دہلی اور لکھنؤ کی زبان
علّامہ نظم طباطبائی اور سجاد مرزا بیگ کے درمیان ایک فکر انگیز ’مناظرہ‘
( علّامہ نظم طباطبائی نے غالبؔ کے شعر
مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادی ِخیال
تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے
کی شرح کے ذیل میں دہلی کی زبان اور اس کی فصاحت وغیرہ کے باب میں جو کچھ فرمایا ہے (شرحِ دیوانِ اردوے غالبؔ : صفحات ۱۵۸ تا ا۶ا ) وہ ایک مختصر سے مقالے کی حیثیت رکھتا ہے ، اس لیے اسے وہاں سے ہٹا کر ایک مستقل مضمون کی صورت میں یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ اس ’مقالے‘ کا ردّجناب محمد سجاد مرزا بیگ دہلوی پروفیسر، نظام کالج، حیدر آباد،نے اپنے لکچروں کے مجموعے ’تسہیل البلاغت ‘ میں لکھا تھا۔ علّامہ نظم ؔ طباطبائی کے مقالے کے بعد پروفیسر سجّاد مرزا بیگ کا ردّ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ یقین ہے اس سے بھی بہت روشنی ملے گی۔۔۔ ذکاؔ صدّیقی)
ارشادات طباطبائی
میر محمد حسین صاحب آزادؔ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ، کروں ہوں اور مروں ہوں ،دہلی میں بھی عرصے سے غیر فصیح سمجھتے ہیں۔ پھر ایک جگہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اساتذۂ دہلی کے کلام میں آئے ہے ، جائے ہے اکثر ہے مگر اخیر کی غزلوں میں انھوں نے بھی بچاؤ کیا ہے۔ اسی طرح ’ کروں ہوں اور پھروں ہوں ‘ جیسا مصنف نے کہا ہے ، یا تم آؤہو ، جاؤ ہو : یا ہم کھائے ہیں اور پیے ہیں یہ سب محاورے البتہ غیر فصیح ہیں اور اہلِ لکھنؤ تو کیا تمام ہندوستان کے کان اس کے سننے کے متحمل نہیں۔ مگر دلّی کی زبان پر باقی ہیں۔۔۔’’ ریاض الاخبار ‘ ‘ (گورکھپور )میں دلّی کی آئی ہوئی ایک غزل شایع ہوئی کہ مصنف اس کے ذوقؔ مرحوم کے نواسے ہیں۔ اس کا مطلع یہ ہے
کہے ہے برقِ تجلّی لُٹا لُٹا کے مجھے
یہی ہیں دیکھنے والے نظر اٹھا کے مجھے
مگر بقولِ آزادؔاکثر اب یہی ہے کہ اہلِ دہلی اپنے شعر کو اس سے بچاتے ہیں اور عجب نہیں کہ اس کا سبب یہ ہو اہلِ لکھنؤ کا کلام کثرت سے دیکھا اور سنا تو اس کا اثر یہ پڑا۔ نواب فصیح الملک بہادر مرزا داغؔ صاحب ایک دفعہ فرماتے تھے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ’ سانس ‘ اور ’ فکر ‘ کا لفظ دلّی میں مذکّر ہی بولتے سنا۔ مگر استاد ذوقؔ نے جب ’سانس ‘ کو نظم کیا مؤنّث نظم کیا اور یہی فرمایا کہ میرؔ کی زبان پر بھی یہ لفظ مؤنث ہی تھا ، اور مرزا غالبؔ نے مجھے یہ ہدایت کی ہے کہ فکر کو بھی مؤنث ہی نظم کیا کرو۔ اس سے یہ ظاہر ہے کہ قدما کے جو الفاظ لکھنؤ میں باقی رہ گئے ہیں اہلِ دہلی اس میں تذکیر و تانیث کا تصرف کرنے کے مجاز نہیں ہیں لکھنؤ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے محاورے میں بہت ہی نازک فرق ہے۔ مثلاً ہندو کہتے ہیں ’ مالا جپی اور پوجا کی ‘ اور مسلمان کہتے ہیں ’ مالا پہنا اور پوجا کیا ‘۔ یہی فرق قدیم سے چلا آتا ہے۔ میر حسنؔ کہتے ہیں
وہ موتی کے مالے لٹکتے ہوئے
رہیں دل جہاں سر پٹکتے ہوئے
مگر اب دلّی میں مالا اور پوجا مؤنث بولا جاتا ہے۔
مرزا غالبؔمرحوم کی تحریروں میں ،میں نے محاورۂ لکھنؤ کے خلاف چند الفاظ دیکھے۔ اس کے بارے میں نواب مرزا خاں داغؔ صاحب سے تحقیق چاہی۔ انھوں نے لکھ دیا کہ یہ غلط ہیں۔ مثلاً دایاں ہاتھ کہنا غلط ہے ، داہنا ہاتھ کہنا چاہیے۔ چھٹویں تاریخ غلط ، چھٹی صحیح ہے۔ ان کا اردو غلط ، ان کی اردو کہنا چاہیے۔ کرسی پر سے کھسل پڑا خلافِ محاورہ ہے۔ ’ غیر کیا ، خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے ‘۔ اس کو بھی غلط کہا۔ ’ اپنی اوقات ‘ کہنا چاہیے تھا۔ میں نے ورے اور پرے کے باب میں بھی تحقیق چاہی۔ کہا : آپ لوگوں کی خاطر سے میں نے ان لفظوں کو ترک کر دیا۔ اس کے علاوہ بعض خاص محاورے دہلی کے مثلاً ،ٹھیک نکل جانا ،پکھنڈکرنا ،ٹوپی اوڑھنا ، مکان سجانا ، پترے کھولنا ، جالا پورنا وغیرہ مرزا داغؔ صاحب کے کلام میں اور قدماے دہلی کے دیوانوں میں بھی نہیں پائے جاتے۔
غرض کہ جو لوگ دہلی کے فصحا و نقاد و مالکِ زبان و قلم ہیں ان کا کلام لکھنؤ کی زبان سے مطابقت رکھتا ہے کس وجہ سے کہ جب سے میرؔ و سوداؔلکھنؤ میں آکر رہ پڑے اسی زمانے سے دلّی گوش بر آوازِ لکھنؤ ہو گئی تھی۔ پھر انشأ اللہ خان و جرأت کے کلام نے ان کی توجّہ کو ادھر سے پھیرنے نہ دیا۔ ان کے بعد آتشؔ و ناسخؔ کے مشاعروں نے متوجّہ کر لیا۔ بلکہ شاہ نصیرؔ و ذوقؔ نے کلام کا رنگ ہی بدل دیا۔ آخر میں میر(انیس ؟ )صاحب کے مرثیوں نے خاص اور عام سب کی زبان پر اثر ڈال دیا۔ اسی زمانے میں نواب مرزا شوقؔ کی تینوں مثنویاں گھر گھر پڑھی جانے لگیں کہ لوگوں کو حفظ ہو گئیں۔ امانتؔ بھی انھیں دنوں میں ’ اندر سبھا ‘ کہہ کر اردو میں ڈراما کے موجد ہوئے۔ اس کے علاوہ ’’ نامۂ قلق‘ؔ ‘ اور ’’واسوختِ امانتؔ‘ ‘ اور شہروں کی طرح دلّی کی گلیوں میں بھی لوگ گاتے ہوئے پھرنے لگے۔ زبان کی شہرت کے اسباب پر جب غور کیجیے تو یہی لوگ معلوم ہوتے ہیں جن کے نام گذرے اور ان کے کلام کی شہرت نے اس زبان کو مانوس کر دیا۔ یہاں تک کہ دلّی اور لکھنؤ کی زبان تقریباً ایک ہو گئی۔
اس دعوے پر آزاد سلّمہ اللہ کی شہادت کافی ہے۔ پانچویں دور کی تمہید میں لکھتے ہیں : اب وہ زمانہ آتا ہے کہ انھیں یعنی اہلِ لکھنؤ کو خود اہل زبانی کا دعوےٰ ہوگا اور زیبا ہوگا ، اور جب ان کے اور دلّی کے محاورے میں اختلاف ہوگا تو اپنے محاورے کی فصاحت اور دلّی کے عدمِ فصاحت پر دلایل قایم کریں گے ، بلکہ انھیں کے بعض بعض نکتوں کو دلّی کے اہلِ انصاف بھی تسلیم کریں گے۔ ان بزرگوں نے بہت قدیمی الفاظ چھوڑ دیے جن کی کچھ تفصیل چوتھے دیباچے میں لکھی گئی اور اب جو زبان دلّی اور لکھنؤ میں بولی جاتی ہے وہ گویا انھیں کی زبان ہے
اور میر مہدیؔ کے اس مصرع پر ع۔۔۔ میاں یہ اہلِ دہلی کی زباں ہے۔ غالبؔ لکھتے ہیں : اے میر مہدی ؔتجھے شرم نہیں ، ارے اب اہلِ دہلی یا ہندو ہیں یا اہلِ حرفہ ہیں ؛ یا خاکی ہیں یا پنج آبی ہیں یا گورے ہیں۔ ان میں سے تو کس کی زبان کی تعریف کرتا ہے۔ لکھنؤ کی آبادی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ ریاست تو جاتی رہی لیکن ہر فن کے کامل لوگ موجود ہیں۔ اللہ اللہ ، دلّی نہ رہی اور دلّی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہے جاتے ہیں ‘ انتہیٰ ۔
اب خیال کرنا چاہیے کہ میر محمد حسین صاحب آزادؔ لکھتے ہیں اب جو زبان دلّی اور لکھنؤ میں بولی جاتی ہے وہ گویا ایک ہی زبان ہے ، اصل یہ ہے کہ اہلِ لکھنؤ کی زبان دونوں جگہ بولی جاتی ہے ، جس کو دہلی کے تمام اُمرا و شرفا اپنے ساتھ لے کر لکھنؤ میں آئے تھے اور دلّی میں گنتی کے ایسے لوگ رہ گۓ تھے جو صاحبِ زبان تھے۔ ان کی نسل پر بھی غیر قوموں کی زبان نے تو کم مگر لہجے نے بہت اپنا اثر ڈالا اور اس کی کسی کو خبر بھی نہ ہوئی، لیکن لکھنؤ میں وہ زبان سب آفتوں سے محفوظ رہی یعنی زوالِ سلطنتِواجد علی شاہ جنت آرام گاہ تک لکھنؤ کی زبان خاص دہلی کی زبان تھی اور ترقی کر رہی تھی اس سبب سے کہ چاروں جانب لکھنؤ کے صدہا کوس تک شہروں میں ملکی زبان اردو ہے ، اور گاووں میں زبان شیریں بھاکا مروّج ہے بخلاف دہلی کے کہ جن لوگوں سے دہلی، دہلی تھی وہ لوگ تو نہ رہے اور غیر لوگ جو اطراف سے آئے اور آرہے ہیں وہ سب اہلِ پنجاب ہیں۔ اسی سبب سے دیکھیے غالبؔ میر مہدیؔ کو فہمایش کر رہے ہیں کہ دلّی کی زبان کو لکھنؤ پر ترجیح نہ دو اور اس کے علاوہ ذوقؔ کے کلام میں زبانِ لکھنؤ کا تتبع پایا جاتا ہے۔ مثلاً فکر بتانیث ذوقؔ نے نظم کیا ہے۔ سانس کو بھی بہ تانیث باندھا ہے۔ اس پر بھی بعض نا واقف کہہ اٹھتے ہیں کہ دلّی کی زبان لکھنؤ سے بہتر ہے۔ اس کلمے سے جو لوگ باہر والے ہیں وہ دھوکا کھا تے ہیں اور بہک جاتے ہیں۔ یہ علمی مسٔلہ ہے اس میں انصاف و راستی سے نہ گذرنا چاٖہیے۔
دلّی میں ’ نے ‘ کا استعمال عجیب طرح سے اب ہونے لگاہے۔ آزادؔ
طرّے اعزاز کے جن لوگوں نے ہیں پائے ہوئے
بالیں گیہوں کی وہ شملے میں ہیں لٹکائے ہوئے
ایک جگہ ’ قصصِ ہند ‘ میں لکھتے ہیں : ’ تم نے مجھے بادشاہ سمجھا ہوا تھا ‘ جو بیچارے محض تتبع کرتے ہیں ان کی تحریروں میں تو اس طرح کا ’ نے ‘ بہت افراط سے دیکھنے میں آتا ہے لیکن ذوق و مومنؔ و ممنونؔ کا کلام ہمارے پاس موجود ہے اس میں کہیں ایسا ’نے ‘ نہیں ہے۔
حقیقتِ امر یہ ہے کہ لکھنؤ کی جو زبان ہے یہ دلّی ہی کی زبان ہے۔ ۱۱۵۲ ھ سے ۱۱۷۰ھ تک اٹّھارہ برس کے عرصے میں تین دفعہ دلّی تاراج و برباد ہوئی۔ وہاں کے لوگ فیض آباد و لکھنؤ میں صفدر جنگ و شجاع الدولہ کے ساتھ آ بسے۔ پھر اس کے بعد دلّی ایک کیا تمام ہندوستان خاص مرہٹوں کا جولاں گاہ ہو گیا۔ لکھنؤ کے سوا کہیں امن نہ تھا۔ یہاں آصف الدولہ کے عہد سے واجد علی شاہ کے زمانے تک یہ زبان جلا پاتی رہی اور دلّی میں غیر قوموں کے خلط نے یہ اثر کیا کہ لہجہ تک بدل گیا کہ اب پنجاب کے لہجے میں اردو بولی جاتی ہے۔
ارشادت سجاد مرزا بیگ دہلوی
مولوی علی حیدر صاحب طباطبائی نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ لکھنؤ کی زبان دلّی ہی کی زبان ہے مگر وہ ایک پیچ دار طریقے سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دلّی میں لکھنؤ کی زبان کا تتبع کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ بعض ناواقف اس بیان سے غلطی میں پڑ جائیں اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب موصوف کے بیان پر ایک تنقیدی نظر ڈالی جائے۔ ملاحظہ ہو شرحِ دیوانِ غالبؔ ، صفحہ ۱۵۸ ۔ ’جو لوگ دہلی کے فصحا و نقاد و مالکِ زبان و قلم ہیں ان کا کلام لکھنؤ کی زبان سے مطابقت رکھتا ہے کس وجہ سے کہ جب سے میرؔ و سوداؔلکھنؤ میں آکر رہ پڑے اسی زمانے سے دلّی گوش بر آوازِ لکھنؤ ہو گئی تھی۔ پھر انشأ اللہ خان و جرأت کے کلام نے ان کی توجّہ کو ادھر سے پھیرنے نہ دیا۔‘
میر صاحب کے نزدیک میرؔ و سوداؔ ، جرأتؔ و انشاؔاگر لکھنؤ چلے گۓ تو ان کی زبان بھی لکھنؤ کی ہو گئی۔ اگر ان کے کلام سے اہلِ دہلی کا کلام مطابقت رکھتا ہے تو وجہ ظاہر ہے کہ یہ لوگ خود دلّی کے تھے ، مطابقت نہ ہوگی تو کیا ہوگا۔ دلی و لکھنؤ کی زبان کا فرق ہم نے مختصر طور پر بیان کیا ہے۔ دہلی کاکون سا اہلِ قلم ہے جو اس کا اتباع کرتا ہو۔
علّامہ نظم : ’’ اس کے بعد آتشؔ و ناسخؔ کے مشاعروں نے متوجّہ کر لیا بلکہ شاہ نصیرؔ وذوقؔ کے کلام کا تو رنگ ہی بدل دیا ‘‘۔ جو لوگ زبان و کلام کے لطف سے واقف ہیں اور اس میں تمیز و تنقید کر سکتے ہیں وہ اس فقرے کو پڑھ کر کیا کہیں گے۔ آتشؔ و ناسخؔ ، نصیرؔ و ذوقؔ کے کلام اب بھی موجود ہیں۔ سخن کے جوہری جانتے ہیں کہ آتش و ناسخ رعایتِ لفظی کی بندشوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں لیکن نصیرؔ و ذوقؔ کا طایرِ خیال معانی کے آسمان پر اڑتا چلا جاتا ہے۔
علّامہ نظم : ’’ اصل یہ ہے کہ لکھنؤ کی زبان دونوں جگہ بولی جاتی ہے جس کو دہلی کے تمام امرأ و شرفأ اپنے ساتھ لے کر لکھنؤ آئے تھے اور دلی میں گنتی کے ایسے لوگ رہ گئے تھے جو صاحبِ زبان تھے ‘ ‘ عجیب مغالطہ ہے۔ دلی کے امرأ و شرفأ اپنی زبان لے کر لکھنؤگئے۔ لکھنؤ میں دلی کی زبان بولی گئی یا دلی میں لکھنؤ کی؟ رہی یہ بات کہ دلی میں اہلِ زبان رہے ہی نہیں ، خلافِ واقعہ ہے۔ اوّل تو سارے شہر کا خالی ہو جانا خلافِ عقل ہے۔ دوسرے اس زمانے میں جو سلطنتِ دہلی کے زوال کا زمانہ تھا دہلی میں ایسے ناظم و نثّار پیدا ہوئے کہ لکھنؤ ان کا مثل نہیں دکھا سکتا۔
علّامہ نظم : ’ ’ ان کی نسل پر بھی غیرقوموں کی زبان نے تو کم مگر لہجے نے بہت اپنا اثر ڈالا۔ غیر قوموں کے خلط نے یہ اثر کیا کہ لہجہ تک بدل گیا کہ اب پنجاب کے لہجے میں اردو بولی جاتی ہے ‘ ‘ اللہ اکبر، زمانے کا انقلاب دیکھیے کہ قانونِ قدرت تک بدل گیا۔ لہجے پر مرز و بوم کا اثر ہوتا ہے۔ چاہیے تھا کہ پنجاب کے لوگوں کا دلی میں آکر لہجہ بدل جاتا۔ مولوی صاحب کے نزدیک اس کے بر عکس دلی والوں کا لہجہ بدل گیا۔ شاید کسی نو وارد پنجابی کو وہاں باتیں کرتے سنا ہوگا ، سمجھے کہ یہی دلی کا لہجہ ہے۔
خیر یہ شکر ہے کہ ان کے نزدیک بھی زبان پر اس کا اثر کم پڑا۔ لیکن شیر علی افسوسؔ کے اس فقرے کا کیا جواب ہے کہ وہ خود لکھنؤ کی نسبت یہ لکھتا ہے کہ : ’ ’با وجود اس کے بھی لہجے میں تفاوت بہت رہ گیا ‘ ‘(آرایشِ محفل ) یعنی اس کے نزدیک لکھنؤ کا لہجہ اہلِ زبان کا سا نہیں ہے۔
ارشاداتِ مزید :۔
’’ اگرچہ دلی کے اکثر اچھے اچھے شاعر بلکہ دوسرے صاحبِ کمال بھی لکھنؤ چلے گئے تھے لیکن آخر ساری دلی تو خالی نہیں ہو گئی تھی۔ یہاں کا ہر چھوٹا بڑا ؛ عالم ہو یا جاہل ، شریف یا رذیل ، اہلِ زبان تھا بلکہ خواص بھی عوام ہی سے زبان سیکھتے تھے۔ اس لیے چند لوگوں کے چلے جانے سے زبان میں کوئی فرق نہ آتا تھا۔ جو شہرزبان کے مرکز ہیں وہاں کے جہّال اور عورتوں کی زبان علمأ کی زبان سے زیادہ مستند ہوتی ہے بر خلاف دوسرے شہروں کے کہ وہاں کے پڑھے لکھوں کی زبان تو صاف ہوتی ہے اور باقی عوام اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں دلی کی جامع مسجد کی سیڑھیاں وہ مدرسہ تھیں کہ میرؔ جیسے استاد وہاں جاکر زبان سیکھتے تھے ‘‘۔ (ص ص ۳۶، ۳۷)
’’ ایسی حالت میں ناسخؔ و آتشؔ کے دیوان ، نواب مرزا شوقؔ کی مثنویاں ، امانتؔ کی ’ اندر سبھا ‘ ان کی زبانوں پر کیا اثر ڈالتیں۔ دلّی میں آتشؔ و ناسخؔ کے ہم عصر شاہ نصیرؔ ، ذوقؔ ، غالبؔ وغیرہ ہیں۔ اہلِ انصاف دونوں شہروں کے صاحب کمالوں کے کلام کا مقابلہ کریں۔ آتشؔ و ناسخؔ زبان کے میدان میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں اور بڑی احتیاط یہ کرتے ہیں کہ قریب المرگ الفاظ کو بھی اپنے کلام میں نہیں آنے دیتے۔ لیکن پھر بھی لطفِ زبان اور لطافتِ بیان میں د لّی والوں کی گرد کو نہیں پہنچتے۔ اہلِ دہلی کے ہاں مضامین کی بلندی ، زبان کی سلاست و فصاحت ، کلام کی شیرینی ، الفاظ کی عمدہ بندش ، محاوروں کا صحیح استعمال، روز مرّہ کی صفائی ،تشبیہات اور استعارات کی خوش نمائی بہت زیادہ ہے۔ اس لیے دلی کے صاحبِ کمال شاعروں پر تو لکھنؤ کے اہلِ قلم کا کیا اثر پڑتا ، عوام بھی ہمیشہ مستغنی رہے ‘‘۔ (ص۳۹)
چند ایسی خصوصیات جو دلی اور لکھنؤ والوں کی زبان میں ما بہ الامتیاز ہیں :
’ مہتم بالشان یہ ہیں : (۱ )الفاظ کا ترک کرنا ؛ (۲ )صحتِ تلّفظ ؛ (۳ )صنایع کا استعمال ؛ (۴ ) محاورات و روز مرّہ کا اختلاف ؛ (۵ )وحدت و جمع ؛ (۶ )بعض الفاظ کی تذکیر و تانیث کا فرق۔
(۱) الفاظ کا ترک کرنا :۔
ترکِ الفاظ دلی کی زبان میں بھی ابتدا سے ہوتا رہا ہے اور اب بھی جاری ہے۔ ولیؔ اور حاتم ؔکی زبان اور ذوقؔ و مومنؔ کی زبان دیکھ لو۔ میرؔ کے دیوان پڑھو۔ (محمد حسین آزاد ؔ صاحب ’ آبِ حیات ‘ میں لکھتے ہیں کہ )اکثر الفاظ جو میرؔ صاحب پہلے دوسرے دیوان میں کہہ گئے ہیں وہ چوتھے پانچویں میں نہیں ہیں۔جو دوسرے تیسرے میں ہیں وہ پانچویں چھٹے میں نہیں۔۔۔۔ لیکن یہ تغیّر بہ تصنع نہیں بلکہ قدرتی طور پر ہوا۔ اہلِ لکھنؤ نے اپنی عادت کے موافق اس میں بھی تصنع برتا۔ آتشؔ و ناسخؔ نے تو اتنا ہی کیا کہ جو الفاظ قریب المرگ تھے ان کو عمداً ترک کر دیا۔ترکیب نئی تھی ، لوگوں کو پسند آئی۔ دوسروں نے ان الفاظ کو بھی ترک کرنا شروع کر دیا جو روزمرہ میں جاری تھے۔ مولوی علی حیدر صاحب طباطبائی لکھتے ہیں کہ لکھنؤ میں ایک صاحب میر علی اوسط رشکؔ تھے جنھوں نے چالیس پینتالیس لفظ شعر میں باندھنے ترک کر دیے تھے اور اس پر ان کو بڑا ناز تھا۔ اپنے شاگردوں کے سوا کسی کو نہیں بتاتے تھے اوروصیت کر گئے تھے کہ یہ ودیعت سینہ بہ سینہ میرے ہی تلامذہ میں رہے ، کسی کو بے مٹھائی نہ بتانا۔ مگر تفحص سے معلوم ہوا کہ سب اسی طرح کی باتیں ہیں : دکھلانا اور بتلانا نہ باندھا کرو۔ دکھانا اور بتانا اختیار کرو۔ پہ کی جگہ پر اور تلک کی جگہ تک،مرا کو میرا ، ترا کو تیرا کہنا چاہیے۔ سدا کی جگہ ہمیشہ باندھو ، علےٰ ھٰذہ القیاس۔ کوئی کام کی بات نہیں۔ شیخ حجو شرفؔ ، میر علی اوسط سے بھی بڑھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اسّی بیاسی لفظ چھوڑ دیے۔ سبحان اللہ ، کیا اچھی اصلاح ہے۔ کوئی اور ایسا صاحبِ کمال نہ پیدا ہوا ورنہ وہ زبان کے سارے الفاظ ترک کر کے اشاروں سے باتیں کرنی سکھاتا۔۔۔ اگرچہ قریب المرگ الفاظ اہلِ لکھنؤ نے بہ تکلّف چھوڑ دیے پھر بھی نہ بچ سکے (آتشؔ ، ناسخؔ، امیرؔ مینائی کے کلام سے تلک ؛ زور ؛آئیو ؛جائیو؛ ہوجیو ؛ بل بے ؛ خوباں ؛ عزیزاں ،دولت بجائے بدولت ؛ کون بجائے کون سا ، کون سی ، کون سے کی مثالیں۔۔۔ ’ تسہیل البلاغت ‘ کے ص ۴۳ و ۴۴ پر ملاحظہ ہوں۔)
عجیب بات یہ ہے کہ ترکِ الفاظ کے شوق میں بعض ایسے الفاظ بھی ترک کر دیے جو زیادہ فصیح تھے یا وسیع معنی رکھتے تھے۔ مثلاً دستِ راست کے معنوں میں اہلِ دہلی داہنا اور دایاں دونوں بولتے ہیں۔ جب چَپ و راست سے مراد ہو تو دایاں بایاں کہیں گے کیونکہ دونوں الفاظ جب ساتھ آئیں توزیادہ فصیح معلوم ہوتے ہیں۔ لکھنؤ میں داہنا بایاں کہتے ہیں جو کم فصیح ہے۔ ورے اور پرے کو سرے سے زبان سے نکال ہی ڈالا۔ اگر ایک خطِ مستقیم میں کئی چیزیں ہوں تو اہلِ زبان قریب کے لیے ورے اور بعید کے لیے پرے کہتے ہیں۔ ان لفظوں کی بجاے اِدھر اُدھر ، دور نزدیک خواہ کوئی بھی لفظ رکھ دو ایک سیدھ میں ہونے کا مفہوم جو ورے اور پرے میں ہے نہیں پیدا ہوتا۔
(۲) صحتِ تلفّظ:۔
اہلِ دہلی جب غیر زبان کا لفظ اپنی زبان میں لیتے ہیں تو اس کے تلفظ میں کچھ تصرف کرتے ہیں ، خصوصاً اعراب میں۔۔۔ اہلِ لکھنؤ اصل زبان کے موافق تلفظ کرتے ہیں اور اس کو صحتِ زبان کا معیار قرار دیتے ہیں۔ مولانا حالیؔ اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ’ فی الحقیقت یہ ایک غلطی ہے جو اکثر ہمارے عربی دانوں کو علم اللسان کی ناواقفیت سے پیش آتی ہے۔ ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ایک زبان کے الفاظ دوسری زبان میں منتقل ہو کر کبھی اپنی اصلی صورت پر قایم نہیں رہ سکتے ، الّا ما شأ اللہ۔۔۔ ‘
(۳) محاورات و روز مرّہ کا اختلاف :۔
………………………..یہ فرق بہت زیادہ نہیں ہے مثلاً
(الف )بعض الفاظ اور محاورے اہلِ لکھنؤ کی زبان میں نہیں ہیں ، جیسے ؛ ٹھیک نکل جانا ، پکھنڈ مچانا ، پترے کھولنا ، جالا پورنا ، وغیرہ۔
( ب ) اہلِ دہلی کے ہاں بعض مصادر مجہول معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ، جیسے سِلنا ، دُھلنا۔ اہلِ زبان کہتے ہیں : زید کی شیروانی سِل گئی ، ٹوپی دُھل گئی۔ اہلِ لکھنؤ کہیں گے : زید کی شیروانی سی گئی، ٹوپی دھوگئی۔ امیرؔ فرماتے ہیں
چار آنسو جو ندامت سے بہے
دھو گیا نامۂ عصیاں میرا
دل تو پہلو سے ہمارے کھو گیا
دردِ پہلو ہائے تو کیا ہو گیا
اہلِ زبان کھویا گیا کہتے ہیں۔ اسی طرح تمسک لکھ گیا بجائے لکھا گیا۔
(ج ) اگر کسی جملے میں فعل ، فاعل و مفعول تینوں ہوں تو تذکیر و تانیث کے لحاظ سے فعل ، مفعول کا تابع ہوتا ہے۔ اسی طرح مجہول افعال بھی مفعول ہی کے تابع ہوتے ہیں ، جیسے زید نے روٹی کھائی۔ روٹی کھائی جاتی ہے۔ اگر کسی جملے کے بعد (جو اسم و فعل سے مرکّب ہو )کوئی دوسرا فعل ایسا آئے کہ پہلا جملہ اس دوسرے فعل کا فاعل واقع ہو تو اہلِ دہلی پہلے فعل کو اسم کی تذکیر و تانیث کا تابع رکھتے ہیں۔ اور اہلِ لکھنؤ پہلے فعل کو مذکّر یا بحالتِ مصدر استعمال کرتے ہیں ، جیسے : بات کرنا مشکل ہے۔… …دو موقعے ایسے ہیں کہ اہلِ دہلی بھی علامتِ مصدر کو نہیں بدلتے۔ ایک تو یہ کہ مصدر امر کے معنی میں ہو : دیکھو ٹھوکر نہ کھانا۔ دوسرے یہ کہ مبتدا اور خبر کے درمیان حرفِ اضافت ہو : نادر شاہ کا آنا قیامت کا آنا تھا۔
(د )روز مرّہ میں بھی بعض بعض جگہ اختلاف ہے۔ امیر
وہ دشمن آبرو کا ہے میں آبرو پسند
دیکھوں کہ میرے یار کے کیونکر نباہ ہو
اہلِ زبان ’ میرا یار کا نباہ ‘ ، ’ آپ کا ہمارا نباہ ‘ کہتے ہیں۔امیرؔ
قاصد کو اس نے قتل کیا نامہ دیکھ کر
مارا پڑا غریب ہمارے گناہ میں
اہلِ زبان ’ مارا گیا ‘ کہتے ہیں۔
(۴) وحدت و جمع :۔
الفاظ کی وحدت و جمع میں بھی ذرا سا اختلاف ہے۔ مثلاً الفاظِ ذیل کو اہلِ زبان جمع استعمال کرنا زیادہ فصیح خیال کرتے ہیں چھوٹے میاں کے ختنے ہو گئے۔ اس کے مرادف الفاظ بھی جمع ہی بولے جاتے ہیں : مسلمانیاں ، سنّتیں۔۔۔ جاڑے گرمیاں : اب کے جاڑوں کے موسم میں رخصت لینے کا ارادہ ہے۔ گرمیاں بھی گذر گئیں لیکن تم نہ آئے۔ لفظ کی جمع یا تو لفظ ہی آتی ہے یا الفاظ۔ اہلِ لکھنؤ لفظیں بھی کہتے ہیں جو غیر فصیح ہے۔ دام بہ معنی قیمت ہمیشہ جمع استعمال ہوتا ہے۔
بعض الفاظ اہلِ دہلی کی زبان پر نہیں ہیں اور خاص لکھنؤ کی زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔اہلِ دہلی نے غیر اہلِ زبان کے پوربی الفاظ و محاورات لینے پسند نہیں کیے۔[ چند الفاظ یہ ہیں ]۔۔۔ کَھلنا (نا گوار معلوم ہونا)؛ بیہڑ (نا ہموار زمین ) ؛ پھلیندا (موٹی جامن )؛ لاڑھیا (فریبی ، جعل ساز )؛ بریٹھا (دھوبی )؛ بر (بھڑ )؛ حلوا نکل جانا (بے حال ہونا )۔
بعض الفاظ مختلف ہیں۔ دہلی میں : دھکیلنا، لکھنؤ میں ڈھکیلنا (دال ثقیلہ )؛ دہلی میں : اُڑسنا، لکھنؤ میں گُھڑسنا ؛دہلی میں گھُرکنا، لکھنؤ میں گُھڑکنا (راے ثقیلہ )؛ دہلی میں : جیسا، جیسے؛ لکھنؤ میں کے ایسا ، کے ایسے ؛ دہلی میں : بانسری، لکھنؤ میں بانسلی ؛ دہلی میں : تیرنا، لکھنؤ میں پیرنا ؛ دہلی میں : کواڑ، لکھنؤ میں کواڑا ؛ دہلی میں : سب سے پہلے، لکھنؤ میں سب کے پہلے ؛ دہلی میں : ڈلی (کسی ٹھوس چیز کا چھوٹا سا ٹکڑا )، لکھنؤ میں ڈلی (چھالیہ )؛دہلی میں : کندھا، لکھنؤ میں کاندھا وغیرہ۔
(۵) بعض الفاظ کی تذکیر و تانیث کا فرق :۔
دہلی میں : اُف مونّث، لکھنؤ میں آتشؔ نے مذکر باندھا ہے ؛ دہلی میں : التماس مذکّر، لکھنؤ میں مونّث؛ دہلی میں :سانس مذکّر، لکھنؤ میں مونّث ؛دہلی میں : دست پناہ مذکّر، لکھنؤ میں مونّث؛ دہلی میں : زنّار مذکّر، لکھنؤ میں مونّث؛ دہلی میں : رسم مونّث، لکھنؤ میں مذکّر ؛دہلی میں : دسترس مونّث، لکھنؤ میں مذکّر ؛دہلی میں : فاتحہ مونّث، لکھنؤ میں مذکّر ؛دہلی میں : گیند مونّث، لکھنؤ میں مذکّر۔
پیشہ وروں کے نام کے آخر میں اگر یاے معروف کے علاوہ کوئی اور حرف ہو تو اہلِ دہلی ایسے الفاظ کے آخر میں یاے معروف بڑھا کر تانیث بناتے ہیں لیکن لکھنؤ میں ’ ن‘ بڑھا کر مونّث بناتے ہیں :۔
لفظ دہلی لکھنؤ لفظ دہلی لکھنؤ
جلاہا جلاہی جلاہن سُنار سناری سنارن
کہار کہاری کہارن بھٹیارا بھٹیاری بھٹیارن
دہلی میں مونّث عربی الفاظ کی جمع مونّث بولتے ہیں مگر اہلِ لکھنؤ تمام عربی الفاظ کی جمع خواہ وہ مونّث ہی ہوں ، مذکّر استعمال کرتے ہیں۔مثلاً مسجد مونّث ، مساجد مذکّر ؛ حرکت مونّث ، حرکات مذکّر۔ مولوی عبد الحق صاحب بی۔اے اپنی ’قواعدِ اردو‘ میں لکھتے ہیں کہ بعض متاخرینِ اہلِ لکھنؤ کا یہ قول ہے کہ ہر لفظ کی عربی جمع مذکّر ہی ہوتی ہے۔ یہ قاعدہ تو بہت اچھا ہے مگر اس کا کیا علاج کہ اہلِ زبان یوں نہیں بولتے۔ اہلِ دہلی بجز مستثنیات کے ہمیشہ مونّث کی جمع مونّث اور مذکّر ہی استعمال کرتے ہیں۔ (’ تسہیل البلاغت ‘ مطبوعہ غالباً ۱۳۳۹ ھ ، ص۳۲، ۳۳،۳۹ تا ۵۵ )
(۶) صنایع کا استعمال :۔
صنایع لفظی ہوں یا معنوی ، جب تک کلام میں اس طرح بے تکلفانہ نہ آئیں کہ کلام کی صفائی اور معنی کی لطافت کو نقصان نہ پہنچے تو با مزہ معلوم ہوتے ہیں۔۔۔ ۔ اہلِ دہلی۔۔۔ بھی تشبیہ و استعارہ اور دیگر صنایع کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس طرح کہ حسنِ کلام بڑھ جائے اور معنی زیادہ واضح اور روشن ہو جائیں برخلاف اہلِ لکھنؤ کے کہ وہ صنایعِ لفظی کے پیچھے معنی کی پروا نہیں کرتے۔
۔۔۔ (آتشؔ ، ناسخ، امیرمینائیؔ کے کلام سے مثالیں ، تسہیل البلاغت: صفحات ۴۸ تا ۵۰ پر ملاحظہ ہوں۔)