اسنے اسکے بالوں میں ہاتھ دے کر اسکا
چہرہ قریب کیا تھااورا سکے ہونٹوں پر جھکا تھا وہ اسکے کانپتے ہونٹ اورگیلی پلکے دیکھ رہا تھا
تمہارا یہ رونے دھونے کا ناٹک میرے سامنے مت کیا کروں دیکھوں میں تمہارے آنسوؤں سے پگھلنے والا نہیں ہوں ۔۔وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا تھا ماہین ہچکیوں سے رو رہی تھی زبیر اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا جو آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا شوہر ہوں تمہاراتم پر سارے حق رکھتا ہوں میں سمجھی اپنے آپ کو تیار کرلو کیوں کے میں زیادہ انتظار نہیں کرونگا۔
وہ اسکا چہرہ چھوڑتا ہوا بولا تھا ماہین اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔
ماہین اسکی باتوں سے سہم کر اسے دیکھ رہی تھی کہ زبیر اک بار پھر سے بولا تھا۔
میری بات سنو لو کان کھول کے آج سے میرے سارے کام تم کروں گی میرے کپڑے نکالنا پریس کرنا کھانا سرو کرنا اور بھی بیویوں کے جتنے فرائض ہوتے ہیں تم سب پورے کروگی۔وہ معنی خیزی انداز میں بولا تھا ماہین مزید سہم گئی تھی اسکی باتوں سے۔
یہ میں تمہارے لیے تمہارے ضرورت کا سامان لایا ہوں اسے رکھ دو الماری میں اور ایک اچھا سا ڈریس نکال کے پہن لو ۔
ماہین نے جلدی سے شاپنگ بیگس اٹھا کے المارے میں رکھے تھے اور ایک ڈریس نکال کے واش روم میں گئی تھی۔
آدھے گھنٹے بعد وہ واش روم سے نکلی تھی تو زبیر کی نظر اسکے وجود پر اٹک سی گئی تھی ۔
سکائی بلو ڈریس جسکا گول گلا بنا ہوا تھا اور اسپر خوبصورت سا کام تھا ہاف سلیوس جن سے اسسکی دودھیا کلائیاں چمک رہی تھی۔
دوپٹہ جو اسنے شانوں پرپھیلایا ہوا تھا
جسے وہ بار بار ٹھیک کر رہی
ا تھی زبیر اٹھ کر ماہین کی طرف بڑھ رہا تھا۔
اسکی اپنی طرف پیش قدمی سے ماہین حواس باختہ ہوئی تھی ۔
اسکے قریب پہنچ کر وہ اسکا بھیگا بھیگا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
تمہارے لیے موبائل لایا ہوں میں اس میں سم کارڈ بھی ڈال دیا ہے۔
اور کل سے تم یونی جا سکتی ہو پر ڈرایور کے ساتھ جاؤ گی اور واپس آؤگی۔
یونی کا سن کے ماہین اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔زبیر نے اسے خود کو دےکھتے پایا تو بول اٹھا۔
تمہیں کیا لگتا ہے یو میرے سامنے اچھا بن کر دکھاؤگےتومیرے دل میں کوئی جزبہ پیدا ہو جائے گا بھول ہے تمہاری میں تم سے نفرت کرتی ہوں اور ہمیشہ کرونگی سمجھے۔وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی تھی۔
نفرت بھی اک اٹرانگ جزبہ ہے میری جان اور رہی بات محبت کی تو نکاح کے دو بول میں بہت طاقت ہوتی ہے محبت تو پیدا ہو ہی جاتی ہے۔وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
میں نہیں مانتی اس نکاح کو اس زبردستی کے رشتے کو سمجھے۔
تم نے نکاح خواہ کے سامنے تین بار قبول ہے بول کے خود مجھے شوہر مانا ہے اور اب تمہاری ہر سانث پر تمہارے وجود پر تم سے زیادہ حق میرا ہے۔
ٹھیک ہے پھر اک سودا کرتے ہیں تم اپنا حق وصول کرو اور مجھے طلاق دے دو۔
ماہین کی اس ںات پرا زبیر کا پارا سوا نیزے پر پہنچ گیا تھا وہ غصہ سے آگے بڑھا تھا اسکا ہاتھ ماہین کے چہرے پر پڑا تھا اور وہ اوندھے منہ بیڈ پر گری تھی۔
ماہین زبیر سے یہ امید نہیں رکھتی تھی اسکے اچانک مارنے والے تھپڑ کی وجہ اسکو بہت تکلیف ہورہی تھی اور وہ بیڈ پر پڑے رونا شروع ہو چکی تھی۔
زبیر پلٹ کر لمبی بی سانسیں لے کر اپنے غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگا پھر واپس اس تک پہنچا اور اسکا چہرہ موڑ کر اپنی طرف کیا تھا۔
آئندہ اگر تمہاری زبان پر طلاق جیسا لفظ آیا تو تمہاری زبان کھینچ لوگا میں اور رہی بات طلاق کی تو وہ میں کبھی نہیں دونگا اگر مجھ سے چھٹکارا چاہیے تو تمہیں میرے مرنے کا انتظار کرنا ھوگا۔
اسکے روتے ہوئے چہرے کو چھوڑ کر پلٹا تھا۔
ٹک ٹک ٹک!!!سر کھانا لگا دیا ہے ذین سر بلا رہے ہیں آپ دونوں آجائے ۔محمد دین دروزہ بجاتے ہوئے بولا تھا۔
آرہے ہیں ۔زبیر نے محمد دین کو اندر سے ہی جواب دیا تھا۔
پانچ منٹ میں نیچے آؤ۔زبیر ماہین کو کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ کچھ دیر تک تو یوں ہی روتی رہی پھر اٹھ کر واش روم چلی گئی منہ دھو کر ڈریسنگ کے سامنے آکر اپنا چہرہ دیکھنے لگی جہاں اسکی انگلیوں کے نشان صاف نظر آرہے تھے۔
آئی ہیٹ یو زبیر !!!وہ اپنا غہرہ دیکھتے ہوئے بولی تھی اسکی آنکھوں میں پھر سے پانی بھرنے لگا تھا اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرنمننے لگی پھر سر یر دوپٹہ اسطرح لیا کہ اسکا حال کور ہو جائے اور روم سے باہر نکل گئی ۔
ماہین کہاں ہے جب سے آئی ہےکمرےسےباہرنہیں نکلی۔ذ ین زبیر سے پوچھنے لگا۔
آرہی ہے ۔زبیر مختصر سا جواب دے کر پھر سے کھانے میں مگن ہو گیا۔
کیا ہوا غصہ میں لگ رہے ہو۔
کچھ نہیں ہوا ۔ زبیر فاک پر دباؤ ڈالتا ہوا بولا۔
تمہارا موڈ خر۰۰۰۰۰۰
ذین اپنی بات مکمل کرتا اس سے پہلے ہی ماہین آگئی تھی ۔
ماہین خاموشی سے آکر ٹیبل پر بیٹھ گی تھی اور نیچے منہ کر کے بس کھانے کو گھور رہی تھی۔
اسے کھانا بھی ہوتا ہوتا ہے بس گھورنے سے پیٹ نہیں بھرتا۔زبیر ماہین کو دیکھتے ہوئے بولا تھا جو اتنی دیر سے بس کھانے کو گھور رہی تھی۔
مجھے بھوک نہیں ہے۔۔ماہین یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی اور جانے لگی تھی کہ زبیر کی آواز سے رک گئی ۔
واپس آؤ اور کھانا کھاؤ۔زبیر نے ماہین کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔
ذین باری باری دونوں کو دیکھ رہا تھا۔
سنائی نہیں دیا تمہیں ۔!!!
اسکی بات پر ماہین واپس چیئر پر بیٹھ چکی تھی اور تھوڑے سے رائس پلیٹ میں ڈالنے لگی۔آنکھوں میں آتے نمکین پانی کو اسنے مشکل سے روکا تھا۔
ماہین کھانا کھا رہی تھی زبیر اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا۔
ماہین نے اپنے رائس ختم کیے اور روم میں جانے کے لیے سیڑھیوں تک پہنچے تھی کے پیچھے سے ذین کی آواز آئی ۔
سنیں!!ماہین آواز کو اگنور کرتی آگے بڑھنے لگی۔
میں آپ سے ہی بات کر رہا ہوں ماہین۔وہ اسکے سامنے آتا ہوا بولا۔
مجھے کوئی بات نہیں کرنی۔وہ چہرہ دوسری طرف کر کے بولی تھی۔
پلیز اک بار میری بات سن لیں۔
میں جانتا ہوں ہم دونوں نے بہت غلط کیا ہے آپکے ساتھ اسکا بہت زیادہ زمہ دار میں بھی ہوں میری ایک غلط فہمی کی وجہ سے آپکے ساتھ اتنا کچھ ہو گیا ماہین آی میری چھوٹی بہین جیسی ہو سکے تو بڑا بھائی سمجھ کے معاف کر دو۔
وہ سچ میں شرمندہ نظر آرہا تھا ماہین بھائی کے نام سے اسسے دیکھنے لگی۔
میرا کوئی بھائی نہیں ہے آگر اپنے خود کومیرا بھائی ہی کہا ہے تو میں آپکو معاف ضرور کرونگی۔
تھینکس۔ ذین اسکی بات سن کے مسکرانے لگا۔
پر میں اس انسان کو کبھی معاف نہیں کر سکتی جسکے وجہ سے میں اپنے ماں باپ کی نظروں میں گر گئی تھی جسکے وجہ سے میں نے اس عمر میں اپنے ماں باپ کو اتنا بڑا صدمہ دیا تھا انکو دنیا کے سامںے تماشہ ںنا دیا۔ماہین روتے ہوئے بولی۔
میں جانتا ہو زبیر سے غلطی ہوئی ہے اسنے غلط طریقہ اختیار کیا پر یقین مانو وہ دل کا برا نہیں ہے شوہر ہے تمہارا۔
نہیں مانتی میں اسے اپنا شوہر نہ اس رشتے کو مانتی ہوں۔ماہین کے سر پر سے دوپٹہ اترا تھا اور ذین کی نظر اسکے گال پر پڑے نشانوں پر گئ اور وہ اک منٹ میں سمجھ گیا تھا۔
ماہین روتی ہوئی کمرے میں بھاگ گئی تھی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۔
زبیر کتنی دیر سے گاڑی ادھر اودھر بھگا رہا تھا ماہین کے الفاظ کے بارے میں سوچ سوچ کے اسکی رگیں تن رہی تھی۔
ایک سودا کرتے ہیں تم اپنا حق وصول کرو اور مجھے طلاق دے دو۔
تم اپنا حق وصول کرو اور مجھے طلاق دے دو۔
تم اپنا حق وصول کرو اور مجھے طلاق دے دو۔
ماہین کے الفاظ اسکے کانوں میں گونجے تھے۔
بس!!!!!!!!چپ!!!!!!وہ غصہ سے چیختے ہوئے بولا تھا اور جھٹکے سے گاڑی روکی تھی۔
اسنے گاڑی سے سیگریٹ نکالی اور پینے لگا تھا اور اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔
جانے کتنے ہی گھنٹے وہ گاڑی میں بیٹھا سیگریٹ پیتا رہا پھر حاڑی موڑ کر احمد پیلس کی طرف واپس چل دیا۔
زبیر بات سنو۔گھر پہنچ کر اپنے کمرے میں جارہا تھا کے زین نے اسکو آواز دی تھی۔
بولو کیا بات ہے۔
تم ماہین کے ساتھ سختے سے پیش مت آؤ اسکے ساتھ پہلے ہی بہت کچھ غلط ہوا ہے اسے پیار سے ٹریٹ کرنا چاہیے تمہیں اسے تھوڑا ٹائم دینا چاہییے تمہیں اسکو سمجھنا چاہیے تمہیں اس پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔
اسکی الفاظوں پر زبیر جیسے جیسے آنکھوں میں شولے چمکنے لگے تھے غصہ سے چہرہ لال ہونے لگا تھا۔
یہ میری بیوی اور میرا معاملہ ہے۔
یو جسٹ سٹے آوے فروم دس میٹر۔
زبیر اسکو غصے سے کہتا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
یہ تم نے ٹھیک نہیں کیا ماہین تم ہمارے بیچ کی پرسنل باتیں زبین کو بتائی زبیر غصہ سے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا وہ ماہین کی جان نکالنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
زبیر کمرے میں پہنچا تھا اور دروازہ لاک کر کے غصے سے ماہین کا دیکھنے لگا جو بیڈ پر سورہی تھی۔
لمبے بال تکیے پر بکھرے ہوئے تھے دوپٹہ تکیے کے سائڈ میں رکھا ہوا تھا جس کی وجہ سےاس کا سراپا بہت نمایا کفرٹر کمر تک اوڑھا ہوا تھا اور اسکی سانسیں اپر نیچے ہورہی تھیں جودنیاجہاں سےبےخبر نیند کی وادیوں میں کھوئی ہوئی تھی
وہ غصے سے بیڈ کی طرف بڑھا تھا جہاں وہ دشمن جان نیمدراز تھی اور بیڈ پر پہنچ کر وہ اسکے قریب ہوا تھا اور اسکے چہرے پر جھکا تھا آنکھیں غصہ سے سرخ ہورہی تھی۔
آج یہ تمہاری معصوم شکل دیکھ کے تمہیں معاف نہیں کرونگا میں ماہین تمہیں آج حساب دینا ہوگا آج نہیں بچو گی تم مجھ سے۔وہ اسکے چہرے پر جھکے ہوئے اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے غصے سے بول رہا تھا۔
وہ جو روتے روتے نیند کی آغوش میں چلی گئی تھی کسی کا بھاری وجود اور گرم سانسیں خود پر محسوس کرکے ہوش میں آنے لگی تھی۔
ماہین کو اپنے اپر کسی کا بھاری وجود اور گرم سانسیں محسوس ہوئی تو اسنے چھٹ سے آنکھیں کھولی تھیں پر اس سے پہلے وہ اٹھ کے چیختی زبیر اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کے اسے خاموش کرا چکا تھا۔
شششش!!!چپ بلکل چپ اک آواز بھی نہ نکلے تمہارے منہ سے۔۔وہ اسکے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوا بولا آنکھوں سے جیسے لہو ٹپک رہا تھا۔
ماہین ابھی نیند سے بیدار ہوئی تھی اسکے اپنے اپر جھکا ہوا دیکھ کر آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔
بہت رحم کر لیا میں نے تم پر۔
بہت ترس کھا لیا پر آج جو تم نے کیا ہے اسکے سزا ضرور ملے گی تمہیں ۔
ماہین اسکے الفاظ سنکے کانپنے لگی اور اسے خود پر سے ہٹانے کے سعی کرنے لگی وہ اسکے سینے پر ہاتھ رکھے اسے دھکا دینے کی کوشش کر رہی تھی۔
زبیر نے اسکے ہاتھوں کو قابو کیا تھا ۔
چھوڑوں مجھے دور ہٹو مجھ سے !!وہ روتی ہوئی بولی تھی۔
کیوں چھوڑوں بیوی ہو میری تم ۔
چھوڑ دو مجھے زبیر!!!!!!وہ
اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کررہی تھی۔
ذین کو کیا بتایا ہے تم نے۔۔
ممم می میں نے کچھ نہیں کہا انہیں۔
جھوٹ بلکل جھوٹ!!!!!!!!!!وہ چیخا تو ماہین مزید سہم گئی تھی۔
تم نے اسکو کہا کے میں تمہارے ساتھ زبردستی کررہا ہو اور میں نے تم پر ہات بھی اٹھایا دنیا جہاں کی مظلومیت دکھا کر آئی ہو اسے میں تمہیں دکھاؤ گا کے زبردستی کسے کہتے ہیں۔وہ اسکی گردن پر جھکا تھا ۔
زب بیر میں نے کک کچھ نہیں کہا اس سے پلیز میر یقین کرو۔۔۔وہ روتے ہوئے انتہائی بے بسی سے بولی تھی۔
زبیر اسکا گردن پر اپنا لمس چھوڑتا ہوا اسکی شانوں پر سے اسکی قمیض کاگلا نیچے کر گیا تھا۔۔
ماہین تڑپ رہی تھی پر وہ اسکی بات پر یقین کرنے کو راضی نہیں تھا۔
ماہین اسکا لمس محسوس کر کے اسکو خود سے دور کرنے کی کوشش کررہی تھی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اسکے جان جیسے نکل رہی تھی۔
وہ اک کے بعد اک زخم دے رہا تھا اسے ماہین کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھی وہ اسکے شانوں پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا۔
ماہین
تڑپ رہی تھی اور خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی کے اچانک ماہین حوش سے بے گانی ہوگئی اسکی آنکھیں بند ہو چکی تھی اور وجود بے جان سا ہوگیا تھا۔
زبیر جو اسکے ہونٹوں پر جھکا تھا اچانک اسکی وجود کو بے سد دیکھ ٹھٹک گیا تھا۔
اسکا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا اور وجود بے جان تھا وہ اپنے حوش کھو چکی تھی۔زبیر اسکا چہرہ تھپتھپانے لگا پر وہ ہوش میں نہیں آرہی تھی۔
ماہین ‘ماہین اٹھو !!!وہ اسکا چہرہ تھپتھپاتا ہوا بولا تھااسکے وجود
میں کوئی حرکت نہ ہوتے دیکھ کر اسکی جان نکل رہی تھی۔
اسنے پانی کا گلاس سائڈ ٹیبل سے اٹھایا تھا اور اسکہ چہرے پر پانی چھڑک کے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا پر وہ کسی صورت ہوش میں نہیں آرہی تھی زبیر کواپنی جان نکلتی محسوس ہورہی تھی۔
وہ اسکو دوپٹہ اوڑھاتا ہوا اسے گود میں اٹھا کر کمرے سے باہر نکلا تھا۔
جلدی جلدی وہ سیڑھیاں اترتا مین
گھرسے باہر نکلا تھا۔
زبیرکیا بیٹا ہوا ۔واچ مین ماہین کو دیکھتا ہوا بولا تھا۔
سر کیا ہوا میڈم کو۔ڈرائور ماہین کو دیکھتا ہوا بولا۔
زبیر نے ماہین کو بیک سیٹ پر لٹا کے خود ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔
سر میےں کر لیتا ہوں ڈرائونگ ۔۔ڈرائور ونڈو سے زبیر کو بولا تھا۔
نہیں تم یہیں رہو۔
زین نے گاڑی فل سپیڈ پر چلائی تھی وہ جلد سے جلد ہاسپٹل پہنچنا چاہتا تھا۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۰۰۔
ذین بچپن سے زبیر کے ساتھ تھا ہرکام دونوں نے ساتھ کیا تھا پڑھائی بزنس بہت محبت تھے دونوں میں بچپن سے وہ اک دوسرے کی ہمت رہے تھے ہر چھوٹی چھوٹی باتیں اک دوسرے سے شیئر کرتے تھے اسی لیے ذین زبیر کو ماہین کے متعلق سمجھانا چاہتا تھا پر اسکے رویے سے وہ ہرٹ ہوا تھا اسنے آج تک اس سے اسطرح بات نہیں کی تھی ۔
شاید وہ ٹھیک کہہ رہا تھا مجھے انکے معاملے میں نہیں بولنا چاہیے ۔وہ خود کو سمجھانے لگا تھا۔۔
سر ڈنر ریڈی ہے آ جائیں ۔محمد دین روم ناک کرتا ہوا زبیر رے پوچھنے لگا تھا۔
زبیر کو بلایا؟
وہ اپنے کمرے میں نہیں ہیں سر۔
اور ماہین۔
وہ بھی نہیں ہے۔
کہاں گئے دونوں ۔زبیر سوچ میں پڑ گیا تھا۔
تم جاؤ۔
اوکے سر۔
دونوں کہاں گئے ہیں واچ مین سے پوچھتا ہوں ۔وہ سوچتا ہوا روم سے باہر نکلا تھا۔
ناظم چاچا زبیر کو جاتے دیکھاہے اپنے؟ اور اسکے ساتھ اک لڑکی بھی ہوگی۔
ہاں زبیر بیٹا بہت پریشان سا لگ رہا تھا کسی لڑکی کو لیکر گیا ہے اسکی حالت ٹھیک نہیں تھی شاید۔ناظم احمد پیک کےپرانے واچ مین ذین کو بتانے لگے۔
کیا
ہوا تھا ماہین کو ؟وہ پریشان سا پوچھنے لگا۔
بیٹا مجھے نہیں پتہ زبیر بیٹا تو بس بھاگتے ہوئے آیس اسے کار میں لٹایا اور کار فل اسپیڈ پر بھگا دی میں پوچھا بھی پر کچھ جواب نہیں دیا اسنے۔
اچھا میں پتہ کرتا ہوں فون کر کے۔ذین ناظم کو کہتا ہوا اندر آیا تھا اور موبائل سے زبیر کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
زبیر فون کیوں نہیں اٹھا رہا وہ موبائل کو دیکھتا ہوا بولا کیونکہ صرف رنگ جارہی تھی وہ اٹینڈ نہیں کررہا تھا۔۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۔
ڈاکٹر !!!!!!!
ڈاکٹر !!!!!
ڈاکٹر کو بلاؤ۔وہ ریسشن پر چلاتا ہوا بولا تھا۔
سر آپ جب تک فارم فل کرے پھر ٹریٹمنٹ شروع ہوجائے گا۔
ابھی ٹریٹمنٹ اسٹارٹ کرو جلدی۔۔ریسپشنسٹ پر چلاتا ہوا بولا تھا۔
سر بٹ یہ رول کے خلاف۰۰۰۰۰۰۰
بھاڑ میں گئے تمہارے رول ڈاکٹر کو بلاؤ جلدی۔
ڈاکٹر!!!!
ڈاکٹر!!!!!!
اگر میری بیوی کو کچھ ہوا تو میں یہ ہاسپٹل بند کرا دونگا سمجھے۔۔وہ غصہ کی انتہا پر تھا۔
کیا ہوا کیا چیخ پکار ہورہی ہے۔ڈاکٹر
سر اکریہ بولا ۔
سر فارم فل نہیں کرہے۔
زبیر احمد۔ڈاکٹر زبیر کو دیکھتا ہا بولا تھا۔
میری بیوی بے حوش ہو گئی ہے ڈاکٹر اسکو ہوش میں لاؤ جلدی۔زبیر ڈاکٹر کو دیکھتا ہا بولا تھا۔
اسکو آئی سی یو لاؤ جلدی۔ڈاکٹر بولتا ہوا آئی سی یو میں گیاتھا۔
ڈاکٹر کو اندر گئے کافی ٹائم ہوچکا تھا زبیر باہر چکر مار رہا تھا وہ اپنی زہنی حالت سمجھ نہیں پارہا تھا اسے لگرہا تھا اسکی دھڑکن بند ہو جائے گی اسے شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہورہا تھا۔
زبیر کافی دیر سے آئی سی یو کے باہر چکر مار رہا تھا ڈاکٹرذ کو اندر گئے کافی ٹائم گزر گیا تھا اسکا ٹینشن سے برا حال تھا ایسا لگرہا تھا جیسے اسکی دھڑکنے اس سے دور جارہی ہوں جیسے وہ سانس نہیں لے پارہا ہوں نہ جانے کیوں سکے دل سے ماہین کی سلامتی کی دعا نکل رہی تھی ۔
ڈاکٹر آئی سی یو سے ںاہر نکلے تھے تو زبیر تیزی سے انکی جانب بڑھا تھا۔
ڈاکٹر کیا ہوا ہے ماہین کو وہ ٹھیک تو ہے نہ؟وہ انتہائی بے چینی سے بولا تھا۔
دیکھیے زبیر سر اپکی بیوی کو برین ہیمریج ہوا تھا کسی بات کا بہت زیادہ سدمہ انہوں نے اپنے دماغ پر لی ہے جسکی وجہ سے یہ ہوا ہے۔
زبیر کا دل ڈوبا تھا ڈاکٹر کی بات پر۔
اب کیسی ہے وہ؟اسنے ٹینشن سے پوچھا۔
الله کا شکر ادا کریں اب وہ خطرہ سے باہر ہے آپ ٹھیک ٹائم پر ہاسپٹل لے آئے تھے۔
تھینک یو ڈاکٹر ۔اسکی جان میں جان آئی تھی۔
پر انکو کسی طرح کا ڈیپریشن نہیں ہونا چاہیے ورنہ پھر سے ایسی حالت ہو سکتی ہے۔ خیال رکھے اور انہیں خوش رکھنے کی کوشش کریں۔
میں ابھی مل سکتا ہوں اس سے ؟
ابھی تو وہ بے ہوش ہیں پر آپ مل سکتے ہے ۔
اوکے ڈاکٹر ۔
زبیر آئ سی یو میں آیا تھا ماہین کو دیکھ کے اسکے دل کو کچھ ہورہا تھا۔
اسکا نازک سا وجود اسٹریچر پر تھا ڈرپ لگ رہی تھی اور وہ ابھی بے ہوش تھی۔
زبےر
اسکے پاس بیٹھا تھا اور اسکا چہرہ دیکھنے لگا تھا ۔زبیر کتنی ہی دیر اسکا چہرہ دیکھتا رہا پھر آئی سی یو سے باہر نکلا تھا۔
ذین کو فون کر دیتا ہوں ۔وہ یہ سوچتے اپنا موبائل ڈھونڈھنے لگا تھا۔
میرا موبائل کہاں گیا ؟لگتا ہے گھر پر بھول گیا ہوں جلد بازی میں ۔
ہاسپٹل کے فون سے فون کر دیتا ہوں۔ وہ سوچتا ہوا ریسیپشن پر گیا تھا۔
کیامیں اک فون کر سکتا ہوں ؟وہ ریسپشنسٹ سے پوچھنے لگا۔
شور سر۔
تھینک یو۔اسنے ذین کا نمبر ڈائل کیا تھا۔
ہیلو جی کون؟ذین ان نو نمبر دیکھ کر پوچھنے لگا تھا۔
ہیلو ذین میں زبیر۔
زبیر۔یار کہاں ہو تم دونوں کیا ہوا ہے ہے ماہین کو واچ مین نے بتایا کے تم اسے گود میں اٹھا کر بے ہوشی کی حالت میں لے کرگئے ہو۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...