انشاء عیان کا منہ تکنے لگی ۔۔۔ اور کہا ۔۔۔
“کچھ نہیں نازیہ بھابھی ۔۔۔ انشاء نے گڑبڑا کر کہا تھا۔۔۔
اس سے پہلے نازیہ بھابھی کچھ کہتی اسی وقت ملازم اگیا تھا ۔۔۔
“سر کھانا اگیا ہے ، کب تک سروو کرنا ہے ۔۔۔ رحیم نے اکر کہا ۔۔۔
انشاء حیرت سے دیکھ رہی تھی دوملازموں کے ہاتھ میں کئی شاپرز تھے جو کچن کی طرف لے جارہے تھے ۔۔۔
“پندرہ منٹ بعد ڈائینگ پے لگادینا ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“عیان تمہیں پتا ہے مجھے گھر کا کھانا پسند ہے پھر باہر سے کیوں ۔۔۔
عمر نے جان بوجھ کر جتایا کیونکہ اسے الریڈی عیان بتا چکا تھا ایسا کچھ ہونے والا ہے ۔۔۔ عمر غور سے دیکھ انشاء کو رہا تھا پر کہے عیان سے رہا تھا ۔۔۔
انشاء شدید شرمندگی سے دوچار ہونے لگی ۔۔۔ عیان کچھ کہے اس سے پہلے انشاء نے کہا ۔۔۔
“سوری عمر بھائی، آئندہ میں سارا کھانا خود بناؤں گی اپ لوگوں کے لیۓ ۔۔۔
“آج بچوں کی وجہ سے باہر کا منگوایا ہے کیونکہ بچوں کو باہر کا کھانا بہت پسند جو ہے ۔۔۔ عیان نے اس کی بات سے جوڑ لگایا ۔۔ جس پر وہ تشکر سے دیکھنے لگی عیان کو ۔۔۔
زینب بی جلدی سے کھانا لگوانے چلیں گئیں اور انشاء جانے لگی ان کے پیچھے تو نازیہ نے کہا ۔۔۔
“تم کہاں جارہی ہو یہاں بیٹھو میرے پاس ۔۔۔
وہ بیٹھ گئی ۔۔۔
“وہ کھانا لگوانے کے لیۓ جارہی تھی ۔۔
انشاء نے وضاحت دی ۔۔۔
“بنابنایا ہے زینب بی بھی لگوادیں گی۔۔ بس تم مجھے ایک بات بتاؤ ۔۔ نازیہ بھابھی ایسے کہے رہیں تھیں جیسے کوئی بڑی اہم بات کرنی ہو اسے انشاء سے ۔۔۔ عمر اور عیان اپنی باتون میں بزی تھے ایک طرف اور دوسری طرف وہ دونوں بیٹھی تھیں ۔۔۔ بچے باہر لان میں کھیل رہے تھے ۔۔۔
“جی نازیہ بھابھی ۔۔پوچھیں ۔۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔
“ویسے بہت شریف بنا پھرتا ہے تمہارا شوہر ۔۔۔ اب بتاؤ عیان بھائی رومینٹک ہے بھی یا نہیں روم میں ۔۔۔ یا روم میں بھی اتنا شریف ہے ۔۔۔
نازیہ بھابھی کے سوال پر حیران ہوئی انشاء ۔۔ کل رات اور صبح پھر شام کا منظر یاد ایا اسے ۔۔۔
“نازیہ بھابھی اپ بھی نہ ۔۔۔ انشاء شرم سے لال ہوئی ۔۔۔
“بس رہنے دو تمہارے چہرے کے رنگوں نے بتادیا سب ۔۔۔ نازیہ نے ہنس کر کہا ۔۔۔
“اب ایسی بھی بات نہیں ۔۔۔ تھوڑا گڑبڑائی انشاء ۔۔۔
“رہنے دو تم ، میں تو عمر سے پہلے کہتی تھی اتنا شریف بندا بنا پھرتا ہے تمہارا دوست دیکھنا چھپا رستم نکلے گا ۔۔۔ اب تمہارے چہرے کے رنگوں نے سب راز کھول دیۓ ۔ نازیہ کھل کے ہنسی اور انشاء شرمائی ۔۔
“ایک بات بتاؤں مزے کی انشاء ۔۔۔
“جی بھابھی بتائیں ۔۔۔
“تمہارے شوہر پر بہت لڑکیاں مرتی ہیں جانتی ہو میری بہن کی شادی میں بہت اچھے طریقے تمہارے شوہر نے شرکت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری بہن کی نند تو پیچھے ہی پڑگئی تمہارے شوہر کے ۔۔۔ بہت لڑکیوں کو امید تھی جس میں چینا سرفہرست تھی پر سب کی امیدوں پر پانی پھر گیا بازی تو تم لے گئیں ۔۔۔
اب انشاء کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس بات پر کمنٹ کرے تو کیا کرے جب کچھ نہ سمجھ آیا تو خاموش نظروں سے نازیہ بھابھی کو دیکھنے لگی ۔۔ دل میں آیا کہے دے کہ “ان میں سے کسی سے شادی کر لیتا کم از کم کسی کی تو امید پوری ہوتی میری زندگی نہ خراب ہوتی ۔۔۔ کلس کر انشاء نے سوچا ۔۔۔
نازیہ غور سے اس کے عجیب تاثرات دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اور پھر کہا ۔۔۔
” انشاء تم بھی سوچو گی کہ میں یہ باتیں لے کر کیوں بیٹھی ہوں اصل میں ان کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے تم نے پوچھا نہیں ، کوئی بات نہیں ، میں خود ہی بتا دیتی ہوں ۔۔۔
“وجہ کیسی وجہ ۔۔ انشاء نے حیرت سے پوچھا ۔۔
” تمہیں تو شاید یہ بھی نہیں پتا ہوگا کہ علیزے آ رہی ہے ۔۔
انشاء نے انجان نظروں سے دیکھا نازیہ بھابھی کو ۔۔
” اپنے شوہر کو ذرا قابو میں رکھنا علیزے دیوانی ہے عیان کی ، کئیں دفعہ ان کے قصے سن چکی ہوں عمر سے ، سوچا تم کو بتادوں اگے تمہاری مرضی ، احتیاط کرنا ۔۔
“جی بھابھی ، مجھے عیان پر پورا بھروسہ ہے ۔۔۔
یہ انشاء نے کس دل سے کہا وہی جانتی تھی ورنہ دل میں ارہا تھا کہے دے ۔۔۔ “مجھے کیا ، مجھے کوئی پرواہ نہیں ، میں نے تو خود عیان سے کہے دیا دوسری شادی کا ، مجھے علیزے اور عیان کی کوئی پرواہ نہیں ۔۔ کیا پتا اس بہانے میری جان چھوٹ جاۓ اس ان چاہے تعلق سے ۔۔
محبت اس بےپرواہ لڑکی پر مسکرادی اور درد کو افسوس ہوا اس پر جو قدر نہیں کرتی ایسے شخص کی ۔۔ وقت اپنے انے کا انتظار کررہا تھا جب اپنی بےپرواہی سے یہ لڑکی روۓ گی ۔۔۔ تب کیا ہوگا عیان کا رویہ ، یہ وقت بتاۓ گا ۔۔۔
@@@@@@
“بہت مزا ایا ۔۔۔ نازیہ بھابھی نے انشاء کے گلے مل کر کہا ۔۔
عمر نے بھی تائید کی ۔۔۔ ایک بیٹا تو تھک کر سوچکا تھا جو عمر کے کندھے پر تھا دوسرا نیند میں جھول رہا تھا جسے نازیہ بھابھی نے مشکل سے سنبھالا ہوا تھا ۔۔۔
“ہمیں بھی بہت مزا ایا ۔۔۔ انشاء نے دل سے کہا ۔۔
“لائیں بھابھی میں اٹھا لیتا ہوں ۔۔۔ عیان نے دوسرا بیٹا اپنے کندھے پر اٹھالیا ۔۔۔
پھر دونوں دروازے تک چھوڑنے آۓ ان کو ۔۔۔
جاتے جاتے عمر نے کہا ۔۔۔
“ویکینڈ کو ہمارے گھر انا ہے ڈنر پر انشاء بھابھی ۔۔۔
“بلکل آئیں گے بھائی ۔۔۔ انشاء نے مسکرا کر کہا ۔۔۔
@@@@@
انشاء بےانتہا تھک چکی تھی ۔۔ کمرے میں اتے ہی اپنے لیفٹ سائیڈ لیٹ گئی ۔۔۔
کچھ دیر میں عیان بھی اگیا اپنے سائیڈ پر ۔۔ لائیٹ آف کرکے زیرو بلب ان تھا ۔۔۔
عیان کے کان میں عمر کے الفاظ گونجے ۔۔۔” جہان سے میں دیکھ رہا ہوں مجھے چینج لگ رہا ان کے بہیوو میں ، تم کوشش مت چھوڑنا ۔۔۔
کچھ سوچ کر عیان نے ہاتھ بڑھا کر اسے خود کے طرف کیا ۔ انشاء دانت پیس کے رہ گئی ۔۔۔
“آج اجازت ہے ۔۔۔ عیان نے مبہم لہجے میں اس کے کان کی لو کو چھو کر اپنے ہونٹوں سے ، پھر پوچھا ۔۔۔
“اسے اجازت مانگنا نہیں کہتے ۔۔۔ انشاء نے روڈ لہجے میں کہا ۔۔
وہ اس کے بال کندھوں سے ہٹاتا بولا ۔۔۔
“پھر کسے کہتے ہیں ۔۔۔۔ اس کے گردن پر اپنا لمس چھوڑتے ہوۓ پوچھا ۔۔۔
“میرے احساسات اور میری پرواہ کرنا چھوڑدیں اپ ، بس اپنی ضرورت دیکھیں اور پوری کریں اب سے میرے کسی رویۓ میں احتجاج نہیں دیکھیں گے اپ ۔۔۔ پر اس طرح اپ صرف جسم حاصل کرسکتے ہیں اور روح کا تعلق نہیں بنا سکتے سمجھے اپ ۔۔۔
انشاء کے لیۓ مشکل تھا اس کا لمس برداش کرنا اس لیۓ جتنا غصہ اور نفرت وہ اسے دکھاسکتی تھی دکھارہی تھی ۔۔ وہ اس کے پہلو سے اٹھی غصے سے بولی تھی یہ الفاظ ۔۔
وہ بھی اٹھ بیٹھا اور کتنی دیر گم صم نظروں سے اسے دیکھا پھر سنبھل کر کہا ۔۔۔
“بس ایک لفظ اور نہ کہنا ۔۔۔ اچھی طرح جانتا ہوں تم سے ساری زندگی اجازت مانگتا تمہارا یہی رویہ ہوتا ، اب مجھ سے ایسی کوئی امید مت رکھنا ۔۔۔ اور تمہیں لگتا اس طرح بدتمیزی کر کے تم مجھے بدظن کر سکتی ہو تو یاد رکھنا میری بات ایک دن تم خود پچھتاوگی اپنے ہر اک رویۓ پر ۔۔۔
اتنا کہے کر عیان نے اسے اپنے پہلو میں گرالیا اور دھیمی لہجے میں کہا ۔۔۔
“ایک محبت کے تعلق کو تم نے زبردستی کا تعلق بنادیا ہےانشاء اپنی بےوقوفیوں سے ۔۔۔
انشاء کچھ کہے نہ سکی ۔۔۔
چند محبت بھرے لمس اس کے گردن اور ہونٹوں پر چھوڑ کر وہ اسے خود سے لگایا اور کہا ۔۔۔
“اب سوجاؤ ، مجھے بھی شدید نیند ارہی ہے ۔۔۔
“مجھے اپنے سائیڈ سونا ہے ۔۔۔ چند لمحوں بعد انشاء نے کہا ۔۔۔
“تم نے رونے کا پروگرام بنایا ہوا ہے اس لیۓ یہیں میرے کندھے پر اپنا شغل پورا کرسکتی ہو ۔۔ عیان نے بند آنکھون سے کہا اور وہ حیران ہوئی کہ وہ کیسے اس نے اس کی ڈبا ڈباتی آنکھیں دیکھ لیں بند انکھوں اور نیم اندھیرے میں ۔۔۔۔
انشاء جو اس سے الگ ہوکر سونا چاہ رہی تھی اس کی گرفت مضبوط دیکھ کر ، چپ چاپ اس کے کندھے پر سر رکھ کر سوگئی چند آنسو بہا کر زیادہ اس سے رویا ہی نہیں گیا ۔۔۔
یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ انسان چاہے کتنا بھی دکھی ہوں پر اگر کوئی ساتھ ہو تو انسان سے رویا نہیں جاتا ، یہ تنہائی ہی ہے اسے رونے پر مجبور کر دیتی ہے ۔۔۔ آج انشاء کے پاس تنہائی نہ تھی تو آنسو بھی بہہ نہ سکے زیادہ ۔۔۔
@@@@@@@
صبح فجر کے وقت عیان کی انکھ کھلی ،کچھ دیر اپنے پہلو میں خود سے لگی انشاء کو دیکھا جو اب اس کے گرد اپنے بازو لپیٹے سورہی تھی ۔۔۔ عیان نے ارام سے اس کا سر تکیۓ پر رکھا اور اس کے چہرے کو دیکھا اور سوچا “نیند میں بھی ناراض رہتی ہے یہ لڑکی ۔۔۔
وہ مسکرایا ۔۔۔ وہ جو کبھی کسی لڑکی کی طرف متوجہ نہ ہوا اج یہی لڑکی اسے ہر وقت خود کی طرف متوجہ رکھتی ہے ۔۔۔ “نکاح کی طاقت ہے یہ ورنہ کل رات جو تم نے لفظ استعمال کیۓ ایک لمحے کو غصہ ایا پر اگلے لمحے مجھے تمہارے دکھ نے احساس دلایا تمہارے احساسات کا اس لیۓ خود پر ضبط کرگیا ۔۔۔
“کاش تم سمجھ جاؤ بہت اناپرست ہوں ، اتنا مت للکارنا میری غیرت کو کہ واقعی تم سے بےپرواہ ہوجاؤں ۔۔ عیان نے خود سے کہا ۔۔۔
اس نے انشاء کی پیشانی چومی ۔۔۔ وہ کسمکسائی اور وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھ گیا ۔۔۔
خود باجماعت نماز پڑھ کے ایا انشاء اب تک بےخود ہوکر سورہی تھی ۔۔۔
“انشاء اٹھو نماز کا وقت نکل جاۓ گا میں واک پر جارہا ہوں ۔۔۔
وہ دوسرے بلاوے پر اٹھ گئی اور عیان روم سے چلا گیا ۔۔۔
@@@@@@@
شام میں جلدی اکر عیان نے انشاء سے کہا ۔۔۔
“ریڈی ہوجاؤ شاپنگ پر چلنا ہے ۔۔۔
“میرا موڈ نہیں، نہ مجھے کچھ لینا ہے ، نا کسی چیز ضرورت ہے ۔۔۔ انشاء نے منہ بنایا ۔۔۔ اور کہا تھا ۔۔۔
“تمہارے موڈ کی ایسی کی تیسی ، اٹھو جاؤ ، چینج کرو چلنا ہے ۔۔۔
وہ اسے کلائی سے پکڑ کر کھڑا کیا اور کہا تھا ۔۔۔
“عجیب زبردستی ہے ، کہانا کچھ نہیں لینا ، نا کسی چیز کی ضرورت ہے ، پھر بھی ۔۔۔۔ انشاء نے برے برے منہ بناتے ہوۓ کہا اور یہ عادت اس کی ہمیشہ سے تھی ۔۔۔
وہ اس کی کلائی چھوڑ چکا تھا ۔۔ وہ جانے لگی اوپر کی طرف ۔۔۔
“سنو ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“ہمممم ۔۔۔ وہ مڑی اور سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔
“ایسے منہ بنا بنا کر تھک نہیں جاتی اگر واقعی ایسا منہ ہوجاۓ کیسی لگوگی ابھی جاکر مرر میں دیکھنا ۔۔۔ بلکل بندریا لگتی ہو ۔۔۔ عیان نے ہنستے ہوۓ کہا ۔۔۔
“عیان اپ سدھر جائیں مجھے ایسے مذاق پسند نہیں اور مجھ سے نا کیا کریں ۔۔۔ انشاء نے چڑ کر کہا ۔۔۔
“تم مذاق اڑانے والے کام نہ کرو ۔۔۔ میں مذاق نہیں اڑاؤں گا ۔۔۔ سمپل از دیٹ ۔۔۔ عیان نے کندھے اچکا کر کہا ۔۔
“اس کے منہ لگنا بےکار ہے ۔۔۔ انشاء نے سوچا اور جانے لگی ۔۔۔
“سہی سوچا تم نے ، تو ارام سے ہر بات مان لیا کرو میری ۔۔۔
عیان نے کہا تو وہ حیران ہوئی کیسے اس کی سوچ پڑھ گیا وہ ۔۔۔
اب وہ جلدی سے سیڑھیان چڑھنے لگی ۔۔۔
“میرے کپڑے بھی نکال دینا ۔۔۔ پیچھے سے عیان نے کہا۔۔
لمحے کو رک کر اثبات میں سر ہلایا اور چلی گئی ۔۔
@@@@@@
گاڑی میں دونوں خاموش تھے۔۔۔ انشاء باہر ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اس نے ایک نظر بھی عیان پر نہ ڈالی ۔ آخرکار عیان نے اس خاموشی کو توڑا اور کہا ۔۔۔
” کیا تم اپنے رویہ میں ذرا سا تبدیلی نہیں لا سکتی ، کچھ نرمی لاؤ اپنے اندر میرے لیۓ ۔۔۔
بیک وقت اس کے لہجے میں سوال اور التجا دونوں تھی ۔۔
” جو کام میرے لیے ناممکن ہے اس کی مجھ سے توقع مت کریں ۔۔۔
وہ حیران ہی ہوا اس سگندل لڑکی پر ۔۔۔ اس کے سخت انداز پر ۔۔ وہ واقعی اس رشتے کو کسی طور نبھانا نہیں چاہتی اور ساتھ ساتھ اسے بھی توڑنے کی کوشش کررہی تھی تاکہ عیان بھی نبھا نہ سکے ۔۔۔
“میں اپنے دل پر جبر نہیں کر سکتی ، آپ بہت اچھے ہیں میں جانتی ہوں آپ مجھے پسند نہیں کرتے پھر بھی اس رشتے کو نبھانے کی بہت کوشش کر رہے ہیں خود پر جبر کرکے ۔۔۔ یقین جانیں مجھے ایمان کے بعد کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں ۔۔۔ اپ کی ساری کوشیشین بےکار ہیں جب میں ہی اپ کے ساتھ نہیں ان کوششوں میں ۔۔۔
انشاء باہر دیکھتے ہوۓ اپنی کہے جارہی تھی عیان کی طرف ایک غلط نظر ڈالے بغیر ۔۔
ورنہ دیکھ لیتی وہ اپنے لفظوں سے اس پر کیسے زخم لگا رہی ہے ۔۔ پر اسے تو صرف اپنے ایمان کا غم تھا اسے کوئی پرواہ نہ تھی کسی کی ۔ کاش وہ اپنے درد سے نکل کر دیکھ لیتی عیان کے اندر کتنا درد تھا ۔۔۔
پھر بھی وہ اپنی کہے جارہی تھی کیونکہ اج اسے عیان نے ٹوکا جو نہ تھا ۔۔۔
” یک طرفہ کوششیں انسان کو نڈھال اور بیزار کر دیتی ہیں۔۔ اپ کے لیۓ اچھا یہی ہوگا مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں ۔۔۔ اپ بابا کی فکر چھوڑیں ، میں ان کو سنبھالوں گی ، اپ اپنی پسندیدہ ہمسفر چن کر ۔۔
وہ اسٹیرنگ پر اپنی گرفت مضبوط کر چکا تھا ۔۔۔۔ اور سرد لہجے میں کہا ۔۔
“بس کردو انشاء ، بغیر سوچے سمجھے اتنے بڑے بول نہ بولو ۔۔ کل کو خود کچھ بولنے کے قابل نہ رہو میرے سامنے ۔۔۔ لمحے کو رک کر عیان نے دوبارہ کہا ۔
“جب دل چاہا کرہی لوں گا شادی اپنے پسندیدہ ہمسفر سے تین دفعہ سے زیادہ کہے چکی ہو تم ، اب مجھے بھی یاد ہوگیا ہے ۔۔۔ پھر بھی تم کو تو نہیں چھوڑوں گا یہ بات ذہن نشین کرلو ۔۔۔ آئندہ مت کہنا کیونکہ مجھے یاد ہوگیا ہے تم پوری دل کی آمادگی سے اجازت دے چکی ہو ۔۔۔
اس سے آگے نا وہ کچھ بول سکا اور نہ وہ کچھ بولی۔۔ خاموشی سے سفر گزرنے لگا۔۔
وہ اس کے لفظوں پر غور کرتی رہ گئی۔۔۔
@@@@@@@
شاپنگ مال پہنچ کر وہ چپ ہی چپ تھی ۔۔۔ عیان بات کرتا تو جواب دیتی ۔۔ عیان نے اپنی پسند سے کافی ضرورت کی چیزین اس کی لیں کچھ ہیوی کچھ کییول ڈریس لیۓ میچنگ پرس اور جوتے لیۓ ۔۔۔ انشاء کا رویہ غیر دلچسپی لیۓ تھا وہ مرد تھا منٹوں میں پسند کرکے ڈن کررہا تھا اور بل پے کررہا تھا ۔۔۔ اس لیۓ ڈیڈھ گھنٹے کے اندر وہ کافی کچھ لے چکا تھا ۔۔۔
اب جیولری شاپ میں وہ دونوں کھڑے تھے ۔۔۔ جوہری بہتر سے بہتریں ڈیزائنگ دکھا رہا تھا ۔۔۔ انشاء کا رویہ ہنوز وہی تھا ۔۔۔ عیان کو افسوس سا ہوا ۔۔۔ اسے جیولری کا ایکسپرینس نہ تھا ۔۔۔ اس لیۓ سوچ میں پڑگیا کیا لے کیا نہ لے ۔۔۔
“واٹ اے پلیزنٹ سرپرائز نیو کپل آن شاپنگ واؤ۔۔۔ چینا نے اچانک آ کر کہا اور دونوں کو چونکا دیا ۔۔
عیان پھیکا مسکرایا ، دونوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا ۔۔۔
چینا نے چہک کر اس کے سلام کا جواب دیا ۔۔۔ انشاء اس سے نارمل ملی ۔۔۔
“کب آۓ کراچی ایوینٹ سے ۔۔۔ کیسا رہا ایوننٹ ۔۔۔ عیان نے پوچھا ۔۔۔
“کل ہی آئیں ہیں ۔۔۔فنٹاسٹک رہا ایونٹ ۔۔۔ چینا نے ہنس کر کہا ۔۔۔
“کل آۓ اور اج شاپنگ حیرت ہے ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“یو نو فرینڈس ۔۔۔ وہ سامنے والی شاپ میں ہیں ، میں نے آپ دونوں کو دیکھا تو سوچا مل لوں ۔۔۔ چینا نے خوشی سے کہا ۔۔۔
“بہت اچھا کیا ۔۔۔ عیان نے مسکرا کر کہا انشاء تو وہ بھی نہ کرسکی ۔۔۔ ویسے بھی چینا کا پورا دھیان عیان کی طرف ہی تھا ۔۔۔
“انکل آنٹی بھی اگۓ یا اب تک وہیں ہیں ۔۔۔ عیان نے پوچھا چینا سے ۔۔۔
“مما کا تو مت پوچھیں انہوں نے وہیں بسیرا کرلیا ہے ۔۔۔ ہم پاپا کے ساتھ آئے ہیں وہ تو اب بھی وہاں ہیں ایک ویک کے لیۓ ۔۔۔
“ویسے آنٹی کا لانگ اسٹے نہیں ہوگیا کراچی ۔۔۔ اب کے عیان نے انشاء کی آنکھوں میں دیکھ کر چینا سے پوچھا ۔۔
“پندرہ دن تو رہ چکی ہیں الریڈی ۔۔۔ چینا نے کندھے اچکاۓ ۔۔۔
انشاء شرمندہ ہوئی اپنے اس دن کے جھوٹ پر جو وہ عیان سے بول چکی تھی کہ وہ فریحہ آنٹی کے لیۓ تیار ہوئی تھی ۔۔۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ عیان اس دن بھی جانتا تھا کہ فریحہ آنٹی لاہور میں ہے ہی نہیں ۔۔۔
” اچھا چینا میری کچھ ہیلپ کردو جیولری لینے میں ۔۔۔ انشاء کو بھی سمجھ نہیں ارہا ۔۔۔ عیان نے ریکوئیسٹ کی ۔۔۔
” وائے ناٹ ۔۔۔ شیور ۔۔۔ وہ چہکی شاید اسے خوشی ہو رہی تھی پہلی دفعہ عیان نے اس سے کچھ کہا ہے ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں انہوں نے اچھی جیولری سلیکٹ کر لی ۔۔۔
” شکریہ چینا تم نے بہت ہیلپ کردی تمہاری چوائس تو بہت زبردست ہے ۔۔۔
عیان کی بات پر وہ عجیب انداز میں مسکرائی اور کہا ۔۔۔
” چوائس تو میری ہمیشہ سے زبردست ہی تھی پر قسمت نے ساتھ ہی نہیں دیا کیا کریں ۔۔۔اس نے کندھے اچکاتے ہوۓ کہا تھا۔۔ اس کے لہجے کے کرب کو عیان نے دل سے محسوس کیا ۔۔۔ نارسائی ہی نارسائی تھی اس کی انکھوں میں ۔۔۔
عیان اب جب خود تکلیف سے گزر رہا تھا تو اب اسے احساس ہو رہا تھا کسی اور کی تکلیف کا ۔۔۔
یہ لڑکی لندن میں اس کی یونیورسٹی آیا کرتی تھی خاص اس سے ملنے کے لیے اور کبھی بہانے سے بلایا کرتی تھی اور وہ صرف وحید انکل کے لیۓ اس لڑکی کی بےجا ضد مان لیا کرتا تھا ۔۔۔کتنا خوار ہوتی تھی وہ عیان کے پیچھے ۔۔ وہ جان کر بھی انجان بنا رہا کیونکہ اسے وہ وقت مناسب نہیں لگتا تھا ان سب چیزوں کے لیۓ ۔۔۔
وہ اس کی دیوانگی سے اچھی طرح واقف تھا ۔۔۔ اج جانے کیوں عیان کو اس کے لیۓ دکھ ہوا ۔۔۔
“اپنا خیال رکھنا چینا اور ہمارے ساتھ چلو ڈنر کرکے میں خود چھوڑ دوں گا گھر تمہیں ۔۔۔ عیان نے دل سے اسے آفر کی ۔۔۔
“نہیں تھینک یو ، مجھے کباب میں ہڈی بننے کا شوق نہیں ۔۔۔ انجواۓ وتھ یور وائف ۔۔۔ اللہ حافظ ۔۔۔
دل کتنا کہے رہا تھا چلی جا مان لے ، اس دل کے شہزادے کی آفر پر دل کی خوشفہمی کو توڑنا ضروری تھا ۔۔ وہ شہزادا اب کسی اور کا تھا ۔۔۔
“اللہ حافظ ۔۔۔ بوجھل دل سے عیان نے کہا ۔۔۔
چینا چلی گئی ۔۔۔ کتنی دفعہ دل نے کہا پلٹ پر دیکھ ایک دفعہ پر وہ پتھر کی نہیں ہونا چاہتی تھی ۔۔۔ اسے احساس ہوگیا تھا اس کے مان باپ کتنے اچھے ہیں پھر وہ کیسے کسی کے ساتھ برا کرنے کا سوچ سکتی تھی اگر واقعی وہ ان کی اولاد ہے تو ۔۔
اتنا تو وہ بھی جان چکی تھی ان چند لمحوں میں عیان اور انشاء کو دیکھ کر وہ دونوں دوکشتی کے مسافر ہیں جو بظاہر ساتھ چل رہے ہیں پر جدا راستوں کے راہی ہیں ۔۔۔ پر وہ ان کو ملا تو نہیں سکتی پر جدا کرنے کا سوچنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔
پیمینٹ کرکے وہ دونوں شاپ سے باہر اگۓ ۔۔۔ انشاء نے غور سے دیکھا عیان کو جو واقعی افسردہ لگا اسے “تو کیا واقعی وہ اتنا حساس دل رکھتا ہے جو چینا کا بھی دکھ محسوس کرتا ہے ۔۔۔ کیا اتنا اچھا شخص چاہنے کے قابل نہیں ۔۔۔ انشاء کے دل سے آواز آئی ۔۔۔ وہ حیران تھی اپنے دل کی صدا پر ۔۔۔
دونوں گھر اگۓ بغیر ڈنر کے ، ناعیان نے کہا ، نا انشاء نے کہا ۔۔۔۔
@@@@@@@@
ویک اینڈ پر وہ دونوں عمر کی طرف ہو آۓ تھے ۔۔۔ انشاء کو کافی مزا آیا تھا نازیہ بھابھی کے ساتھ ۔۔۔
اس کے دو دن بعد عیان نے کہا ۔۔۔” میرے کچھ فرینڈس نے رکھا ہے پی سی پر ڈنر ۔۔۔
“مجھے نہیں چلنا ۔۔۔ انشاء نے کہا اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ۔۔۔
” مجھے شو پیس سمجھ لیا ہے آپ نے ۔۔۔ مجھے نہیں بننا آپ کے دوستوں کی گیٹ ٹو گیدر کا حصہ ۔۔۔۔ انشاء کی طبیت عجیب ہورہی تھی ۔۔۔ وہ بجاۓ اسے بتانے کے اپنی کہے جارہی تھی ۔۔۔
“کیابکواس کر رہی ہو تم ۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے وہاں صرف میرے دوست ہوں گے ، دماغ درست ہے تمہارا ، وہاں پر ان کی مسز بھی ہونگی ۔۔۔ عیان نے بھی اسی کے لہجے میں جواب دیا۔۔۔
“مجھے بیزاریت سی ہوتی ہے ۔۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔
“کوئی ضرورت نہیں میرے ساتھ چلنے کی ، میں خود چلا جاؤں گا ، کچھ بھی بہانہ کرلوں گا۔۔۔ عیان نے غصے سے کہا ۔۔۔
اور آفیس کے لیۓ نکل گیا ۔۔۔ وہ اسے جاتا دیکھتی رہی ۔۔۔
“انشاء بیٹی جو تم کررہی وہ ٹھیک نہیں ۔۔۔ تم اسے مت اتنا آزماؤ وہ تمہیں چھوڑ ہی نہ دے یا تم سے بیزار ہوجاۓ ۔
زینب بی کی آواز پر وہ پلٹی ۔۔۔
“عورت کی عزت اس کے شوہر سے ہوتی ہے ، دنیا میں جو پہلا رشتہ بنا تھا وہ میان بیوی کا تھا ۔۔۔ دنیا میں کوئی بھی مرد ہو یا عورت اکیلے تنہا نہیں رہ سکتے یہی رشتہ دونوں کو باندھتا ہے ۔۔۔تم مسلسل اپنے شوہر کے احساسات کو پاؤں سے کچل رہی ہو ۔۔۔ تم زیادتی پر ہو انشاء۔۔۔
وہ حیران ہوئی ان کی بات پر ۔۔۔ وہ خاموشی سے سن بھی رہی تھی سمجھنے کی کوشش بھی کررہی تھی ان کی باتوں کو ۔۔۔
“تمہیں جانا چاہیۓ اس کے ساتھ ۔۔۔ زینب بی نے کہا ۔۔
“جی زینب بی ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
زینب بی نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے ڈھیروں دعائیں دیں ۔۔۔
شام کے بعد وہ تیار ہونا شروع ہوئی ۔۔۔ رات آٹھ بجے وہ ریڈی تھی ۔۔۔ ریڈ بلیک کامبینیشن ڈریس میں ۔۔۔
نو پھر دس بج گۓ پر عیان نہ ایا ۔۔۔ اب فکر نے اسے گھیر لیا ۔۔۔ ” کیا واقعی وہ سیدھا آفیس سے چلا گیا دعوت پر۔۔۔ صدمے سے اس نے سوچا ۔۔
” تم فون کرو اسے ۔۔۔ زینب بی نے کہا ۔۔۔
انشاء نے ان کے کہنے پر کال ملائی پر نمبر بند جا رہا تھا ۔۔
گیارہ بجے تک وہ اس کا مسلسل انتظار کر رہی تھی زینب بی بی اس کے پاس بیٹھی تھی ۔۔۔ وہ بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں اسی لیے انشاء نے ان کو آرام کرنے کے لیے بھیج دیا ۔۔
اب فکر سے برا حال تھا انشاء کا ۔۔۔رات کے بارہ بج گۓ تھے۔۔۔
کئی دفعہ اس کے موبائل پر کال کر چکی تھی پر اب تک اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔۔
“اس سے پہلے عیان نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا میرے ساتھ ۔۔
انشاء نے دکھ سے سوچا ۔۔۔ اب آنسو نکل آۓ اس کی انکھوں سے ۔۔۔ اور یہ پہلی دفعہ تھا کہ انشاء ایمان کے بجاۓ عیان کے لئے رو رہی تھی ۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...