“تم جیسا کہو گی ویسا ہی بن جاؤں گا یار” وصی چیئر کھسکا کر اس کے قریب بیٹھا۔۔
نور نے مسکرا کر اسے دیکھا۔۔
“مگر پلیز ناول پڑھنے کا مت کہنا۔۔۔۔۔” وصی نے منہ بنایا
“ٹھیک ہے مگر جیسا میں کہوں گی وہسا ہی کرو گے” نور نے انگلی دکھائی۔۔
“جو حکم۔۔۔” وصی نے سر جھکاتے ہوئے کہا
اور نور ہنس دی۔۔
اب تو ہاں کردو۔۔۔” وصی نے کہا
“ہاں۔۔۔۔” نور نے ہنس کر کہا۔۔
“سچ میں۔۔۔” وصی اچھلا۔۔
“آئی لو یو وصی۔۔۔مجھے پتا ہی نہیں چلا مجھے کب تم سے محبت ہوئی۔۔” نور نے سادگی سے کہا
اور اس کے کاندھے پر سر رکھ دیا۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی جب دروازہ ہلکی سی دستک پر کھل گیا
اور شفی اندر داخل ہوا۔۔
وہ اسے دیکھ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
“آ۔۔آپ۔۔۔یہاں” حور چونکی۔۔
“ہاں کیوں میں یہاں نہیں آسکتا؟” شفی نے پوچھا۔۔
“دیکھیں میں نے۔۔کچھ۔۔۔نہیں کیا وہ وصی نے ہی مرچیں ڈالی تھی۔۔۔۔” حور نے نظریں جھکائی۔۔
“مجھے پتا ہے یہ اسی کی حرکت تھی۔۔” شفی نے سنجیدگی سے کہا
“اصل میں مجھے کافی پینی تھی۔۔پھپھو اور ددو باہر گئی ہیں۔۔تم بنا دو گی؟” شفی نے مسکرا کر پوچھا
“جی۔۔جی بناتی ہوں” حور کہتے ساتھ باہر نکل گئی۔۔
اور شفی بھی اس کے پیچھے چل دیا۔۔
وہ کچن میں جا کر کافی بنانے لگی۔۔
شفی خاموشی سے پیچھے کھڑا ہوگیا۔۔
“کلاسس کیسی چل رہی ہے تمہاری” شفی نے پوچھا۔۔
“اچھی۔۔” حور نے مختصر کہا۔۔
“حور ایک بات پوچھوں؟” شفی نے اسے بغور دیکھا
“جی۔۔” حور نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
“تم نے کبھی سوچا ہوگا میں اتنا بڑا ہوں تم سے اور تم چھوٹی ہو، گھر والوں نے زبردستی کیوں کیا رشتہ وغیرہ وغیرہ۔۔” شفی نے سینے پر ہاتھ باندھے اسے کھوجتی نظروں سے دیکھا
“نہیں۔۔۔آپ اتنے بڑے بھی نہیں ہیں۔۔اور ویسے بھی لڑکا بڑا ہوتا ہے” حور نے کہا
“اتنا بڑا تو نہیں ہوتا۔۔” شفی نے شرارت سے کہا
“کیوں نہیں ہوتا پانچ چھ سال کا فرق تو چلتا ہے۔۔اور ویسے بھی عمر سے کیا ہوتا ہے لڑکا اچھا ہونا چاہیے۔۔تو پھر۔۔” حور بے دھیانی میں بولتی چلی جارہی تھی۔۔
احساس اسے تب ہوا جب شفی اس کے قریب آکر کھڑا ہوا۔۔
اس نے یک دم نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
وہ آنکھوں میں شرارت لیے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
حور نظریں جھکا گئی۔۔
“بولو۔۔میں نے پہلی بار تمہیں یو بولتے دیکھا ہے” شفی نے مسکرا کہا۔۔
اور وہ دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی۔۔
“تمہیں پتا ہے حور۔۔تم بہت خوبصورت ہو۔۔اور جب تم بولتی ہو تو اور بھی پیاری لگتی ہو۔۔” شفی کی نظر اس کے جھکے ہوئے ٹکی تھی۔۔
“مگر پرابلم یہ ہے کہ تم بولتی ہی نہیں ہو” شفی نے ہنس کر کہا۔۔
“یہ آپ کی کافی۔۔” حور نے اس کی طرف کپ بڑھایا۔۔
جسے اس نے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔۔
اور حور بنا کچھ کہے کچن سے نکل گئی۔۔
“پورا دن باہر گزار آئی اب کیا ضرورت تھی آنے کی؟” ددا نے ددو کو باہر سے آتا دیکھ کہا۔۔
“پورا دن کہاں سے ہوگیا۔۔بارہ بجے ہیں ابھی” ددو نے کہا
“ہاں تو دوپہر ہونے کو آئی ہے۔۔یہ کوئی ٹائم ہے” ددا نے غصہ سے کہا
“ہم کوئی سیر سپاٹے پر نہیں گئے تھے۔۔کسی کی طبیعت پوچھنے گئے تھے اب دیر تو لگ ہی جاتی ہے” ددو نے ناگواری سے کہا
“ہاں اور بس تمہیں بہانا مل گیا۔۔”
“تو خود چلے جاتے۔۔اب رشتے داری کو نبھانا بھی پڑتا ہے” ددو نے غصہ سے کہا
“تو کسی کے گھر جا کر بیٹھ ہی جاؤ۔۔وہ بھی تنگ ہوگئے ہوں گے”
ددا نے بھی تلخ لہجے میں کہا
“آپکو تو بہانا چاہیے بس لڑنے کا۔۔” درو نے کہا
“مجھے کوئی شوق نہیں تم سے لڑنے کا۔۔تم لڑ رہی ہو” ددا نے کہا
میں لڑ رہی ہوں۔۔اب آتے ہی کون سنانا شروع ہوا تھا؟”
ددو نے غصہ سے پوچھا۔۔
وصی جو صبح سے سورہا تھا ان کی لڑائی سے نیند ہمیشہ کی طرح پھر سے خراب ہوئی تو باہر نکل آیا۔۔
“یار ددا کیا ہوگیا۔۔ادھر وہ فوج والے سونے نہیں دیتے یہاں آپ” وصی نے کہا
“تو چپ کر۔۔۔۔شفی بھی تو ٹائم سے اٹھ گیا تو بھی اٹھ جاتا” ددا نے ٹوکا
“ددو دیکھ رہی ہیں نا آپ۔۔اب یہ میرے سونے پر بھی پابندی لگا رہے ہیں” وصی نے ددو کو دیکھتے ہوئےکہا۔۔
“ان کا تو یہی کام ہے سب پر روک ٹوک کرنا۔۔لڑنا جھگڑنا” ددو نے کہا۔۔
“اور تمہارا کیا کام ہے دوسروں کے گھر جا کر۔۔وہیں بس جانا” ددا نے الٹ کہا
اور دونوں میں پھر سے جھگڑا شروع ہوگیا۔۔
اور وصی تنگ آکر پھر سے اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔۔
تیار ہوا اور گاڑی لے کر باہر نکل گیا۔۔
اس کا رخ نور کے کالج کی طرف تھا۔۔
“یہ وصی کہاں چلا گیا؟” شائستہ بیگم نے اس کی گاڑی کو گیٹ سے نکلتے ہوئے دیکھا۔۔
“گیا ہوگا کسی لڑکی سے ملنے۔۔” شفی نے ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے جواب دیا۔۔
“لڑکی کون؟” شائستہ بیگم بھی وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔۔
“بتایا تو تھا میں نے مال میں دیکھا تھا لڑکی کے ساتھ۔۔۔پھر منگنی والے دن بھی وہ آئی تھی۔۔” شفی نے ریموٹ سے آواز کم کرتے ہوئے کہا
“پھر تو مجھے دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے شفی” شائستہ ںیگم نے کہا
“کالا کچھ نہیں پوری دال کالی ہے۔۔بتا رہا ہوں میں نظر رکھ لو” شفی نے سنجیدگی سے کہا
“ہاں اگر پسند کرتا ہے تو بتائے نا پتا تو چلے ہمیں بھی کون ہے کیسی ہے؟” شائستہ بیگم نے کہا
پتا تو میں لگا ہی لوں گا” شفی نے کہا
“اچھا کھانا بن گیا؟” شفی نے پوچھا
“ہاں بس لگا رہی ہوں آجاؤ تم بھی” وہ کہتی اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔
۔۔ نور کاندھے پر بیگ لٹکائے۔۔
یونیورسٹی کےگیٹ سے باہر نکلی۔۔
سامنے ہی وصی گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔۔
نور اس کے قریب آئی۔۔
“ہیلو مسٹر۔۔یہاں وہاں کیا دیکھ رہے ہو؟” نور نے پوچھا۔۔
“ظاہر ہے لڑکیاں” وصی پاس سے گزرتی لڑکیوں کو دیکھ کر شرارت سے کہا
“اوئے۔۔۔” نور اس کا گریبان پکڑتے ہوئے غرائی۔۔
اور وصی زور سے ہنسا۔۔
“مزاق کر رہا ہوں یار۔۔تمہارا انتظار کر رہا تھا۔۔” وصی نے کہا۔۔
“چلو پھر۔۔” وہ کہ کر آگے بڑھ گئی۔۔
“گاڑی میں بیٹھو نا۔۔۔” وصی نے اشارہ کیا
“بس آنے والی ہوگی میری۔۔”وہ چلتی جارہی تھی۔۔
وصی بھی اس کے ساتھ چل دیا۔۔
“مگر گاڑی میں کیوں نہیں جارہی؟” وصی نے پوچھا
“نہیں یار اچھا نہیں لگتا۔۔ہلے بھی تم چھوڑنے گئے تھے تو میری مما کو اچھا نہیں لگا۔۔لوگ باتیں بناتے ہیں” نور نے بینچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
اور بس کا انتظار کرنے لگی۔۔
وصی بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔۔
“لگتا ہے آنٹی سے بات کرنی پڑے گی مجھے” وصی نے کہا
“کیا بات؟” نور نے اسے یکھا۔۔
“یہی کہ میں اسے ڈراپ کردوں تو آپ اعتراض مت کریں۔۔۔آخر کو ایک دن میں نے ہی شادی کر کے لے جانا ہے اسے” وصی نے سادگی سے کہا۔۔
“ہاہاہا۔۔۔۔اچھا اور خود تم فوج میں چلے جاؤ گے۔۔۔پرمیشن لینے کا فائدہ۔۔مجھے تو بس میں جانے دو۔۔” نور نے ہنس کر کہا۔۔
“یار میں نہیں جا رہا واپس۔۔” وصی نے اکتا کر کہا
“کیوں؟” نور نے پوچھا۔۔
“مجھے پسند نہیں فوج۔۔” وصی نے ناگواری سے کہا
“لیکن مجھے پسند ہے اور میں چاہتی ہوں تم واپس جاؤ۔۔”
نور نے مسکرا کر کہا
“تم رہ لو گی میرے بنا؟” وصی نے پوچھا۔۔
“ہاں۔۔۔میں تمہارا بے تابی سے انتظار کیا کروں گی۔۔جب تم آؤگے تو سب سے پہلے میں تمہیں اسٹیشن پر کھڑی ملوں گی۔۔بانہیں پھیلا کر۔۔۔تمہارا انتظار کروں گی ” نور نے چہک کر اپنے خیالات بتائے۔۔
وصی لمحہ بھر اس کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھتا رہا۔۔
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں کھوئے اپنے لیے محبت دیکھ رہے تھے۔۔
تبھی بس آکر رکی اور ان دونوں کی نظروں کا تسلسل ٹوٹا۔۔
وہ بیگ کاندھے پر ڈالتی کھڑی ہوئے۔۔
“میری بس آگئی۔۔” نور کہتی جانے کے لیے پلٹی ہی تھی کہ اسنے اپنے ہاتھ پر لمس محسوس کیا۔۔
“نور۔۔۔” وصی کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھا
اس نے پلٹ کر وصی کو دیکھا۔۔
جو محبت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
“آئی لو یو۔۔۔” وصی نے نے کہتے ساتھ اس کے ہاتھ پر اپنی محبت کی مہر ثبت کی۔۔
نور نے لمحہ بھر اپنی آنکھیں بند کی۔۔
نور کا دل نہیں کر رہا تھا۔۔وہ یہ لمحہ چھوڑ کر چلی جائے۔۔
مگر اس کی بس آگئی تھی۔۔
“آئی لو یو ٹو وصی۔۔۔نور کی زندگی وصی کے بنا ادھوری ہے۔۔” نور نے آہستگی سے کہا۔۔
وصی کھڑا مسکرانے لگا۔۔
اور اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔
وہ ہاتھ ہلاتی بس میں چڑھ گئی۔۔
بس اسٹارٹ ہوتی وصی کی نظروں سے دور جانے لگی۔۔
اور وصی مسکراتا واپسی کے لیے پلٹ گیا۔۔
کہ یک ایک زار دار دھماکے کی آواز وصی کے کانوں کو چیرتی ہوئی گئی۔۔
وہ آواز اتنی تیز تھی۔۔مانو زمین ہل گئی۔۔
وصی نے پلٹ کر دیکھا۔۔جو اسے اپنے پاؤں سے زمین نکتی محسوس ہوئی۔۔
سامنے ہی ہر طرف آگ تھیجس بس میں نور چڑھی تھی اس بس میں بم بلاسٹ ہوا تھا۔۔۔
وصی کو اپنی آنکھوں کے آگے اندھیرا آتا دکھائی۔۔۔
وہ حواس کھوتا تیزی سے بھاگتا آگے بڑھا۔۔۔
کتنے ہی لوگ زخمی پڑے تھے۔۔
کتنے ہی مر چکے تھے۔۔
لوگوں کا رش لگ چکا تھا۔۔۔
وہ یہاں وہاں بھاگتا نور کو تلاش کر رہا تھا۔۔
“نور۔۔۔نور” وہ مسلسل چیخ رہا تھا۔۔
آنسوں اس کی آنکھوں سے بہ رہے تھے۔۔
اس کے حواس اس کے قابو میں نہیں تھے۔۔
کتنی ہی دیر وہ ڈھونڈتا رہا۔۔۔
مگر اسے نور کا نام و نشان نہیں ملا۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں ایمبولینس بھی آگئی تھی۔۔
زخمیوں اٹھایا جارہا تھا۔۔
وہ وہیں بیٹھا رونے لگا۔۔
اسے ایک پل میں اپنی دنیا تباہ ہوتی محسوس ہورہی تھی۔۔
روتے روتے ہی اس کی نظر پاس سے گزرتی ایک لاش پر پڑی۔۔
اسٹریچر پر لیتی اس بے حس و حرکت وجود پر اس کی نگاہ پڑی۔۔
ہاں وہ نور ہی تھی۔۔
وہ نور کو پہنچاننے میں دھوکہ نہیں کھا سکتا تھا۔۔
وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔۔۔
شفی کھانے سے فارغ ہوا تو پھر سے ٹی وی آن کر کے بیٹھ گیا۔۔
ریموٹ ہاتھ میں تھامے۔۔اس کی نظریں ٹی وی پر۔۔
جس میں بار بار بم بلاسٹ کی نیوز دی جا رہی تھی۔۔
تبھی ددا بھی وہاں آکر بیٹھے۔۔
یہ کہاں کی نیوز ہے۔۔۔؟” ددا نے پوچھا۔۔
“ددا یہیں کی ہے۔۔ پتا نہیں کتنی جانیں گئی ہوں گی” شفی نے دکھ سے کہا۔۔
“حکومت کو دہشتگردی کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے” شائستہ بیگم جو ابھی ابھی وہاں آئی تھی کہنے لگی۔۔
“وصی۔۔کہاں ہے” ددو کو فکر ہوئی۔۔
“شان کے پاس گیا ہوگا” ددا نے کہا۔۔
“کافی دیر سے گیا ہوا ہے اب تک تو آجانا تھا شام ہورہی ہے کھانا بھی نہیں کھایا اس نے” ددو نے فکر ظاہر کی۔۔
“میں فون کرتا ہوں۔۔” شفی نے فون جیب سے نکالتے ہوئے کہا۔۔
ہاں بول جلدی گھر آئے” ددو نے کہا۔۔شفی مسلسل کال ملا رہا تھا مگر کال رسیو نہیں ہوئی۔۔
وہ جب گھر پہنچا تو رات ہورہی تھی۔۔
وہ مرے قدموں سے گھر میں داخل ہوا۔۔
سامنے ہی شفی کھڑا تھا۔۔
“وصی۔۔۔کہاں تھا پورے دن سے پتا ہے کتنا پریشان ہوئے ہم شان سے بھی معلوم وہاں بھی نہیں تھا تو۔۔اوپر سے فون بھی نہیں اٹھا رہا تھا۔۔” شفی اسے سنائے جارہا تھا۔۔
وہ خاموشی سے سنتا رہا۔۔
شفی کی نظر اس کے چہرے پر پڑی۔۔
جہاں سنجیدگی تھی۔۔
آنکھیں بہت رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی تھی۔۔
“وصی۔۔تو رویا ہے؟” شفی نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا
وہ بنا کوئی جواب دیے کمرے میں چلا گیا۔۔
شفی اس کے پیچھے لپکا۔۔
“وصی۔۔بتا۔۔” شفی نے اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا۔۔
اسے وصی کی فکر ہورہی تھی۔۔
“وصی۔۔وصی۔۔” شفی نے پھر پکارا
وہ بنا کچھ کہے شفی کی طرف لپکا اور اسکے گلے لگ کر رونے لگا۔۔
اسے روتا دیکھ شفی پریشان ہوا۔۔
“وصی۔۔وصی کیا ہوا؟” شفی نے پوچھا
“مگر وہ بنا کوئی جواب دیے رو رہا تھا۔۔
“وصی۔۔۔کیوں رو رہا ہے بتا۔۔وصی۔۔” شفی اس سے بار بار پوچھ رہا تھا
“شفی وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔شفی۔۔” وصی کے رونے میں شدت آگئی تھی۔۔
اسے روتا دیکھ شفی کا دل کٹ کر رہ گیا۔۔۔
“وصی۔۔کون۔۔۔ہوا کیا؟” شفی نے پوچھا
“نور۔۔۔نور مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی گئی۔۔اس نے وعدہ کرنے سے پہلے ہی توڑ دیا۔۔یار وہ بے وفا تھی۔۔” وصی نے اپنی ہتھیلی کی پشت سے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
“وصی۔۔کیا ہوا۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔یہاں بیٹھ تو” اس نے اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے کہا۔۔
اور وصی اب کچھ سمبھل گیا تھا اس نے اسے ساری تفصیل بتائی۔۔
وہ وصی کے کمرے سے نکلا تو ددو کو سامنے سے آتے دیکھا۔۔
“وصی آگیا؟” ددو نے پوچھا
“ہاں ددو” شفی نے جواب دیا
“پوچھو تو یہ تھا کہاں پورے دن سے۔۔نا گھر کا حوش نا کھانے کا” ددو نے غصہ سے کہا۔۔
“ددو آپ چلیں رہنے دیں اسے ۔۔۔” شفی انہیں کاندھوں سے تھامتا لے جانے لگا۔۔
“لیکن مجھے۔۔۔” ددو نے کچھ کہنا چاہا۔۔
“صبح بات کرنا ددو وہ سوگیا۔۔” شفی نے انہیں سمجھانا چاہا۔۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ گھر والے وصی سے ملیں۔۔
اور اس کی حالت دیکھ انہیں دکھ ہو۔۔
وہ جانتا تھا وہ کس تکلیف سے گزر رہا ہے۔۔
وہ ددو کو ان کے کمرے میں بھیج کر کچن کی طرف آیا۔۔
تبھی اس کا ٹکراؤ ہوا۔۔
سامنے حور کھڑی تھی۔۔
“سوری۔۔” شفی نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا۔۔
اس کی آنکھوں کے سامنے وصی کا روتا چہرہ بار بار آرہا تھا۔۔
“کیاہوا؟” حور نے پوچھا ۔
“ہاں۔۔نہیں کچھ نہیں۔۔” شفی کہتا آگے بڑھ گیا۔۔
اور فریج سے پانی کی بوتل نکالی۔۔
“آپ پریشان لگ رہے ہیں” حور نے کہا۔۔
وہ پانی گلاس میں ڈال رہا تھا۔۔
“نہیں ہوں پریشان جاؤ سوجاؤ۔۔” شفی نے بے رخی سے کہا۔۔
حور کو اس کے لہجے سے دکھ ہوا۔۔
وہ بنا کوئی جواب دیے کچن سے نکل گئی۔۔
اور شفی کی نظروں میں پھر وصی کا چہرہ لہرایا۔۔
وہ بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔
اس نے اپنی آنکھیں بند کی۔۔تو نور کا ہنستا چہرہ اس کی سامنے آگیا۔۔
اس نے جھٹ آنکھیں کھولی۔۔
ایک بار پھر سے اس کی آنکھوں میں نمی امڈ آئی۔۔
اور آنسوں رفطار سے اس کے گال پر لڑھک گئے ۔
(وصی کے بنا نور کی زندگی ادھوری ہے)
نور کا جملہ اس کے کانوں سے ٹکرایا
“وصی کی زندگی بھی نور کے بنا ادھوری ہے۔۔نور تم نہیں جاسکتی۔۔” وصی نے خود کلامی کی۔۔
“نور۔۔میں مرجاؤں گا پلیز واپس آجاؤ۔۔تم ایسے کیسے چلی گئی۔۔تم نے ایک بار بھی نہیں سوچا وصی کیسے رہے گا”
وصی روتے ہوئے کہنے لگا۔۔
وہ پوری روتا رہا۔۔
نیند اس سے ناراض تھی۔۔
جیسے نور اس سے خفا ہوکر چلی گئی۔۔
ایک لمحہ تھا بس جس نے اس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا تھا
اس سے وہ خوشی چھین لی گئی تھی۔۔جس کے بعد جینا اسے عذاب لگ رہا تھا۔۔
اس کا دل کر رہا تھا وہ بھی خود کو ختم کرلے۔۔
تبھی اس کے کانوں میں فجر کی آذان کی آواز آئی۔۔
اس نے اٹھ کر وضو کیا۔۔
نماز ادا کی۔۔
جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسوں بہ نکلے۔۔
اس کے پاس الفاظ نہیں تھے۔۔
وہ کیا مانگتا۔۔
وہ جو مانگنا چاہتا تھا
وہ تو ہمیشہ کے لیے چلی گئی تھی۔۔
وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ جھکائے شدت سے رو دیا۔۔
اس کی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگی۔۔
وہ سب ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔۔
“وصی اٹھ گیا؟” ددو نے پوچھا
“نہیں۔۔اتنی جلدی کہاں اٹھتا ہے وہ” شائستہ بیگم نے چائے کپ میں ڈالتے ہوئے کہا۔۔
“پتا نہیں کل پورا دن کہاں تھا نا کھانا کھایا۔۔اور رات کو بھی اپنے کمرے میں جا کر سوگیا۔۔” ددو نے کہا
“اس کے سر میں درد تھا ددو میں نے اسے دوا دے کر سلا دیا تھا” شفی نے سنجیدگی سے کہا
“اچھا مجھے کیوں نہیں بتایا۔۔طبیعت تو ٹھیک ہے نا اس کی؟” ددو کو فکر ہوئی
“ہاں ددو وہ ٹھیک ہے۔۔میں اسے اٹھا کر آتا ہوں” شفی اٹھ کھڑا ہوا
“ناشتہ تو کرلے۔۔” شائستہ نے کہا
“آتا ہوں پھر کروں گا” شفی کہتا وصی کے کمرے کی طرف چل دیا۔۔
اس نے دروازے پر دستک دی۔۔
تبھی دروازہ کھل گیا۔۔مطلب کہ وہ جاگ ہی رہا تھا ۔
“وصی۔۔آجا ناشتہ۔۔” شفی نے کہنا چاہا مگر وصی نے اس کی بات کاٹی
“مجھے بھوک نہیں ہے۔۔” وہ کہتا اندر مڑ گیا۔۔
شفی کی نظر سامنے بیڈ پر پڑی۔۔
جہاں اس کا بیگ پڑا تھا۔۔
“وصی۔۔یہ۔۔” شفی نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
“میں واپس جارہا ہوں۔۔تم سب یہی چاہتے تھے نا کہ میں آرمی نا چھوڑوں۔۔میں نہیں چھوڑوں گا کبھی نہیں” وصی نے سادگی سے کہا
“مگر وصی۔۔ابھی چھٹی پوری نہیں ہوئی” شفی نے یاد کروانا چاہا
“میں جانتا ہوں۔۔مگر میرے بھائی۔۔میں کیا کروں میرا دل نہیں لگ رہا۔۔مجھے سکون نہیں مل رہا۔۔میری محبت تو اتنی کمزور ہے کہ میں مر بھی نہیں سکتا۔۔” وصی نے نم آنکھوں سے کہا۔۔
“وصی تو پاگل ہوگیا ہے۔۔” شفی نے اس کے قریب جاکر کہا۔۔
“ہاں میں پاگل ہوگیا۔۔نور کا مسکراتا چہرہ میری نظروں سے نہیں ہٹ رہا۔۔وہ۔۔۔وہ آواز۔۔وہ کتنی بھیانک تھی۔۔وہ آواز میری نور کو ساتھ لے گئی۔۔شفی” وصی نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔۔اور ضبط سے آنکھیں بند کی۔۔
ایک آنسوں اس کے گال پر گرا۔۔