ چھپا کر بیٹھے رہنا کیوں …….ہمت کرو ۔ اب وہ خود تو تمہیں کہنے سے رہی کہ مجھے لے جائو۔ بہر حال کچھ ناراضگی کا حق تو اس کا بھی بنتا ہے۔‘‘ بی بی جان ہلکے پھلکے انداز میں کہتے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ وہ بھی مسکرا دیا۔ انہوں نے گویا اسے ایک راستہ دکھا دیا تھا۔
’’شکریہ بی بی جان ۔‘‘ انہوں نے ہمیشہ سیدھے رخ اس کی رہنمائی کی تھی۔ ابھی تک وہ الجھا ہوا تھا کہ کیا کرے ان کی باتوں سے اس کے اندر ہمت پیدا ہوئی تھی۔ اسوہ کا سامنا کرنے کی۔
’’اللہ تم دونوں کو خوش رکھے ۔ میری دعا ہے۔ میں راضیہ اور قمرالزمان سے بھی بات کروں گی، ماں باپ ہیں اس کے آخر کتنا بھی ناراض رہ لیں ، اولاد کی محبت پلٹنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ پھر وہ کونسا واقعی ناراض ہیں بس غصہ ہے جب حقیقت کھلے گی تو دل خود بخود صاف ہو جائیں گے۔‘ اس کی پیشانی چوم کر امی باہر نکل گئی تھیں ۔ وہ سوچنے لگا تھا۔
X X X
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...