کیاتم اسےپسندکرتی ہو؟وہ جانچتی نظروںسے اسےدیکھنے لگی وہ ایک زخم خوردہ لڑکی کےروپ میں اسکے سامنےتھی مگراس وقت اسے اسکی ہمدردی کی جگہ اپنی فکرستارہی تھی
ناپسندکرنےوالی کوی بات اس میںہے ہی کب؟اسکاجواب اسکی توقع کے برعکس تھا اسکا خیال تھا وہ اس سے بدظن ہوگی کہ وہ اسے ٹھکرارہا ہے مگروہ
کیاوہ کسی اورکوپسندکرتاہے؟
یہ تو میں نے اس سےپوچھا نہیں لیکن وہ بتارہاتھاکہ وہ کسی کوقول دےچکاہے-
تمہیں دکھ ہورہاہے؟
کیانہیں ہوناچاہیے؟ماہا کے چہرے پرایک زخمی مسکراہٹ تھی اسنےچند ثانیے اسے دیکھا پھراسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا
میںبھی تمہیں ایک اہم بات بتانا چاہتی ہوں ماہا اسکی جانب سراٹھاکردیکھنے لگی تب اسنےساری حقیقت اسکو بتا دی ماہاسن کرکتنےپل اسے بے یقینی سےدیکھتی رہی پھر تلخی سےمسکرا کر سر جھکا گی-
اعیان کاانتخاب واقعی قابل ستایش ہے
حریف جس نےبازی جیتی یقینا”ہم سےکم تر نہیں ورنہ شاید تاحیات یہ درد ستاتا رہتا-
اب سوال برابری کا ہی نہیں بلکہ تم یقینا”مجھ سےبڑھ کرہو وہ مسکراکردوستانہ اندازمیں اسے دیکھنےلگی تو پوجاسرجھکاگی
میںبے خیالی میںتمہاراحق غصب کرگی معزرت خواہ ہوں مجھے نہیں پتاتھاوہ تمہیں دیکھنے یامنتخب کرنے آے ہیں ورنہ تم یقینا”ان کےسامنے نہ آتی ماہا کہہ کرہسنےلگی تب وہ بھی مسکرادی
خیر یہ نصیب کی بات ہے افسوس اس بات کا ہے اسےنہیں تو کم ازکم تم تو اپنے رازمیں شریک کرلیتی وہ توشایداپنےاورمیرے متوقع تعلق کے باعث گریزکررہاہو مگرتمہاری تودوست تھی-
بس ہمت نہیںہوی-
ہمت کی بات تو اب چھوڑو ایک چھےفٹ کےبندے کوقابوکرلیایہی ہمت کیاکم ہے اوراب تو۔۔۔وہ بات چھوڑکر کھلکھلاکر ہسنےلگی ماہا کچھ کرو مجھے یہاںسے نکلنا ہے اگربابوجی کوپتا لگ گیا تو اچھا نہیں ہوگا مجھےاپنی پروانہیں ہے میں انکی امانت ان تک محفوظ طریقے سےپہچانا چاہتی ہوں
ماہاکچھ دیرخاموش رہی پھر کچھ سوچ کر بولی میں فون پر جلد اس سےبات کروگی ہوسکتا اسےآنےمیں کچھ دن لگ جایں اور تمہارا یہاں سےجلد جانا ضروی ہے اچھا بتاو بواجی تو تمہاراساتھ دیںگی نا؟
بواجی مجھ سےبہت محبت کرتی ہیں یقینا”ایسے موقع پروہ مجھےتنہا نہیں چھوڑیںگی-
کل تم میری خالہ کےگھرشفٹ ہوجاو ورلی میں مقیم تنہا رہتی ہیں شادی کےکچھ عرصہ بعد بیوہ ہوگی تھی کوی اولاد نہیں اور تنہای پسند ہیں خاندان والوں سے بھی نہیںملتی اور تمہارے میاں کی پھوپھی صاحبہ ہیں لہذاتمہاری ساس ہویں یقینا”تمہارے ساتھ اچھے سے رہیںگی وہ مسکراکربولی تو جانے کیوں اسکی آنکھیں بھر گیں
گبھراکیوں رہی ہوبھی سسرال جارہی ہوپھر تمہارے چھپے رستم میاں کو فوں کروںگی خوشخبری بھی سناوں گی یقینا”دوڈرے چلے آے گے وہ چھیڑتےہوے مسکرای تو وہ بھی ہولے سے مسکرادی-
بیٹیاں جب بابل کی دہلیز سےرخصت ہوتی تو ہزاروں دعایں انکےساتھ ہوتی ہیں لیکن اسکے ساتھ ایساکچھ نہ تھا بابو جی کافی دنوں سے گھرنہیں آے تھےیقینا”اپنی دوسری بیوی کے گھر تھے بہرحال یہ موقع اسےمناسب لگا سو اسنے ضرورت کی سب اشیاباندھ لی آتے وقت بواجی کےگلےلگ کر خوب روی تھی بواجی آپ کے ساتھ بابوجی اچھا نہیں کریں گے
تم اپنی زندگی کے متعلق سوچو ہماری فکر مت کرو ہماری زندگی کاتو انت ہے جانے کب بگھوان بلالے موت کا ڈر اب نہیں رہا ہاں تجھے بگھوان لمبی عمر دے تیری گودبھرے بس میری یہی خواہش ہے جیوان کی بواجی آپ مہان ہیں وہ سسکیاں بھرنےلگی –
بس پوجا آنسو پونجھ لے بگھوان نے تجھے نیاجیوان دیا گھر سنسار نیانام دیا اسکا شکرکرتی رہنا انکے محبت بھرے انداز سے وہ پگھلنے لگی-
بواجی میں نہیں جاسکتی آپ کوچھوڑ کر بواکی آنکھیں بھی بھیگ گیں
جانا تو ہےبٹیا-بیٹیاں تو پرایاں دھن ہوتی لیکن فرق اتنا کہ تو ہمیشہ کے لیےرخصت ہورہی ہے آج کے بعد یہ دہلیز انجان ہوجاےگی کبھی مت آنا یہاں بس سکھی رہنا اپنے پتی کی ماننا اسکا احترام کرنا ساس سسراور رشتے داروں سےمل کر رہنا سب کشتیاں جلا کر جا رہی واپسی کا کوی راستہ نہیںکبھی مت پچھتانا اب جاجلدی سےاگر تیرے بابوجی آگے تو
اسنے اچھے سے چادر لی اور مٹھی میں دبے ایڈریس کو دیکھا اور وہاں سےنکل آی کبھی نہ لوٹنے کے لیے—
وہ کتنی دیرتک کمرےمیںدھویں کےمرغولےبناتارہاپھر تنگ آکرباہر ٹیرس پر کھڑےہوکرگہرے سانس لیے
زندگی نےاچانک ایسارخ دکھایاتھا کہ حیران تھا ایک طرف اتنی بڑی خوشی اور دوسری طرف اسکی سمجھ میں نہیں آرہاتھاجب ماہا کے ساتھ بچپن میں نکاح ہوا تھا تو پہلے کیوں نہیں کبھی بتایا گھروالوں نے اب جب اپنی زندگی کی اتنی بڑی خوشی انسے شیرکی تو اتنا بڑارازکھول دیا کتنے عرصے سے ماما پاپا سے بات کرنے کاسوچا رہاتھامگر وہاں سے آتے اسکے ایگزام سےفارغ ہواتھا کہ پاپاکو ہارٹ اٹیک ہوگیا اس پریشانی سے سنبھلاتھا کہ کاروباری ذمےداریوں کابوجھ آن پڑااور اسے کچھ کہنے کا موقع ملانہ ہی لیکنجب ماہاکے متعلق اسکی راے دریافت کی گی تو وہ فورا”بدک گیا اسکے علم میں فقط اتناتھا کہ وہ انڈایا اسے دیکھنے جا رہاہے اور پسند نا پسند کا حق ہمیشہ کی طرح اسکے ہاتھ تھا اسکا خیال تھا یہاں بھی اپنی اکلوتی حیثیت کا سہارا لے کر بچ جاے گا مگر محض خیال ثابت ہوا اسے سجیلہ کی فکر تھی وہ مناسب وقت کے انتظار میں تھا مگر تقدیر نے اچانک اسے بے بس کردیاتھا اس وقتی جوش و غصے سے جانے کیا کیا نہ کہ دیا تھا اس معصوم لڑکی سے ایک اٹوٹ بندھن تھا اسکے ساتھ اسکا مظبوط تعلق بے شک دل کا نہ سہی جزبوں کا نہ سہی بہر طور تعلق تو تھا وہ نہیں جانتا تھا زندگی کسی موڑپر اسے اتنابےبس کر دےگی کوی فیصلہ نہیں کرسکا سب تقسیم ہو گیاتھا خود کو ڈھونڈنا دشوارہوجاےگا رشتے جہاں مظبوط سہارے ہیں تو کبھی قدموں کی بیڑیاں بن جاتے مگر وہ تو اپنی ذات کی زنجیروں کے گنجل میں مقید تھا–
زندگی ایک تھی اورطلبگار دو-
کسے حق دیتااورکسےمحروم کرتا–سمجھ کچھ نہ آرہاتھا
وہ جہاں مظبوط نظر آتاتھا وہی اندرسے بے حد موم تھا کسی کو تکلیف دینے کا کبھی سوچتا نہ تھا وہ لڑتاتوکسں سےلڑتا۔بہرحال فیصلہ تو کرنا تھا آہٹ پر مڑکردیکھاتوپاپاکھڑےتھے ۔
اچانک آہٹ ہوی اسنے پیچھے مڑکردیکھا توپاپاکھڑےتھے انہوںنےخاموشی سےاسےدیکھااور دو قدم آگےبڑھ آے
رات بہت ہوچکی ہے جا کرسوجاو وہ یونہی اضطراری کفیت میں کھڑارہا تب وہ اسےخاموشی کے ساتھ دیکھنے کے بعدبولے زندگی تمہاری بسرتم نےکرنی ہےفصیلے کاحق تمہیں ہے لیکن بیٹاجو غلطی ہم سےسرزدہوی اسکی سزا اس معصوم لڑکی کو ملنی چاہیے؟اسکا کیاقصور ہے اسکےباوجود خاندان میں ہماری بےعزتی ہوگی مگر پھر بھی میں فصیلےکاحق تمہیںدیتاہوں ہم جابروالدین نہیں ہیںجوکچھ کیاتھااس میں یقینا” تمہاری خوشی کوترجیح حاصل تھی تم نےایسے کون سےوالدین دیکھےجنکی اولادکھانےکوگوشت مانگےاوروہ اسے سانپ کھلادیں کیاوالدین اولادسے دشمنی کرسکتے ہیں وہ جو انکی جانب دیکھ رہاتھا فورا”سرجھکاگیا انکے لہجے کا تحمل اور دھیماپن بدستورقایم تھا
ہم والدین ہمیشہ اولادکااچھاسوچتےہیںمگرکچھ فصیلے غلط ہوجاتے مگرہم انہیں عمربھر کےپچھتاوےمیں تبدیل نہیںکرسکتے ہماری خوشی ایک جانب لیکن تم ہمیں اپنی تمام خوشیوں سے بڑھ کر عزیزہوتم خوش توہم خوش اس لیے کوی زبردستی نہیں تم مکمل آزاد ہو جوبھی فیصلہ کروسوچ سمجھ کرکرنا انہوں نےاسکے کاندھے پرہاتھ رکھا وہ سراٹھاکرانہیںدیکھنےلگا تب وہ دوستانہ اندازمیں مسکراے اور آگےبڑھ گے وہ کچھ دیر یونہی کھڑاانہیںتکتارہا اور پھراپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا بہرحال وہ اک فیصلہ کر ہی لیااور مما پاپا کو اس سےآگاہ کردیا تھا گھرمیں اچانک خوشی کی لہردوڑگی تھی اور جشن تیاریاں شروع ہونے لگی تھیں آخرکاروہ معہ بارات ممبی ہوگیاتھا
شادی کی تقریب سادگی کےساتھ انجام پای تھیںمگر اسکی بےقرار نظریں ہرگھڑی ایک شناسا چہرے کو دیکھنے کے لیے متلاشی رہی تھی ہرجگہ ڈھونڈا مگربےسود اور آخرکار اسکی زندگی میں اک ہستی استحاق کےساتھ در آی تھی وہ لوگ ہوٹل ٹھرے تھے تو حجلہ عروسی کا اہتمام وہیں کیاگیا تھا شادی کی پہلی رات وہیں گزارنا تھی یہ طے ہواتھا کہ دوسرے روز پاکستان کو روانہ ہوناتھا
کمرے کے جانب اسکے قدم بڑھ رہے تھے مگراندازبے دلی تھا کوی جزبہ خوشی نہ تھی
وہ دروازہ کھول کر اندر دخل ہوا فایواسٹارہوٹل کاکمرامکمل حجلہ عروسی کا منظر پیش کررہاتھا کمرےکے عین وسط میں جہازی سایزپرپھولوں کی سجی سیج پر دلہن پوری شان سے براجمان تھی وہ چند ثانیے وہی کھڑااسکی جانب دیکھتارہا پھر دروازہ بندکر کے بےدلی سے اسکی جانب آیا بیڈکے پاس رک کر جیب میں ہاتھ ڈال کر رونمای کا تحفہ نکال رہاتھا جب اچانک اس نے گھونگٹ الٹ دیا اعیان نے یکدم اسکی اس حرکت کو دیکھا
وہ چہرے پر مکمل اطمینان لیے اسکی جانب تک رہی تھی مسڑڈکلر کا لہنگا اوراس پر گولڈن کام اور زیوروں کی بھرمار تھی سولہ سنگھار سے دلہن ایسا سجایا تھا کہ دیکھنے والے کی نگاہ متحرہوکر رہ جاے
اور یقینا” اب بھی دیکھنے والے کی نگاہ اگرچہ بے تاثر اندازمیں اٹھی تھی لیکن ساکت ہوگی تھی اسکو اپنی جانب اتنی محویت سے تکتے پایا تو وہ بوکھلاکر سر جھکاگی گلابی چہرہ سرخ پڑگیاتھاوہ خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر مناسب لفظ تلاش کرنے لگی پھر یکدم بولی
میں آپ کو کہیں لے جاناچاہتی ہوں میرے ساتھ چلیں گے؟
اعیان نے بہت حیرت سے اپنی اک رات کی دلہن کودیکھا جس کے اندازمیں فطری حیاکی جگہ اعتمادقابل دیدتھا وہ اسکی بات سمجھا نہیں تھا تبھی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھے گیا ماہا نے اک نظراسے دیکھااورسرجھکا لیا
آپ یقینا”حیران ہوں گے اور یہ بات آپکے لیےغیر متوقع ہوگی مگر میرے پاس اس فعل کوانجام دینےکوکوی اور طریقہ نہیں اسکےساتھ وہ اٹھی تمام زیورات میٹھی سرگوشیاں کرنے لگے وہ اٹھ کر مقابل کھڑی ہوگی۔۔
آپ میرے ساتھ چلیے
اس وقت-محترمہ دماغ درست ہے آپکا؟
میں سنجیدہ ہوں مکمل حوش و حواس میں ہوں جان لیجیے جوکچھ کررہی ہوں وہ ہرگزغلط نہیں اسکے ساتھ ہی اسکا مظبوط ہاتھ تھام لیا
اعیان نے اپنے مظبوط ہاتھ میں اسکا نازک ہاتھ دیکھا احساس یکدم بیدارہوگیا
کیاجنت میںلے جاناچاہتی ہو؟ اسکے لبوںپر اک دھیمی سی مسکراہٹ اتر آی ماہانظریں جھکا گی اسنے اسکے نازک ہاتھ پر اپنا مظبوط ہاتھ دھردیا ماہاکو جیسے کرنٹ چھو گیا اپناہاتھ اسکی گرفت نکلانا چاہا لیکن گرفت مظبوط تھی اسکی کفیت یکدم بدل گی سارا اعتمادسرپر پاوں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا پیشانی پر پسینےکےقطرے چمکنے لگے
وہ اسے شانوں سے تھام کر بیڈ کےقریب لایا اور پھر اسے بیٹھا کر اطمینان سے بولا
ایسی کیا بات ہے جو اس بند کمرے میں نہیں ہو سکتی؟
ماہا نے نظریں پل بھرکو اٹھایں وہ چہرے پرکوی بھی تاثر لیےبغیرکھڑا اسکو تک رہاتھ دل میں یکدم ہل چل مچ گی ارادوں کی دیوار مٹی کا ڈھیر ثابت ہونے لگی تبھی وہ سر جھکا کرہو نٹ کچلنے لگی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...