سفید کلر کا وسیع دروازہ تھا جس سے وہ اندر داخل ہو رہی تھی۔۔ اندر کی طرف بائیں جانب ایک عمارت بنی تھی اور عمارت کے سامنے ایک بہت ہی خوبصورت گارڈن بنا تھا۔۔ عمارت کے عقب میں ڈائننگ ہال تھا اور دائیں جانب مطب بنا تھا وہ جگہ بہت پرسکون اور وسیع تھی۔۔
یہ جو سامنے گارڈن میں تم بچوں کو کھیلتے دیکھ رہی ہو نہ۔۔ ان میں سے کچھ بہت ہی غریب ہیں اور کچھ یتیم اور مسکین ہیں۔۔
یہ تمام بچے اور ان جیسے بہت سے بچے یہیں رہتے ہیں۔۔ اسکے برابر میں چلتی ہوئی لاریب نے اس سے کہا۔۔
لیکن یہ بچے رہتے کہاں ہیں؟؟ حرمین نے اسکی طرف دیکھ کر سوال کیا۔۔
یہ بچے ہاسٹل میں رہتے ہیں۔۔ یہاں سے باہر نکل کر چند قدم دور ہی ایک اسکول اور ہاسٹل ہے۔۔
یہ ایک سوشل فاؤنڈیشن بھی ہے۔۔ اسی لیے ان تمام بچوں کے کھانے ،پینے ،رہنے اور تعلیم کا تمام خرچہ ہمارا فاؤنڈیشن اٹھاتا ہے۔۔ لاریب نے اسکو اشارے سے سمجھایا۔۔
اب وہ دونوں اس جگہ سے باہر کی طرف جا رہی تھیں۔۔ باہر ایک کھلا میدان تھا جس میں کیاری بنی ہوئ تھی۔۔ تھوڑا آگے جا کر ایک بہت بڑی بلڈنگ تھی۔۔جس پر ایک بورڈ لگا ہوا تھا (قاری حفیظ شاہ سیکنڈری اسکول)۔۔
اس بلڈنگ کے نیچے کہ تین فلورز اسکول کہ حصے میں تھے اور باقی اوپر کے چار فلورز ہاسٹل کے حصے میں آتے تھے۔۔
باہر سے ہی اس عمارت کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ اندر سے بھی یہ بہت شاندار ہوگی۔۔
لاریب اسکو یہاں کی ہر چیز سمجھا اور دکھا رہی تھی۔۔
ہاسٹل کے اندر بہت بڑا پلے گراونڈ تھا اور پلے گراؤنڈ کی دیوار کے پیچھے ہی ایک خوبصورت مسجد تعمیر تھی۔۔
روحانی ریسرچ اکیڈمی کی وہ عمارت جو تم نے ابھی کچھ دیر پہلے دیکھی تھی۔۔
اسکے فرسٹ فلور پر مختلف کلاسز بنی ہوئی ہیں جہاں دینی اور دنیاوی تعلیمات کے حوالے سے گفتگو ہوتی ہے۔۔
روحانی ریسرچ اکیڈمی میں بہت سے لوگ پڑھتے ہیں۔۔ اسکے سیکنڈ فلور پر نعت اکیڈمی کی کلاسز ہوتی ہیں۔۔ اور تھرڈ فلور پر کلرز تھراپی کی کلاسز ہوتی ہیں۔۔
یہ تمام کلاسز مختلف لیڈیز اور جینٹس اساتذہ کی زیرِ نگرانی ہوتی ہیں۔۔
اور گراؤنڈ فلور پر تو تمھیں پتہ ہی ہے کہ مینجمینٹ آفسسز ہیں۔۔ یہاں کے انچارج محمد بلال ہیں۔۔ اور یہاں کے نگراں قاری حفیظ شاہ ہیں۔۔ لاریب اسکو ہر چیز کا مختصر حوالہ دے رہی تھی۔۔
حرمین خاموشی سے اسکی تمام گفتگو سن نے کے ساتھ ساتھ آس پاس کے ماحول سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔۔ وہ جگہ کافی پرسکون تھی۔۔
میں یہاں کلر تھراپی اور روحانی اکیڈمی کی کلاسز لینا چاہتی ہوں۔۔ ساتھ ہی میں اس فاؤنڈیشن کے لیے بھی کام کرنا چاہوں گی۔۔ حرمین نے اسکی طرف دیکھ کر کہا۔۔
بہت اچھی بات ہے یہ تو۔۔ ایسا کرتی ہوں کے میں تمھاری ریجسٹریشن کردیتی ہوں اور تمھیں فارم بھی دی دیتی ہوں۔۔ لاریب نے اسکے کندھے کو چھو کر کہا۔۔
لاریب اور حرمین اب آفس کی طرف جا چکی تھیں۔۔۔
سوری حرمین۔۔ تمھارا ایڈمشن ایک ماہ تک یہاں نہیں ہوسکتا کیونکہ تمام کورسز اپنے اختتام پر ہیں۔۔ تمھیں تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔۔ لاریب آفس چئیر پر بیٹھی رجسٹر میں دیکھتے ہوے کہہ رہی تھی۔۔
حرمین اسکی بات پر صرف سانس ہی لے کر رہ گئ۔۔
ہاں۔۔ البتہ تم سوشل ورک کے لیے فاؤنڈیشن کا حصہ بن سکتی ہو۔۔۔ لاریب نے اسکو مسکراتے ہوے دیکھا۔۔
چلیں کوئی بات نہیں۔۔ حرمین نے کہا۔۔
______________________
آپکے کہنے پر میں راضی تو ہوگئی آپی مگر یہ صرف ایک سمجھوتہ ہے۔۔۔ چھت پر ٹہلتے ہوے وہ شزا سے کہہ رہی تھی۔۔
میں جانتی ہوں حرمین تمھیں وقت لگے گا۔۔ مگر آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجاے گا۔۔ شزا بھی اسی کے ساتھ ٹہل رہی تھی۔۔
کل رات اصفر میرے خواب میں آیا تھا۔۔ میں اسکے برابر میں اسکا ہاتھ تھامے بیٹھی تھی۔۔ حرمین نے قدم روک کر کہا۔۔
تم اس سے بہت محبت کرتی ہو نہ۔۔ اس لیے وہ تمھیں نظر آتا ہے۔۔ شزا نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
وہ وہاں سے مجھے دیکھتا تو ہوگا نہ۔۔ مگر مجھے وہ وہاں نظر نہیں آتا۔۔ وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوے کہہ رہی تھی۔۔
محبت بھی کتنی عجیب چیز ہے۔۔ جب کوئی مرنا چاہتا ہے تو اسکے جینے کی وجہ بن جاتی ہے۔ اور جب وہ جینے لگتا ہے تو اسکو جینے نہیں دیتی، موت سے ملا دیتی ہے۔۔ حرمین نظریں جھکاے اپنی آنکھوں کی نمی چھپا رہی تھی۔۔
اچھا چھوڑو نہ اس بات کو۔۔ یہ بتاؤ تمھاری لاریب کے ساتھ آج کی ملاقات کیسی رہی؟؟ شزا نے موضوع بدل دیا تھا۔۔
بہت خوب رہی۔۔ کافی اچھی اور سلجھی ہوئ دوست ہے آپکی۔۔ اور وہ جگہ تو بہت ہی شاندار ہے۔۔ حرمین نے مسکرا کر کہا۔۔۔
میں نے تو کہا ہی تھا کہ تمھیں وہاں جا کر بہت اچھا لگے گا۔۔ مگر تم ہی تاخیر کیے جا رہی تھیں۔۔
دیر سے ہی سہی مگر میں چلی تو گئ نہ۔۔ حرمین نے اپنی بات پر زور دیا۔۔
چلو اب نیچے چلتے ہیں ورنہ امی غصہ کریں گی ہم پر۔۔ کوئی کام آسکتا ہے نہ۔۔ شزا نے چھت سے نیچے کی طرف جھانکتے ہوے کہا۔۔
ہاں چلیں مجھے بھی اپنی الماری سیٹ کرنی ہے آج بہت پھیل گئی ہے۔۔۔ حرمین نے سر کھجاتے ہوے بولا۔۔
_______________________
تکیے پر دائیں، بائیں جانب سر مارتا ہوا وہ اپنے منہ میں بڑبڑا رہا تھا۔۔
سارا کمرا تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔۔رات کا نصف پہر تھا۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زور دار چیخ مار کر وہ بستر پر اٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔۔۔
یہ۔۔۔یہ۔۔۔ کیسا خواب تھا۔۔
یہ۔۔ یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ اب تو۔۔ اب تو۔۔ حرمین سے رشتہ بھی ہو چکا ہے میرا۔۔ پھر۔۔ پھر۔۔ کیوں ایسے خواب آرہے ہیں مجھے۔۔۔
وقار کا سارا جسم پسینے میں تر تھا۔۔ وہ بری طرح کانپ رہا تھا۔۔۔
اگر اسکو سچ معلوم ہوگیا۔۔تو۔۔۔۔۔
تو۔۔ سب ختم ہوجاے گا۔۔۔
نہیں۔۔ میں کچھ پتہ چلنے نہیں دونگا۔۔۔ مجھے ڈرنا نہیں ہے۔۔۔ نہیں ڈرنا۔۔ وہ خود کو سمجھاتا ہوا واپس لیٹ رہا تھا۔۔
کچھ دیر تک کوشش کے بعد بھی نیند نا آنے کی وجہ سے وہ ایک بار پھر اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔۔
اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کی دراز سے اسنے ایک ٹیبلٹ کا پیکٹ نکالا۔۔ وہ سلیپنگ پلز تھیں۔۔
وہ ڈپریشن کی طرف جانے لگا تھا اور اسی وجہ سے وہ اب سلیپنگ پلز کا محتاج بننے لگا تھا۔۔
دوائ کے باعث اس پر نیند کا غلبہ طاری ہونے لگا تھا۔۔ کچھ دیر بعد وہ گہری نیند میں جا چکا تھا۔۔
___________________________
(جب تک تم کھانا نہیں کھاتے نہ میرا پیٹ نہیں بھرتا)۔۔۔۔۔
وہ کھانے کا پہلا لقمہ لے رہا تھا جب اسکے کانوں میں حرمین کی آواز گونجی۔۔
اسکے جسم میں غصے کی لہر دوڑ گئ۔۔ اپنے سامنے رکھے کھانے کے برتنوں کو اسنے ایک جھٹکے میں اٹھا کر بیڈ سے نیچے پھیک دیا۔۔
کمرے سے آنے والے شور کو سن کر کلثوم اسکے کمرے کی طرف آئ۔۔۔
یہ کیا کر رہے ہو تم؟؟ کھانا کیوں پھیک دیا؟؟ نیچے گرے برتنوں کو دیکھ کر کلثوم نے اس سے سوال کیا۔۔
یہ کیسے اناڑی کُک کو رکھا ہوا ہے آپنے۔۔۔ اتنا بد مزہ کھانا پکایا ہے دل نہیں چاہ رہا میرا کھانے کو۔۔ وہ بیڈ پر بیٹھا غصے میں چیخ رہا تھا۔۔
ہم نے بھی ابھی یہی کھانا کھایا ہے۔۔ کھانا تو بہت اچھا بنا ہے۔۔ کلثوم اسکے قریب آکر کہنے لگیں۔۔۔
کیا مطلب ہے آپکا؟؟ میں جھوٹ کہہ رہا ہوں؟؟ وہ اپنی بات پر قائم تھا۔۔ جب کہ وہ جانتا تھا کہ کھانا بہت مزے دار بنا ہے۔۔ اس کے غصے کی اصل وجہ حرمین کی باتوں کا یاد آنا تھا۔۔۔
کیا ہوگیا ہے تمھیں اصفر؟؟ کل ہی تم آے ہو کنیڈا سے اور آتے ہی یہ سب؟؟ ہو کیا گیا ہے تمھیں؟؟ کلثوم اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگیں۔۔
موم پلیز۔۔۔۔
آپ اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دیں پلیز۔۔۔ مجھے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی ہے۔۔ وہ نظریں جھکاے اپنے جملوں پر زور دے رہا تھا۔۔۔
ایک گہری سانس لے کر کلثوم وہاں سے چلیں گئ۔۔
ایک مہینہ ہونے والا ہے ہمارے اس رشتے کو اور تم ہو کہ۔۔ تمھارا برتاؤ میرے ساتھ ٹھیک ہی نہیں ہو رہا ہے۔۔ وقار نے اپنے سامنے بیٹھی حرمین سے کہا۔۔
وہ دونوں کافی شاپ میں بیٹھے تھے۔۔ مجھے تھوڑا وقت دو وقار۔۔ حرمین نے نظریں جھکا کر کہا۔۔
کتنا وقت یار کتنا؟؟۔۔ وقار اسکے چہرے کو گھورتا ہوا بولا۔۔
حرمین کہ کوئی جواب نہ دینے پر وقار پھر بول پڑا۔۔
مجھے لگتا ہے کہ ہمیں جلد ہی شادی کرلینی چاہیے۔۔۔ یہی کوئی تین چار مہینوں میں۔۔۔
تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے۔۔ اتنی جلدی کیوں کر رہے ہو تم؟؟ جب تک اصفر میرے دل میں ہے۔۔ میں تمھیں زبردستی جگہ نہیں دے سکتی۔۔ حرمین نے سخت لہجے میں کہا۔۔
بس کردو حرمین۔۔ اصفر۔۔ اصفر ۔۔ اصفر۔۔ رٹ لگائی ہوئی ہے تم نے اسکی۔۔ ایسا تھا کیا اس میں جو تمھیں مجھ میں نظر نہیں آتا۔۔۔
وقار کی آواز اتنی اونچی تھی کہ آس پاس کے لوگ بھی ان دونوں کی طرف متوجہ ہوگے۔۔
کچھ دیر اپنے آس پاس بیٹھے لوگوں کی چبھتی نظروں کو اگنور کر کہ وہ بولی۔۔۔
اخلاق کا فرق ہے اس میں اور تم میں۔۔۔ وہ مجھ سے ایسے بات نہیں کرتا تھا جیسے تم نے کی ہے۔۔ حرمین کے جملوں پر وہ خاموش ہوگیا۔۔۔
کل میں نے اصفر کو خواب میں دیکھا تھا۔۔ وہ میرے ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔۔ اور تم ہم دونوں سے بہت دور کھڑے تھے۔۔ یہ خواب مجھے ستاے جا رہا ہے۔۔ کچھ دیر کی خاموشی اب وہ توڑ چکی تھی۔۔
ک۔۔۔کیوں ستا۔۔ رہا ہے۔۔ وقار بمشکل حلق سے آواز نکال سکا۔۔۔
یہی کہ اگر وہ مر چکا ہے۔۔ تو پھر مجھے ایسا خواب کیوں آیا۔۔ یا پھر یہ خواب کسی بات کی طرف اشارہ دے رہا ہے۔۔۔
حرمین سوچ میں پڑ گئی۔۔۔
میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔ م۔۔۔میں نکلتا ہوں۔۔۔ وقار چہرے کا زرد پڑتا رنگ چھپاے وہاں سے جانے کہ لیے کھڑا ہوگیا۔۔
اچانک کیا ہوگیا۔۔۔ میں بھی چلتی ہوں نہ۔۔ حرمین اسکے برتاؤ میں آتی تبدیلی کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔
نہیں میں بس جاتا ہوں۔۔۔ اوکے۔۔ ٹیک کئیر۔۔
وقار وہاں ایک منٹ نہیں رکا اور حرمین اب اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔
بائیک چلاتے ہوے بھی اسکے ذہن میں حرمین سے ہونے والی باتیں گردش کر دہی تھیں۔۔ گھبراہٹ کی وجہ سے وہ اسپیڈ پر کنٹرول نہ پاسکا جس کے نتیجے میں اسکا ایکسیڈینٹ ہوچکا تھا۔۔
اللہ کا شکر کریں کوئی فریکچر نہیں آیا ہے انہیںں۔۔ بس تھوڑی بہت انجری ہو گئی ہے۔۔ یہ کچھ دوائیاں ہیں ان کو لازمی دینی ہے۔۔ باقی آپ انکو گھر لے جا سکتے ہیں۔۔
ہوسپٹل کہ بیڈ پر لیٹا وہ ڈاکٹر کی اپنے والدین سے ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔۔
کتنی بار کہا ہے کہ ہوش و حواس میں بائیک چلایا کرو۔۔۔ مگر تمھیں سمجھ ہی نہیں آتی۔۔ زلفی صاحب نے اس سے کہا۔۔۔
چھوڑیں نہ آپ ان باتوں کو۔۔ آرام کرنے دیں میرے بچے کو۔۔ شاہدہ نے وقار کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔
وہ گھر آچکا تھا اور اب اپنے کمرے کے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔۔۔
کچھ لاؤں میں تمھارے کھانے کے لیے؟؟ شاہدہ جو اسکے برابر میں ہی بیٹھی تھیں اسکا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں۔۔
امی۔۔۔۔۔
وہ کسی معصوم بچے کی طرح انکا چہرہ تک رہا تھا۔۔۔اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔
کیا ہوا بیٹا۔۔ شاہدہ نے لاڈ سے اس سے پوچھا۔۔۔۔
امی۔۔۔ وہ۔۔۔
امی۔۔۔۔مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ ہو گیا ہے۔۔ وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔۔۔
_____________________
وقار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔ شزا نے اسکے کمرے میں آتے ہوے کہا۔۔
کیا۔۔۔ کب کیسے؟؟ وہ ایک دم سے بستر سے اٹھ کھڑی ہوی۔۔۔
گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے اب وہ گھر میں ہے۔۔ بس کچھ چوٹیں آی ہیں اسکو۔۔۔ شزا نے حرمین کی گھبراہٹ کو کچھ کم کیا۔۔
میں ابھی اسکو کال کر کہ پوچھتی ہوں۔۔۔ حرمین اپنا موبائل ڈھوڈنے لگی۔۔۔
نہیں ابھی کال نہیں کرو۔۔ وہ آرام کر رہا ہوگا کل صبح کرلینا اسکو کال۔۔۔ شزا کی بات پر وہ چپ ہوگئ۔۔۔
____________________
مجھے امید نہیں تھی وقار کہ تم حرمین کو حاصل کرنے کے لیے اتنے اندھے ہوجاؤگے۔۔۔ شاہدہ اپنے آنسوؤں کو صاف کرتی کہہ رہی تھیں۔۔۔
امی میں اندھا ہوگیا تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں اتنا بڑا گناہ کرنے جا رہا ہوں۔۔
اس ایکسیڈنٹ کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔۔ اللہ کی ذات ایک لمہے میں میرے تمام منصوبوں کو ختم کر سکتی ہے۔۔۔۔
اگر آج مجھے کچھ ہو جاتا تو اس گناہ کا قرض لیے میں کیسے اللہ کہ سامنے جاتا۔۔۔
اللہ نے مجھے موقعہ دیا ہے اپنی غلطی سدھارنے کا۔۔۔ وہ خاصا شرمندہ نظر آرہا تھا۔۔۔
اگر تمھیں اپنی غلطی کو ٹھیک کرنا ہے تو صرف حرمین کو ہی نہیں بلکہ اصفر کو بھی جا کر سچائ سے آگاہ کرنا ہوگا۔۔ شاہدہ نے کہا۔۔۔
میں حرمین کے دل میں زبردستی محبت پیدا کرنا چاہتا تھا۔۔۔ جبکہ محبت تو اللہ دلو میں ڈالتا ہے۔۔۔ اور وہ لڑکی جو میری محبت میں ہر رشتہ ٹھکرا رہی ہے اس پر مجھ زرا رحم نہیں آیا۔۔۔ ۔
مجھے سمجھ آچکا ہے امی۔۔ جو محبت میرے حصے کی ہے وہ مجھے ملے گی اور جو دوسرے کے حصے میں ہے میں اسکو چھین نہیں سکتا۔۔۔
میں جسے ہی ٹھیک ہوتا ہوں میں حرمین کو جا کر سب کچھ بتا دوں گا۔۔۔ وہ اپنے آنسوں پوچھتا ہوا کہہ رہا تھا۔۔۔
میری دعا ہے کہ وہ دونوں تمھیں معاف کردیں۔۔۔
کیونکہ اللہ تو بڑے سے بڑا گناہ معاف کردیتا ہے۔۔ مگر انسان معاف نہیں کرتا۔۔۔ شاہدہ کی بات پر وہ گہری سانس لے کر رہ گیا۔۔۔۔
_______________________
میں ذرا کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جا رہا ہوں۔۔ وہ کلثوم اور ابراہیم کہ کمرے میں کھڑا کہہ رہا تھا۔۔
اس وقت ابراہیم احمد کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے جبکہ کلثوم انکے برابر میں بیٹھے کسی سوچ میں گم تھیں۔۔
اصفر کی آواز سن کر ابراہیم نے کتاب بند کر کے سائیڈ پر رکھ دی۔۔
کہاں جا رہے ہو تم اور کب؟؟ کلثوم نے پہلے سوال کیا۔۔۔
میں حیدرآباد میں بھی اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک شوروم کھولنے کا سوچ رہا ہوں بس اسی سلسلے میں آج رات نکلنا ہے مجھے۔۔۔۔ وہ وہی کھڑے رہ کر انہیں بتا رہا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے مگر واپسی کب تک آوگے؟؟ ابراہیم نےاس سے پوچھا۔۔۔۔
یہی کوئی مہینہ بھی لگ سکتا ہے یا اس سے ذیادہ۔۔ میں بار بار اتنی دور نہیں جا سکتا اس لیے ایک ہی دفعہ میں سارا سیٹ اپ کر کہ ہی آوں گا۔۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔ جیسا تمھیں ٹھیک لگے۔۔ ابراہیم احمد کا جواب سن کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
یہ ہم سے بہت دور جا چکا ہے۔۔۔ مجھے اپنے رویہ پر آج بے حد افسوس ہو رہا ہے۔۔ مجھے اصفر کو وقت دینا چاہیے تھا۔۔۔ اصفر کے جانے کہ بعد ابراہیم احمد کلثوم سے مخاطب تھے۔۔۔
صرف آپ ہی کی نہیں۔۔ میری بھی محبت سے محروم رہا ہے وہ۔۔۔ کلثوم اظہارِ افسوس کرنے لگیں۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...